zindagi ke rang apno ke sang written by syeda Tooba batool Episode 16…

زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:16

ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔

آج اتوار کا دن تھا۔ سب لوگ ڈائننگ ہال میں جمع تھے۔سربراہی کرسی پر نگینہ بیگم بیٹھی تھیں۔ ان کے دائیں جانب کاشف صاحب اور ریحانہ بیگم، ان کے برابر میں عروہ اور دانیال بیٹھے تھے۔

ماں بیگم کے سامنے والی سربراہی کرسی پر زارا تھی جبکہ ماں بیگم کے بائیں جانب فیضان صاحب اور فرحت بیگم بیٹھے تھے۔ ان کے برابر میں شاہ زین بیٹھا تھا جو کہ عروہ کے بالکل سامنے تھا۔

سارہ جس نے سادہ سا پیازی رنگ کا لان کا جوڑا پہنا ہوا تھا اور سر پر سلیقے سے ہم رنگ دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا، سالن کا ڈونگا لے کر آئی اور ڈائننگ ٹیبل پر رکھا۔یہ مٹن قورمہ میں نے امی کی خاص ترکیب سے بنایا ہے۔ وہاں گاؤں میں سب دیوانے ہیں اس قورمے کے۔یہ کہہ کر وہ کرسی کھینچ کر شاہ زین کے برابر میں بیٹھ گئی۔

شاہ زین نے سالن پلیٹ میں نکالا۔سارہ یہ مسٹرڈ آئل سے بنایا ہے؟

سارہ مسکرائی، جی، امی کہتی ہیں مسٹرڈ ہماری صحت کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے۔

یہ کہہ کر وہ اپنی پلیٹ میں سلاد نکالنے لگی۔زارا ہنسی، واہ شازین بھائی، اب سارہ بھابھی نے کھانا بنایا تو آپ کو سب کچھ پتا ہے اور جب بچپن سے تائی جان آپ کو آلو کہہ کر اروی کھلاتی آرہی ہیں تو آپ کو پتا نہیں چلتا۔

شاہ زین نے اسے گھورا، ارے وہ کل جب ریسیپی لکھ رہی تھی تو پتا چلا تھا۔یہ کہہ کر اس نے ہاٹ پاٹ میں سے روٹی نکالی اور سارہ کی پلیٹ میں بھی رکھی۔

پھر اچانک اس کی نظر ڈونگے کی طرف ہاتھ بڑھاتی عروہ پر پڑی۔

اس نے فوراً ڈونگا کھینچا،عروہ دھیان سے، یہ مسٹرڈ آئل سے بنا ہے اور تمہیں اس سے الرجی ہے۔

سب چونک گئے، بشمول عروہ کے، جو خود بھی بھول چکی تھی۔

عروہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ چمچ رکھا اور بریانی نکالنے لگی۔

جبھی سارہ نے شرارت سے کہا،شازین لگتا ہے آپ کو عروہ بجو کے بارے میں ہر بات یاد رہتی ہے، ویسے اب یہ سب باتیں دانیال بھائی کو یاد ہونی چاہئیں۔

وہ بات شازین سے کر رہی تھی مگر سنانا دانیال کو چاہ رہی تھی۔

نگینہ بیگم نے بات بدل دی، سب کھانا کھاؤ، ٹھنڈا ہو رہا ہے۔یوں سب نے خوش اسلوبی سے کھانا مکمل کیا۔

سارہ بیڈ پر لیٹی تھی، چہرے پر بازو رکھا ہوا۔شاہ زین نے بزنس کال ختم کی، فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بولا،سارہ، ناراض ہو؟

سارہ فوراً اٹھ بیٹھی، بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر بولی،واہ شازین صاحب، میں آپ پر قربان جاؤں، عروہ بجو کی الرجی کا تو خیال ہے مگر اپنی بیوی کے موڈ کا اندازہ نہیں۔

شاہ زین نے گہرا سانس لیا،تم لڑکیوں کو لے کر اتنی حساس کیوں ہو گئی ہو، وہ لڑکی فوٹو فریم بیچنے والی تھی، ٹھیک ہے؟

وہ مہک میری بزنس پارٹنر ہے، اور عروہ ہماری کزن ہے۔اور سب سے بڑی بات، تم مسز شاہ زین احمد ہو۔

سارہ اس بات پر ہلکی سی شرمائی۔

عروہ نے عصر کی نماز پڑھی اور جائے نماز بُک شیلف میں رکھ کر اپنا نماز والا دوپٹہ کھولنے لگی۔کیا ہوا، آپ نے کھانا ٹھیک سے نہیں کھایا۔

اس نے دانیال سے پوچھا جو صوفے پر میڈیکل کی کتاب پڑھ رہا تھا۔

ہاں، بس وہ سارہ کی باتیں اچھی نہیں لگیں۔عروہ، تم میری کزن ہو، بلکہ اب میری بیوی ہو۔مگر تمہاری الرجیز کے بارے میں اب مجھے پتا ہونا چاہیے نا۔دانیال نے منہ بنایا۔

عروہ مسکرائی، بُک شیلف سے نوٹ بُک اور پین نکالا، بیڈ پر بیٹھ کر کچھ لکھا، پھر صفحہ پھاڑ کر دانیال کے ہاتھ میں دیا۔

یہ میری ساری ڈیٹیلز ہیں ڈاکٹر دانیال، آپ دیکھ سکتے ہیں۔

دانیال وہ صفحہ پڑھنے لگا، اور عروہ مسکراتی ہوئی اس کے لیے کافی بنانے چلی گئی۔

اگلے دن دوپہرکھانے کے بعد عروہ لاؤنچ میں صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔شاہ زین جو آفس جا رہا تھا، آیا اور سفید لفافہ عروہ کے پاس رکھا۔عروہ، یہ ماں بیگم کی رپورٹس ہیں، دانیال کو دکھا دینا۔

عروہ نے سر ہلا دیا۔شاہ زین کچھ دیر وہیں بیٹھا ٹی وی دیکھتا رہا، پھر چلا گیا۔سارہ جو کچن سے اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی، یہ منظر دیکھ کر منہ بنا گئی۔

شام کا منظرعروہ لان میں آئی۔

وہ اکثر دانیال کا انتظار کیا کرتی تھی۔جب اس نے سارہ کو جھولے پر بیٹھا دیکھا تو وہ بھی اس کے برابر بیٹھ گئی۔

شاہ زین بھائی کا انتظار کر رہی ہو؟عروہ نے نرمی سے پوچھا۔

سارہ چڑ گئی،عروہ بجو، یہ بتائیں، آپ نے شاہ زین پر کون سا جادو کیا ہے؟

عروہ کانپ گئی،کیا کہہ رہی ہو سارہ؟

یہی کہ آپ بہت کلوز ہیں نا شاہ زین کے۔سارہ کے لہجے میں طنز تھا۔

عروہ نے گہرا سانس لیا،سارہ، میں جانتی ہوں تم شاہ زین بھائی سے بہت پیار کرتی ہو،مگر یاد رکھنا، پیار میں شک ایک زہر کی طرح ہوتا ہے۔اور یہ زہر جب اثر کرتا ہے نا، تو ہمیں برباد کر کے ہی چھوڑتا ہے۔

یہ کہہ کر عروہ وہاں سے چلی گئی۔

سارہ کو شرمندگی محسوس ہوئی۔اس کا دل چاہا وہ عروہ سے معافی مانگ لے،مگر جب انسان کی انا بیچ میں آ جائے،تو وہ کچھ نہیں کر پاتا۔

کیا عروہ اور سارہ کے درمیان اختلافات بڑھ جائیں گے؟

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *