zindagi ke rang apno ke sang written by syeda tooba batool Episode 28

زِندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر 28

از قلم سیدہ طوبیٰ بتول 

اسکول کے پلے گراونڈ کو گلابی غباروں اور گلابی پھولوں سے سجا رکھا تھا۔ عروہ نے گلابی رنگ کی سلک کی لمبی قمیض اور اسی رنگ کا ٹراوزر پہن رکھا تھا، دوپٹہ ہمیشہ کی طرح کندھے پر تھا۔ اس کے لمبے سیدھے بال کمر تک آرہے تھے۔ گلے میں دانیال کی دی ہوئی وہی چین تھی۔ وہ مسکراتی ہوئی بچوں کی ماؤں سے ہاتھ ملا رہی تھی اور مائیں کرسیوں پر بیٹھتی جا رہی تھیں۔
بچے اپنی ماؤں کے پاس جا کر گلے مل رہے تھے، مگر وہیں بینچ پر عائشہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں کارڈ تھا مگر آنکھوں میں کئی آنسو۔
جب عروہ سب ماؤں سے مل چکی تو وہ عائشہ کے پاس آ کر بیٹھی۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی،
کیا ہوا بچے، آپ کی مما نہیں آئیں؟
عائشہ نے عروہ کی طرف دیکھا، پھر اپنی ننھی انگلیوں سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی،
بابا کہتے ہیں میری مما اللہ میاں کے پاس ہیں۔
یہ سنتے ہی عروہ نے عائشہ کو اپنی گود میں اٹھا لیا،
وہ بہت اچھی جگہ ہیں۔ آپ کو پتا ہے میری مما بھی الحمدللہ زندہ ہیں، مگر میرے پاس نہیں۔ مما چاہیں کہیں بھی ہوں، وہ ہمیشہ…
یہ کہہ کر عروہ نے اپنا ہاتھ عائشہ کے دل کے پاس رکھا،
یہاں رہتی ہیں۔
عائشہ مسکرائی، ویسے مس سب مجھ سے پوچھیں گے میری مما کہاں ہیں۔ دو سال سے میری مما نہیں آرہیں، سب مجھے بہت bully کرتے ہیں۔ تب تو آپ میری مس نہیں تھیں نا؟ پلیز آج آپ میری مما بن جائیں؟
عروہ نے عائشہ کے گال پر ہاتھ رکھا، نہیں بچہ، میں تو آپ کی مس ہوں۔
عائشہ نے منہ بنایا،
اوکے، آپ چاہتی ہیں میں bully ہوں۔
یہ کہہ کر ادا سے منہ پھلایا تو عروہ مسکرا اٹھی۔
اوکے بچہ، ویسے بھی ٹیچرز ہمارے spiritual parents ہوتے ہیں۔
عروہ نے عائشہ کو گود میں لیا اور کرسی پر جا بیٹھی جہاں باقی مائیں بھی بیٹھی تھیں۔

تبھی اسٹیج پر پرنسپل آئیں،
گڈ مارننگ! ہر سال مدرز ڈے کے موقع پر ہم بچوں اور ان کی ماؤں کو جمع کرتے ہیں۔ بچے اپنی ماؤں کے لیے کارڈ بناتے ہیں۔ ہمیں کسی ایک کارڈ کو منتخب کرنا ہوتا ہے جو سب سے خوبصورت ہو۔ آج بھی ہم نے تین کارڈ سلیکٹ کیے ہیں، اب ان میں سے ایک فائنل کیا جائے گا۔
پھر پرنسپل نے آرٹ ٹیچر کو بلایا۔ آرٹ ٹیچر نے ایک کارڈ منتخب کر کے پرنسپل کے حوالے کیا۔
آج کا بیسٹ مدرز ڈے کارڈ جاتا ہے مس عروہ اور ان کی بیٹی عائشہ کو۔

عائشہ اور عروہ اسٹیج پر آئیں، سب نے تالیاں بجائیں۔
عائشہ اور عروہ نے کیک کاٹا، جس پر لکھا تھا:
To all the mothers in heaven and on earth.

انہیں بیسٹ مدر اینڈ ڈاٹر کی ٹرافی ملی۔
عروہ نے مائیک پر کہا،
ہر عورت کے دل میں مامتا ہوتی ہے۔ کسی کا درد محسوس کرنا، کسی کے آنسو پونچھنا — یہی ماں کا رشتہ کہلاتا ہے۔

ریحانہ بیگم اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں شاہ زین اور دانیال کی ایک تصویر تھی، جس میں دونوں ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھے مسکرا رہے تھے۔ وہ فریم کو چھوتی ہیں، آنسو تصویر پر ٹپکنے لگتے ہیں۔
ماں کا سب سے بڑا سکون اس کے بچوں کی خوشی اور سب سے بڑا درد ان کی کمی ہوتی ہے۔
وہ اپنے آنسو پونچھتی ہیں، ہلکی مسکراہٹ ان کے چہرے پر آتی ہے۔

کچھ سال پہلے کا فلیش بیک
دانیال اور شاہ زین کچن میں تھے۔ دونوں نے ایپرن پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے کیک بنایا اور وہ لے کر ریحانہ بیگم کے کمرے میں گئے۔ شاہ زین نے پھولوں کا گلدستہ دیا اور دانیال نے کیک پیش کیا۔ ریحانہ بیگم مسکراتی ہوئیں دونوں بیٹوں کو گلے لگا لیتی ہیں۔

حال میں واپس آکر وہ تصویر سینے سے لگا لیتی ہیں۔

اسلام آباد
شاہ زین آفس میں بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے لیپ ٹاپ اور فائلیں بکھری تھیں۔ میز پر ایک فیملی فوٹو رکھی تھی — دانیال، عروہ، شاہ زین اور سارہ دلہا دلہن کے روپ میں، اور ساتھ ریحانہ بیگم و کاشف صاحب۔
شاہ زین نے فوٹو اٹھایا،
بھیا، آپ کے جانے سے ہماری فیملی ٹوٹ گئی…
اس نے فون پر اپنی ماں کا پرانا وائس میسج چلایا:
بیٹا، میٹنگ کیسی ہوئی؟ یقیناً اچھی ہوئی ہوگی۔ میں نے دعا جو کی تھی۔ پروردگار سے دعا ہے تم مزید ترقی کرو، آمین۔
وہ فون جیب میں رکھ کر آہستہ سے بولا،
کچھ رشتے دور ہو کر بھی ٹوٹتے نہیں… ماں کی دعا ہمیشہ ساتھ ہوتی ہے، ماں کا پیار ایسا ہے جو دور ہو کر بھی محسوس ہوتا ہے۔

گاؤں میں
آمنہ بیگم صحن میں پلنگ پر بیٹھی تھیں۔ ہاتھ میں سارہ کی شادی کی تصویر تھی، جس میں سارہ ان کے کندھے پر سر رکھے بیٹھی تھی۔
میری بچی کہاں چلی گئی ماں کو تنہا چھوڑ کر؟ یا اللہ، تُو نے مجھے ماں بنایا مگر میری گود اجاڑ دی۔ ارے مجھے بلا لیتا، میری جوان بچی کو اپنے پاس بلانے کی کیا جلدی تھی…
پھر وہ تصویر کو چومتی ہیں۔
ماں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بچے ہمیشہ پاس رہیں، بلکہ ماں تو تب بھی ماں ہوتی ہے جب اس کے بچے مٹی تلے سو رہے ہوتے ہیں۔

نگینہ بیگم کے کمرے میں
اگربتی کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ فیضان صاحب اور کاشف صاحب قالین پر بیٹھے تھے۔ دونوں نگینہ بیگم کی ارم چئیر کو چھو رہے تھے۔
کاشف صاحب نے آہ بھری،
امی جی، آپ کے بغیر گھر میں سناٹا چھا گیا ہے…
آنکھوں کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے،
امی، آپ کی دعائیں اب بھی ہوا کے ساتھ محسوس ہوتی ہیں۔ جیسے اب بھی آپ کا شفقت بھرا ہاتھ ہمارے سروں پر ہے۔ امی، میں اتنا امیر ہوں کہ مہنگی سے مہنگی چیز خرید سکتا ہوں، مگر آپ کو واپس نہیں لا سکتا…
وہ چلے گئے۔
فیضان صاحب نے سر ارم چئیر پر ٹکا دیا۔
ماں بیگم، ایک آپ ہی تھیں جو سب کو جوڑ کر رکھتی تھیں۔ اب سب اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ عروہ، شازین سب اس گھر سے دور ہیں۔ آپ ہوتیں تو سب ایک ہو جاتے…
انہوں نے اگربتی بجھائی۔
جب بھی مصیبت میں گرفتار ہوتے، آپ کہتی تھیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کہتے ہیں ماں قبر میں بھی دعا کرتی ہے — آپ دعا کریں نا، کہ سب ٹھیک ہو جائے…

شاہ زین کے گھر میں
وہ ابھی آیا تھا، فریش ہو کر سینڈوچ بنا رہا تھا کہ عائشہ ہاتھ میں ٹرافی لیے باہر آئی۔
بابا، دیکھیں! مجھے بیسٹ مام اینڈ ڈاٹر والی ٹرافی ملی!
شاہ زین حیران ہوا،
لیکن آپ کو کیسے ملی؟
عائشہ نے ٹرافی صوفے پر رکھی، پھر شاہ زین کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی،
او ہو بابا! سب کی ممی ہوتی ہیں نا، تو میں نے سوچا میں بھی جھوٹی کی ممی بنا لوں، سو میں نے اپنی مس کو اپنی ممی بنا لیا!
شاہ زین ہنس دیا،
مگر بچہ، یہ تو اچھی بات نہیں ہوئی نا؟
عائشہ نے منہ پھلایا،
بابا سوری، بٹ میں نے انہیں تھینکس کہنے کے لیے ڈنر پر بلایا ہے… اور وہ آتی ہی ہوں گی!
شاہ زین نے حیرانی سے سر پکڑا،
ارے بچہ! اتنی جلدی تیاری کیسے ہوگی؟ چلو خیر، میں ویسے بھی سینڈوچ بنا رہا ہوں، پیزا اور آئس کریم آرڈر کر لیتا ہوں!

کیا ہوگا جب عروہ کو سارہ کی موت کا علم ہوگا؟
کیا شاہ زین لے جائے گا اسے واپس روشن ولا؟

 

جاری ہے۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *