Zindagi ke rang apno ke sang written by syeda Tooba batool Episode 18…

زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:18

ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔

دوپہر کے تین بج رہے تھے۔عروہ اور سارہ صبح ہی دانیال اور شاہ زین کے ساتھ شاپنگ کر کے آئی تھیں۔اب شاہ زین آفس جا چکا تھا اور دانیال ہاسپٹل۔سارہ خالی سوٹ کیس اور کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ عروہ کے کمرے میں آئی ہوئی تھی۔

عروہ کا بیڈ مکمل طور پر کپڑوں سے بھرا ہوا تھا، کہیں شال، کہیں جینز، کہیں چشمے۔عروہ الماری کے پاس کھڑی تھی، اپنے کپڑے تہہ کر کے رکھ رہی تھی۔اسی دوران زارا کافی کے تین کپ ہاتھ میں لیے اندر آئی۔

تو مسز دانیال اینڈ مسز شاہ زین، آج شاپنگ بھی ہوگئی؟ وہ شرارت سے بولی۔

ہاں، سنا ہے مری میں بہت ٹھنڈ ہوتی ہے، اسی لیے شالز اور سوئیٹرز لے لیے ہیں۔سارہ شال تہہ کرتی ہوئی بولی۔

عروہ نے نرمی سے جواب دیا،میں نے تو بس سمپل کپڑے لیے ہیں، دانیال کہتے ہیں مجھ پر سادگی اچھی لگتی ہے۔

زارا نے عروہ کی الماری میں جھانکا، ٹیگ دیکھا اور قہقہہ لگایا،بس کیجیے آپی، آپ کے تو سمپل کپڑوں میں بھی برانڈز چھپے ہوتے ہیں۔

اللہ پوچھے ان برانڈز والوں سے، ہلکی سی لان کی قمیض ہوگی اور دام پانچ چھ ہزار کے۔اتنے میں تو ایک اچھا سا لوکل فینسی ڈریس آ جائے۔

سارہ ہنسی نہیں روک سکی۔ زارا اب اس کے پاس آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔

واہ سارہ بھابھی، یہ پنک ویلوٹ شال سردی سے بچنے کے لیے لی ہے یا فوٹو شوٹ کے لیے؟

سارہ نے شال زارا سے لے کر تہہ بناتے ہوئے کہا،فوٹو شوٹ بھی ہوجائے گا، میرا شوہر بہت ہینڈسم ہے۔

عروہ نے شرارت سے کہا،ہینڈسم تو ہیں، لیکن تھوڑے ضدی بھی۔ میں جانتی ہوں، میں ان کی دوست رہی ہوں نا۔

زارا نے ہنستے ہوئے کہا،ویسے بلکل اپنے بڑے بھائی دانیال بھائی پر گئے ہیں۔

وہ بابا بھی ایسے ہی ہیں، تایا جان بھی۔ لگتا ہے ہمارے گھر کے مردوں کا ماڈل ایک ہی ہے۔تینوں زور سے ہنسنے لگیں۔

پھر عروہ بولی، کتنا اچھا لگتا ہے نا، یوں سب اکٹھے ہنسنا بولنا۔

سارہ نے زمین پر گرا ہوا کشن اٹھایا، ہاں، نانو صحیح کہتی ہیں، زندگی بہت چھوٹی ہے، بس خوش رہنا چاہیے۔

عروہ نے زارا سے کافی چھینی، دو گھونٹ لیے، زارا نے واپس چھین لی،اور سارہ نے دونوں پر کشن پھینک دیا۔

ووشن ولا کے پارکنگ ایریا میں شاہ زین کی گاڑی کھڑی تھی۔

ملازمہ سامان ڈگی میں رکھ رہی تھی۔نگینہ بیگم لان کے جھولے پر بیٹھی چائے کا کپ اور اخبار ہاتھ میں لیے تھیں۔

سب لان میں آئے تو وہ مسکرا دیں،لو بھئی، پوری فوج تیار ہوگئی۔

اب کوئی رپورٹ لے کر واپس مت آنا، ڈاکٹر دانیال۔

دانیال ہنستا ہوا آگے بڑھا، ان کے قریب آیا اور ادب سے سر جھکا کر سلام کیا۔

نگینہ بیگم نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔

آپ فکر نہ کریں دادو، ان سب میں سے کسی کو چھینک بھی نہیں آنے دوں گا۔

سب کے چہروں پر ہنسی پھیل گئی۔

عروہ عبائے اور اسکارف میں آگے بڑھی، دادی کو گلے لگایا،دادو، میں آپ کو بہت مس کروں گی۔

نگینہ بیگم نے پیار سے کہا،خوش رہو، آباد رہو، بیٹا۔

فرحت بیگم نے دونوں جوڑوں کا صدقہ اتارا،ریحانہ بیگم نے سارہ کی چادر درست کی۔سارہ بیٹا، ذرا دھیان سے رہنا۔ موسم بدلتا ہے نا تو شاہ زین کو بخار ہوجاتا ہے۔

شاہ زین نے منہ بنایا،مما، یہ کیا بتا دیا؟

اب یہ پورا ٹرپ مجھے لیکچر دیتی رہے گی۔زارا بھی یونی بیگ لیے آچکی تھی،اب آپ لوگ نکلیں ورنہ دانیال بھائی آپ کے سامان کی سرجری شروع کر دیں گے۔سب ہنس پڑے۔

دانیال نے زارا کے سر پر ہاتھ سے ہلکی سی تھپکی دی،نہیں، بے فکر رہو، میں بس عروہ کی رپورٹس تمہیں بھیجوں گا،کیا کھا رہی ہے، کہاں جا رہی ہے، کیا کر رہی ہے۔عروہ نے منہ پھلایا، کراچی والوں، میرے شوہر کے منہ میں ایک عدد زبان بھی ہے۔

ہی از ٹاکنگ ٹو مچ۔سب قہقہہ لگاتے ہیں۔

فیضان صاحب آگے بڑھے، عروہ کے سر پر ہاتھ رکھا،بیٹا، اپنی تصویریں مجھے بھیجتی رہنا۔ تمہیں نہ دیکھوں تو بے چین ہو جاتا ہوں۔ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔عروہ نے بابا کو گلے سے لگایا، زارا بھی بابا سے لپٹ کر یونی چلی گئی۔

سارہ نانو کے پاس گئی،نانو، وہاں سے آپ کے لیے کیا لاؤں؟

نانو نے پیار سے کہا،جو تمہارے دل کرے، میری جان۔سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔

نگینہ بیگم نے دروازے کی طرف دیکھا،خدا میرے بچوں کی حفاظت کرے، نظر بد سے محفوظ رکھے۔

گاڑی برف پوش راستوں سے گزرتی جا رہی تھی۔بیک گراؤنڈ میں ہلکی گٹار کی دھن بج رہی تھی۔سرد ہوا کے جھونکے کھڑکی سے اندر آ رہے تھے۔

عروہ نے بیج کلر کا لمبا کوٹ اور بلیک جینز پہنی تھی،سر پر بیبی پنک حجاب، گال سردی سے سرخ۔دانیال بلیک کوٹ، جینز اور بوٹس میں، ہاتھ میں کافی مگ۔

سارہ نے ریڈ کوٹ اور ایئر مفس پہنے، شاہ زین نیوی جیکٹ اور کیپ میں۔

شاہ زین نے گاڑی روکی۔

سارہ نے خوشی سے ہاتھ ہوا میں پھیلائے،واؤ، کتنی پیاری جگہ ہے، لگتا ہے ہم کسی فلم کے سین میں ہیں۔

شاہ زین نے ہنستے ہوئے کہا،فلم تو ہے یہ، میڈم، ہماری زندگی کی فلم۔ وہ گانا سنا ہے نا؟تیرا دھیان کدھر ہے، او تیرا ہیرو ادھر ہے۔

سب ہنسنے لگے۔دانیال اور عروہ ان کے پیچھے چلنے لگے۔

عروہ بولی، دانیال، کتنا سکون ہے یہاں۔

دانیال نے اس کے حجاب کی پن درست کی،ہاں، مگر سب سے زیادہ سکون تو میرے دل میں ہے، جہاں صرف عروہ دانیال بستی ہے۔وہ ڈرامائی انداز میں بولا۔

عروہ شرمائی، اتنے میں زارا کی ویڈیو کال آگئی۔

آپی، یہ میتھس کا فارمولا سمجھا دیں نا۔عروہ نے مسکرا کر سمجھایا۔

دانیال نے کہا، زارا پہلے تم کوئی فارمولا بتاؤ، یہ کافی جم رہی ہے۔زارا ہنسی، اچھا اچھا، سنو مین کی پک ضرور بھیجنا۔

کال بند ہوئی، عروہ اور دانیال ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھے۔

دوسری طرف سارہ اور شاہ زین برف پر فوٹ پرنٹس بنا رہے تھے۔

دیکھو، میرا نشان تمہارے سے بڑا ہے۔شاہ زین نے ہنس کر کہا۔

ہاں تو آپ مجھ سے سات سال بڑے بھی تو ہیں۔سارہ نے جواب دیا، ہنستی ہوئی۔

برف کے گولے روئی کی طرح گر رہے تھے۔سب کے چہرے سردی سے چمک رہے تھے۔عروہ نے سرمئی شال اوڑھی تھی،بالوں پر برف کے ذرے جم گئے تھے۔

دانیال نے گرے کوٹ پہنا تھا، سارہ پنک کوٹ اور سفید کیپ میں تھی،شاہ زین بلیک جیکٹ میں۔

سارہ نے آسمان کی طرف دیکھا،کتنی خوبصورت برف ہے، ایسا لگتا ہے جیسے اللہ کی رحمت برس رہی ہو۔

عروہ نے نرمی سے کہا،یہ برف ہماری دعاؤں کی قبولیت ہے۔

جب اللہ خوش ہوتا ہے نا، تو رحمتیں برساتا ہے۔دانیال نے آسمان دیکھا،اور جب دعائیں قبول ہو جائیں، تو انسان خوش نصیب ہو جاتا ہے۔

عروہ نے نظریں جھکا لیں۔

پھر سب نے برف میں کھیلنا شروع کیا، سنو مین بنائے، ایک دوسرے پر سنو بال پھینکے۔

وہ سب بچے بن گئے تھے۔اور میرا یہ کہنا ہے،بچپنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی، صرف دل بچہ ہونا چاہیے۔

صبح کے وقت چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔وہ چاروں لاہور کے ایک روڈ سائیڈ ڈھابے پر بیٹھے تھے۔

عروہ نے اسکائی بلو لان کی فراک، سفید حجاب اور ٹراوزر پہنا تھا۔

دانیال جینز اور گرے شرٹ میں،سارہ پٹیالہ شلوار قمیض میں،اور شاہ زین براؤن ٹی شرٹ اور بلیک پینٹ میں۔

ان کے سامنے ناشتہ سرو ہوا، حلوہ پوری، چنے، چائے اور کافی۔

سارہ نے سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کیے

آہا آہا، لاہور میں آ کر تو چس آ گئی۔شاہ زین نے مسکرا کر کہا،اور تم جو چائے پہ چائے پی رہی ہو، اس کا بل میں نہیں دوں گا۔

سارہ نے گھورا،آپ میرے نوالے گن رہے ہیں، ہاؤ روڈ۔پھر مکا بنا کر اس کے کندھے پر مارا۔اتنے میں زارا کی ویڈیو کال آگئی۔ا

رے واہ، اکیلے اکیلے ناشتہ ہو رہا ہے۔پھر فرحت بیگم بھی پاس آگئیں۔

عروہ نے سلام کیا۔بیٹا، اپنا خیال رکھنا، وہاں کے موسم اور یہاں کے موسم میں بہت فرق ہے۔

عروہ نے اثبات میں سر ہلایا، کال کاٹ دی۔

دانیال نے کہا،فیملی والے کتنا بھی دور ہوں، فکر کرنا نہیں چھوڑتے۔

سب کے چہروں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں نمی تھی۔

کیا ان چاروں کے درمیان اب دوریاں بڑھیں گی یا مزید قریبیاں پیدا ہوں گی؟

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *