qabooliyat by miss ahmed

qaboliyat by Taiba Ijaz

قبولیت از قلم مس احمد


انسان کہ سب سے بڑی جنگ اپنی ذات کے ساتھ ہوتی ہے۔جب تک ہم خود کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتے،ہم حقیقی خوشی اور اطمینان حاصل نہیں کرسکتے۔خودکوقبول کرنا،اپنی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنا،اور اپنی انفرادیت کو اپنانا ہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔یہ سفرآسان نہیں ہوتا،لیکن جب ہم خود کو پہچان لیتے ہیں، تو ہماری سوچ، ہمارے تعلقات اور ہماری کامیابیاں ایک نئےزاویےسےہمیں نظرآتی ہیں۔۔

”اپنے آپ کو اپنائیں باقی سب پہلےسےہی کوئی نہ کوئی ہے۔“

بہت سے لوگ خود سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ہر حال میں کامیاب ہونا چاہیے کسی بھی ناکامی کی گنجائش نہیں۔ جب وہ اپنی ہی بنائی گئی بلند توقعات پر پورا نہیں اترتے، تو وہ خود کو کمتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ہمیشہ دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنا خود کو نہ قبول کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ہم سوشل میڈیا پر دوسروں کی ”مثالی“ زندگی دیکھ کر اپنی حقیقت سے ناخوش ہو جاتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ہر شخص کی اپنی جدوجہد اور مشکلات ہوتی ہیں۔

ویسے بھی موازنا خوشی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔بچپن میں سنی گئی باتیں،والدین یا اساتذہ کی تنقید،دوسروں کی توقعات بھی انسان کے اندر احساس کمتری پیدا کر سکتی ہیں۔اگر کسی کو ہمیشہ یہ سننا پڑے کہ وہ کافی نہیں ہے،تو وہ بڑا ہو کر بھی اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگتا ہے۔ہمارے معاشرے میں لوگوں کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔اگر کسی کے خیالات،پسند ناپسند،طرز زندگی مختلف ہو تو لوگ اس پر تنقید کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔نتیجتاً،بہت سے لوگ اپنی اصل شخصیت چھپانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

”خود کو زبردستی فٹ کرنے کی کوشش مت کریں جبکہ آپ نمایاں ہونے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔“

جب ہم اپنی ذات کو قبول کر لیتے ہیں،تو ہمیں اندرونی سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ہم دوسروں کی توقعات کے مطابق جینے کی بجائے اپنی حقیقی خوشیوں پر توجہ دینے لگتے ہیں۔ اپنی خامیوں اور خوبیوں کو تسلیم کرنے کے بعد انسان کا اعتماد بڑھ جاتا ہے۔وہ اپنے فیصلے خود کرنے لگتا ہے اور دوسروں کی رائے سے متاثر ہونا چھوڑ دیتا ہے۔

Brene Brown کہتا ہے کہ

اپنی کہانی کو اپنانا اور اس عمل میں خود سے محبت کرنا سب سے بہادر کام ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔

جب ہم خود کو قبول کر لیتے ہیں، تو ہم اپنی طاقتوں پر کام کر سکتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو بہتر بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً،زندگی میں کامیابی کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ جو لوگ خود کو قبول کرتے ہیں، وہ دوسروں کے ساتھ بھی مخلص ہوتے ہیں۔وہ نہ دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ خود کو غیر ضروری طور پر کمتر سمجھتے ہیں جس سے ان کے تعلقات مزید مضبوط ہوتے ہیں۔

خود کو قبول کرنے کی کوشش میں اپنے آپ کو وہ عزت اور محبت دیں، جو آپ دوسروں کو دیتے ہیں۔ یاد رکھیں، آپ کا رویہ خود کے ساتھ کیسا ہے،یہی طے کرتا ہے کہ دنیا آپ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرے گی۔ہر انسان میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ہوتی ہیں۔ اپنی مثبت خصوصیات کو پہچانیں اور ان کو مزید بہتر بنائیں۔جیسے آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو سراہیں اسی طرح خود کو سراہیں۔ انسان میں غلطیاں اور خامیاں ہونا فطری بات ہے، ان سے شرمندہ ہونے کی بجائے ان کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ ہر کسی کو خوش کرنا ممکن نہیں، اگر آپ ہر وقت دوسروں کی رائے کو اہمیت دیتے رہیں گے تو آپ اپنی اصل شخصیت کھو دیں گے۔ اپنی غلطیوں سے سیکھیں،لیکن ان میں پھنس کر نہ رہیں۔ ماضی کو قبول کریں اور حال پر توجہ دیں۔مطلب نہ تو آپ نے ماضی پر پچھتانا ہے نہ مستقبل کو سوچ کر پریشان ہونا ہے۔

Just focus on your present.

اگر آپ کسی چیز میں خود کو کمزور محسوس کرتے ہیں، تو اس پر کام کریں۔ یہ خود کو قبول کرنے کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ایک لازمی حصہ ہے۔

ایسے لوگوں کے ساتھ رہیں،جو آپ کو مثبت انداز میں دیکھنے میں مدد دیں اور آپ کی اصل شخصیت کو سراہیں۔ یقین کریں اگر آپ منفی لوگوں کے ساتھ ہیں تو وہ صرف الفاظ کے ساتھ آپ کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔خود کو قبول کرنا ایک مسلسل عمل ہے، جو وقت اور محنت مانگتا ہے، لیکن یہ زندگی میں سکون، خوشی، اور کامیابی کا سب سے بڑا راز بھی ہے۔جب ہم خود کو تسلیم کر لیتے ہیں تو ہم اپنی اصل طاقتوں کو پہچاننے لگتے ہیں۔ اپنے خوابوں کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، اور زندگی کو ایک نئےزاويے دیکھنے لگتے ہیں۔

تو خود سے محبت کریں، اپنی انفرادیت کو اپنائیں، اور خود کو ویسا ہی تسلیم کریں جیسے آپ ہیں۔

کیونکہ دنیا میں کوئی دوسرا ”آپ“ نہیں ہے!

”اس دنیا میں اپنی اصل شخصیت کو برقرار رکھنا،جو تمہیں بدلنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے،سب سے بڑی کامیابی ہے۔” Emerson

2 Comments

  1. Bilkul thk kaha ap NY khud ko qabool krna chahye or khud ko bnana chahye but hum Jin k sath rahty ha wo hi humy qabool ni krty or hum in ki khatir khud ko bdlty bdlty thuk jaty ha

  2. زبردست پیغام دیا گیا ہے اس ارٹیکل میں رائٹر نیم بہت اچھی طرح سے لوگوں کی احساسیں کمتری کو بیان کیا گیا کہ انسان کو اپنے اوپر زیادہ درجہ دینی چاہیے دوسروں کی سوچوں سے خود کو پرکھنا چھوڑنا چاہیے تبھی وہ اگے بڑھے گا ماشاءاللہ سے بہت اچھا لکھا گیا ہے اللہ مزید کامیابی دے

Leave a Reply to Tasmia kanwal Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *