zindagi ke rang apno ke sang written by syeda Tooba batool Episode 6

زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:6

ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔

اگلے دن عروہ یونیورسٹی سے واپس آرہی تھی۔ اس کا لاسٹ سمسٹر تو کب کا ختم ہوچکا تھا مگر اسے کچھ ڈاکیومنٹس کا کام تھا اسی لیے آج وہ یونی آئی تھی۔جب گاڑی ایک دم رکی تو وہ چونک گئی۔

کیا ہوگیا ڈرائیور انکل؟ گاڑی کیوں روک دی؟

ڈرائیور نے سیٹ بیلٹ نکالی۔بی بی لگتا ہے گاڑی میں کچھ مسئلہ ہوگیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں۔یہ کہہ کر وہ گاڑی سے اترا اور بونٹ کھول کر دیکھنے لگا۔

کچھ دیر بعد واپس آ کر بولا بی بی جی مجھے تو سمجھ نہیں آرہا کہ کیا مسئلہ ہے۔ میں گھر سے دوسری گاڑی منگوا دیتا ہوں۔یہ کہہ کر اس نے فون جیب سے نکالا۔

ڈرائیور انکل دوسری گاڑی آج نہیں ہوگی۔ ابا اور تایا جان شہر سے باہر گئے ہیں وہی گاڑی لے کر گئے تھے صبح ہی امی نے بتایا تھا۔

عروہ نے یاد کرتے ہوئے کہا۔

ڈرائیور نے کچھ سوچ کر کہاتو بی بی جی میں شاہ زین صاحب کو فون کر لیتا ہوں۔ وہ لنچ کے لیے گھر ہی جا رہے ہوں گے۔

شاہ زین اس کا نام سن کر وہ لمحہ بھر کو رکی نہیں ایک کام کیجیے دانیال بھـ ۔۔۔وہ بھائی کہتے کہتے رک گئی کیونکہ اب اس کا رشتہ دانیال سے طے ہوچکا تھا زبانی ہی سہی۔

جی بی بی دانیال بابا سے کہہ دیتا ہوں۔ ویسے بھی ان کا اسپتال پاس ہی ہے۔یہ کہہ کر ڈرائیور دوبارہ بونٹ دیکھنے لگا۔کچھ ہی دیر بعد دانیال گاڑی لے کر پہنچا۔عروہ گاڑی سے اتری اور دانیال کی گاڑی کی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی۔

میڈم اب تو بیگم بننے والی ہیں اب تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے دانیال نے مسکرا کر کہا۔

بیگم بننے اور ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔عروہ شیشے کے باہر دیکھتی ہوئی بولی۔

لگتا ہے آپ کو بہت جلدی ہے۔ قریب ہی مسجد ہے ایک فون کال کی دیر ہے سب گھر والے جمع ہو جائیں گے نکاح ہو جائے گا۔دانیال نے شرارت سے کہا۔

جی نہیں زیادہ باتیں مت کیجیے۔ مجھے گھر جانا ہے بھوک لگ رہی ہے۔عروہ نے چڑ کر جواب دیا۔

ایسا ہے تو کہیں کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا کھا لیتے ہیں۔دانیال نے آفر دی۔

جی نہیں مجھے گھر کا کھانا کھانا ہے۔وہ پھر سے خفگی سے بولی اور دانیال خاموشی سے ڈرائیونگ میں مصروف ہوگیا۔

گاڑی کار پورچ میں رکی۔دانیال نے دروازہ کھولا۔عروہ اترنے لگی تو وہ مسکرا کر بولا

Mrs to be!اب آپ کو شام تک انتظار کرنا پڑے گا۔

میں دوبارہ اسپتال جا رہا ہوں کچھ اپائنٹمنٹس ہیں۔یہ کہہ کر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔

عروہ سیدھی اپنے کمرے میں گئی۔ وضو کیا ظہر کی نماز ادا کی۔نماز سے فارغ ہو کر جب وہ مصلہ لپیٹنے لگی تو اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

مصلہ ریک پر رکھ کر وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی اور نماز کی طرح باندھا ہوا دوپٹہ کھولا۔دانیال کا سوچ کر اس کے چہرے پر نرمی آگئی۔

اس کے ذہن میں سوال گونجنے لگےکیا میں واقعی شادی کے لیے تیار ہوں؟

کیا دانیال اور میں خوش رہ پائیں گے؟

وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب زارا اچانک کمرے میں دھم سے داخل ہوئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔

آپی! مجھے میتھس کا یہ سم سمجھا دیں نا کل میرا مڈ ہے!

عروہ نے منہ بنایا اور دوپٹہ کندھے پر ڈال لیا۔

Dear sister!ابھی مجھے بہت بھوک لگی ہے لنچ کر کے سمجھا دوں گی۔

زارا نے گھور کر دیکھا مگر پھر ہنستے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے نکل گئی۔ کتاب اور کاپی وہیں بیڈ پر چھوڑ دی تھیں۔

جاری ہے۔۔۔

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *