زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:19
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔
اب شام کا وقت تھا آسمان ہلکے گلابی رنگ میں رنگا ہوا تھا بادشاہی مسجد صاف نظر آ رہی تھی جہاں ڈھول بج رہے تھے اور لوگ تصویریں بنا رہے تھے
عروہ نے پیچ رنگ کی شیفون کی میکسی پہنی ہوئی تھی ہم رنگ دوپٹہ نہایت سلیقے سے سر پر اوڑھا ہوا تھا
دانیال اس کے برابر میں کھڑا تھا اس نے نیلے رنگ کا کرتا پاجامہ پہن رکھا تھا اس کے بال ہوا میں اڑ رہے تھے
تبھی سارہ جس نے منٹ گرین رنگ کا پٹیالہ سوٹ پہنا ہوا تھا میچنگ دوپٹہ سلیقے سے اوڑھے عروہ کے پاس آ کر کھڑی ہوئی
شاہ زین نے سفید شلوار قمیض پر سرمئی شال گلے میں ڈال رکھی تھی
وہ سب بادشاہی مسجد کی حاضری دے کر اطراف میں چہل قدمی کر رہے تھےسارہ نے اردگرد دیکھ کر کہایہ سب کتنا تاریخی ہے مگر یہاں کتنا نیا اور خوبصورت محسوس ہو رہا ہے
old soul in a new vibe
شاہ زین مسکرایا بالکل تمہاری طرح سارہ ہنس پڑی تبھی
اذان کی آواز گونجی دونوں وضو کرنے لگےعروہ
ٹہل رہی تھی جب دانیال اس کے لیے قلفی لے آیا وہ دونوں مسکراتے ہوئے قلفی کھانے لگے
اب وہ لوگ اسلام آباد میں تھے مارگلہ ہلز کے قریب ہلکی ہلکی دھند چھائی ہوئی تھی وہ سب کے ایک اوپن کیفے میں بیٹھے تھے میز پر کافی مگز فرائز اور سینڈوچ رکھے ہوئے تھے
سارہ نے کہا شاہ زین آپ نے جیسا بتایا تھا اسلام آباد بالکل ویسا ہی ہے
شاہ زین مسکرایا اور کافی کا گھونٹ لیا ہاں تو میں نے کہا تھا نا یہاں سکون ہے امن ہے اور خوبصورتی بھی بالکل تمہاری طرح سارہ شرما گئی
شاہ زین آپ اتنی فلمی باتیں کیوں کرتے ہیں شاہ زین نے قہقہہ لگایا کیونکہ میں شاہ زین احمد ہوں آمنہ پھوپھو کا بھتیجا ان کا داماد اور سارہ احمد کا شوہر
عروہ اور سارہ نے اسے گھورا سارہ نے کہا آپ جہان سکندر کی کاپی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یاد رکھیں کہاں وہ اور کہاں آپ
شاہ زین نے مسکراتے ہوئے بال سنوارے میں جہان سکندر ہو بھی نہیں سکتا وہ غریب آدمی تھا مگر دل کا امیر تھا اور میں امیر آدمی ہوں جو ماں بیگم کی آنکھوں کا تارا ہے
مگر وہ ایک عام آدمی تھا جس نے ایک عام سی لڑکی سارہ سے شادی کی جو اس کا سارا جہان بن گئی
دس دن بعد وہ سب واپس کراچی پہنچ گئےوہ سب لاؤنج میں بیٹھے چائے پی رہے تھےسارہ سب کو اپنے موبائل سے تصویریں دکھا رہی تھی جبکہ عروہ سکون سے نگینہ بیگم کے کندھے پر سر رکھے آنکھیں موندے بیٹھی تھی
ریحانہ بیگم نے چائے کے خالی کپ ٹرے میں رکھے اور کچن کی طرف چلی گئیں
نگینہ بیگم نے عروہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرا ماشاءاللہ آج سب خوش ہیں سارہ بیٹی تمہارے چہرے پر کتنی رونق ہے اور عروہ تمہارے چہرے پر تو نکھار ہی نکھار ہے
زارا جو صوفے پر بیٹھی اسکیچنگ کر رہی تھی بولی مجھے تو لگتا ہے سارہ بھابھی نے شاپنگ زیادہ کی اور عروہ آپی نے تصویریں زیادہ لیں اسی لیے دونوں نکھری نکھری لگ رہی ہیں
شاہ زین نے ہنستے ہوئے کشن سارہ پر پھینکا تمہاری سارہ بھابھی کے چہرے کا گلو میرے سنوبالز پھینکنے کی وجہ سے ہے
سب کے قہقہے گونج اٹھے
نگینہ بیگم نے سب کی طرف دیکھا دل ہی دل میں کہا
اللہ میرے بچوں کو ہمیشہ خوش رکھنا
سب لوگ ناشتے کی میز پر جمع تھے اور ناشتہ کر رہے تھے
ماں بیگم آپ اپنی نواسی کو ٹائم مینجمنٹ سکھا دیں بال بنانے میں اتنا وقت لیتی ہے جیسے ریپنزل کے بال ہوں شازین بولا تو سب مسکرا دیے
سارہ نے شازین کو گھورا
ہاں تو پہلے بال ڈرائر سے سکھانے پڑتے ہیں پھر سٹریٹ کرنے پڑتے ہیں پھر ہیئر اسٹائل بناتی ہوں ٹائم تو لگے گا ہی نا نانو
سب ہنس پڑے مگر عروہ کا دل نہ جانے کیوں بےچین سا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہو
شام کے وقت وہ اور دانیال مارکیٹ جا رہے تھے کچھ سامان لینے جو نگینہ بیگم نے منگوایا تھا ہمیشہ کی طرح آج بھی نگینہ بیگم اپنا سامان عروہ سے ہی منگواتی تھیں آج عروہ نے ضد کی تھی کہ وہ خود گاڑی چلائے گی عروہ ڈرائیونگ سیٹ پر جبکہ دانیال اس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھا تھا
وہ لوگ ابھی مال پہنچے ہی تھے کہ دانیال کو اسپتال سے کال آئی عروہ تم گاڑی پارکنگ میں لگا دو میں کال سن کر آتا ہوں
یہ کہہ کر وہ گاڑی سے اترا اور ایک طرف کھڑے ہوکر کال سننے لگا عروہ نے گاڑی بائیں جانب موڑی جہاں پارکنگ ایریا تھا مگر حادثے بتا کر نہیں ہوتے اچانک ایک تیز رفتار گاڑی نے آ کر اس کی گاڑی کو ٹکر مار دی سب کچھ دھندلا گیا
صرف شیشے ٹوٹنے کی آواز اور ہلکی سی چیخ گونجی جیسے زندگی ایک لمحے کے لیے رک سی گئی ہو
اب منظر اسپتال کا تھا مشینوں کی آوازیں عروہ بیڈ پر لیٹی ہوئی آنکھیں بند ہاتھوں میں ڈرپ لگی ہوئی سر پر پٹی بندھی ہوئی دانیال جو اس کی ڈرپ چیک کر رہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اتنے میں سینئر ڈاکٹر اندر آئے
ڈاکٹر دانیال ایکسرے کے مطابق ایکسیڈنٹ میں عروہ کی اسپائنل کارڈ پر گہری چوٹ آئی ہے ممکن ہے وہ اب اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو پائے یہ وقتی ہے یا ہمیشہ کے لیے اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے
ڈاکٹر یہ کہہ کر جا چکے تھے جبکہ دانیال نے عروہ کے سر پر ہاتھ رکھا اس کے آنسو عروہ کی پیشانی پر بندھی پٹی پر ٹپک رہے تھےتقریباً دو ہفتے بعد عروہ اسپتال سے گھر آ چکی تھی وہ اور دانیال اب نیچے گیسٹ روم میں شفٹ ہو گئے تھے اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک ملازمہ رکھ دی گئی تھی سر کی پٹی اتر چکی تھی صرف پلاسٹر لگا ہوا تھا وہ ویل چیئر پر کندھوں پر شال اوڑھے لان میں بیٹھی تھی ابھی ابھی فزیوتھراپی کر کے تھراپسٹ گئی تھی
نگینہ بیگم مالی کو پھولوں کی دیکھ بھال کے بارے میں ہدایت دے رہی تھیں مالی کے جانے کے بعد وہ عروہ کے پاس آئیں ان کی آنکھوں میں درد تھا انہوں نے عروہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا
بیٹا فزیوتھراپی کیسی جا رہی ہےعروہ کی آنکھوں میں آنسو آگئےٹھیک جا رہی ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ میں کبھی چل نہیں پاؤں گی
ماں بیگم نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرابیٹا انسان تب ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہے جب تک اس میں حوصلہ ہوتا ہے
عروہ نے کانپتے ہاتھوں سے آنسو صاف کیےدادو میں ٹوٹ گئی ہوں مجھ میں اب حوصلہ نہیں رہا اتنے میں دانیال اسپتال سے واپس آیا دادی کو سلام کیا پھر عروہ کے سر پر ہاتھ رکھا کیسی ہو تم عروہ فزیوتھراپسٹ کہہ رہی تھیں کہ تم جلد ہی چلنے لگو گی
عروہ نے اس کی طرف دیکھا آنکھوں میں نمی تھی نگینہ بیگم وہاں سے اندر جانے لگیں جاتے جاتے پلٹ کر دیکھا دانیال گھاس پر بیٹھا عروہ کے پیروں کو جنبش دلوانے کی کوشش کر رہا تھا
زندگی کبھی رکتی نہیں بس رخ بدل لیتی ہے یہ سوچ کر وہ اندر چلی گئیں
لاؤنچ میں سارہ نگینہ بیگم کو چائے دے رہی تھی نگینہ بیگم میگزین پڑھ رہی تھیں فرحت بیگم اور ریحانہ بیگم بھی ساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھیں
تبھی آمنہ بیگم آئیں سر پر چادر ہاتھ میں بیگ سارہ انہیں دیکھ کر مسکرائی سلام کیا گلے لگی آمنہ بیگم نے بیٹی کے ماتھے پر بوسہ دیا
ارے میری بچی کتنی کمزور ہوگئی ہو لگتا ہے کوئی تمہارا خیال نہیں رکھتاسارہ نے مسکراتے ہوئے فرحت بیگم کی طرف دیکھاکیا کریں امی یہاں تو سب عروہ کا خیال رکھتے ہیں آپ کو پتا ہے نا وہ سب کی لاڈلی ہے جب سے ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ معذور ہوکر ویل چیئر پر آگئی ہے تب سے سب کی توجہ اسی پر ہےسارہ کے لہجے میں جلن تھی آ منہ بیگم کے چہرے کا رنگ بدل گیا
انہوں نے ایک نظر سب کو دیکھا پھر سامان زمین پر پٹخ کر فرحت بیگم کے گلے لگ گئیں
ہائے میری پھولوں جیسی بچی کو کس بدبخت کی نظر لگ گئی کہاں ہے میری لاڈلی فرحت بیگم روتے ہوئے بولیں وہ گیسٹ روم میں شفٹ ہو چکی ہے ابھی ابھی دانیال اسے اندر لے گیا ہے
آمنہ بیگم اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں
عروہ ویل چیئر پر بیٹھی تھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی سورہ فاتحہ دوپٹہ اسکارف کی طرح سر پر بندھا ہوا تھا آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے آمنہ بیگم کمرے میں آئیں تو اس نے قرآن پاک کو جزدان میں رکھا اور سلام کیا
آمنہ بیگم نے جواب دیتے ہوئے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھابیٹا جو اللہ نے لکھا تھا وہ ہو گیا یہ تقدیر کا فیصلہ ہے مگر ایک بات کہوں برا مت ماننا
عروہ مسکرائی پھوپھو آج سے پہلے آپ کی کسی بات کا برا مانا ہے جو اب مانوں گی فرمایئے
آمنہ بیگم نے ایک نظر اس پر ڈالی بیٹا مانو تم جوان اور خوبصورت ہو مگر دانیال بھی تو جوان ہے اب وہ کب تک تمہاری خدمت کرتا رہے گا اس کی بھی کچھ خواہشیں ہیں اور تم تم تو اب صرف زندہ لاش ہو تم بڑے پن کا مظاہرہ کرو اس کی دوسری شادی کروا دویہ سن کر عروہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا
پھوپھو میں دانیال سے محبت کرتی ہوں اور وہ مجھ سے ہمیں امید ہے کہ میں جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گیااس نے قرآن پاک کا جزدان اپنے سینے سے لگایا
آمنہ بیگم بولیں ٹھیک ہے جیسا تم چاہو مگر یاد رکھو بیٹا محبت سے پیٹ نہیں بھرتا زندگی میں ہمسفر جیتا جاگتا ہونا چاہیےاتنے میں دانیال اندر آیا ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا وہ سب کچھ سن چکا تھا
پھوپھو میں سب سن چکا ہوں شادی ایک ذمہ داری ہے اور ذمہ داریاں نبھائی جاتی ہیں جو رشتے دل سے بنتے ہیں تقدیر انہیں توڑ نہیں سکتی ہمارا معاشرہ کتنا عجیب ہے جب کوئی لڑکی معذور ہو جائے تو سب اسے چھوڑ دیتے ہیں مگر اگر مرد ہو تو بیوی سے امید رکھی جاتی ہے کہ وہ اس کا ساتھ دے یہی ہمارے معاشرے کے دوہرے معیار ہیں منیبہ مزاری کی طرح عروہ کو بھی جینے کا حق ہے اس نے اپنی معذوری کو کمزوری نہیں طاقت بنایا
یہ سن کر عروہ کے دل نے ایک بیٹ چھوڑ دی اس کے چہرے پر سکون بھری مسکراہٹ آگئی کئی دنوں بعد وہ دل سے مسکرائی تھی
رات کا وقت تھا عروہ ویل چیئر پر بیٹھی تھی اس کے ہاتھ میں ایک ڈائری کھلی رکھی تھی صفحے خالی تھے ہاتھ میں قلم تھا مگر الفاظ نہیں مل رہے تھے
نوکرانی اندر آئی باجی وکیل صاحب آئے ہیں انہیں اندر بھیج دو اور کسی کو بتانا نہیں کہ میں نے بلایا ہےوکیل اندر آیا
رحمان صاحب آپ کا نمبر میں نے دادو کے فون سے لیا ہے یہ بات کسی کو معلوم نہیں ہونی چاہیے
جی آپ اطمینان رکھیے
فرمائیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں
عروہ نے دیوار پر لگی اپنی اور دانیال کی تصویر دیکھی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلےمیں چاہتی ہوں آپ میرے طلاق کے کاغذات تیار کریں یہ کہتے ہوئے اس کا سانس لرزنے لگامیں اپنے شوہر کو آزاد کرنا چاہتی ہوں میری محرومی اس کی زندگی کی قید نہیں بننی چاہیے
وکیل نے سر جھکا کر کہاجی ٹھیک ہے میڈم کل شام تک کاغذات تیار ہو جائیں گےوہ اٹھ کر چلا گیا
عروہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی دانیال تم میری زندگی کا سب سے حسین حصہ ہوکچھ دیر بعد دانیال ہاتھ میں سوپ اور دوائیں لیے آیا
سوپ پی لو پھر دوا کھا لیناوہ خاموشی سے سوپ ختم کرتی رہی کل سوچ رہا ہوں اسپتال نہ جاؤں تمہیں سی ویو لے چلوں تھوڑا ماحول بدلے گا تو تم بہتر محسوس کرو گی
عروہ کا دل تھم گیا وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی کل کا دن یادگار ہوگا جو ہمارے رشتے کا آخری دن ہوگا کل عروہ فیضان کی دنیا ویران ہو جائے گی
جاری ہے۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
