Zindagi ke rang apno ke sang written by syeda Tooba batool Episode 3…

زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:3

ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔

جب عروہ یونیورسٹی سے واپس آئی تو تھکن کے باعث سو گئی تھی۔ لہٰذا اس نے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔

اب اسے بہت بھوک لگ رہی تھی۔ وہ پیٹ پکڑے اپنے کمرے میں چکر لگا رہی تھی۔ ملازمہ بھی اپنے گھر جا چکی تھی اور گھر کے تمام افراد بھی سو چکے تھے۔آج صبح سے نگینہ بیگم، فرحت بیگم اور ریحانہ بیگم کے ساتھ گاؤں گئی ہوئی تھیں، لہٰذا اب اسے کھانا کون لا کر دیتا۔

زارا کے بھی پیپرز چل رہے تھے، وہ اپنی فرینڈز کے ساتھ کمبائن اسٹڈی کے لیے ان کے گھر گئی ہوئی تھی۔

عروہ سیڑھیاں اتر کر کچن میں آئی، فریج سے کھانا نکالا اور مائیکرو ویو میں گرم کرنے لگی۔ تبھی کسی نے اچانک لائٹ بند کردی۔

وہ گھبرا کر زور سے چلائی۔

سامنے سے ہنسی کی آواز آئی۔

اس نے موبائل کی ٹارچ جلائی اور کچن کی لائٹ آن کی تو سامنے دانیال کھڑا تھا۔دانیال چونکہ ایک جنرل فزیشن تھا، اس لیے صبح اسپتال جلدی چلا جاتا اور رات دیر سے واپس آتا تھا۔

عروہ کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا۔ اس نے اسپون اسٹینڈ سے چھری اٹھائی اور دانیال کو دکھانے لگی۔

دانیال نے فوراً دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر سرینڈر کیا۔

عروہ ہنس دی، چھری واپس رکھ دی اور مائیکرو ویو سے کھانا نکال کر ڈائننگ ٹیبل پر لے آئی۔

کچن میں آ کر کیبنیٹ کھولتے ہوئے بولی،دانیال بھائی، کھانا کھائیں گے؟

وہ مسکرا کر بولا، کیوں نہیں، تم پلیٹس لگا لو، میں فریش ہو کر آتا ہوں۔

دانیال یہ کہہ کر اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

کچھ دیر بعد وہ دونوں ڈائننگ ٹیبل پر ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، باتیں کر رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے۔ اتنے میں شازین جو کہ پانی کی خالی بوتل لیے سیڑھیاں اتر رہا تھا، ان دونوں کو ہنستا دیکھ کر تپ گیا۔

وہ نیچے اترا اور تالیاں بجائیں۔

دانیال مسکراتے ہوئے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ عروہ نے نظریں جھکا لیں اور خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔

شازین طنزیہ انداز میں بولا،واہ عروہ بی بی! ایک کزن سے تو چھپتی پھرتی ہیں کہ ماں بیگم کا حکم ہے، اور دوسرے کے ساتھ رات کے اس پہر کھانا انجوائے کر رہی ہیں؟یہ کہہ کر اس نے بوتل میز پر رکھ دی۔

دانیال کا چہرہ سخت ہوگیا۔ اس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کیے اور شازین کو دھکا دیا۔

شرم کرو، بہن کہتا ہوں میں اسے! اگر کوئی مسئلہ ہے تو جا کر دادو سے بات کرو، مجھ سے نہیں!یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر چلا گیا۔

عروہ نے چپ چاپ کھانا ختم کیا جبکہ شازین کچن میں پانی بھرنے چلا گیا۔

عروہ برتن دھو کر جانے ہی لگی تھی کہ شازین نے اس کی کلائی پکڑی اور مروڑنے لگا۔

عروہ اس کے اس رویّے پر حیران رہ گئی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ شازین ایسا کیوں کر رہا ہے۔

اور شازین خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے — کیا یہ محبت تھی؟ یا صرف ان پر لگے الزامات کا ردِعمل؟

یہ تو یا تو خدا جانتا تھا یا یہ دونوں۔

عروہ نے ایک ہاتھ سے سلیب پر رکھی چھری اٹھائی۔ شازین نے یہ دیکھ کر فوراً ہاتھ چھوڑ دیا، دو قدم پیچھے ہٹا اور دروازے سے جا لگا۔

عروہ نے چھری واپس اسٹینڈ میں رکھی اور زمین کی طرف دیکھتے ہوئے بولی:شازین بھائی! کیا آپ ہم پر لگے الزامات کو سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا چاہتے ہیں کہ میرے کردار پر مزید انگلیاں اٹھائی جائیں؟ آپ جانتے ہیں، عورت کی مثال سفید کپڑے جیسی ہوتی ہے — اگر اس پر پانی کا قطرہ بھی گر جائے تو نشان واضح رہتا ہے۔یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔

صبح سویرےشازین جب جاگنگ کے بعد گھر واپس آیا تو اپنے کمرے میں جانے کے بجائے ماں بیگم کے کمرے میں گیا۔ اسے ماں بیگم سے ضروری بات کرنی تھی، اور وہ جانتا تھا کہ اس وقت ان کا موڈ اچھا ہوتا ہے۔

اس نے دروازے پر دستک دی۔آ جاؤ۔ماں بیگم ارم چیئر پر بیٹھی صبح کا اخبار پڑھ رہی تھیں۔

شازین آہستگی سے اندر آیا۔السلام علیکم ماں بیگم!وہ جھک کر ان کے ہاتھ چومتے ہوئے بولا۔

وعلیکم السلام، شازی!ماں بیگم نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا۔

شازین کارپٹ پر بیٹھ گیا اور ان کے ہاتھ تھام لیے۔ماں بیگم، مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ عروہ کی شادی ہو جائے۔ نہیں تو یہاں رہ کر وہ گھٹ جائے گی۔شازین نظریں جھکا کر بولا۔

ماں بیگم نے نرمی سے کہا،بیٹا، رشتے بازاروں میں نہیں بکتے۔یہ کہہ کر انہوں نے اس کے ہاتھ تھام کر مسکرا دیا۔

شازین چپ سا ہو گیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔

ماں بیگم سوچوں میں گم رہ گئیں۔

روشن ولا میں جشن کا سا ماحول تھا۔چھت رنگ برنگی لائٹوں سے سجی ہوئی تھی۔ لان میں کرسیاں اور میزیں ترتیب سے لگی تھیں۔آج نگینہ بیگم کی سالگرہ تھی، اور ہر سال کی طرح اس بار بھی دھوم دھام سے تقریب ہو رہی تھی۔ماں بیگم اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کرسی پر بیٹھی تھیں۔

بیوٹیشن کو بلایا گیا تھا۔میم، آپ کون سی سروسز لیں گی؟ ذرا ریپیٹ کر دیں۔ بیوٹیشن میک اپ بیگ کھولتے ہوئے بولی۔

ماں بیگم بولیں،سنو لڑکی، وہ جو انگریزی لفظ ہے نا، کیوٹی کورر — وہ کروانا ہے ہاتھ پاؤں پر۔

بیوٹیشن مسکرائی، میم، وہ مینی کیور پیڈی کیور ہوتا ہے۔

ہاں ہاں وہی! اور چہرے پر جو کریمیں لگتی ہیں نا، جس سے چہرہ گورا ہو جاتا ہے —

فیشل کروانا ہے۔

دیکھو، بلکل بشریٰ انصاری جیسی لگنا چاہیےبیوٹیشن نے سر ہلاتے ہوئے کہا،ٹھیک ہے میم، پہلے مینی کیور پیڈی کیور کر لیتی ہوں، پھر ہائیڈرا فیشل کر دوں گی۔

اور سنو، کپڑے بدلنے کے بعد بالوں کا جوڑا بنانا ہے — اونٹوں جیسا جوڑا مت بنانا

جی میم، نارمل جوڑا بنا دوں گی۔

دیکھو، آج میری باسٹھویں سالگرہ ہے مگر لگنا یوں چاہیے جیسے میں چھبیس کی ہوں!یہ کہہ کر ماں بیگم نے آنکھیں بند کر لیں۔

بیوٹیشن دل میں بولی، بوڑھی گھوڑی لال لگام!کچھ دیر بعد ماں بیگم آئینے کے سامنے کھڑی تھیں۔

مہرون بنارسی ساڑھی میں وہ واقعی خوبصورت لگ رہی تھیں۔

انہوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور خود سے بولیں:عورت کا حسن کتنا نازک ہوتا ہے، کتنا خطرناک بھی۔

ہم اپنے اصلی چہرے کو چھپانے کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں۔

اصل خوبصورتی تو دل کی ہوتی ہے، مگر پھر بھی ہم سجتے سنورتے ہیں

کیونکہ یہ ہماری زندگی ہے، اور ہم اسے اپنے طریقے سے جینا چاہتے ہیں…

یہی میرا اصول ہے۔

دروازے پر دستک کی آواز نے ان کے خیالات کا سلسلہ توڑ دیا۔

جاری ہے۔۔۔

1 Comment

  1. Ahh mje bht psnd arha jldi complete krdee

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *