Zindagi ke rang apno ke sang written by syeda Tooba batool Episode 22…

زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:22

ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔

آدھی رات کا وقت ہے۔ عروہ نماز تہجد میں مصروف ہے، وہ سجدے میں گری ہوئی بار بار دانیال کی زندگی مانگ رہی ہے۔

مگر کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں، لیکن وہ قبول نہیں ہوتی — کیونکہ اس کے پیچھے اللہ کی کوئی مصلحت ہوتی ہے۔

عروہ اب نماز سے فارغ ہو کر آئی سی یو کے باہر کھڑی ہے۔ اندر سے ڈاکٹروں کی آوازیں آرہی ہیں

ایمرجنسی ان کے وائٹلز چیک کریں دانیال آکسیجن ماسک لگائے بے ہوش ہے، اس کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں۔

عروہ بنا کسی کی پروا کیے آئی سی یو میں داخل ہو جاتی ہے۔ نرس اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے مگر وہ کسی کی نہیں سنتی۔

دوڑ کر دانیال کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے جس پر ڈرپ لگی ہوئی ہے۔

دانیال آنکھیں کھولیں، دیکھیں میں آگئی ہوں وہ روتے ہوئے بولتی ہے۔اس کے آنسو دانیال کے چہرے پر گرتے ہیں۔ دانیال ہلکے سے آنکھیں کھولتا ہے، عروہ کے چہرے کے ہر نقش کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کرتا ہے۔

عروہ خود کو سنبھالو، اب تمہیں اکیلے لڑنا ہے یہ کہہ کر اس کی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔

مونیٹر پر سیدھی لکیر نمودار ہوتی ہے۔او نو ہی از گون ایک ڈاکٹر کہتا ہے۔

نرس دانیال کے چہرے پر سفید چادر ڈال دیتی ہے۔

عروہ کا وہ بریسلیٹ جو دانیال نے دیا تھا، چادر واپس گرتے ہوئے ڈھیلا ہو جاتا ہے اور زمین پر آجاتا ہے۔

آدھا دل اس میں سے الگ ہو کر نیچے گر پڑتا ہے، اور ڈاکٹر کا قدم اس پر آتا ہے — چٹاخدل کے ٹکڑے کی طرح، بالکل عروہ کی سانسوں کے بندھن کی طرح۔

دانیال۔۔۔۔۔عروہ چیختی ہے، بالوں پر ہاتھ رکھتی ہے، اور پھر زور زور سے روتی ہے۔ وہ دانیال کے کندھے کو جھنجھوڑتی ہے، اس کا نام لے کر چیخ رہی ہوتی ہے۔

اگلے دن ظہر کی نماز کے بعد دانیال کا جنازہ ہوتا ہے۔

میت روشن ولا کے لان میں رکھی ہے۔ عورتیں چٹائیوں پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی ہیں، مرد آگے آکر فیضان صاحب، کاشف صاحب اور شازین سے تعزیت کر رہے ہیں۔آمنہ پھوپھو بھی آچکی ہیں، وہ ریحانہ بیگم کو گلے لگا کر سن سی بیٹھی ہیں۔

عروہ ماں بیگم کے گلے لگ کر رو رہی ہے۔سارہ ایک کونے میں اگر بتی جلا رہی ہے۔ وہ عروہ کے پاس آتی ہے

عروہ پانی پی لو۔

عروہ گلاس اٹھا کر لان میں پھینک دیتی ہے۔ گلاس کرچیوں میں بکھر جاتا ہے — بالکل عروہ کے دل کی طرح، بالکل دانیال اور اس کے رشتے کی طرح۔

کچھ لوگ دنیا سے جاتے جاتے آپ کی روح بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔عروہ اٹھ کر دانیال کے جنازے کے پاس جاتی ہے، چہرے سے کپڑا ہٹاتی ہے

دانیال کیوں چھوڑ گئے مجھے، کیوں اکیلا کر گئے وہ روتی ہے۔پھر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتی ہے — ٹھنڈا، بے جان جسم۔وہ روتے روتے بے ہوش ہونے لگتی ہے

۔ زارا جلدی سے پانی لاتی ہے سنبھالو خود کو وہ اسے سہارا دیتی ہے۔

ریحانہ بیگم جنازے کے پاس آتی ہیں، زمین پر گر جاتی ہیں۔

میرا بیٹا مجھے چھوڑ گیا، ماں کا بڑھاپا برباد ہوگیا وہ چیختی ہیں۔

شازین بھاگ کر ان کے پاس آتا ہے، روتا ہوا کہتا ہےامی، سنبھالیں خود کو، بھائی کو کتنی اذیت ہو رہی ہوگی۔

فرحت بیگم عروہ کو گلے سے لگاتی ہیں

بیٹا صبر کرو، اللہ کا یہی فیصلہ تھا، اس کی اتنی ہی زندگی تھی۔

عروہ اپنی ماں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے

کیسے صبر کروں امی، میری دنیا اجڑ گئی۔

نگینہ بیگم جنازے کے پاس آکر کہتی ہیں یہ دنیا فانی ہے، بس نیک اعمال باقی رہتے ہیں۔ میرا دانیال بہت نیک تھا، اے پروردگار، عالم برزخ میں اس کے لیے آسانیاں پیدا فرما۔

کاشف صاحب شازین کے گلے لگ کر روتے ہیں میرا بچہ، اپنے باپ کی کمر توڑ گیا۔

ظہر کی اذان ہوتی ہے، نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے،اور شازین، کاشف صاحب، فیضان صاحب اور رمیز صاحب مل کر دانیال کے جنازے کو اٹھاتے ہیں۔

عروہ دانیال کے کمرے میں زمین پر بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہے۔ اس نے فیروزی سوٹ پہنا ہے، گود میں دانیال کی تصویر ہے، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔

آمنہ بیگم کمرے میں آتی ہیں، اس کے سر پر سفید دوپٹہ اوڑھاتی ہیں

عروہ عدت میں سفید دوپٹہ اوڑھا جاتا ہے۔ میں مارکیٹ سے سفید جوڑا لے آئی ہوں، اب وہ پہنا کرو۔

عروہ خالی نظروں سے انہیں دیکھتی ہے۔آمنہ بیگم بیڈ کی پائنتی پر بیٹھتی ہیں، ان کے پاؤں کی ٹھوکر عروہ کی کمر سے لگتی ہے۔

بیوگی کے بعد عورت کے لیے سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی میں نہ رنگ رہتے ہیں، نہ خوشیاں، بس عبادت رہ جاتی ہے۔

وہ میز سے تسبیح اٹھا کر عروہ کے ہاتھ میں دیتی ہیں۔

اتنے میں فرحت بیگم کھانا لے کر آتی ہیں، یہ سب سنتی ہیں اور کہتی ہیں

بس کیجیے آپا، آپ جانتی ہیں ان باتوں سے میری بچی کو کتنی اذیت پہنچتی ہے۔آمنہ بیگم بولتی ہیں

میں تو بھلائی کے لیے کہہ رہی ہوں۔ عدت میں ہے، گھر میں مرد مہمان ہیں، کل بھی میں نے دیکھا دروازہ کھلا تھا، اگر شازین بات کر لیتا تو لوگ باتیں بناتے۔

عروہ آہستہ سے بولتی ہےامی، گھٹن ہو رہی تھی، اس لیے کھولا تھا۔ جیسے ہی دیکھا شازین بھائی ہیں، فوراً بند کردیا۔

آمنہ بیگم کہتی ہیں لوگ تو یہی کہیں گے نا، کہ اس کا کسی سے چکر ہے۔یہ کہہ کر وہ چلی جاتی ہیں۔

فرحت بیگم اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہیں ان کی باتیں چھوڑو، کھانا کھا لو بیٹا۔عروہ اٹھ کر بولتی ہے

امی، آپ جائیں، میں کھا لوں گی۔وہ صوفے پر بیٹھتی ہے، سوچوں میں گم ہو جاتی ہے۔لوگ کہتے ہیں قبر میں جانے والا ہی مردہ ہوتا ہے، مگر آدھی موت تو زندہ رہنے والوں کو بھی ملتی ہے۔

جب عورت بیوہ ہوتی ہے تو لوگ اس کے سانس لینے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں۔اس کے ذہن میں جنازے والے دن کی باتیں گونجتی ہیں

ہاۓ بیچاری، جوانی میں بیوہ ہوگئی دیکھنا، عدت ختم ہوتے ہی شادی کر لے گی شوہر مرا ہے، اور اسے دیکھو، نیل پالش لگی ہوئی ہے

اسی دوران نگینہ بیگم آتی ہیں، اس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہیں بیٹا، دنیا کچھ بھی کہے، تمہیں فرق نہیں پڑنا چاہیے۔

عورت خود سے بیوہ نہیں ہوتی، یہ اس کا امتحان ہے۔ ایمان سلامت رکھو اور دانیال کی مغفرت کے لیے دعا کرو۔

عروہ خاموشی سے سر ہلا دیتی ہے۔

رات کو فرحت بیگم کھانا لے کر آتی ہیں بیٹا، کھانا کھا لینا۔

وہ اس کا ماتھا چومتی ہیں۔عروہ آہستہ سے بولتی ہے

امی، دنیا والے بیوہ عورت کے کھانے پینے پر تو کوئی پابندی نہیں لگاتے۔

فرحت بیگم کی آنکھوں سے آنسو بہہ جاتے ہیں ایسی باتیں مت کیا کرو بیٹا، میرا دل دکھتا ہے۔وہ اسے گلے لگا کر تڑپ کر روتی ہیں۔

سارہ اپنے کمرے میں بیٹھی بچوں کے کپڑے تہہ کر رہی ہے۔ شازین اندر آتا ہے، بیڈ پر برگر رکھتا ہے

یہ لیجیے میڈم، آپ کا فیورٹ چکن برگر۔

سارہ ہلکی سی مسکراتی ہے

یہ میرے لیے ہے یا آپ کے لیے، آپ تو ڈائٹنگ پر ہیں نا۔

شازین مسکرا کر کہتا ہے عروہ کے لیے لایا ہوں، سوچا وہ خوش ہو جائے گی۔

سارہ غصے سے بولتی ہے عروہ، عروہ نا ہوئی، مہمان خصوصی ہو گئی۔ آپ کو میری کوئی فکر نہیں۔ میں آپ کی بیوی ہوں، اور کچھ ہی مہینوں میں آپ کا بچہ پیدا ہونے والا ہے۔

شازین نرمی سے کہتا ہے میڈم، وہ کس حال سے گزر رہی ہے، سوچیں تو۔ تھوڑی سی توجہ سے وہ خوش ہو جائے گی۔

سارہ برگر اٹھا کر اسے واپس دیتی ہےجائیں، ڈبل برگر کھلائیں اسے۔

اور کمرے سے باہر چلی جاتی ہے۔

کیا عروہ معاشرے کے سخت رویوں کو جھیل پائے گی

کیا اپنے ہی اس کے خلاف کھڑے ہوں گے

کیا شازین اور سارہ کے درمیان اختلافات بڑھ جائیں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *