zindagi ke rang apno ke sang Written by syeda tooba batool Episode 26

زِندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر 26

از قلم سیدہ طوبیٰ بتول

شازین اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا، تبھی سارہ کمرے میں آئی۔
“شازین! آپ پاگل ہوگئے ہیں؟ ایک بیوہ کے پیچھے سب کو باتیں سنا دیں اپنے!” وہ سخت لہجے میں بولی۔

شازین نے اس کی طرف بے دلی سے دیکھا۔
“یہ کیا بیوہ بیوہ لگا رکھا ہے سب نے، سارہ؟ وہ ایک جیتی جاگتی انسان ہے، اس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا۔” شازین نے التجائی لہجے میں کہا۔

“اسی نے تو سب بگاڑا ہے — ہمارا رشتہ، ہمارا اعتماد، ہمارا سکون!”
سارہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

شازین آگے بڑھا، سارہ کے ہاتھ تھام لیے۔ اس کے آنسو سارہ کے ہاتھوں پر گرنے لگے۔
“سارہ، رشتہ احساس سے جڑا ہوتا ہے، اور تمہارے اندر کبھی احساس تھا ہی نہیں۔ میں اندھا نہیں ہوں، جانتا ہوں تم بچپن سے عروہ کی ہر بات پر جلتی تھیں، اس سے حسد کرتی تھیں۔ تم نے مجھ سے شادی بھی اسے نیچا دکھانے کے لیے کی۔ تمہیں یاد ہے؟ تم نے خود کہا تھا کہ تمہیں پیسوں سے محبت ہے!”

یہ کہہ کر وہ بیڈ کی پائنتی میں آکر بیٹھ گیا۔

سارہ آگے بڑھی، صوفے پر رکھے کشن زمین پر پھینک دیے۔
“ہاں، بچپن سے نفرت ہے مجھے اس سے! کیونکہ ہمیشہ وہی تمہاری پسندیدہ کزن رہی۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب میں اور عروہ بجو سلائیڈ سے گر گئے تھے۔ تم دانیال بھائی کے ساتھ فٹبال کھیل رہے تھے، تم بھاگ کر آئے اور صرف عروہ کی فکر کی۔
اور یاد ہے عروہ کی منگنی کے دن؟ اس کے منگیتر کے دل میں میں نے ہی زہر بھرا تھا… کیونکہ میں اسے برباد کرنا چاہتی تھی!”

یہ سنتے ہی شازین جیسے پتھر کا بن گیا۔ اس کے جبڑے سخت ہوئے، مٹھی بند ہوگئی۔
“بس سارہ! تم نے جو کہہ دیا، سب کچھ ختم کردیا۔ تم نے ایک بے بس لڑکی کا تماشا بنایا ہے، اس کے پاکیزہ دامن پر داغ لگایا ہے!”

“بے بس لڑکی؟ وہ بیوہ!” سارہ چیخی۔

اگلے ہی لمحے شازین کے ہاتھ سے ایک تھپڑ اس کے چہرے پر جا پڑا۔
وہ ظالم نہیں تھا، مگر آج وہ دوسری بار اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا چکا تھا۔

“بس!” شازین نے لرزتی آواز میں کہا۔ “عروہ کا نام اپنی زبان پر مت لانا۔ تمہارے دل میں صرف نفرت ہے۔ تم نے آج میرا مان توڑا ہے، میری روح کو زخمی کیا ہے۔”
یہ کہہ کر اس نے گہرا سانس لیا۔

“میں اب یہ رشتہ مزید نہیں نبھا سکتا۔ عائشہ کو اگر تم اپنے پاس رکھنا چاہو تو رکھ لو، میں اسے تمہارے خلاف کبھی نہیں بھڑکاؤں گا۔”
اس نے آنکھیں بند کر کے کہا، اور آنسو بہنے لگے۔

کس نے کہا کہ مرد نہیں روتے؟ مرد روتے ہیں، جب انہیں دھوکہ ملتا ہے۔

سارہ کا چہرہ زرد پڑ گیا۔
“یعنی آپ مجھے طلاق دے رہے ہیں؟”

شازین نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔
“ہاں۔ کیونکہ تمہیں پیسوں سے پیار ہے۔”
اس نے اپنی جیب سے والٹ نکالا، اے ٹی ایم کارڈ نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔

“طلاق کے بعد تمہیں تمہارا حق مہر، دو لاکھ روپے، مل جائے گا۔ یہ میرا اے ٹی ایم کارڈ ہے — اس میں پچاس سے ستر لاکھ ہوں گے۔ عیش سے زندگی گزار لینا۔ اگر کم پڑیں تو…”
یہ کہہ کر وہ الماری سے ایک فائل نکالتا ہے اور اس کی طرف پھینکتا ہے۔

“یہ میرے نام کی زمین ہے، ایک کروڑ مالیت کی۔ یہ بھی تمہاری۔ باقی عائشہ کا خرچ میں ہر مہینے بھیجتا رہوں گا۔”

سارہ زمین پر دھک سے گر گئی۔
وہ سسک رہی تھی۔

“میں، شازین احمد، تمہیں مکمل ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں!”
تین مرتبہ یہی الفاظ دہرا کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔

“شازین!” سارہ دیوانگی سے چیخی۔
ایک حسد کی بدولت آج ایک رشتہ ختم ہوچکا تھا۔

شازین نگینہ بیگم کے کمرے میں آیا۔ وہ ان کی آرام کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔
“ماں بیگم، مجھے معاف کر دیجیے گا، مگر جس رشتے میں مان نہ ہو، اسے نبھانے کا کوئی شوق نہیں۔”
وہ روتے ہوئے بولا۔

سارہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔ ہاتھ میں اپنی اور شازین کی شادی کی تصویر تھی۔
اس کی آواز پس منظر میں گونجتی ہے:

“جس دل میں محبت اور حسد دونوں ہوں، وہ انسان برباد ہوجاتا ہے۔
میری حسد، میرا شک، میری خوشیاں سب چھین لے گئے۔
مجھے شازین احمد سے سچ میں محبت ہوگئی تھی۔
محبت بادشاہ کو فقیر اور فقیر کو بادشاہ بنا دیتی ہے، مگر اس نے میری دنیا اجاڑ دی۔”

وہ تصویر واپس سائڈ ٹیبل پر رکھتی ہے، جیسی ہمیشہ رکھی رہتی تھی۔
پھر کھڑی ہوکر آہستہ آہستہ ٹہلنے لگتی ہے۔
ننھی عائشہ جھولے میں سو رہی تھی۔

سارہ نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔
“کہتے ہیں مامتا عورت کی سب سے بڑی طاقت اور کمزوری ہے۔
بیٹا، میں تمہیں یہی نصیحت دوں گی: محبت صرف اللہ اور ماں باپ سے کرو۔

پھر وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
اپنے چہرے کو دیکھا۔
“شازین احمد نے اس عام سی لڑکی کو اپنی محبت سے کتنا خوبصورت بنا دیا…
محبت میں سب کچھ نہیں ملتا، محبت میں بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے — جیسے میں نے اپنے آپ کو چھوڑ دیا۔”

اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
وہ بیڈ پر بیٹھی، میڈیسن باکس سے گولیاں نکالیں، پانی پیا، اور دوا کھالی۔

چند لمحوں بعد اس کا جسم کانپنے لگا، سانس تیز ہوگئی، چہرہ زرد۔
“شاید میں تھک گئی ہوں — محبت سے، رشتوں سے۔
زندگی کبھی کبھی دوا کی طرح ہوتی ہے، وقت پر نہ لی جائے تو زہر بن جاتی ہے۔
دل میں نفرت اور حسد نہ رکھو، ورنہ یہی زہر روح کو جلا دیتا ہے۔
اپنے دل کو صاف رکھو، تاکہ تمہیں میری طرح نیند کی گولیاں نہ کھانی پڑیں…”

یہ سوچ کر وہ بیڈ پر لیٹ گئی — اور سو گئی۔

عائشہ کے رونے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔
زارا جو یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی، کمرے میں گئی۔
بچی کو گود میں اٹھایا تو وہ چپ ہوگئی۔

“کیسی ماں ہے یہ؟ بچی رو رہی ہے اور یہ مزے سے سو رہی ہیں!”
زارا نے طنز کیا، پھر دیکھا —
سارہ کے منہ سے سفید جھاگ خشک ہو چکی تھی۔

زارا گھبرا کر نیچے بھاگی۔
“امی! تائی جی! سارہ بھابھی کو کچھ ہوگیا!”

سب اوپر بھاگے۔
شازین بھی، جو ماں بیگم کے کمرے سے نکل رہا تھا۔

وہ سارہ کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہتا تھا — مگر رک گیا۔
اب وہ اس کے لیے نامحرم بن چکی تھی۔

کچھ دیر بعد ہسپتال میں، ڈاکٹر باہر آئے:
“مجھے افسوس ہے، مس سارہ کی وفات ہو چکی ہے۔
انہوں نے ایکسپائرڈ نیند کی گولیاں کھائی تھیں،
جس کے ری ایکشن سے ان کا سسٹم فیل ہوگیا۔”

سب سن ہو گئے۔

چھ سال بعد:

اسلام آباد کی ہوا میں فجر کی اذان گونج رہی تھی۔
ایک چھوٹے سے فلیٹ میں عروہ مصلہ بچھائے نماز پڑھ رہی تھی۔
اب وہ پہلے والی عروہ نہیں رہی — وہ ایک سنجیدہ، مضبوط عورت بن چکی تھی۔
عمر تیس برس۔

اس نے فیروزی رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا، اور دادو کا دوپٹہ نماز کی طرح اوڑھا ہوا تھا۔
نماز کے بعد قرآن اٹھایا، چوما، سورۂ رحمن کی تلاوت کی، پھر احترام سے رکھ دیا۔

وہ کھڑکی کے پاس آئی، جہاں سورج کی پہلی کرن اسلام آباد کے آسمان پر چمک رہی تھی۔

ہر صبح ایک نئی امید ہوتی ہے،
شاید اس بار زندگی مجھے دوبارہ جینے کا موقع دے دے…
اس نے دل میں کہا۔

کیا زندگی واقعی عروہ کو دوبارہ جینے کا موقع دے گی؟
یا نئے امتحانات اس کے راستے میں کھڑے ہوں گے؟

جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *