زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:4
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
جی آئیے!ماں بیگم جیولری باکس سے گھڑی نکال کر پہنتے ہوئے بولیں۔
عروہ دبے دبے قدموں سے اندر آئی۔ کمر کے پیچھے ہاتھ چھپے ہوئے تھے جیسے کچھ چھپا رہی ہو۔عروہ کو دیکھ کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی جبکہ عروہ کی آنکھوں میں نمی تھی۔
آج کتنے دنوں بعد وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔اس نے اپنے ہاتھ آگے کیے — ہاتھوں میں لال رنگ کا مخملی ڈبہ تھا جو کہ جیولری باکس تھا۔
اس نے باکس کھولا۔دادو یہ آپ کا برتھ ڈے گفٹ ہے۔ پچھلے سال سے پیسے جمع کر رہی تھی تب جا کر یہ سونے کا سیٹ آپ کے لیے لے پائی ہوں۔میں جانتی ہوں کہ آپ کے سامنے تو یہ ایک حقیر سا تحفہ ہے مگر میں نے یہ دل سے لیا ہے۔
باکس ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر وہ نم آنکھوں سے بولی اور جانے لگی تھی کہ ماں بیگم کی آواز نے اسے روکا۔
رکو!وہ پلٹی۔ ماں بیگم نے بانہیں پھیلائیں تو وہ بے اختیار ان کے گلے لگ گئی۔
سارے جہان کا سکون اب اسے مل چکا تھا۔وہ اب رونے لگی تھی اس کے آنسو ماں بیگم کی ساڑھی میں جذب ہونے لگے تھے۔
لڑکی اب ہٹ بھی جاؤ نئی ساڑھی ہے تمہارے آنسوؤں کی بارش سے گیلی ہو جائے گی۔ان کی بات پر عروہ نے دوپٹے سے آنسو اور گلابی ناک صاف کی اور ہلکا سا مسکرا دی۔
ماں بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا باکس سے ہار نکالا اور پہن لیا۔ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے ٹاپس اور انگوٹھی بھی تھی۔
عروہ نے موبائل سے ماں بیگم کی تصویر لی۔
ماں بیگم مسکراتے ہوئے بولیں دیکھو بیٹا تحفے کھو جاتے ہیں لیکن رشتے کھونے نہیں چاہییں۔
میں جانتی ہوں اتنے دن تمہیں کمرے میں سب سے الگ تھلگ رہنے کو کہامگر بیٹا یہ سب میں نے تمہارے لیے کیا۔تم میرے لیے عزیز ہو۔جانتی ہو جب تم پیدا ہوئی تھیں اور صرف تین ماہ کی تھیں تو تمہاری ماں کے بی اے کے امتحان ہونے تھے
۔میں نے تب سے تمہیں پالا۔پھر جب وہ پڑھائی سے فارغ ہوئی تو زارا پیدا ہوگئی۔جب بچہ بڑا ہوتا ہے اور بولنے لگتا ہے تو پہلا لفظ ماں یا باپ ہوتا ہےتم نے پہلی بار مجھے ماں کہا تھا۔
اور میرا شازین وہ بھی مجھے عزیز ہے کیونکہ وہ میرا دوسرا پوتا ہے۔دانیال بھی اچھا بچہ ہے مگر وہ شروع سے اپنے دادا کا چمچا رہا ہے۔جبکہ شازین بالکل اپنے مرحوم دادا کی شبیہ ہے۔وہ تین سال کا تھا جب تمہارے دادا کا انتقال ہوا۔
تم اس وقت پانچ ماہ کی تھیں۔میں عدت میں تھی وہ میرے پاس آتا اپنے دادا کی نقل اتارتا اور مجھے بیگم کہتا۔
تب ہی سے میرا نام ماں بیگم پڑ گیا۔
عروہ نے آگے بڑھ کر نگینہ بیگم کا ہاتھ تھاما۔دادو مجھے آپ کی کسی بات کا برا نہیں لگتا۔
یہ کہہ کر وہ دوبارہ جانے لگی تھی۔تم تیار ہو آؤ ہم ساتھ نیچے لان میں چلتے ہیں۔وہ ہلکی سی مسکرائی۔
لیکن دادو ابھی تو میں نے کپڑے بھی ڈیسائیڈ نہیں کیے کیونکہ مجھے پتا تھا آپ مجھے شاہ زین کے سامنے نہیں آنے دیں گی۔وہ کھوئی کھوئی سی بولی۔
ہاں میں جانتی ہوں۔ لیکن اب سب بھول جاؤ۔ کوئی بات نہیں تم نے کپڑے نہیں نکالے تو آج تم میری جوانی کا جوڑا پہنو گی
جو خاص تمہارے لیے ہے۔عروہ گہرا سانس لے کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔نگینہ بیگم نے الماری سے نیلا سوٹ کیس نکالا زپ کھولی اور اس میں سے ہینگر پر لٹکا جوڑا نکال کر عروہ کے ہاتھوں میں دیا۔
جانتی ہوں یہ میری بری کا جوڑا ہے۔ میں بھی پہلے تمہاری طرح دھان پان سی تھی۔تین چار بار یہ پہنا پھر بچوں کے بعد کبھی موقع ہی نہیں ملا۔وہ مسکرا دیں۔پھر جب بہوؤں کی بری تیار کر رہی تھی تو تمہارے دادا نے کہا کہ یہ جوڑا بری میں دے دو مگر میرا دل نہیں کیا۔اتنی چاہ سے یہ میری ساس نے بنوایا تھا۔پھر تمہاری پھوپھو کی شادی ہوئی اس نے بھی کہا امی یہ جوڑا جہیز میں دے دیں مگر میں نے کہا نہیں یہ بہت خاص ہے۔
اور آج میں یہ جوڑا تمہیں دے رہی ہوں کیونکہ تم بہت خاص ہو۔ہو بہو میری جوانی کی تصویر۔چلو تم تیار ہو جاؤ میں انتظار کر رہی ہوں۔ ساتھ نیچے چلیں گے۔
عروہ ماں بیگم کی باتیں سن کر ان کے گلے لگ گئی کپڑے لیے اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔کمرے میں آتے ہی اس نے سوٹ بیگ سے نکالا بیڈ پر رکھا اور واش روم میں نہانے چلی گئی۔
نہانے کے بعد سادہ لان کا جوڑا پہن کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوئیہیئر ڈرائر سے بال سکھائے مسکرائی پھر دادو کا دیا ہوا نیلا انارکلی سوٹ پہناجس پر دبکے کا نازک کام تھا۔
میچنگ دوپٹہ کندھے پر پن کیا قدرتی سیدھے بال ایک کندھے پر ڈالے۔میک اپ کے نام پر صرف کاجل مسکارا اور ہلکی گلابی لپ اسٹک تھی۔پرفیوم لگایا گولڈن ہیلز پہنی الماری سے گولڈ ائیر رنگ نکالےجو والدین نے یونیورسٹی ایڈمیشن پر گفٹ کیے تھےاور ہاتھ میں گولڈ بریسلٹ پہنا جو شاہ زین نے پہلی کامیاب بزنس ڈیل پر دیا تھا
موبائل اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل آئی۔وہ موبائل میں مگن باہر آرہی تھی وہیں سے دانیال اور شاہ زین بھی بات کرتے ہوئے باہر نکل رہے تھے۔
عروہ کا پاؤں مڑا توازن بگڑا اور وہ دھھپ سے زمین پر گر گئی۔شازین اور دانیال فوراً اس کی طرف لپکے۔انہوں نے ہاتھ بڑھائے مگر اس نے گھوری سے نوازا اور زمین سے خود ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔
مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں لڑکی ہو یا عورت اسے مردوں کا سہارا لینے پر مجبور کیا جاتا ہےاور جب وہ ایسا کرتی ہے تو سب اسے ایسی نگاہوں سے دیکھتے ہیں جیسے اس نے کوئی جرم کیا ہو۔
یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں اتر کر جا چکی تھی۔
دانیال کو کسی پیشنٹ کی کال آ گئی وہ فون پر مصروف ہو گیا۔
شاہ زین نے سر جھٹکا اور دل میں بولا
یہ عروہ کتنی سمجھدار ہو گئی ہے۔پھر وہ بھی سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا گیا۔—
جاری ہے۔۔۔۔
