dil e ashoob

Dil E Ashoob written by Qalam Nigaar part 1

دلِ آشوب ♥

ازقلم مائدہ صفدر اعوان

                    

اگست کی وہ سہانی شام تھی۔ سورج اپنی سنہری کر نیں سمیٹ کر مغرب کی آغوش میں چھپنے کی تیاری میں تھا۔ شہر کے شوروغل سے ذرا فاصلے پر خالہ کا گھر ایک پرانے طرز کی کوٹھی جیسا تھا۔ میں ان دنوں اماں کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچ کر خالہ کے ہاں چلی آئی تھی آج موسم معمول سے ہٹ کر خاصا خوشگوار تھا۔ ہلکی سی نمی، پھوار کی سی کیفیت، میں نے اپنے آرگنزا کے ہلکے نیلے رنگ کے دوپٹے کو سنبھالا اور چھت پر چلی آئی۔ آج کا موسم گزشتہ دنوں کے مقابلے میں خاصا خوشگوار تھا۔ میں چائے کا کپ اور پکوڑوں کی پلیٹ اُٹھائے چھت پر رکھے ایک خوبصورت سے گول نما جھولے پر بیٹھ گئی۔ پکوڑوں اور چائے نے موسم کا لطف دوبالا کر دیا۔ ویسے تو میرا کہیں آنے جانے کو جی نہ کرتا تھا لیکن خالہ کے بار بار اصرار پر مجھے آنا ہی پڑا۔ خالہ میرے آنے پر بہت خوش تھیں ساتھ سمر اور رافعہ بھی۔ میں پورے چار برس بعد آئی تھی اور کافی سکون محسوس کر رہی تھی۔ جوں ہی میرا بی اے مکمل ہوا، اماں نے تو میری شادی کے حسین خوابوں کا تانا بانا بن ڈالا، میری زبان پر بھی عام لڑکیوں کی سی روایتاً یہی گھسی پٹی دلیل تھی کہ ’’میں نے تو ابھی جاب کرنی ہے۔‘‘

میں نے خالہ سے نہ جانے کتنی بار کہا کہ امّاں کو سمجھائیں، مگر امّاں کے آگے خالہ کی کب چلتی تھی۔ خالہ تو خالہ، اگر ملک کا وزیرِاعظم بھی ہانپتا کانپتا آ کر میری حمایت میں تقریر جھاڑ دیتا، تب بھی امّاں کی ایک بھنویں تک نہ ہلتی، ٹَس سے مَس ہونا تو دور کی بات ہے۔ خالہ کے بس میں یہی ممکن تھا کہ وہ مجھے امّاں کی توپوں کی زد سے بچا کر اپنے پاس پناہ دے لیں۔  پچھلی بار جب ماموں رفیق کی سالی کی شادی تھی، اماں مجھے ساتھ گھسیٹ کر لے گئیں جیسے میں کوئی قربانی کا بکرا ہوں اور وہاں پر ہر عمر کی عورتوں سے مجھے ملوانے لگیں اس امید سے کہ کہیں سے تو میرا ٹنکا فٹ ہوگا۔ اور وہ عورتیں اف خدایا! ایسے لپٹ رہیں تھیں مجھ سے جیسے بھوکی مکھیاں رس گلے کو لپٹتی ہیں۔ کسی کا بیٹا سرکاری افسر تو کسی کا انجینئر یا ڈاکٹر۔ ساجزادوں کے نام سن کر ہی متلی ہونا شروع ہوجاتی ، کوئ بشیر تو کوئی نزیر، کوئی مشتاق احمد تو کوئی خادم حسین۔ جب سب کی طرف سے میں نے ریجیکش پیپر سائن کردیا تو ماں بھی مایوس ہو کر تیکھی نظروں سے مجھے دیکھنے لگیں اور میں نے منہ دوسری طرف موڑ دیا۔اماں کی سب سے بڑی پریشانی یہی کہ کب میرے ہاتھ پیلے ہوں گے۔ لیکن مجھے شادی کی کوئی جلدی نہ تھی۔ ابھی میری عمر ہی کیا ہے، بائیس سال۔ یہ بات میں نے اماں کے سامنے جب بھی دہرائی، اُلٹا مجھے اماں کا ایک کرارے دار چانٹا ہی پڑا۔ امّاں کے بقول شادی کی یہی موزوں عمر ہے اور اسی عمر میں اچھے رشتے دستک دیتے ہیں، مگر میرے نزدیک اچھے رشتے تو محض قسمت کا انعام ہوتے ہیں۔ اور قسمت بھی صاحب! ہر کسی پر یکساں مہربان نہیں ہوتی، بعض کے لیے تو چٹکی بجاتے ہی شہزادوں کی لائن لگ جاتی ہے۔ اور بعض ساری عمر شادی کا لڈو کھانے کو ترستے رہ جاتے ہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی موسم کی۔موسم آج معمول سے ہٹ کر تھا، بالکل میری طبیعت کے مطابق۔ اتنے میں رافعہ اپنا شیفون کا ڈوپٹا لہراتی ہوئی اُوپر آگئی۔اور آتے ساتھ ہی میرے ہاتھ سے پکوڑوں کی پلیٹ جھپٹنے کے انداز میں لی اور سامنے پڑی ایک کرسی پر پاؤں اوپر چرھا کر گود میں پلیٹ رکھ کر بیٹھ گئ، جس پر میرا منہ ایک کدو کی شکل اختیار کر گیا۔

“ہائے باجی پکوڑے کھا رہی ہو، وہ بھی اکیلے اکیلے؟“

میں نے اُسے آتے ہوئے نہ دیکھا۔ سامنے آئی تو پتہ چلا۔ کاش کہ میں اس کے آنے سے پہلے ہی پکوڑوں پر ہاتھ صاف کرلیتی۔

”ہاں اکیلے کہاں، اب تم اپنی ساری ناز و انداز سمیت تشریف لے آئ ہو تو اکیلے سارے پکوڑے کھانے کا مزا تو گیا۔“ میں نے طنزیہ اُسے کہا۔

”باجی ویسے مجھے بتا دیتیں میں پکوڑے بنا دیتی، خواہ مخواہ تکلیف کی۔“  اس نے مزے لیتے ہوۓ کہا ۔ اور میں اسے کھاتا دیکھ کر یہ بھی نہ کہہ سکی کہ بہن جھوٹے منہ ہی سہی ایک صلح ہی مار دو۔

میں ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ مجھ سے بڑے دو بھائی تھے، دونوں شادی کے بعد سعودیہ شفٹ ہو گئے اور وہیں ملازمت بھی کرتے تھے۔ ابا نے بھی کوئ اعتراض نہ کیا اِس میں البتہ اماں نے شروعات میں ناخوشی کا اظہار کیا لیکن آہستہ آہستہ آبا کے سمجھانے پر وہ بھی راضی ہوگئیں۔، آبا تو بہت خوش تھے کہ دونوں بیٹے اپنے پیروں پر کھڑے ہیں۔میں ابا کی لاڈلی ہوں، اِس لیے ابا نے یہاں آتے ہوئے پتہ نہیں کتنے گھنٹے مجھے اپنے سینے سے لگا کر رکھا، مدھم سا روتے رہے۔ میں انہیں تسلی دیتی رہی کہ جلد واپس آجاؤں گی۔

رافعہ ایک کے بعد ایک پکوڑے سے انصاف کرنے پر تلی تھی۔ لگتا ہے اُسے میرے ہاتھ کے پکوڑے پسند آئے۔ لیکن جھوٹے منہ بھی اُس نے تعریف نہ کی اور پلیٹ خالی ہوتے ہی ہاتھ جھاڑ کر کرسی سے ٹیک لگا لی۔

” ویسے باجی ایک بات بتاؤں؟ اگلے ہفتے شیراز بھائی کے گھر ڈھولکی ہے، میں اور امی تو جائیں گی، آپ بھی چلیں نا، مزہ آئے گا۔“

شیراز اُس کی دوست کا بڑا بھائی تھا۔ ر افعہ اور اُس کی دوست عرشیا ساتویں جماعت سے ساتھ پڑھ رہی تھیں۔ وہ دونوں اب ایف ایس سی کر چکی تھیں۔ عرشیا نے رافعہ کی دیکھا دیکھی آگے داخلہ نہ لیا تھا۔ دونوں کا خیال تھا کہ ساتھ ایک ہی یونیورسٹی میں داخلہ لیں گی۔

”ہاں ٹھیک ہے، ویسے خالہ اور تم چلی جاؤ گی تو پیچھے میں بور ہو جاؤں گی۔“ حلانکہ گھر پر سمر موجود ہوگا لیکن اس افلاطون کے ساتھ وقت گزارنے سے بہتر ہے میں خالہ اور رافعہ کے ساتھ شادی پر چلی جاؤں۔ ویسے تو میں چھٹیاں سکون سے گزارنے آئی تھی، لیکن خیر، کیا فرق پڑتا ہے ایک دو دن سے۔

میرے پاس کوئی خاص فینسی یا شادی جیسی تقریب کے مطابق لباس نہ تھا، اِس لیے خالہ کے ساتھ آج خریداری کرنے چلی آئی۔ ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائن، لیکن سارے ہی بہت ہیوی تھے۔ پھر ایک دکان پر بیٹھے پٹھان دکاندار نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا ،”باجی کہاں جا رہی ہو، یہاں آؤ، ایک سے بڑھ کر  ایک ورائٹی ملے ملے گا، پسند کرو باجی۔”

خالہ میرا ہاتھ پکڑ کر اُس دکان پر لے گئیں۔

”بھائی ! کپڑا اچھا کوالٹی کا ہونا چاہیے یہ نا ہو آج لے کر جاؤں اور کل اس کو خستہ حالت میں واپس لاؤں۔” خالہ نے زور دے کر کہا۔

 ارے باجی ! کیا بات کررہا ہے تم، ہماری دکان پر بہت اچھا کوالٹی کے کپڑے ہیں، آپ پسند کریں بس، ریٹ کی بھی فکر نہ کریں، بہت مناسب ریٹ ہے۔

“ہاں وہ دیکھ ہی رہی ہوں میں۔“  خالہ نے کپڑوں پر لگے ٹیگ پر لکھی قیمتوں کو ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا

“رشنا ! تو بھی پسند کر۔” خالہ نے مجھے یوں سکت بیٹھے دیکھا تو بولیں۔

 اوپر نیچے اُچھال کر آخر کار ایک سوٹ مجھے پسند آہی گیا۔ خالہ نے ادائیگی کی اور سیدھا جیولری شاپ آگئیں۔ جیولری میرے پاس پہلے سے تھی لیکن خالہ نے زبردستی دلا دی۔ عصر کا وقت ہو چلا تھا، ہم ظہر کی نماز پڑھ کر گھر سے نکلے تھے۔ گھر پہنچتے ہی نماز پڑھی اور میں رافعہ کو لے کر چھت پر آگئی اور اُسے خریداری دکھانے لگی۔ واہ باجی ! سوٹ تو بڑا اچھا ہے اور ساتھ جیولری اور سینڈلز بھی۔ آپ تو شادی پر چار چاند لگا دو گی۔ میں نے اپنی دوست کو آپ کے بارے میں بھی بتا دیا ہے۔“ رافعہ نے کہا اور میرے سوٹ کا ڈوپٹا کندھوں پر پھیلا کر جھومنے لگی۔

 ” اچھا کیا تم نے بتا دیا۔“  میں نے بس اتنا ہی کہا اور چیزیں سمیٹنے لگی۔

“باجی وہ آم کا درخت دیکھ رہی ہیں؟ ادھر ہی ہے میری دوست کا گھر ۔“ رافعہ نے انگلی کے اشارے سے سامنے والی کوٹھی دکھائی

فی الحال وہاں کوئی دکھائی نہ دے رہا تھا، سب سو رہے تھے، بس اندر سےچڑیوں اور کبوتروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔

“اچھا یہ گھر ہے؟ گھر تو بڑا شاندار ہے۔“  میں نے تعریف کی۔

“ہاں باجی اوپر والے پورشن میں شیراز بھائی رہتے ہیں اور نیچے سب۔” رافعہ نے میری بات کے جواب میں کہا۔

“اچھا وہ اُوپر کیوں رہتے ہیں؟ کیا نیچے کوئی کمرہ نہیں اُن کے لیے؟ گرمیوں میں تو مشکل ہوتی ہوگی۔“

 شراز بھائی کو خاموشی پسند ہے، اِس لیے وہ اُوپر رہتے ہیں، شور سے تنگ آکر ۔ “ میں نے حیرانی سے پوچھا تو اس نے زرا جھک کر جواب دیا ۔

 اچھا صحیح چلو اب نیچے آؤ، مغرب کا وقت ہونے والا ہے۔“ میں نے اُسے کہا اور نیچے آگئی

شام کو ڈھولکی تھی۔ رافعہ اور میں تیار ہو کر ارشیہ کے گھر گئیں۔میں نے سادہ سا سلک کا سوٹ پہن رکھا تھا جس کے صرف گلے کے گرد کڑھائی ہو رکھی تھی اور ساتھ اورگینزا کا دوپٹہ تھا جسے بہت مشکل سے میں نے سمبھال رکھا تھا۔ دروازہ کھلا تھا لیکن چار فٹ کا پہرہ دار بھی کھڑا تھا۔

آپا جی ٹکٹ دکھائیں۔۔۔ وہ لڑکا ایک ہاتھ آگے بڑھا کر بولا،

’’کیا اندر کوئی سرکس لگا ہوا ہے یا یہ کوئی تھیٹر ہے کہ تم ٹکٹ مانگ رہے ہو؟‘‘ رافعہ نے اسے جھاڑ پلائی،

’’ارے باجی! یہ امیروں کی شادی ہے، یہاں بغیر ٹکٹ یا اجازت نامے کے داخلہ ممنوع ہے۔‘‘ اس لڑکے نے تنگ آ کر کہا،

’’بات سنو، ایک دوں گی کان کے نیچےکھینچ کر۔ ہم شادی پر آئے ہیں، تمہارے اسکول کی فئیر ویل پارٹی پر نہیں۔ اب آگے سے ہٹو ورنہ ایک پھونک مارنی ہے اور تم بریانی کی خوشبو کے ساتھ اُڑتے ہوئے جاؤ گے۔‘‘ رافعہ نے اس کی ہوائیاں نکالیں،

’’ارے باجی، کیوں بحث کر رہی ہو؟ مجھے یہاں خاص طور پر کھڑا کیا گیا ہے نگہداشت کے لیے تاکہ کوئی نامعلوم افراد اندر نہ گھُس جائیں، اس لیے انویٹیشن کارڈ دکھاؤ تب اندر جانے دوں گا۔‘‘ وہ بھی خراب گھڑی کی سوئی کی طرح ایک ہی جگہ اٹکا رہا۔

’’تمہں شکل سے ہم ڈاکو لگتے ہیں؟ یہ میری دوست کا گھر ہے یقین نہیں آتا تو نام بھی بتا دوں؟ بغیر اجازت آ جا سکتے ہیں ہم، کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا ہمیں جاؤ اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ چڑیا اُڑی کھیلو۔‘‘ رافعہ نے بات ختم کر دی۔

’’باجی، شکل سے تو تم ڈاکو رانی ہی لگتی ہو، تمہیں دیکھ کر تو کوئی بھی آسانی سے بتا دے گا کہ کتنے بینک صاف کیے ہیں۔‘‘

لڑکے نے اس انداز میں کہا کہ رافعہ کے چھکے چھوٹ گئے۔

’’ہاں، بھاگ جاؤ ورنہ تمہیں بھی بورے میں بند کرکے دریا میں بہا دوں گی۔‘‘

رافعہ نے بدمعاش گینگ کے لیڈر کی طرح کہا اور اپنی انگلی گول گول گھما کر میرا ہاتھ پکڑ کر اندر چلتی بنی۔

 اندر بہت شور شرابا اور ہلہ گلہ تھا۔ گھر کو اندر اور باہر لائٹس سے سجایا گیا تھا۔ رافعہ کچن میں تھی، مہمانوں کے لیے لوازمات ٹرے میں سجا رہی تھی اور اُس کی امی باہر مہمانوں سے خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ رافعہ میرا ہاتھ پکڑ کر عرشیا کی امّی سے ملوانے لے گئی۔ اُس کی امی بہت خوش مزاج خاتون تھیں۔ رافعہ کا تو پتہ نہیں لیکن البتہ مجھ سے بڑے پیار سے ملیں اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔اور پھر سوالات کا سلسلہ چلتا رہا اور میں ایک کے بعد ایک سوال کا جواب دیتی رہی۔ رافعہ کچن میں اپنی دوست کی مدد کرنے چلی گئی۔ میں بھی عرشیا اور اُس کی خالاؤں اور پھوپھیوں سے ملی۔ پھر عرشیا میرے اور رافعہ کے لیے کولڈڈرنک اور اور سنیکس ٹرے میں رکھے لے آئی۔ میں نے بس دو تین چپس اُٹھائے اور کولڈ ڈرنک پی لی۔ اُس کے بعد وہ مجھے اور رافعہ کو اپنے کمرے میں لے گئی جہاں اور بھی لڑکیاں موجود تھیں۔ بیچ میں ڈھولکی رکھی تھی، ایک اُسے ہلکے ہلکے بجانے میں مصروف تھی۔ ہم نے آتے ہی سلام کیا اور ایک جگہ بیٹھ گئیں۔

“باجی ! آپ بھی گائیں نا، خالہ بتا رہی تھیں آپ کی آواز بہت اچھی ہے۔“ میں نے اشارے سے رافعہ کو چپ کروانے کی کوشش کی، لیکن وہاں بیٹھی سب لڑکیوں نے رافعہ کی بات سُن لی اور اصرار کرنے لگیں کہ کچھ گا کر سُناؤں۔میں کوئی نور جہاں تو تھی نہیں کہ جس کی آواز میں اتنا سُر ہوتا۔ بس اتنی فرمائشوں پر دل نہ کیا کہ میں انکار کروں، اِس لیے ڈیک بند کر دیا گیا اور سب میری طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئیں۔ میں نے گانا شروع کیا اور وہاں بیٹھی سب لڑکیوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں۔ “منڈیا… منڈیا…

منڈیا دوپٹہ چھڈ میرا

نی شرم دا کنڈ لائی دا اے

تے انج نئیں ستانا چاہیدا اے۔”

ایک لڑکی ڈھولکی بجانے لگی اور باقی تالیوں کے ساتھ ساتھ مجھے داد دینے لگیں عرشیا تو گانے کے بول سُن کر جھوم اُٹھی اور سب لڑکیوں کے درمیان آکر ناچنے لگی۔ اُس کے ڈانس اسٹیپس اور ٹھمکوں نے تو محفل کو چار چاند لگا دیے۔ میں گا ہی رہی تھی کہ اتنے میں دروازہ ہلکا سا کھلا اور کسی نے اندر جھانک کر دیکھا۔

”ارے مراسیوں کا ٹولہ زندہ باد! میں کیسے پیچھے رہوں؟“اُس کی آواز سنتے ہی لڑکیاں چونک کر اُسے دیکھنے لگیں۔ حملہ اچانک ہوا تھا اس لیے میں بھی چونک گئی۔

“کڑیے… کڑیے…

کڑیے بادامی رنگ تیرا

نئی کنڈ چُھپانا چاہیدا اے

نئی سجنا نوں ترسائی دا اے”

وہ گاتا ناچتا ہوا اندر گھس آیا۔ شکل سے تو بظاہر عام ہی دکھتا تھا لیکن حرکات و سکنات سے مکمل بے قابو معلوم ہوتا تھا، جیسے پورا سائیکو ہو۔ ”اوئے ہوئے !“ لڑکیوں کی تالیاں گونجنے لگیں تو اُس کا جوش اور بڑھ گیا۔ میں خاموش ہو کر اُس پاگل کی حرکتیں ہکا بگا ہو کر دیکھنے لگی۔ وہ خود گا بھی رہا تھا اور ساتھ ساتھ نشے میں دھت، بے ساختہ ٹھمکے بھی لگا رہا تھا۔

“کڑیے… کڑیے..

 کڑیے بادامی رنگ تیرا

نئی کنڈ چُھپانا چاہیدا اے

نئی سجنا نوں ترسائی دا اے”

اسی اثناء میں اُس نے عرشیا کے سیدھے ہاتھ کی انگلی پکڑی اور اُسے گول گول پنکھے کی طرح گھمانے لگا۔مجھے اُس کا یوں کمرے میں بلا اجازت گھس کر ایسی نازیبا حرکتیں کرنا سخت ناپسند گزرا۔ وہ عرشیا کا بھائی تھا اور اُس سے پانچ برس بڑا تھا۔ گہرے بھورے رنگ کے کرتے کی آستینیں کلائیوں تک موڑی ہوئی تھیں۔اور ہلکے گھونگرالے بال، اس نے ماتھے پر آۓ بالوں کو ایک جھٹکے سے پیچھے کیا اور اپنی نظروں کا زاویہ میری آنکھوں تک لایا۔ ”لگتا ہے تمہیں سنگنگ کلاسز دینی پڑیں گی۔ کس پاگل نے تم سے گانے کی فرمائش کی؟  توبہ توبہ اللہ معاف کرے، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بیواہ خاتون اپنے میاں کے انتقال پر گلہ پھاڑ کر رو رہی ہے ۔ بندہ پوچھے محترمہ شادی پر آئ ہیں یا تمہیں پتا ہے ہر جمعرات کو چوک پر ایک فقیر کھڑا ہوتا ہے ایمان سے ہوبہو تمھاری آواز میں گاتا ہے“ اس نے طنز و تمسخر کی تمام حدیں پار کردىں۔

 عرشیا کو غصہ آگیا۔ “بھائی ! کیا مصیبت ہے، میری سہیلیاں ہیں یہ، انہیں تنگ نہ کریں۔“ ارشیہ نے غصے سے کہا۔

وہ طنزاً ہنسا، “اچھا سہیلیاں ہیں چلو پھر اسی خوشی میں ایک ڈانس ہو جائے۔“

اور وہ پھر سے ناچنے لگا۔

”اوئے ہوئے !“ سب لڑکیوں نے دوبارہ اپنی پوزیشن سنبھال لی۔

” دل کی تمنا آج پوری ہو گئی،

نکل آئی ہے بہار، گل کھلے

او ملی رب سے خبر

مجھے لگتا ہے ڈر

تجھے لگے نہ نظر، میرے گلے لگ جا

نچ منڈیا !“

اُسے آگے کے بول شاید بھول گئے تو فوراً دوسرا گانا شروع کر دیا۔

دنیا تے پیار ملے

کوئی دلدار ملے

اندا سواد گل بات دا

کھلڑے نہ وال میرے

رہنا میں نال تیرے

وعدہ ہے پہلی ملاقات دا

لڈی اے جمالو پاؤ، لڈی اے جمالو !“

عرشیا کا پارہ چڑھ گیا۔ بھائی ! شرافت سے نکل جائیں، ورنہ امی نے تینگنی کا ناچ نچانا ہے آپ سے۔

وہ ٹھٹھا مار کر بولا، “ارے ! آج تک کسی کی مجال نہیں ہوئی جو مجھے، یعنی حذیفہ زمان  ولد زمان حیدر علی کو تینگنی کا ناچ نچوائے !“

عرشیا نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے پیچھے دیکھنے کا اشارہ دیا۔ مگر مجال ہے حذیفہ پہ کوئی اثر ہو؟ ہاتھ جیب میں ڈالے بے نیازی سے گردن اکڑائی اور ہنکارا بھرا:

 “نہ نہ ! مجھے مت ڈراؤ، بی بی ! میں امی سے نہیں ڈرتا، چاہے تم لوگ منی بدنام ہوئی پر بھی نچوا لو، بندہ نچ جائے گا، لیکن ڈرے گا نہیں ۔” ابھی اُس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ قسمت نے ایسا پلٹا کھایا کہ انٹی جی پورے دینگ سٹائل میں اگر پیچھے کھڑی کان پر پنجہ مار چکی تھیں۔ “رک تجھے نچواتی ہو منی بدنام پر۔” حذیفہ کی مردانگی ایک پل میں منہ چھپا گئی۔ “امی چھوڑیں ! اتنا زور سے کون پکڑتا ہے کان؟ اگر میرا کان اتر گیا نا تو آپ لاہور کے اسپتالوں میں میرے پیچھے در بدر خوار ہوں گی  اور اگر ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ آپ کا لخت جگر اب ساری عمر سن ہی نہیں پائے گا تو کیا گزرے گی آپ پر ؟“ وہ بول ایسے رہا تھا جیسے کسی فلم کا ایموشنل سین چل رہا ہو۔ “بہت اچھی گزرے گی مجھ پر روزانه شکرانے کے نفل پڑھوں گی۔”فریدہ بیگم نے روائتی ماؤں کی طرح اسے  ہنس کر جھاڑ پلائی ۔

“اللہ ! کیسی ماں ہے ۔” حذیفہ نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور منہ بسور کر بولا۔

 فریدہ بیگم نے اس کے کان کو ذرا اور کھینچا، “ڈرامے نہ کرچل نکل کمرے سے باہر، کیا کام ہے تیرا یہاں؟ غیر لڑکیوں کے کمرے میں ناچتا ہے، شرم بیچ کھائی ہے کیا بغیرت؟ حذیفہ بیچارہ پوری شان و شوکت سے کان بچاتا، باہر گھسیٹا جا رہا تھا ۔ اماں کتنی بری بات ہے ساری لڑکیوں کے سامنے ذلیل و رسوا کر رہی ہو مجھے میں تو بس ٹیلنٹ دکھانے آیا تھا اپنا، سہی ہے اچھے بھلے ٹیلنٹ کی تو قدر ہی نہیں آجکل۔”حزیفہ کا منہ لٹک گیا جیسے کسی سنگنگ مقابلے میں حصہ لینے کے بعد جج نے کہا چل پتر گھر چل تیرے بس کا نہیں۔

” اب اگر زبان چلائی تو چمٹے سے درگت بنا کر رکھ دوں گی بے شرم کہیں کا ۔“ مانو انٹی جی کو کسی نے ارف لوہار کے چمٹے کا لائسنس تھما دیا ہو باقی سب لڑکیاں منہ پر دوپٹے رکھے ہنسی دبا رہی تھیں۔کمرے میں یکدم خاموشی چھا گئی۔ عرشیا نے مجھ سے معذرت کی اور دروازہ اندر سے اچھی طرح بند کیا۔ میں نے اُسے تسلی دی، معذرت کی کوئی بات نہیں، مجھے برا نہیں لگا، لیکن کہنا چاہیے تھا اِس سے بُرا کیا ہو گا۔ اچھا خاصا ذلیل کرکے دکھ دیا، اب اتنا بھی برا نہیں گارہی تھی میں۔ ہنہ آیا بڑا خود کو جیسے آطف اسلم سمجھ رہا تھا اور ناچ ایسے رہا تھا جیسے پورے ظلع میں ٹاپ کیا ہو اس نے، آنٹی نہ آتیں تو اچھے سے اس کا دماغ جگہ پر لاتی ۔ میں نے دل ہی دل میں ساری بھڑاس نکالی۔ خیر! میرا موڈ خراب ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے رفیعہ سے کہا کہ اب چلتے ہیں گھر دیر ہو گئی ہے کافی۔ رافعہ نے میرے موڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے عرشیا سے اجازت لی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ کمرے سے باہر آتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ میرے سر میں ہلکا ہلکا درد اُٹھ رہا ہے۔ ایک تو یہ گانے اور شور، اُوپر سے اُس لنگور کی بے تکی باتیں میرا آدھا دماغ کھا چکی تھیں۔ میں آنٹی سے اجازت لے کر باہر آئی تو وہ لڑکا وہیں گیٹ پر کھڑا تھا اور ہر آنے جانے والے کو پریشان کر رہا تھا۔

” اس کو میں ٹھیک کرتی ہوں ! ” رافعہ آگے بڑھی اور اُسے کھری کھری سنانے لگی۔ میں نے اُسے روکنا چاہا لیکن وہ میری بات سنے بغیر آگے بڑھ گئی۔

ہاں جی ! کیا مسئلہ ہے تمہارا؟ کیوں تنگ کر رہے ہو سب کو؟“

 ”باجی! جاؤ اپنا کام کرو، میرا میٹر شارٹ ہے ابھی ! “

 ”تمہارا میٹر تو میں ٹھیک کرتی ہوں، صبر کرو ! “ وہ بلاوجہ جھگڑ رہی تھی اور میں اُسے روک رہی تھی کہ اتنے میں وہ پاگل بھی باہر آیا۔ لگتا آنٹی سے خاطر تواضع میں کوئی کمی رہ گئ تھی جو پھر سے یہاں ٹپک پڑا۔  اسے دیکھتے ہی میرے دل میں خیال آیا

“کیا بحث ہو رہی ہے یہاں، میری مدد کی ضرورت ہے تو بتاؤ“ وہ اپنی قمیض کی آستینوں کو مزید اوپر کی طرف موڑ کر بولا۔

”جی اگر یہاں اس وقت بے سرے لوگوں کو جج کرنا ہوتا تو اپ کو ضرور یاد کرتے ہم , مہربانی فرما کر اپنے اِس میڈیم سائز کے نمونے کو یہاں سے ہٹائیں ، باہر جانا ہے۔“ میرا اشارہ اُس لڑکے کی طرف تھا، جو دونوں کو پیچھے کی طرف باندھ کر ہمیں دیکھ رہا تھا ۔

“ارے ! ہاہا آپ نے تو سیریس ہی لے لیا میری باتوں کو اصل میں وہاں میں اپ کو جج کرنے تھوری آیا تھا، وہ تو بس کمرے کے باہر کھڑے کھڑے تھک گیا تھا تو سوچا اندر جاکر پورا ماحول بنا دیا جاۓ۔ ویسے اگر میڈم نور جہاں زندہ ہوتیں اور وہاں کمرے یہ موجود ہوتیں تو ضرور اس دن کو کوس رہی ہوتیں جب انھوں نے یہ گانا گایا ۔ اور یہ ٹکی پیک میرا چائلڈھد ورژن ہے اس نے کیا کہہ دیا ؟ یہ معصوم ہے میری طرح۔” حذیفہ نے مجھے شرمندہ کرنے میں کوئ کسر نہ چھوری تھی ۔

 ”ہنہ ! اگر یہ تمھارا چائلڈھد ورژن ہے تو بلکل بھی معصوم نہیں ہو سکتا ۔” میں نے اپنی تھوڑی دیر پہلے ہونے والی بے عزتی کا بدلہ لینے کی ناکام کوشش کی۔

“اُف ! اب آپ دونوں کیوں لڑنے لگے۔“ ہٹو ! تم چلو باجی !‘ رافعہ میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گئی۔میں بھی اُس کے ساتھ چلی گئی اور پیچھے مڑے بغیر چلتی رہی۔

 ” اس باجی کا باجا تو بجانا پڑے گا۔” حذیفہ نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔میں گھر آئی اور سیدھا کمرے میں چلی گئی۔ خالہ بھی گھر آچکی تھیں۔ کھانا ہم نے اُدھر ہی کھا لیا تھا، اب میں کافی تھک گئی تھی۔ دھوم دھڑکے اور ڈھول کی تھاپ سے میرے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ رفیعہ چائے بنا کر لائی، تو جیسے دل کی مراد پوری ہو گئی۔ مجھے چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ ویسے بھی اُس لنگور کی بک بک سُن کر اتنی اکتاہٹ ہوئی کہ جلدی گھر آگئی اور وہاں چائے بھی نہ پی سکی۔ شور اب تک سُنائی دے رہا تھا۔ شاید یہ شور اب ساری رات میرے کانوں میں درد کرے گا۔ خیر، میں نے چائے پی اور لائٹ آف کر کے سو گئی۔

اگلے روز مہندی کا فنکشن تھا۔ فنکشن رات کے وقت تھا۔ رفیعہ شادی والے گھر میں عرشیا کے کاموں میں مدد کرنے گئی تھی۔ میں اکیلی تھی، سوچا کچھ دیر اسٹڈی روم میں جا کر کچھ کتابوں کا مطالعہ کر لوں۔ میں اسٹڈی روم گئی تو دروازہ کھلا تھا، شاید کوئی پہلے سے وہاں موجود تھا۔ میں ہلکے قدموں سے اندر گئی۔ ایک گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میں ذرا آگے بڑھی تو دیکھا، سمر سر جھکائے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اچانک میری آمد پر اُس نے سر اُٹھایا اور اپنے بڑے بڑے گول گول شیشوں والے چشمے کو اوپر سرکا کر مجھے دیکھا۔

”ارے رشنا ! تم ، بیٹھو۔ کیسی ہو؟“ وہ سمر تھا، میرا ایج فیلو۔ اُسے فلسفے، جغرافیا اور تاریخ کی کتابوں میں خاص دلچسپی تھی  بلکہ وہ خود ایک چلتی پھرتی کتاب تھی جسے کسی بھی وقت کھول کر پڑھا جاسکتا تھا۔ ابھی بھی وہ فلسفے کی ایک مشہورکتاب  republic کا مطالعہ کر رہا تھا۔

”میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو؟“ میں نے اُس کی خیریت دریافت کی۔

” میں بھی بالکل ٹھیک۔“ اُس نے کتاب شیلف میں رکھی اور پوری طرح میری طرف متوجہ ہوا۔

 تم نے واپس لندن کب جانا ہے؟“ میں نے قدر تجس سے پوچھا ۔

 وہ مسکرا کر بولا، ”ارے ! تمہیں بڑی جلدی ہے میرے جانے کی، ہاہاہا ! ابھی تو میں نے تمہارے ساتھ انجوائے کرنا ہے۔ اتنے سال بعد آئی ہو، جب تک تم یہاں ہو، میں بھی نہیں جا رہا۔ ویسے میرا ارادہ تھا کہ کہیں سیر و تفریح کے لیے چلیں۔ لاہور کی مشہور جگہیں، مثلاً بادشاہی مسجد، شالامار باغ، مینارِ پاکستان، شاہی قلعہ، رنجیت سنگھ کی سمادھی، لاہور میوزیم اور انارکلی بازار، اس کے علاوہ داتا دربار جہاں دُور دُور سے لوگ سیر و سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ وہ ایک کے بعد ایک جگہ کا نام لیتا رہا اور میں حیرت سے بس سنتی جا رہی تھی۔

میں نے اچانک سوال کیا: ’’کیا تم بھی گئی ہو ان تمام جگہوں پر؟‘‘

اس نے جواب دیا: ’’ہاں، اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ جاتا رہتا ہوں، لیکن تم اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو؟‘‘

اس نے مجھے حیران دیکھ کر کہا: ’’مجھے لگا تمہیں تو کتابوں سے سر اُٹھانے کی فرصت نہیں ملتی ہوگی، تم کہاں جاتی ہوگِی ایسی جگہوں پر، اس لیے سن کر حیرت ہوئی۔‘‘

میں نے وجہ بتائی تو وہ ہنسنے لگا۔اس لحاظ سے تمہارا حیران ہونا بجا ہے، لیکن مجھے سیر و تفریح کا بھی شوق ہے، اور نہ صرف تفریح کا، بلکہ ان تمام مقامات کے پس منظر میں چھپی تاریخ جاننے کا بھی ذوق رکھتا ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ کسی جگہ کی تحقیق کیے بغیر اور اس کے پسِ پردہ راز کو سمجھے بغیر ان عظیم الشان مقامات پر جانے کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مقامات محض اپنی خوبصورتی کی وجہ سے لوگوں کی پسندیدگی کا مرکز ہیں، اور اگرچہ یہ تصور کسی حد تک درست ہے، لیکن اگر ہم غور کریں اور تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان تمام مقامات کی اپنی ایک داستان ہے، جو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ لوگ وہاں جاتے ہیں، تصویریں بنواتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، گھوم پھر کر واپس آجاتے ہیں، لیکن یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ شاہی قلعہ صرف ایک قلعہ نہیں، بلکہ اسے ’’لاہور فورٹ‘‘ (lahore fort) کہا جاتا ہے۔ یہ لاہور کے قلب میں واقع ایک شاندار تاریخی قلعہ ہے جو مغلیہ فنِ تعمیر، برِّصغیر کی تاریخ، اور مختلف ادوار کے سیاسی و ثقافتی رنگوں کا نادر امتزاج پیش کرتا ہے۔ یہ قلعہ نہ صرف لاہور بلکہ برِّصغیر کے عظیم ورثے کی علامت سمجھا جاتا ہے اور UNICEF WORLD HERITAGE میں شامل ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ قلعہ کسی ایک مغل حکمران نے نہیں بلکہ چار مختلف مغل حکمرانوں نے اپنے اپنے عہد میں اس کی بنیادیں رکھیں اور اس کی تکمیل کی۔اس کے علاوہ، لاہور کی مشہور بادشاہی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب 1799ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تو بادشاہی مسجد کو اس کی اصل عبادتی حیثیت سے محروم کر دیا گیا۔ روایت ہے کہ میناروں میں توپ خانہ رکھا گیا اور صحن میں گھوڑے باندھنے کے لیے کھونٹے گاڑ دیے گئے۔ اُس وقت یہ منظر مسلمانوں کے لیے نہایت تکلیف دہ تھا اور کہا جاتا ہے کہ کئی بزرگ میناروں کے سائے میں اس مسجد کی بحالی کے لیے دعائیں کرتے رہتے تھے۔

وہ ایک طویل داستان سنانے کے بعد لمحہ بھر کو خاموش ہوا اور سامنے رکھے جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر پینے لگا۔ میں بس سر ہلائے، چہرے پر دنیا جہاں کی بیزاری سمیٹے، اسے سن رہی تھی۔ اس کی یہ طویل تقریر تو مجھے نیند کی وادیوں میں اتار ہی چکی تھی۔”اچھا چلو، میں باہر جا رہا ہوں، تم بھی چلو۔ اُس نے شوخی سے ہاتھ بڑھا کر مجھے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ میں نے بھنویں اُچکائیں، کہاں جا رہے ہو ؟ وہ ہنس دیا، ”ارے بس، یہی گھر سے ذرا فاصلے پر ایک کیفے ہے۔ وہیں چلتے ہیں، تھوڑی باتیں اور سہی۔“‘ اُس کی بات میں اتنا مانوس سامان تھا کہ میں بھی انکار نہ کر سکی۔”اچھا چلو !“ میں اُس کے ساتھ جانے کو مان گئی۔ میں اور سمر کیفے تک پیدل گئے۔ اُس کے ساتھ چلتے ہوئے مجھے کبھی کوئی جھجھک محسوس نہ ہوتی تھی۔ جانے کیوں اُس کی رفاقت میں ایک انجانی سی ڈھارس چھپی تھی ہم باتوں میں ایسے الجھے رہے کہ کب راستہ کٹ گیا، کب کیفے کی روشنیاں قریب آئیں، ہمیں احساس تک نہ ہوا۔ وہ مجھے لے کر اندر گیا۔ کیفے کا ماحول بہت پُرسکون تھا۔ وہ مجھے ایک میز کی طرف لے گیا۔ تھوڑی دیر میں ویٹر آرڈر لینے آیا۔ دو بلیک کافی !“ سمر نے بنا پوچھے آرڈر دیا۔ تھوڑی دیر میں کافی آگئی۔کافی پیتے ہوئے سمر مجھے اس کے فوائد اور نقصانات سے آگاہ کرنے لگا۔ اس کے علاوہ کافی کا وجود کیسے آیا اور یہ دریافت سب سے پہلے کس عظیم انسان نے کی—وہ یہاں بھی شروع ہو گیا۔ کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے اُس نے ایتھوپیا کے ایک چرواہے ’’کالدی‘‘(Kaldi) کی کہانی سنانا شروع کی کہ کالدی نے دیکھا اُس کی بکریاں ایک سرخ پھل کھانے کے بعد غیر معمولی طور پر چست اور پھرتیلی ہو رہی ہیں۔ اس نے یہ بات ایک مقامی خانقاہ کے راہب کو بتائی، جس نے ان پھلوں سے مشروب تیار کیا اور پینے کے بعد محسوس کیا کہ یہ مشروب نیند کو کم کرتا ہے اور ذہن کو تازہ رکھتا ہے۔ ایتھوپیا سے یہ پودا یمن پہنچا جہاں صوفیاء عبادت میں جاگنے کے لیے اس کا استعمال کرنے لگے۔ یمن کے شہر ’’موچا‘‘ (mocha) سے کافی کی تجارت شروع ہوئی اور اسی نسبت سے ’’موچا کافی‘‘ کا نام مشہور ہوا۔ یہ توانائی میں اضافہ، دماغی کارکردگی میں بہتری اور چربی جلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، نیز اس میں موجود جدید اینٹی آکسیڈنٹ خلیوں کو نقصان سے بچاتے ہیں۔ تاہم کافی کے کچھ نقصانات بھی ہیں جو انسان کی زندگی میں واضح تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں، جیسے نیند میں خلل، دل کی دھڑکن کا غیر معمولی تیز ہونا، بلڈ پریشر کا بڑھ جانا، معدے کی تیزابیت، اور اس پر انحصار یا عادت بن جانا وغیرہ۔ کافی کا کپ اپنے آخری قطرے تک خالی ہو چکا تھا، لیکن سمر کی زبان کو بریک تب لگی جب ویٹر بل لے آیا۔ اس نے ادائیگی کی اور میں نے دل ہی دل میں شکر کا کلمہ پڑھا۔ بھلا کافی پینے والے کو کافی بنانے والے سے کیا غرض! اس انسان نے کافی پر بھی اتنی تحقیق کر رکھی تھی کہ کتنے ہی فائدے اور نقصانات گنوا چکا تھا، مگر ایک بھی میری سمجھ میں نہ آیا۔ سمر کے کہے سارے الفاظ میرے سر کے اوپر سے گزر کر کہہ رہے تھے: ’’باجی، پکڑ لو ہمیں، ورنہ ہم ایتھوپیا میں ہی کہیں کھو جائیں گے۔‘‘

جتنی صبر و برداشت میں نے اپنے اندر پیدا کر کے اپنے نازک کانوں سے اس کی باتیں کم اور کافی پر لکھی ایک عجیب و غریب داستان زیادہ سن لی، اس لحاظ سے تو مجھے آسکر ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے اور میرا نام گنیز ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونا چاہیے۔  ہم دونوں کیفے سے نکل کر پارک میں چہل قدمی کرنے لگے۔ ’’ویسے آگے کا کیا ارادہ ہے تمہارا؟‘‘ سمر نے قدم سے قدم ملاتے ہوئے پوچھا۔ ’’ارادہ تو نوکری کرنے کا ہے، لیکن اماں مانیں تب نہ۔ اُن کا خیال ہے کہ لڑکیوں کو کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد رخصت کر دینا چاہیے، اور پھر ان پر طرح طرح کی ذمہ داریاں آن پڑتی ہیں…‘‘ میں نے قدرے مایوسی سے کہا۔ ’’اوہ کم آن! یہ سب پرانے خیالات ہیں۔ ضروری نہیں کہ لڑکیاں ڈگری کے بعد فوراً سسرال رخصت ہو جائیں۔ تم ایک باوقار اور سمجھدار لڑکی ہو، اور ہر لڑکی اپنی مرضی کی مالک ہے۔ اس پر زبردستی اپنی مرضی مسلط کرنا کسی کتاب میں درج نہیں۔ اگر تم نوکری کرنا چاہتی ہو تو یہ تمہارا حق ہے۔ جب شادی کا وقت آئے گا، تب شادی بھی ہو جائے گی۔‘‘ وہ اطمینان سے بول رہا تھا۔

’’ہاں، لیکن اماں کو کون سمجھائے…‘‘ یہ فکر بار بار میرے دل کو کھائے جا رہی تھی۔

’’تم کہو تو میں خالہ سے بات کر لوں؟‘‘ اُس نے اجازت طلب کی۔

’’کوشش کر کے دیکھ لو،‘‘ میں نے کندھے اُچکا کر کہا۔

”ویسے تمہیں کیسا لڑکا پسند ہے؟“‘ سمر نے اچانک پوچھامیں چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔ تم مجھ سے یہ سوال کیوں کر رہے ہو؟“ میں نے کچھ حیرانی سے کہا۔

وہ ذرا سا مسکرایا، “کیوں، میں یہ سوال نہیں کر سکتا کیا؟“‘ اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

” میری امی نے تو آج تک مجھ سے یہ سوال نہیں کیا، تم نے کیسے کر لیا؟“ اُس کے سوال پر مجھے حیرت ہوئی۔

وہ ہنس دیا، کیوں کہ میں تمہارا صرف کزن ہی نہیں، دوست بھی ہوں۔ اور شادی کے لیے تو لڑکی کی مرضی اور پسند ہونا لازمی ہے۔“ میں نے اثبات میں سر ہلایا، ”ہاں، تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ لیکن میرے ذہن میں ابھی تک شادی کے بارے میں کوئی خیال نہیں، تو لڑکا کیسا ہونا چاہیے، اِس پر بھی کبھی سوچا نہیں۔“ وہ ہنس کر بولا، ”ہاں، لیکن پھر بھی ہر لڑکی کے دل میں اپنے شریک حیات کو لے کر کچھ نہ کچھ خواب ضرور ہوتے ہیں۔“ میں نے گہری سانس لے کر نظریں چرائیں، “نہیں، اصل میں میں تو نوکری کے سلسلے میں اتنی مگن رہی کہ شادی کے لیے کسی لڑکے کے تصور کو جگہ ہی نہیں دی”۔سمر ذرا سا ہنس دیا، جیسے اُسے اِسی جواب کی توقع تھی۔ ”رشنا، تمہیں معلوم ہے؟ فلسفہ وجودیت (Existentialism) میں کہتے ہیں کہ ہر انسان کو اپنے اندر کا سچ تلاش کرنا چاہیے۔“ وہ بول رہا تھا اور میں خاموشی سے اُسے سن رہی تھی۔ ”شادی کے لیے لڑکا کیسا ہونا چاہیے؟“ اُس نے خود سے سوال کیا اور خود ہی اُس کا جواب بھی دینے لگا۔ وہ جو تمہیں تمہاری اصل پہچان میں تسلیم کرے، تمہاری آزادی کو قید نہ کرے بلکہ پروان چڑھائے۔ وہ جو تمہاری سوچ کو اپنے نظریے سے نہ دبائے بلکہ اُسے وسعت دے۔ ایک اچھا شریک حیات وہی ہے رشنا، جو تمہیں اپنی ذات کی گہرائی میں جانے دے، تمہارا ہاتھ تھامے اور ساتھ چلے ۔ بس اتنا کہ تمہیں کبھی یہ محسوس نہ ہو کہ تم اکیلی ہو۔“ میں اُس کی باتوں کو پوری توجہ سے سنتی رہی۔ اُس کے لفظوں نے جیسے مجھے لاجواب سا کر دیا تھا ۔ میرے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا۔

رات کو مجھے مہندی پر بھی جانا تھا۔ موڈ نہیں تھا لیکن آنٹی اور عرشیا نے بہت زور دیا کہ میں شادی کے سارے فنکشنز اٹینڈ کروں، اِس لیے رات کو جانا لازمی تھا۔ میں گھر واپس آئی تو سمر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اُسے بھیڑ اور شور شرابے والا ماحول پسند نہ تھا، کوئی زبردستی بھی کرے تو نہ جاتا تھا۔ میں اپنے کمرے میں آئی اور ہلکے جامنی رنگ کا شرارہ نکالا۔ اُس کے ساتھ میچنگ جیولری اور سینڈلز رکھیں۔ گجرے مجھے رافعہ دے گئی تھی، وہی پہن لیے۔ چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیا۔ اتنے میں رافعہ تیار ہو کر میرے کمرے میں آئی۔

” واہ واہ باجی ! بڑی پیاری لگ رہی ہیں ماشاء اللہ ! آج دُلہن کو دیکھنے کی بجائے سب آپ کو دیکھیں گے!“ میں نے دوپٹہ ایک کندھے پر سلیقے سے رکھا اور اُس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی، “بہت شکریہ ! تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو، ماشاء اللہ ! “ پھر ہم دونوں جانے کے لیے تیار ہو گئیں۔ میں نے پرفیوم لگایا اور  رافعہ مجھے لے کر باہر چل پڑی۔ مہندی اور بارات کے فنکشن کے لیے مارکی بک کروائی گئی تھی۔ میں، خالہ اور رفیعہ کو سمر نے وہیں ڈراپ کیا اور خود گھر چلا گیا۔میں گاڑی سے اُتری اور خالہ کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں بھی گاڑی سے نکالا۔ وہ میرے ساتھ چلتی ہوئی اندر آئیں اور وہاں کھڑی عرشیا کی امی سے دعا سلام کرنے لگیں۔ میں اور رافعہ سلام کے بعد اندر گئے۔ شکر ہے کہ اے-سی کی سہولت تھی، ورنہ باہر کی گرمی نے تو پگھلا ہی دینا تھا۔ ”اللہ پوچھے ان سے ! اتنی شدید گرمی میں شادی کون رکھتا ہے !“ رافعہ مجھے لے کر ایک میز کے قریب کرسی پر بیٹھ گئی۔ اتنے میں خالہ بھی آکر بیٹھ گئیں۔ باقی عورتیں بھی وہیں آکر خالہ سے ملنے لگیں۔

 فرزانہ ! یہ تمہاری بیٹی ہے؟“ ایک آنٹی نے میری طرف اشارہ کر کے خالہ سے پوچھا۔  ایک آنٹی تھیں جنہوں نے مجھے شاید پہچانا نہ تھا۔

”ارے نہیں نہیں، میری بھانجی ہے یہ۔ رشنا نام ہے۔ خالہ نے میرا تعارف کرایا۔ اتنے میں عرشیا ہمارے پاس آئی اور محبت بھرے انداز میں مجھ سے بولی، ”باجی ! یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟ آئیے اسٹیج پر چلیں، دُلہن سے ملیں۔“ میں اُس کے ہمراہ اسٹیج تک گئی۔ ماشاء اللہ ! عرشیا کی بھابی بے حد خوبصورت تھیں اور اُن کی گفتگو بھی نہایت دلنشیں تھی۔ میں کچھ دیر اُن سے باتیں کرتی رہی۔ باتوں ہی باتوں میں وہ میری اچھی دوست بن گئیں۔ پھر جب کھانے کا وقت ہوا تو میں بفے کی طرف گئی اور پلیٹ میں بریانی ڈالنے لگی۔ اچانک کسی نے پیچھے سے قریب آکر سرگوشی کے انداز میں کہا،

 ”کیسی ہو چڑیل رانی؟“ وہ جن کی طرح حاضر ہوا تھا میں نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو سفید کرتا شلوار میں ملبوس وہی شوخ مسکراہٹ لیے ارشیہ کا بھائی اپنے ہاتھ پیچھے باندھے کھڑا تھا ۔ میں نے اُسے نظر انداز کر کے دوبارہ پلیٹ بھرنے پر توجہ دی تو وہ میرے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔’’ویسے آپ کی صحت دیکھ کر تو ہرگز نہیں لگتا کہ آپ اتنا کھاتی ہوں گی،‘‘ اُس نے بریانی کی بھاری پلیٹ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔

’’جناب! آپ کیا یہاں میرے کھانے پینے پر نظر رکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے خفگی سے جواب دیا۔

’’ارے نہیں، اصل میں میں یہ دیکھنے آیا تھا کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ اگر کوئی حاجت ہو تو حکم کریں، بندہ حاضر ہے آپ کے سامنے،‘‘ وہ شوخی سے بات کا رُخ بدل کر بولا۔

’’بہت شکریہ، اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو میں عرشیا سے کہہ دوں گی، آپ زحمت نہ کریں،‘‘ میں نے بات ختم کرنے کے انداز میں کہا۔

’’ارے، زحمت کی کیا بات ہے! ویسے بھی مہمانوں کی اچھی طرح خاطر و مدارت کرنا ہم پر فرض ہے، اور مہمان بھی اگر اتنے حسیں ہوں…‘‘ وہ بات کرتے کرتے جملہ ادھورا چھوڑ بیٹھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے بازو باندھ کر تیکھی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ارے، میرا مطلب یہ تھا کہ بریانی اگر ٹھنڈی ہو جائے تو کھانے کا مزہ نہیں آتا، اور یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ اپنے خاص مہمانوں کو ٹھنڈی بریانی پیش کی جائے،‘‘ اُس نے میرے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

میں پلیٹ تھامے اپنی جگہ جانے لگی تو اُس نے روک کر کہا، ’’ویسے آپ کا نام جان سکتا ہوں؟‘‘ اُس نے اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔

’’کیوں؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔

’’اس ’کیوں‘ کا سیدھا سا جواب ہے، محترمہ، کہ آئندہ میں آپ کو آپ کے نام سے مخاطب کروں، ورنہ ’چڑیل رانی‘ نام بھی آپ پر خوب جچتا ہے۔‘‘

’’میرا نام رُشنا ہے، چڑیل رانی نہیں،‘‘ میں نے قدرے غصّے سے کہا۔

’’اور میرا نام حُذیفہ ہے… آپ سے مل کر خوشی ہوئی، چڑیل رانی،‘‘ اُس نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’اور مجھے آپ سے مل کر بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی، اور دوبارہ مجھے اس نام سے پکارا تو آپ کی شکایت کر دوں گی۔ لگتا ہے پچھلی بار کی ذلت آپ بھول چکے ہیں،‘‘ میں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔

’’آپ یہ تو میرے زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات کر رہی ہیں، ویسے بھی ایسی چھوٹی موٹی مار پیٹ اب مجھ جیسے ہٹے کٹے انسان پر اثر نہیں کرتی،‘‘ حُذیفہ نے اکڑ کر کہا۔

’’آنٹی…‘‘

’’کہاں ہیں؟‘‘ میں نے اچانک کہا تو وہ گھبرا کر پیچھے مُڑا اور میں ہنس کر بھاگتی ہوئی چلی گئی۔ بداحتیاطی میں ایک بھاری جسم کی صحت مند خاتون سے ٹکرا گئی۔

میرے ہاتھ سے بریانی کی پلیٹ چھوٹ کر زمین پر گر گئی اور ساری بریانی بکھر گئی۔

’’آۓ ہائے… کُڑیے، اے کی کیتا؟‘‘ آنٹی نے پنجابی میں حیرت سے کہا۔

’’آئی ایم سو سوری آنٹی، میرا دھیان نہیں تھا،‘‘ میں نے معذرت کی۔

’’آۓ ہائے کڑیے، تے دھیان تیرا کتھے سی؟ ہائے و ربا، ساڈا نواں جوڑا خراب کر دِتا، پلیٹ وی گرا دِتی تے کپڑے وی mess کر دِتے! اے کی چکر سی؟ نچن آئی ایں یا اِتھے کیڑی دوڑ لگی ہوئی سی؟‘‘ آنٹی نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

’’آنٹی، میں آپ کو نیا جوڑا دلوا دوں گی، آپ فکر نہ کریں،‘‘ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

’’ہائے پُتر، جوڑے دی خیر اے، اے جو تُسی بھَنڈ کر دِتا اے، کون چاہ کے سٹسی؟‘‘ آنٹی نے تیوریاں چڑھاتے ہوئے کہا۔

’’آنٹی، آپ فکر نہ کریں، میں اسے صاف کروا دوں گی،‘‘ میں نے کہا۔

اتنے میں پیچھے سے حُذیفہ آکر بولا۔

’’اے کی ہو گیا آنٹی جی؟‘‘ اُس نے بھی پنجابی میں پوچھا۔

’’پُتر، اے کُڑی دے کم چیک کرو، میں تے ہالے سالن پاؤن واسطے آئیاں، ایے کُڑی میرے نال ٹکرا گئ،‘‘ آنٹی شکایت کے انداز میں بولیں۔

حُذیفہ نے آنکھوں کن اکھیوں سے مجھے دیکھا اور کہا، ’’آنٹی، کوئی فکر شِکر کرن دی لوڑ نئیں، اَ سی سارا حال دوبارہ صاف کروا دیواں گے، تُسی آرام نال جاؤ تے بریانی دے مزے لو۔‘‘

آنٹی کے جانے کے بعد حُذیفہ نے صفائی والے کو بلایا اور زمین پر گری بریانی اُٹھوائی۔

’’دھیان سے، اگلی بار کہیں بریانی کی جگہ آپ نہ زمین پر گری پڑی ہوں،‘‘ حُذیفہ نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا تو میرا پارہ چڑھ گیا۔

’’آپ کی وجہ سے ہوا ہے!‘‘ میں نے غصّے سے کہا۔

’’ارے ارے، میری وجہ سے؟‘‘ اُس نے حیرت سے کہا۔

’’جی، آپ کی وجہ سے،‘‘ میں نے اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے کہا۔

’’اے وی چنگا سی… غلطی تُسی کرو تے نام ساڈا بدنام کرو…‘‘ اُس نے بے بسی سے کہا۔ میں نے منہ دوسری طرف کیا اور سیدھے اپنی ٹیبل پر آکر بیٹھ گئی۔ میں نے اطمینان سے کھانا ختم کیا اور دل ہی دل میں دُعا کرنے لگی، “اے اللہ ! اب دوبارہ اِس لنگور سے سامنا نہ ہو۔“ کھانے کے بعد ہم جانے لگے تو خالہ نے رفیعہ سے کہا کہ سمر کو فون کر دے کہ ہمیں لے جائے، لیکن سمر کا فون مسلسل بند جا رہا تھا۔ بہت کوشش کے باوجود اُس نے کال نہ اُٹھائی۔ خالہ کو تشویش ہونے لگی۔ میں نے خالہ کو بٹھایا اور تسلی دی۔ پھر اپنے نمبر سے بھی سمر کو فون ملایا مگر اُس کا نمبر ہنوز بند جا رہا تھا۔ اب تو مجھے بھی فکر ہونے لگی۔عرشیا نے آنٹی کو بتایا تو اُنہوں نے حذیفہ سے کہا کہ ہمیں گھر چھوڑ آئے۔ حذیفہ نے میری طرف شرارتی مسکراہٹ سے دیکھا، گویا کہہ رہا ہو، ” اب کیا کرو گی چڑیل رانی؟“ میں نے اُس سے نظریں چرا لیں اور باہر کی جانب چلی گئی۔ خالہ اور رفیعہ اندر ہی تھیں اور کچھ آنٹیوں سے گفتگو میں مصروف تھیں۔ میں باہر آکر ایک کیاری کے پاس کھڑی ہو گئی اور سمر کو دوبارہ کال ملائی، مگر مسلسل فون بند جا رہا تھا۔ اب مجھے سخت کوفت ہونے لگی۔ میں بڑبڑائی،

اُسی لمحے پیچھے سے حذیفہ کی آواز آئی، ویسے فائدہ نہیں ہے، کوئی رہنے دو۔

“ میں نے خفگی سے پوچھا، “تم میرے پیچھے کیوں آجاتے ہو؟“ وہ بے پرواہی سے بولا، کیوں کہ میں آگے نہیں آسکتا ؟“ اُس کے اس فضول جواب پر میں نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا اور میں اُس سے نظریں چرا رہی تھی۔ دل ہی دل میں میں نے کوسا، “یہ باؤلا تو کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ ہے !“ کچھ دیر خاموشی رہی، پھر اُس نے دھیرے سے کہا، “اچھی لگ رہی ہو۔۔۔“ نجانے یہ تعریفی کلمات اُس کی زبان سے اچانک کیسے ادا ہو گئے۔ میں نے مختصر جواب دیا، “شکریہ !“ وہ شرارتی انداز میں بولا، “کاش تمہارے پاس کچھ اور ہوتا کہنے کو، یہ شکریہ لفظ تو بہت پرانا ہو چکا ہے۔“ میں نے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا، اچھا ! تو کیا کہنا چاہیے پھر ؟“ وہ جھٹ سے بولا، “ہم۔۔۔ میں نے تمھاری تعریف کی ہے تو۔۔۔ بدلے میں تم میری تعریف کر سکتی ہو۔ دیکھو میں کتنا ہینڈ سم لگ رہا ہوں، ہے ناں؟“

 ”مجھے سمجھ نہیں آتی، تم مجھ سے تعریف کروانے کے لیے کہہ رہے ہو یا خود اپنی تعریف کر رہے ہو؟ میں نے ہنس کر کہا۔

کیوں نہیں اُٹھا رہا فون یہ ؟“اسی اثنا میں خالہ اور رافعہ آگئیں تو ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ حزیفہ نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہمیں گھر کی طرف لے چلا۔ وہ وقفے وقفے سے بیک ویو مرر میں مجھے گھور رہا تھا۔ میں نے دل میں دُعا کی، “یا اللہ ! اس بندے کو ذرا سی تو شرم عطا فرما۔‘ گھر پہنچ کر خالہ نے حذیفہ کا شکریہ ادا کیا اور اندر آگئیں۔ تب تک میں کمرے میں جا چکی تھی۔ دوپٹہ اُتار کر بستر پر اُچھال دیا اور خود بھی تھکن سے وہیں ڈھیر ہو گئی۔ جلدی جلدی کپڑے بدلے، لائٹ آف کی اور سو گئی۔

اگلے دن بارات کا فنکشن بھی تھا۔ میں نے سمر سے کہا کہ ساتھ چلے، اُس نے پہلے انکار کیا لیکن میرے اصرار پر وہ مان گیا۔ میں نے اُسے سمجھایا، ” میں چند ماہ کے لیے ہی آئی ہوں، پھر چلی جاؤں گی “۔ یہ پہلی شادی تھی جو اُس نے میرے کہنے پر اٹینڈ کی تھی۔سارے رشتہ دار شادی ہال میں جمع تھے ۔ وہ رشتہ دار بھی جو مہندی کی تقریب میں شریک نہ ہو سکے تھے، آج سب ایک چھت تلے اکٹھے تھے۔ میں اسٹیج سے کچھ فاصلے پر کھڑی رفیعہ کی تصویریں لینے میں مگن تھی۔ روشنیوں اور گہما گہمی میں اُس کے خوشگوار چہرے کو موبائل کی سکرین میں محفوظ کرتی جا رہی تھی کہ اچانک رافعہ نے شوخی سے میرا موبائل مجھ سے لیا اور عرشیا کو ساتھ لے کر کہیں اِدھر اُدھر نکل گئی۔ میں ہلکی سی مسکراہٹ لیے اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہی تھی کہ سمر چلتا ہوا کولڈ ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں تھامے میری طرف آیا۔ اُس نے گلاس میری طرف بڑھایا تو میں نے بھی مسکراتے ہوئے اُسے تھام لیا۔

” یہاں اکیلی کیوں کھڑی ہو؟“ سمر مجھے اکیلا دیکھ کر بولا۔ میں نے کندھے اچکائے، بس ویسے ہی، رفیعہ کی تصویریں لے رہی تھی، پھر اچانک وہ اپنی دوست کے ساتھ کہیں غائب ہو گئی۔“سمر نے میری طرف گہری نظر سے دیکھا، پھر ہنس کر بولا، “ویسے بلیک ڈریس میں تم اچھی لگ رہی ہو، ماشاء اللہ ! مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہیں تمہیں نظر نہ لگ جائے۔“ میں اُس کی بات پر کھلکھلا اُٹھی، ہاہاہا ! تم نے ماشاء اللہ کہہ دیا، اب کیسے لگے گی نظر !‘ یوں ہی باتوں باتوں میں ہم دونوں کافی دیر کھڑے ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ مگر اُس دوران بھی میری نظریں بار بار انجانے میں کسی کو تلاش کرنے لگیں۔ سمر نے شاید میری اس حرکت کو  بھانپ لیا تھا۔ اُس نے معنی خیز لہجے میں پوچھا، “کیا ہوا؟ کسی کو ڈھونڈ رہی ہو؟“ میں نے فوراً بات سنبھالی اور ہلکی سی ہنسی میں اُڑا دی، “نہیں… کسی کو نہیں، بس رافعہ کو دیکھ رہی تھی۔“ لیکن دل کا حال کوئی کیا جانے ۔ میری نظریں اُس کے بعد بھی بار بار کسی انجانے چہرے کو ڈھونڈنے کی ضد کر رہی تھیں۔سمر نے بلیک پینٹ کے ساتھ بلیک بلیزر پہن رکھا تھا، نیچے وائٹ شرٹ، جیل سے سلیقے سے جمائے بال اور آنکھوں پر گول چشمہ، بالکل ہیری پوٹر جیسا۔ کچھ دیر ہم ساتھ کھڑے باتیں کرتے رہے۔ پھر اچانک سمر کے فون پر کال آئی تو وہ معذرت کر کے کال اٹینڈ کرنے چلا گیا۔ جیسے ہی وہ گیا، پیچھے سے کسی کی سرگوشی نما آواز میرے کانوں میں پڑی، کیسی ہو چڑیل رانی؟“ میں نے فوراً مر کر دیکھا تو وہی تھا، بلیک پینٹ کی جیب میں دونوں ہاتھ ڈالے، مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

میں ہڑبڑا گئی، ”تم کہاں تھے؟۔۔۔ م۔۔ میرا مطلب ہے، تم کہاں سے آگئے؟“ وہ شوخی سے بولا، ”مجھے ڈھونڈ رہی تھی نا؟“

 میں نے فوراً انکار کیا، “نہیں! میں کیوں ڈھونڈوں گی تمہیں؟“ وہ مزید شوخ ہو کر بولا، “نہ نہ ! میں نے خود دیکھا تم مجھے ہی تلاش کر رہی تھی، اب چھپا رہی ہو۔“ میں نے ماتھے پر بل ڈالے،

 ”بالکل بھی نہیں ! میرے پاس تو جیسے اس کام کے سوا کوئی اور کام ہی نہیں۔

“مانو یا نہ مانو، تمہاری نظریں مجھے ہی تلاش کر رہی تھیں، کیونکہ میں ہوں ہی اتنا ہینڈسم اور ڈیشنگ ! لڑکیاں میری لکس کو پسند کرتی ہیں ۔“

 میں نے جھنجھلا کر کہا، ” ایکسکیوز می ! کس خیال میں ہو تم؟ میں نے کہا نا میں تمہیں نہیں ڈھونڈ رہی تھی۔“ وہ شرارت سے بولا، “اچھا چلو مان لیتا ہوں، لیکن آج وہ تمہارا چشمہ پوش کزن کیسے آگیا؟ بڑے دنوں بعد اپنے بل سے نکلا ہے۔“ میں نے غصے سے جواب دیا، ”اُس کے بارے میں کچھ مت کہنا ! وہ صرف میرا کزن ہی نہیں، بہت اچھا دوست بھی ہے۔“ وہ ناک چڑھا کر بولا، ہاں ہاں ! وہ تم لوگوں کی بے تکلفی اور ہنسی ٹھٹھے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔

میں نے اُسے گھورا، ”تم جیلس ہو رہے ہو؟“

 وہ فوراً ہنسا، ”مجھے کیا ضرورت ہے جیلس ہونے کی بھلا ! میرا اور اُس کا کیا مقابلہ ! میرے جتنا ڈیشنگ ہے کیا وہ؟“ میں نے جھنجھلا کر دونوں ہاتھوں کو ہوا میں ہلاتے ہوئے کہا،

 ”اُف ! تم پھر سے شروع ہو گئے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں تمہاری اس بات سے متفق ہو جاؤں گی کہ تم بہت چارمنگ، ہینڈسم اور گڈ لکنگ ہو؟“وہ اکڑ کر بولا،

 “ہاں تو میں کب کہہ رہا ہوں کہ میری بات مانو، نہ مانو لیکن سچ یہی ہے ، اور پوری دنیا اسے سچ مانتی ہے کہ میں ہینڈسم ہوں۔ ایک کے نہ ماننے سے مجھے کیا فرق پڑتا ہے “ پھر شوخ انداز میں بولا، “اچھا چڑیل رانی ! چلتا ہوں۔ کہیں اُس چشمہ پوش نے مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لیا تو جل کر کوئلہ نہ بن جائے۔”یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگاتا ہوا چلتا بنا، اور میں اُسے جاتے دیکھ کر بے اختیار سر جھٹک کر رہ گئی۔

موسم خاصا خوشگوار تھا۔ عرشیہ کے گھر مہمانوں کی آمد و رفت جاری تھی اور وہی پاگل لڑکا حسب معمول گیٹ سے ٹیک لگائے کھڑا ہر آنے جانے والے کو سر سے پاؤں تک غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے لمحہ بھر کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کا ذہنی توازن کچھ بگڑا ہوا ہے، مگر پھر میں نے اپنے خیالات کو جھٹک دیا اور آہستہ قدموں سے نیچے اُتر آئی۔ اسٹڈی روم میں پہنچی تو وہاں جسے ہونا چاہیے تھا، وہ موجود نہ تھا۔ میں خاموشی سے اندر آئی اور شیلف سے ایک کتاب اُٹھا کر بیٹھ گئی۔ کتاب کا عنوان روشن حروف میں درج تھا:

“Meditations” By Marcus Aurelius-میں نے اس کی پہلی جلد کا ورق الٹایا تو اُس پر ایک تحریر رقم تھی:

“Stoic کہتے ہیں کہ ہم صرف اپنے خیالات کو قابو کر سکتے ہیں، باقی سب بے کار ہے۔”اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں جو کچھ بھی ہمارے کنٹرول میں ہے، وہ ہمارے اپنے خیالات، رویے اور ردِعمل ہیں۔ آپ یہ طے کر سکتے ہیں کہ کسی بات کو مثبت لینا ہے یا منفی۔ آپ یہ چن سکتے ہیں کہ غصہ کرنا ہے یا صبر کرنا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں، سوچنا سمجھنا آپ کے اختیار میں ہے۔ میں نے ہلکی آواز میں اُس تحریر کو دہرایا اور پھر وہ الفاظ خود سے باتیں کرنے لگے ۔ اسی لمحے کسی نے پیچھے سے آکر مدھم آواز میں کہا: “مجھے لگتا ہے یہی بات ہے جو مجھے ہر بار بچا لیتی ہے۔” میں نے چونک کر پلٹ کر دیکھا اور پوچھا ۔ ” تمہیں ہر چیز میں کسی فلسفی کا سہارا کیوں درکار ہوتا ہے؟”وہ آکر میری برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا اور پُرسکون لہجے میں بولا: “کیونکہ جب سب کچھ کچھ بے کار ہو جائے، تو سوچ ہی تو ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔”

  “بے کار” کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چیز اہم نہیں، بلکہ یہ کہ وہ آپ کے قابو میں نہیں، اس لیے اس پر فکر کرنے کا کوئ فائدہ نہیں۔

دوسروں کے رویے، موسم، قسمت، یا حالات — یہ سب آپ کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ اگر ہم ان چیزوں پر وقت اور توانائی ضائع کریں جو ہمارے بس میں نہیں، تو ہم ذہنی سکون کھو دیتے ہیں۔

اُس نے میرے ہاتھ سے کتاب لے کر دوسرا صفحہ کھولا اور انگلی سے ایک جملے کی طرف اشارہ کیا:

“The unexamined life is not worth living.کوئی انسان اپنی زندگی، اپنے فیصلوں، اپنے خیالات اور اپنے مقصد پر غور نہیں کرتا، تو وہ زندگی محض ایک خودکار مشین کی طرح گزر جاتی ہے — اور ایسی زندگی کا کوئی حقیقی معیار یا قدر نہیں رہتی۔”

پھر وہ بولا:”تمہیں معلوم ہے جب Plato نے

Allegory of the cave

  تحریر کی تھی تو اُس نے اصل میں انسان کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بیان کیا تھا۔” میں اُس کی طرف متوجہ تھی۔ وہ رُکے بغیر بولتا گیا: “کچھ لوگ پیدائش سے غار میں بند ہیں، اور صرف دیوار پر پڑنے والے سائے دیکھتے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ یہی حقیقت ہے، کیونکہ انہوں نے اصل روشنی اور اصل دنیا کبھی نہیں دیکھی۔ جب ایک شخص غار سے نکل کر سورج کی روشنی دیکھتا ہے، تب اسے پتا چلتا ہے کہ اصل حقیقت باہر ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر لوگ روشنی دیکھ کر دوبارہ غار میں لوٹ جاتے ہیں، کیونکہ وہاں آسانی، عادت اور سکون ہوتا ہے — چاہے وہ اندھیرا ہی کیوں نہ ہو۔یہ دراصل انسان کی comfort zone کی مثال ہے — روشنی (سچائی) اکثر تکلیف دہ اور چبھنے والی ہوتی ہے، اس لیے لوگ حقیقت سے بھاگ کر دوبارہ پرانی عادتوں میں چلے جاتے ہیں۔

 میں نے اُس کے چہرے پر غور سے نگاہ ڈالی اور پوچھا، “سمر! تمہیں کس چیز سے خوف محسوس ہوتا ہے؟ روشنی سے یا اندھیرے سے؟” سمر ہولے سے مسکرایا اور کچھ لمحے رُک کر بولا: فلسفی کبھی ایک مقام پر نہیں رکھتا رشنا۔وہ سچائی کی تلاش میں بڑھتا چلا جاتا ہے،اس کی زندگی میں کئ اندھیرے اور روشنیاں آتی ہیں۔مجھے تو بس اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں میں تنہا نہ رہ جاؤں تم مجھے اپنی غار میں تنہا نہ چھوڑنا ، تم سچائی اور روشنی کی تلاش میں اتنا اگے نکل گئ تو میں پیچھے رہ جاؤں گا کیوں کہ میں بھی اندھیرے میں خود کو چھپاتا ہوں، کمفرٹ فیل کرتا ہوں اور تم روشنی کی طرح جگمگاتی ہو ۔”اُس کا جواب سن کر میں کچھ سمجھ نہ سکی اور اُسے خاموشی سے دیکھتی رہ گئی۔ پھر اُس نے اسی صفحے کے نیچے اپنی تحریر میں لکھا:”Man is nothing else but what he makes of himself.”

وہ کتاب بند کرتے ہوئے بولا، “میں تمہیں کچھ دینا چاہتا ہوں۔” اُس نے شیلف سے ایک اور کتاب نکالی، جس کے سر ورق پر درج تھا: ‘The Art of Happiness’۔ اُس نے کتاب میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا: “یہ لو، یہ تمہارے لیے۔ پڑھ کر دیکھنا۔” میں نے مسکراتے ہوئے کتاب کھولی اور صفحات اُلٹنے لگی۔ “بہت شکریہ،” میں نے سادہ لہجے میں کہا۔ وہ بولا: “چاہو تو اپنے کمرے میں لے جا کر پڑھ لینا۔ مکمل ہو جائے تو واپس یہیں رکھ دینا۔”میں نے انکار میں سر ہلایا: “نہیں، میں یہی بیٹھ کر پڑھوں گی۔ کمرے میں لے گئی تو واپس رکھنا بھول جاؤں گی۔” وہ ہنس کر بولا۔ “چلو جیسا تمہارا دل کرے۔ ویسے تمہیں پڑھ کر مزہ آئے گا۔” میں نے کتاب کو سینے سے لگا کر کہا: “میں ضرور پڑھوں گی۔ ” کچھ لمحے بعد اُس نے ایک دم نظریں اٹھا کر کہا: “آج موسم بہت اچھا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہیں باہر چلتے ہیں۔ ویسے بھی بھوک بھی لگ رہی ہے، یقیناً تمہیں بھی لگ رہی ہوگی بھوک؟” میں نے بے ساختہ ہنس کر کہا: “ہاں، بہت۔” وہ پُرجوش لہجے میں بولا: “ٹھیک ہے۔ ایک ریسٹورنٹ کی چاؤمن مجھے بہت پسند ہے، تمہیں بھی چکھاتا ہوں۔”ہم دونوں اکٹھے باہر گئے، ریسٹورنٹ پہنچے اور خوش دلی سے کھانا کھایا شکر ہے اس دفعہ اس نے چاؤمن پر کوئی انوکھی داستان نہیں سنائی کیونکہ کہ یہ انگریزوں کی ایجاد کردہ ڈش ہے جس پر فالحال تو کوئی تاریخ رقم نہیں ہوئ ۔پھر واپسی پر کچھ دیر پیدل چلنے لگے۔ سڑک پر گاڑیاں تیزی سے دوڑ رہی تھیں۔ اُس نے

میرا ہاتھ تھاما اور سڑک پار کرانے لگا۔ میں نے اُس کی جانب دیکھا، وہ نظریں

سڑک پر جمائے ہوئے تھا۔ پار پہنچ کر اُس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ میں نے کچھ

طنزیہ انداز میں کہا: “میں تمہاری مدد کے بغیر بھی سڑک پار کر سکتی تھی۔” وہ

مُسکرا کر بولا: “اچھا ؟ کہیں تمہیں برا تو نہیں لگا میرا ہاتھ پکڑنا ؟”

“نہیں “۔ میں نے مختصر سا جواب دیا

واپسی پر جب ہم گھر پہنچے تو لاؤنج میں عرشیہ، رافعہ اور خالہ بیٹھی باتوں میں محو تھیں۔ اُن کے ساتھ عرشیہ کی بھابی قرأت بھی موجود تھیں۔ میں عرشیہ اور قرآت کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ “آپ لوگ کب آئیں؟” میں نے عرشیہ سے پوچھا۔ عرشیہ کی جگہ اُس کی بھابی قرآت نے نرمی سے جواب دیا: “بس تقریباً آدھا گھنٹہ ہوا ہمیں آئے ہوئے۔” پھر میں اور قرآت آپس میں دھیمی دھیمی گپ شپ میں مشغول ہو گئیں، اور موسم کی خنکی میں خیالوں کی گرمی گہری ہوتی گئی۔

ولیمہ کی تقریب دو بجے رکھی گئی تھی۔ مہمانوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ آج میں نے ہلکے گلابی رنگ کا لباس پہنا تھا، ہلکا پھلکا میک اپ کیا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں کا اسٹائل بنانے میں مصروف تھی کہ اچانک خالہ کمرے میں داخل ہوئیں۔ مجھے دیکھ کر فوراً میری نظر اتارنے لگیں۔

“ماشاءاللّٰہ! بہت پیاری لگ رہی ہے میری گڑیا،” خالہ نے محبت سے کہا۔

“خالہ، آپ تیار کیوں نہیں ہوئیں؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

“نہیں بیٹا، آج طبیعت کچھ ناساز ہے، سر میں شدید درد ہے،” انہوں نے سر کے پچھلے حصے کو دباتے ہوئے بےزاری سے کہا۔

“تو خالہ آپ نے بتایا کیوں نہیں؟ میں ابھی سمر سے کہتی ہوں کہ آپ کو اسپتال لے جائے،” اچانک مجھے خالہ کی فکر ہونے لگی۔

“ارے نہیں، بس دوا لے کر آرام کر لوں گی۔ تمہیں دیکھنے آئی تھی کہ تیار ہوئی یا نہیں،” خالہ نے میرے لباس کو دیکھتے ہوئے کہا۔

“تیار تو ہوں خالہ، لیکن آپ کی طبیعت خراب ہے تو میں کیسے چلی جاؤں؟” میں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

“ارے نہیں، تم جاؤ۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، بس کل کی تھکن ہے۔ میری وجہ سے اپنا پلان خراب نہ کرو،” خالہ نے میری بات ماننے سے انکار کر دیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ گھر رک جاؤں لیکن خالہ نے نہ مانا۔ پھر مجھے اور رافعہ کو سمر نے شادی ہال تک چھوڑا اور خود واپس چلا گیا۔ میں رافعہ کے ساتھ ہال کے اندر چلی گئی۔ اندر ٹھنڈک کے باعث مجھے کچھ دیر بعد سردی لگنے لگی لیکن رافعہ کو احساس نہ ہوا۔ میں نے ایک خالی میز دیکھی اور اس کی طرف بڑھ گئی۔ اچانک میری نظر حذیفہ پر پڑی، وہ کچھ لڑکوں کے ساتھ ایک طرف کھڑا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی، میں نے فوراً نظریں چرا لیں۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا میری طرف آیا۔

“تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے،” وہ میرے قریب آ کر دھیمی آواز میں بولا۔

“میرے لیے؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

“ہاں، تمہارے لیے! میں نے سوچا اب دوست بن ہی گئے ہیں تو ایک اچھا سا سرپرائز دوں،” اس نے شوخی سے کہا۔

“ایکسکیوز می! میں تمہاری دوست نہیں ہوں اور آئندہ مجھ سے ایسی کوئی توقع مت رکھنا،” میں نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔

“دیکھو، اس کے علاوہ میں اور کیا توقع رکھوں تم سے؟ ظاہر ہے دوست ہی سمجھوں گا۔ خیر، میں دوستی کے معاملے میں اتنا برا بھی نہیں۔ یقین کرو، میں مشکل وقت میں اپنے دوستوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا،” حذیفہ نے یقین دہانی کرائی۔

“مجھے کوئی دلچسپی نہیں،” میں نے بے نیازی سے کہا۔

“لیکن مجھے تو ہے دلچسپی،” اس نے ڈھٹائی سے جواب دیا۔

“تمہیں کیوں ہو رہی ہے دلچسپی؟” میں نے لاپرواہی سے پوچھا۔

“کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ہم دونوں میں اتنی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی ہے۔ اور تم مجھے جان ہی گئی ہو گی کہ میں کیسا لڑکا ہوں۔ کچھ باتوں سے میں بھی واقف ہوں، اور ہمارے درمیان باتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ تو مجھے لگتا ہے دوستی کے لیے اتنی انڈرسٹینڈنگ کافی ہے۔ پھر بھی اگر تمہیں اعتراض ہے تو شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ تم مجھے مزید سمجھنا چاہتی ہو، اور تمہیں ابھی بہت کچھ جاننا ہے میرے بارے میں۔ مجھے لگتا ہے میں صحیح کہہ رہا ہوں، بولو، صحیح کہہ رہا ہوں نا؟” اس نے پلکیں چپکاتے ہوئے معصوم سی شکل بنائی۔ میں اس کی مسلسل باتوں سے تنگ آ کر ایک لمبی سانس لی اور اپنے الفاظ ترتیب دینے لگی۔

“مجھے لگتا ہے تمہیں اپنی زبان کو تھوڑی بریک دینی چاہیے، کیوں؟ صحیح کہا نا؟” میں کچھ اور کہنا چاہتی تھی لیکن خیر…

“بریک کیوں؟ وہ کیا ہے نا، تمہیں دیکھتے ہی میری زبان کی بریکس فیل ہو جاتی ہیں، دل کرتا ہے تمہارے سامنے بولتا رہوں،” اس نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

میں نے تیوری چڑھا کر اسے دیکھا۔

“ایسے مت دیکھو، میں بے ہوش ہو جاؤں گا،” اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

“آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ مجھے اکیلا کیوں نہیں رہنے دیتے؟ منہ اٹھا کر کیوں آ جاتے ہو؟” اچانک مجھے غصہ آ گیا۔

“دیکھو، میری مجبوری ہے۔ مجھے اپنا منہ اپنے ساتھ ہی رکھنا پڑتا ہے، اس منہ پر میرے پیارے پیارے فیشل فیچرز ہیں اور مجھے ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ مجھے بولنا پڑتا ہے، دیکھنا پڑتا ہے، سانس لینی پڑتی ہے… اوہ مائی گاڈ! کتنا کچھ کرتا ہوں ایک وقت میں، واہ!”

“اچھا، مجھے لگتا ہے تم اگر اپنی زبان کا استعمال کم کرو تو زندہ رہ سکتے ہو، اور ان آنکھوں میں تھوڑی حیا لاؤ تو بھی زندہ رہ سکتے ہو…” میں یہ کہہ کر وہاں سے تیزی سے چلی گئی۔

“لیکن سانس لیے بغیر تو زندہ نہیں رہ سکتا نا…” میں نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا، وہ غور سے مجھے ہی دیکھ رہا تھا، اور تب تک دیکھتا رہا جب تک میں عورتوں کی بھیڑ میں گم نہ ہو گئی۔

اچانک ایک پانچ چھے سالہ بچہ میرے پاس آیا اور اپنی توتلی زبان میں بولا،

“آنٹی، باہر آپ کو کوئی بلا رہا ہے۔” میں نے پہلے بچے کو دیکھا اور پھر خود کو۔

“آنٹی؟ کیا میں اسے آنٹی دکھ رہی ہوں؟ آنٹی!” اس بچے نے کچھ زیادہ ہی شرمندہ کر دیا مجھے۔ وہ بچہ بھاگ کر اپنی ماں کی گود میں چڑھ گیا۔ خیر، میں باہر آئی تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ادھر اُدھر نظر دوڑانے کے بعد بھی نہ کوئی بندہ نظر آیا نہ بندے کی ذات۔ لیکن کچھ تجسس کے باعث میں تھوڑا آگے بڑھی اور دائیں بائیں اس شخص کو تلاش کرنے لگی جس نے اس بچے کے ذریعے مجھے ہال سے باہر بلایا تھا۔ مجھے لگا شاید رافعہ نے بلایا ہوگا، لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ اس لیے واپس پلٹنے لگی کہ اچانک میرے پاؤں کے قریب ایک زوردار آواز کے ساتھ کچھ پھٹا، اور پھر ایک کے بعد ایک پٹاخے میرے پاؤں کے قریب پھٹنے لگے۔

پٹاخوں کے اچانک پھٹنے سے میں بری طرح خوفزدہ ہو گئی، اوپر نیچے اچھلنے لگی اور جتنی بلند آواز میں ممکن تھا، اتنی بلند آواز میں چلّانے لگی:

“اماں بچاؤ! اماں بچاؤ!”

خوف کے مارے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور باقاعدہ رونا شروع کر دیا۔ پٹاخے ایک کے بعد ایک میرے قدموں کے قریب پھٹ رہے تھے۔ نہ آگے جایا جا رہا تھا، نہ پیچھے۔ آخر کار چلّاتے چلّاتے میرے گلے میں درد ہونے لگا لیکن ہال کے اندر سے کوئی باہر نہ آیا۔ شاید اندر گانوں اور لوگوں کی آوازوں کا شور ان پٹاخوں سے بھی زیادہ تھا۔ کچھ دیر بعد جب پٹاخوں کا زور ٹوٹنے لگا، مجھے زور زور سے کسی کے قہقہے سنائی دیے۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ حذیفہ تھا، جو کچھ لڑکوں کے ساتھ کھڑا زور زور سے ہنس رہا تھا۔

“باجی ڈر گئی، باجی ڈر گئی!” وہیں کھڑے ایک بچے نے میری طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے خوشی سے نعرہ لگایا۔ میں غصے اور نم آنکھوں سے حذیفہ کو دیکھ رہی تھی جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میرا مذاق اڑا رہا تھا۔ میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ پھر اچانک میں نے ہمت کی، آگے بڑھی اور حذیفہ کے پاس جا کر ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر دے مارا۔ تھپڑ پڑتے ہی وہ اور تمام لڑکے سنجیدہ ہو گئے۔ حذیفہ نے اپنے گال پر ہاتھ رکھا، نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا۔

“تم کچھ بھی کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ تمہیں یہ گھٹیا حرکت کرنے کی اجازت میں نے نہیں دی تھی۔ تم سمجھتے کیا ہو خود کو؟ تھوڑا لحاظ کر لیا، تم نے میری نرمی کا فائدہ اٹھایا۔ شرم آنی چاہیے تمہیں! تم جیسے لڑکوں کی فطرت میں ہوتا ہے کہ کسی اکیلی لڑکی کو بہانے سے بلاؤ اور اپنے بدتمیز دوستوں کے سامنے اس کا تماشا بناؤ۔ تمہیں لگتا ہے میں تمہارے اس گھٹیا ترین سرپرائز کے بدلے تمہیں گلے میں ہار پہنا دوں گی؟ لو، لے لو میرا ریٹرن گفٹ، یہ تھپڑ جو میں تمہارے چاند جیسے چہرے پر دے چکی ہوں۔”

اتنے میں ہال سے حذیفہ کا پورا خاندان باہر آ گیا اور یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔

“ناظرین! آج کی تازہ خبر: ایک رونق بھری شادی میں آئی ہوئی لڑکی نے دلہے کے چھوٹے بھائی کے تھوبڑے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا۔ یہ دیکھ کر لڑکے کی ماں اور خالائیں میدان میں آ گئیں۔”

“اے لڑکی! تمہاری یہ مجال میرے بیٹے پر ہاتھ اٹھایا؟ ایک تو شادی میں بلایا، عزت سے بٹھایا، اور تم یوں سرعام میرے بیٹے کے منہ پر تماچہ مار کر ہماری بے عزتی کر رہی ہو؟” حذیفہ کی ماں میرے قریب آ کر چلّائیں۔

ان کا یہ روپ پہلی بار سب کے سامنے آیا تھا۔

“شکر کریں کہ تھپڑ مارا ہے، ورنہ میں آپ کے بیٹے کا ویسا ہی تماشا بناتی جیسا اس نے میرا بنایا۔ اور مجھ پر برسنے سے پہلے اپنے بیٹے سے بھی پوچھ لیں کہ کیا کارنامہ کیا ہے آپ کے شہزادے نے،” میں نے غصے میں حذیفہ اور اس کی ماں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

“ارے! کیا پوچھوں اپنے بیٹے سے؟ خوب جانتی ہوں تم جیسی لڑکیوں کو، جو معصوم اور شریف لڑکے دیکھیں فوراً ان پر اپنا زور چلانے لگتی ہیں، ہمت کیسے ہوئ تمھاری ایک شریف خاندان کے بیٹے کو سب کے سامنے رسوا کرنے کی، شادی کا گھر ہے اور تم یہاں تماشا کرنے آئ ہو ،تمھاری جیسی ہی لڑکیاں ہوتی ہیں جو نہ اپنا گھر سنبھال سکتی ہیں نہ عزت۔ ” انٹی نے حد پار کر دی۔

“بس آنٹی! اب اس سے اور ایک لفظ مت بولیں گا ، میں نے کوئی تماشا نہیں بنایا اپ کے بیٹے کا الٹا اس نے سب کے سامنے میرا تماشا بنایا ، مجھ پر جان بوجھ کر یہ خطرناک پٹاخے چھوڑے۔” لو جی! باہر ایک الگ فلم شروع ہو گئی۔ دلہن، دلہا سمیت تمام رشتہ داروں کو فری میں تماشا دیکھنے کو مل گیا۔ اب ایا نہ شادی میں ٹوئسٹ “

رافعہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے وہاں سے باہر لے آئی۔

“باجی، بس! چپ کر جائیں۔ اب گھر چلتے ہیں۔رافعہ نے سمر کو فون کیا اور کچھ دیر بعد سمر گاڑی لے کر آ پہنچا۔” میں دورانِ سفر کچھ بھی نہ بولی، بس خاموشی سے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتی رہی۔ میرا دماغ پوری طرح ماؤف ہو چکا تھا۔

جوں ہی میں گھر پہنچی، فوراً اپنے کمرے میں چلی گئی۔ مجھے بے حد غصہ آ رہا تھا آنٹی پر اور اُن کے اُس معصوم و شریف مزاج فرشتہ صفت بیٹے پر، جس نے تمام لڑکوں کے سامنے میرا تماشہ بنا دیا۔ سمر اور رافعہ بھی خاموشی سے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے۔ اگلے تیس منٹ تک میں مسلسل روتی رہی، پھر اچانک مجھے نیند سی کیفیت محسوس ہوئی اور میں کپڑے تبدیل کر کے لیٹ گئی۔ سمر اور رفیعہ میں سے کسی نے مجھے ڈسٹرب کرنے کی کوشش نہ کی، اور ویسے بھی میں خود کسی سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ شام تک میں یونہی بستر پر لیٹی رہی، پھر میرے موبائل پر گھنٹی بجی اور میں چونک کر جاگ گئی۔ ابو کی کال تھی۔ میں نے فوراً تمام خیالات کو جھٹکا اور کال اٹینڈ کی۔

“السلام علیکم ابو، کیسے ہیں آپ؟” (میری آواز اب بھی کچھ بوجھل تھی لیکن میں نے خود پر قابو پا کر سلام کیا)

“وعلیکم السلام، میں بالکل خیریت سے ہوں الحمدللہ۔ میری بیٹی کیسی ہے؟ اور کہیں مجھے یاد تو نہیں کر رہی؟” (ابو نے محبت سے سلام کا جواب دیا اور میری خیریت دریافت کی)

“جی ابو، میں بالکل ٹھیک ہوں، اور آپ کو بہت یاد کر رہی ہوں۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ اور اماں کا کیا حال ہے؟”

“الحمدللہ سب خیریت سے ہیں، بس تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔ تمہارے لیے ایک خوشخبری ہے، سوچا سرپرائز دوں گا لیکن پھر خیال آیا نہ جانے تم کب آؤ، اس لیے فون پر ہی بتا دیتا ہوں۔” (کاش ابو کو بتا سکتی کہ مجھے ایک سرپرائز پہلے ہی مل چکا ہے، جس کا اثر ابھی تک میرے ذہن میں گونج رہا ہے)

“کیا سرپرایز ہے؟” (میں نے تجسس میں پوچھا)

“بیٹا، اگلے مہینے نعمان آ رہا ہے ثانیہ اور بچوں کے ساتھ۔ تم ایسا کرو، اگلے مہینے ہی یہاں آ جاؤ تاکہ بھائی، بھابھی اور اپنے بھتیجے بھتیجی سے ملاقات ہو جائے۔”

میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ بھائی اپنی فیملی کے ساتھ پورے چار سال بعد پاکستان آ رہے تھے، اور اب تو میرا دل کر رہا تھا کہ فوراً جا کر بھتیجے بھتیجی سے خوب کھیلوں۔ ثانیہ بھابھی سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ وہ خوش اخلاق اور نرمی سے بات کرنے والی خاتون تھیں۔

“ماشاءاللہ، یہ تو بہت اچھی خبر ہے ابو! واقعی آپ نے مجھے خوش کر دیا۔ میں سب کو بتاؤں گی اور ان شاءاللہ اگلے مہینے آ جاؤں گی۔ آپ فکر نہ کریں۔”

پھر میں اور ابو گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔

رات کو میرا کھانے کا بالکل دل نہیں تھا، لیکن رافعہ خالہ کے اصرار پر وہ مجھے زبردستی ڈائننگ ہال لے گئیں۔ میں نے بے دلی سے چند نوالے لیے اور اُٹھ گئی۔ خالہ نے میری کیفیت کو بھانپتے ہوئے مجھے جانے دیا۔ کھانے کی میز پر میں بالکل خاموش تھی۔ پہلے تو خالہ کے ساتھ خوب گپ شپ لگایا کرتی تھی، لیکن آج دل ہی نہیں چاہا کہ کسی سے بات کروں۔ جب میں واپس کمرے میں گئی تو نیند بالکل نہیں آ رہی تھی، اس لیے سوچا کہ لان میں تھوڑی دیر چہل قدمی کر لوں۔ لان میں درختوں کے ساتھ لٹکتی ہوئی خوبصورت لائٹس کی روشنی سے پورا ماحول جگمگا رہا تھا۔

میرے ذہن میں عجیب عجیب خیالات آ رہے تھے۔ مجھے اُس شخص سے نفرت محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا تھا؟ کیا یہی تھا اُس کا سرپرائز؟ اتنا گھٹیا مذاق کیا اُس نے میرے ساتھ؟ وہ اس قدر گر جائے گا، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اور آنٹی؟ انہیں کیا ہو گیا تھا؟ کیا انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ اس وقت میرے دل پر کیا گزر رہی تھی، جب میرے قریب ایک کے بعد ایک خوفناک پٹاخے پھٹ رہے تھے اور ان کا بیٹا اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ میرا تماشہ بنا رہا تھا؟ آخر کیوں کیا اُس نے ایسا؟ کاش میں پہلے ہی اُسے اپنے قریب آنے کا موقع نہ دیتی۔ شاید اُس نے مجھے کمزور سمجھ لیا ہے۔ میں انہی خیالات میں گم تھی کہ اچانک سمر آ گیا۔ شاید اُسے بھی میری طرح نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ گرے شرٹ کے نیچے بلیک ٹراؤزر پہنے ہوئے تھا۔ وہ میرے قریب آیا۔

“کیا ہوا، تم سوئی نہیں ابھی تک؟ گیارہ بج چکے ہیں۔” (اُس نے قدرے بےچینی سے پوچھا)

“نہیں، مجھے نیند نہیں آ رہی۔ عصر تک سوئی رہی، اس لیے اب نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ تم بھی تو نہیں سوئے؟” (میں نے اُس سے پوچھا)

“ہاں، مجھے بھی نیند نہیں آئی، کیونکہ میری دوست کو نیند نہیں آ رہی۔” (اُس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا)

میں بھی اُس کی مسکراہٹ دیکھ کر ہولے سے مسکرا دی۔ پھر کچھ دیر ہمارے درمیان خاموشی رہی۔

“مجھے اگلے مہینے واپس جانا ہے۔” (میں نے طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا)

“اگلے مہینے؟ تم تو تین مہینے کے لیے آئی تھی نا؟” سمر نے حیرانی سے پوچھا۔

“ہاں، آج ابو کی کال آئی تھی۔ اگلے مہینے نعمان بھائی آ رہے ہیں اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان۔” (میں نے وضاحت دی)

“اچھا! یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔ چلو اچھی بات ہے، کچھ وقت ان کے ساتھ بھی گزار لینا، کافی عرصے بعد پاکستان آ رہے ہیں وہ۔” (سمر بھی یہ خبر سن کر خوش ہوا)

“ہاں، بہت عرصے بعد۔ جب بھائی پہلی بار باہر جا رہے تھے، تو میں نے ان کا بازو زور سے پکڑ لیا تھا۔ اُس وقت میں میٹرک میں تھی، اور بھائی کے جانے پر بہت روئی بھی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ خود کو سنبھال لیا۔ اس کے بعد بس ایک دو بار ہی بھائی پاکستان آئے، وہ بھی اکیلے۔ میں اور ابو نے کئی بار کہا کہ بھابھی اور بچوں کو بھی ساتھ لائیں، لیکن بھائی ہر بار یہی کہتے کہ اگلی بار ساتھ لاؤں گا سب کو…” میں بولتی چلی گئی اور سمر بغیر کسی تاثر کے میری بات سنتا رہا۔ تھک کر میں ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ سمر بھی سامنے والی سیٹ پر آ بیٹھا۔

میں چند لمحے خاموش رہی، پھر سمر بول پڑا:

“ویسے میں یہ ایکسپیکٹ نہیں کر رہا تھا کہ تم اتنی جلدی چلی جاؤ گی، لیکن خیر، تمہارا جانا ضروری ہے۔” (اس نے کچھ اُداسی سے کہا)

“ویسے ابھی تو بہت وقت ہے، پورا مہینہ ہے۔” (میں نے سکون سے کہا)

“ہاں، پورا مہینہ پڑا ہے ابھی۔ شکر ہے تمہارے ان شادی والے چونچلوں سے جان چھوٹی۔” (اس کا یہ کہنا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے دن کا وہ منظر تازہ ہو گیا، اور میں کچھ سنجیدہ ہو گئی)

اس نے میری اُداسی کو فوراً بھانپ لیا، “مجھے تو ویسے بھی یہ فضول قسم کی رسومات بالکل پسند نہیں۔ سیدھا سادہ نکاح کر لیں اور پھر ولیمہ، اللہ اللہ خیر سلا۔ لیکن یہ تو پاکستان ہے، یہاں پہلے مہندی، پھر نکاح، پھر بارات! مجھ سے تو برداشت نہیں ہوتا یہ سب۔” (سمر نے کندھے اچکا کر کہا)

“تم بھول رہے ہو کہ تمہاری بھی شادی ہو گی، تمہیں بھی اپنی شادی کے سارے فنکشنز چپ چاپ اٹینڈ کرنے ہوں گے۔” (میں نے ہنس کر کہا)

“ہاں، بس اُسی دن کو تو یاد نہیں کرنا چاہتا۔ ویسے بھی امی میری نیچر سے واقف ہیں، انہیں پتا ہے کہ مجھے یہ سب پسند نہیں۔” سمر کی بات پر میں نے اُسے بغور باریک نظروں سے دیکھا اور کہا، “ہاں جیسے خالہ تمہاری پسند ناپسند کی تاب لا کر تمہیں بخش دیں گی نا؟”

“آہ… اسی بات کا تو افسوس ہے۔ہمارے معاشرے میں شادی ایک خوشی اور عبادت کا موقع ہونے کے باوجود اکثر نمائش، مقابلہ بازی، اور دکھاوے کا میدان بن جاتی ہے۔ کھانے کے لامتناہی کورس، غیر ضروری فنکشنز، مہنگے ملبوسات، اور فضول رسومات اس قدر عام ہوچکی ہیں کہ لوگ سمجھنے لگے ہیں یہ سب شادی کا لازمی حصہ ہیں۔شادی کا اصل مقصد دو خاندانوں کا جڑنا ہے، نہ کہ فضول خرچی۔اسلام بھی سادگی اور میانہ روی کا حکم دیتا ہے، جبکہ یہ رسومات اس کے برعکس ہیں۔” سمر نے ایک لمبا سانس لیا اور کہا۔

ہم یونہی باتیں کرتے رہے۔ جب وقت دیکھا تو رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے۔ سمر نے کہا، “اب سونا چاہیے، اس سے پہلے کہ خالہ آ کر ہماری خوب عزت افزائی کریں۔” میں بھی اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔ نیند اب بھی نہیں آ رہی تھی، لیکن پھر بھی آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی کہ شاید کسی وقت نیند آ ہی جائے۔

صبح کی بارش کے باعث شام کا موسم خاصا خوشگوار تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا دل کو چھو رہی تھی، مگر میرا ذہن اب تک کل والے واقعے کی یاد سے بری طرح منتشر تھا۔ اسی لیے میں نے سوچا کچھ دیر چھت پر جا کر ذہن کو تازگی دے لوں۔ میں نے رفیعہ سے ساتھ چلنے کو کہا، مگر وہ کسی فوری کام کے باعث مارکیٹ جا رہی تھی، لہٰذا میں تنہا ہی اوپر آ گئی۔ میں آ کر اپنی پرانی نشست پر بیٹھ گئی تھی کہ اچانک نظر سامنے والی کوٹھی پر جا پڑی۔ پھر اس لمحے پر افسوس ہونے لگا کہ میں چھت پر آئی ہی کیوں۔ میں نے فوراً نگاہیں ہٹا لیں۔ اب میں اس گھر کے کسی فرد سے کوئی واسطہ رکھنا نہیں چاہتی تھی۔ بیٹا ہی کافی نہ تھا، رہی سہی کسر اُس کی ماں نے پوری کر دی تھی۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ آنٹی بہت اچھی ہیں، مگر جیسے ہی بات اُن کے بیٹے پر آئی، وہ مجھ پر شدید برہم ہو گئیں۔ آخر انہوں نے یہ کیوں کہا کہ ’’مجھ جیسی لڑکیاں شریف لڑکوں پر اپنا بس چلاتی ہیں۔‘‘ یہ جملہ میرے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہا۔ میں بار بار یہی الفاظ دہرا رہی تھی کہ اچانک آم کے دو بڑے درختوں کے سایے سے کوئی شخص نمودار ہوا۔ میری نظر بےاختیار اس پر جا ٹھہری… اور ماتھے پر فوراً بل آ گئے۔ اس کے چہرے پر شرمندگی کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا۔ اُس کی مسکراہٹ مجھے ایک عجیب سی الجھن میں مبتلا کر رہی تھی۔ میں اٹھ کر جانے لگی تو اُس نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگا لیے۔ یہ دیکھ کر میں رک گئی۔ یہ اُس کے معذرت کرنے کا مخصوص انداز تھا۔ مگر سچ پوچھیں تو مجھے اُس کے کان پکڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر وہ میرے قدموں میں گر کر معافی مانگتا، تب بھی میں اُسے معاف نہ کرتی۔

میں جانے لگی تو اُس نے اچانک آواز دی۔ میں اُس کی آواز پر پھر سے رک گئی اور پلٹ کر دیکھا، تو وہ کان پکڑنے کے ساتھ ساتھ اُٹھک بیٹھک بھی کر رہا تھا۔ مجھے یہ منظر نہایت عجیب لگا۔ کیا وہ پھر سے میرا مذاق بنا رہا تھا؟ کیا یہ معافی مانگنے کا طریقہ ہے؟ میں کھڑی ہو کر اُس کی الٹی سیدھی حرکتیں پلک جھپکائے بغیر دیکھتی رہی۔ وہ کبھی گرِل سے چھلانگ لگانے کی کوشش کرتا، کبھی درخت کی ایک کمزور شاخ کو گردن کے گرد لپیٹ کر خودکشی کا ناٹک کرنے لگتا۔ میں بمشکل اپنی ہنسی روک پائی، مگر اُس کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں ہنس رہی ہوں۔

’’اُف خدایا! یہ لڑکا تو پورا سائیکوپیتھ ہے… کیا کروں اس کا؟‘‘ میں نے دل میں کہا اور مڑ کر جانے لگی، کہ اُس نے دوبارہ آواز دی۔ اس بار میرا پارہ چڑھ گیا۔

’’کیا ہے؟ کیوں آوازیں دے رہے ہو؟‘‘ میں نے غصے سے کہا۔

’’معاف کر دو یار! غلطی ہو گئی بہت بڑی۔ مجھے وہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آئی ایم ایکسٹریم لی سوری۔ اور اگر تم چاہو تو وہ تمہارے پاس جو چھوٹا سا پتھر پڑا ہے، وہ اُٹھا کر مار دو، قسم سے مجھے درد نہیں ہو گا۔‘‘ حزیفہ نے قریب پڑے خوبانی کے سائز کے ایک پتھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’مجھے تمہارے سوری کی کوئی ضرورت نہیں، اور میرے سامنے کوئی ڈرامہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کل جو کچھ ہوا اُس کے بعد میں تمہاری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی۔‘‘ میری آواز اتنی بلند تھی کہ نیچے گلی میں کھیلتے بچوں نے بھی میری نقل اتارنا شروع کر دی۔ اور مجھے اب اُن بچوں پر غصہ آنے لگا۔ ’’دیکھو، مجھے پتہ ہے اس وقت تم غصے میں ہو اور میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتیں، تو تم اپنی آنکھیں بند کر کے بات کر لو۔‘‘ (حزیفہ نے گویا کسی سنگین مسئلے کا حل پیش کیا۔)

’’میں تم سے بات بھی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ (میں نے سوچا کہ اب وہ خاموشی سے وہاں سے چلا جائے گا۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ حزیفہ کا دوسرا نام ’ڈھیٹ انسان‘ ہے، تو کچھ بھی غلط نہ ہو گا۔)

’’محترمہ! ابھی جو اتنی باتیں کی ہیں، تھوڑی اور کر لو۔ دیکھو بیٹھ کر بات کرتے ہیں آرام سے۔‘‘ وہ بولا اور پیچھے جا کر ایک کرسی اُٹھائی پر بیٹھ گیا۔ ’’لو، اب بات کرو۔‘‘

میں نے چہرے پر دنیا جہاں کی بیزاری سجا کر دونوں بازو باندھے اور اُس موٹی کھال والے کو گھورا… یعنی جو انسان منہ پر کالک مل کر بھی نہ شرمائے، کیا اسے انسانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے؟ میں خود سے سوال کرنے لگی… لیکن جواب نہیں ملا، اور شاید ملے گا بھی نہیں… کہ اس سوال کا کوئی جواب تھا ہی نہیں۔

وہ اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا۔ اپنے دونوں ہاتھ سر کے پیچھے لے جا کر آسمان کی وسعتوں میں نظریں جمائے، جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ اسی کیفیت میں بنا میری طرف دیکھے بولا:

“دیکھو، تمہارے معاف کر دینے سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ الٹا ثواب ملے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اور غلطی چاہے جتنی بھی بڑی ہو، اپنا ظرف ہمیشہ بلند رکھنا چاہیے۔”

پھر وہ یکدم اپنی جگہ سے اٹھا، چند قدم چل کر میرے قریب آیا، اور چھت کی گرِل کے پاس آ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے عاجزی سے بولا:

“چلو یار، دل بڑا کرو اور اِس بندۂ ناچیز کو دل سے معاف کر دو۔” اُس کی آواز میں نرمی بھی تھی اور اپنائیت بھی۔ جیسے وہ کسی فیصلے کا منتظر ہو جو میرے دل کے دروازے پر رکا ہوا تھا۔

“معاف کر دو چُڑیل رانی… قسم سے، اگر نہ کیا تو اِس درخت سے لٹک جاؤں گا!”

وہ ہاتھ جوڑے، فریاد کناں، منت سماجت کر رہا تھا۔

لیکن میں نے اُسے یکسر نظر انداز کر دیا۔ نگاہیں پھیر لیں اور خاموشی سے سیڑھیوں کی طرف رُخ کر لیا، جو نیچے کمرے کی طرف جاتی تھیں۔

پیچھے سے اُس کی بے تکی آواز پھر ابھری، “ارے میری بات تو سنو چُڑیل رانی! کہاں جا رہی ہو؟ چڑیل رانی اوو۔۔۔، مجھے چھوڑ کر جا رہی ہو؟ ارے دیکھو! میں مرنے لگا ہوں۔ آخری وقت میں تو کم از کم معاف کر دو۔ دیکھو، اگر تم نے معاف کر دیا تو قبر میں سکون کی نیند سو سکوں گا… ورنہ مجھے سلیپنگ پِلز ساتھ لے کر جانا پڑیں گی!”

“آجی سنتی ہوووو؟!”

میں اُس کی اِن سب فضول اور بے معنی باتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے چھت سے اتر چکی تھی… بغیر پیچھے دیکھے، بغیر کچھ کہے۔

میں نیچے آئی اور سیدھا کچن کا رُخ کیا۔ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالی، گلاس میں اُنڈیلا اور گٹ گٹ کر کے پی گئی۔ سیڑھیاں ذرا تیز رفتاری سے اُتری تھی، اسی باعث سانس بے ترتیب ہو گیا تھا، جیسے ابھی ابھی کوئی پہاڑ سَر کر کے آئی ہوں۔

“اُف! یہ لڑکا… حد درجہ ڈرامے باز ہے۔ ” میں نے سر پہ ہاتھ رکھ کر خود سے کہا۔

“کون؟ کس کی بات کر رہی ہو؟ کون ہے اتنا بڑا ڈرامے باز؟”

سمر کی آواز اچانک کچن میں گونجی۔ میرا رُخ دوسری طرف تھا، اُس کے یوں بےخبری میں آ جانے پر میں گھبرا گئی، اور میرے ہاتھ سے گلاس پھسل کر فرش سے ٹکرا کر چکناچور ہو گیا۔

میں جھک کر ٹوٹی ہوئی کرچیوں کو سمیٹنے ہی لگی تھی کہ وہ بھی فوراً نیچے بیٹھ گیا۔ اُس نے نرمی سے میرا ہاتھ روکتے ہوئے کہا،

“رہنے دو، میں آرام سے اُٹھا لیتا ہوں۔”

پھر نہایت احتیاط سے ایک ایک کر کے کانچ کے ٹکڑے چننے لگا، اور اُنہیں ایک طرف جمع کر کے، تولیے نما کپڑے میں سمیٹا اور ڈسٹ بن میں ڈال آیا۔

واپس آ کر اُسی سنجیدگی سے بولا،

“ہاں، اب تو بتا دو کس کو ڈرامے باز کہہ رہی تھیں؟”

میں نے ہلکی سی ناگواری سے کہا،

“وہی لنگور! پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے اُسے!”

سمر نے تحمل سے کہا،

“اچھا چھوڑو یار، جانے دو۔ جو ہوا، بھول جاؤ۔ اور آگے بڑھو۔ ایسے فیز تو زندگی میں آتے رہتے ہیں۔”

میں نے بےبسی سے کہا،

“لیکن کیسے؟ کیسے آگے بڑھوں؟ کل سے دماغ بالکل منتشر ہے۔”

وہ میری طرف دیکھ کر نرمی سے گویا ہوا،

“دیکھو رُشنا، میں جانتا ہوں کہ تم ابھی تک ڈسٹرب ہو، لیکن اب تمہارے اختیار میں کچھ نہیں ہے سوائے اِس کے کہ تم اپنے لیے کوئی ایسا راستہ چُنو جو تمہیں اِس دُکھ سے نکال کر سکون دے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ کسی کا برا رویہ تمہاری روحانی طاقت کو کمزور نہیں کر سکتا۔ معاف کر دینا تمہارے اپنے لیے راحت کا باعث بن سکتا ہے۔”

میں نے تڑپ کر کہا، “لیکن میں اُسے کیسے معاف کر دوں؟ اُس نے سب کے سامنے میرا مذاق اُڑایا، جب کہ میں تو اُسے جانتی تک نہیں! وہ معافی کا حق دار ہی نہیں۔”

اچانک میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

سمر نے فوراً پاس پڑا ٹشو باکس اُٹھایا، اُس میں سے دو تین ٹشو نکال کر میری طرف بڑھائے اور محبت سے کہا،

“دیکھو رُشنا، رو مت۔ آنسو پونچھو۔ رونے کی ضرورت نہیں۔ ہم جب کسی کو معاف کرتے ہیں تو اِس لیے نہیں کہ وہ معافی کا اہل ہوتا ہے، بلکہ اِس لیے کہ معاف کرنے سے اللہ ہمارے اندر سکون اور اطمینان پیدا کر دیتا ہے۔ دیکھو، یہ تکلیف ایک آزمائش ہے۔ تمہیں تب تک چین نہیں ملے گا جب تک تم اُسے دل سے معاف نہیں کرو گی۔” یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور مسکرا کر بولا،

“چلو، کوئی اچھی سی کامیڈی فلم دیکھتے ہیں۔ تمہارا موڈ بہتر ہو جائے گا۔

ایک فلم ختم ہوئی تو سمر نے فوراً دوسری فلم لگا لی۔ دوسری فلم کے اختتام پر رات کے نو بج چکے تھے۔ میرا دل کھانے پینے کی طرف بالکل مائل نہ تھا، اس لیے میں خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ ذہن سمر کی باتوں کے گرد گھومتا رہا۔

“کیا مجھے اُسے معاف کر دینا چاہیے؟” دل میں سوال ابھرا۔ اگرچہ اُس کی غلطی بہت بڑی تو نہ تھی، مگر اصل غصہ مجھے آنٹی پر آیا تھا، جنہوں نے اپنے بیٹے کی کھلے الفاظ میں حمایت کی اور جو جملے اُنہوں نے کہے، وہ میرے دل پر گہرے نقش چھوڑ گئے۔ وہ الفاظ میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ میں بالکونی میں آئی اور چاندنی رات میں جگمگاتے تاروں اور روشن چاند کو خاموشی سے تکتی رہی۔ سمر کی باتیں ذہن میں گونجنے لگیں، “ضروری نہیں کہ انسان معافی کے قابل ہو، ہم اُسے اپنے دل کے سکون کے لیے معاف کر سکتے ہیں۔” شاید وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ کیا پتہ میرے معاف کرنے سے وہ دوبارہ میرے پیچھے نہ آئے، اور شاید مجھے بھول جائے۔

مگر نہیں، وہ تو ایک ڈھیٹ انسان ہے۔ اُسے موقع ملے گا تو ضرور فائدہ اٹھائے گا۔ لیکن اُس دن جو کچھ بھی ہوا، وہ میری غلطی نہ تھی۔ وہ تھپڑ بھی میں نے غصے میں مارا تھا۔ وہ پہلا شخص تھا جسے میں نے طیش میں آ کر زور دار طمانچہ رسید کیا۔ بچپن سے اب تک کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔ مگر حیرت ہے کہ اُس ڈھیٹ انسان پر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ نجانے کس مٹی سے بنا ہے وہ۔ انہی سوچوں میں الجھی کب نیند آ گئی، مجھے خود بھی خبر نہ ہوئی۔

صبح میری آنکھ معمول سے پہلے کھل گئی۔ میں تازہ دم ہو کر کمرے سے باہر آئی تو دیکھا رافعہ ٹی وی پر کوئی مارننگ شو دیکھنے میں مصروف تھی اور خالہ کچن میں ناشتہ تیار کر رہی تھیں۔ میں نے سلام کیا اور رافعہ کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی۔

میں نے آہستہ سے پوچھا، “تم نے خالہ کو کچھ بتایا تو نہیں؟”

رافعہ نے سر ہلا کر جواب دیا، “نہیں باجی مجھے لگا ابھی بتانا مناسب نہیں۔ البتہ بھائی بار بار پوچھ رہے تھے کہ اچانک اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا، تو میں نے سب کچھ بتا دیا۔”

میں نے ہلکا سا سکون کا سانس لیا، “اچھا چلو ٹھیک ہے، میں خالہ کا ہاتھ بٹا لیتی ہوں۔”

یہ کہہ کر میں کچن کی طرف بڑھ گئی۔ خالہ نے ایک طرف انڈے اُبالنے رکھے تھے اور دوسری طرف سمر اور رافیہ کے لیے ملک شیک تیار کر رہی تھیں۔ میں نے کچن میں داخل ہو کر سلام کیا اور خالہ کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔

“اگر کچھ باقی ہے تو مجھے بتا دیں خالہ، میں بنا دیتی ہوں،” میں نے کچن کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔

خالہ نے مسکرا کر جواب دیا، “نہیں بیٹا، سب کچھ تیار ہے۔ تم بس جا کر سمر کو بلا لاؤ۔ انڈے بھی اُبل گئے ہیں، چائے بھی تیار ہے اور تمہارے لیے دو پراٹھے بھی بنا دیے ہیں۔” مجھے خالہ کے ہاتھ کے پراٹھے بہت پسند تھے۔ خالہ اور اماں کے کھانے میں ذائقے کا یوں ملاپ تھا کہ کبھی محسوس نہیں ہوا کہ میں اپنے گھر سے دور ہوں۔

میں سمر کے کمرے میں گئی۔ وہ بستر پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔ میں نے اُسے ناشتے کے لیے بلایا۔ اُس نے دو منٹ کا کہہ کر باتھ روم کا رخ کیا اور واقعی ٹھیک دو منٹ بعد واپس آ گیا۔

میں اور رافعہ ٹیبل پر بیٹھ گئے اور خالہ کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ بھی آ گئیں اور ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا۔

’’نہیں بھائی، میں آپ کا اس معاملے میں ساتھ نہیں دوں گی،‘‘ عرشیا نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ’’اور اگر اماں کو پتا چل گیا کہ آپ رُشنا آپی سے ملے ہیں تو قیامت کھڑی ہو جائے گی۔ پچھلی دفعہ تو بچ گئے تھے، لیکن اب نہیں بچ پائیں گے۔‘‘

عرشیا کا لہجہ سنجیدہ تھا، لیکن حذیفہ بدستور شوخی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ مسلسل اس کے آگے پیچھے پھر رہا تھا جیسے کسی منصوبے پر عمل درآمد کی جلدی ہو۔

’’ارے میری پیاری، ننی منی، چھٹکی پھٹکی، کاکی بچی، میری سب سے اچھی پارٹنر! تم میرا ساتھ نہیں دو گی تو کون دے گا؟ بتاؤ؟ دیکھو، اپنے بھائی کی معصوم شکل دیکھو۔ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا کہ میرے سر پر بھی سہرا سجے؟ تمہاری بھی ایک خوبصورت سی، حسین سی، نازنین سی، گلاب سی، چنبیلی سی، ٹیولپ سی بھابی آئے؟‘‘

حذیفہ کے دماغ میں شرارت کا ایک مکمل منصوبہ جنم لے چکا تھا اور اب وہ اس میں عرشیا کو بھی شامل کرنا چاہتا تھا۔ مگر عرشیا ان تمام فضول منصوبوں سے دور بھاگنا چاہتی تھی، اور کسی قسم کی مداخلت کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی۔

’’کیا بھائی، مجھے بھی مروائیں گے؟ آپ کو پتا ہے رافیہ میری بہت اچھی دوست ہے، اور رُشنا آپی… رافعہ کی کزن۔ اگر رُشنا آپی کو پھر سے غصہ آ گیا تو رافعہ مجھ سے ناراض ہو جائے گی، اس لیے مجھے معاف رکھیں۔‘‘ عرشیا نے ہاتھ جوڑ کر صاف انکار کیا۔

’’ارے تو اس میں کیا بڑا مسئلہ ہے؟ اسے بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں، مزا ہی آ جائے گا!‘‘ حذیفہ نے شرارت سے کہا۔

’’بالکل بھی نہیں! وہ میرا ساتھ نہیں دے گی،‘‘ عرشیا نے رافیہ کی طرف سے بھی ہری جھنڈی دکھا دی۔

’’ارے، اس سے بات کرو، اگر وہ مان گئی تو ٹھیک ہے، ورنہ…‘‘ حذیفہ اپنی بات مکمل کر رہا تھا کہ عرشیا نے درمیان میں ٹوک دیا، ’’ورنہ کچھ نہیں! آپ انہیں بھول جائیں گے، دوبارہ ان سے ملنے کے کسی پلان کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔‘‘

حذیفہ نے گہری سانس لی اور مصنوئی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’خدا کی قسم! تم سے بہتر ہوتا کہ اللہ مجھے ایک اور بھائ دے دیتا۔ آخر تم لڑکیاں لڑکوں کے جذبات کو سمجھتی کیوں نہیں ہو؟ کاش کہ تم سمجھ پاتیں۔‘‘

عرشیا کے ذہن میں اپنے بھائی کی بے مثال اداکاری دیکھ کر ایک ہی خیال آیا، انہیں تو اداکار ہونا چاہیے تھا، کیا زبردست اداکاری ہے، واہ!

’’بس بہن، کبھی غرور نہیں کیا،‘‘ حذیفہ نے مصنوئی آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو عرشیا ہاتھ باندھے ’جوں کی توں‘ کھڑی تھی۔

’’تو پھر کیا کہتی ہو تم؟ دو گی نا میرا ساتھ؟‘‘ اس نے مظلومیت کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے ایک آخری امید سے پوچھا۔

’’ہمممم… لیکن میری ایک شرط ہے۔‘‘

’’ارے میری لاڈلی بہن! جو کہو گی، جیسا کہو گی ویسا ہی کروں گا، بس آخری بار ساتھ دے دو۔‘‘

’’ٹھیک ہے، اتنا کہہ رہے ہو تو مان لیتی ہوں، لیکن بعد میں اگر پکڑی گئی تو سارا الزام آپ پر ڈالوں گی۔‘‘

’’ارے میری ننی منی، چھٹکی پھٹکی بہن! پکڑے جائیں گے تو دیکھا جائے گا۔ ابھی بس پلان تو سنو۔ کان لاؤ آگے۔‘‘

عرشیا نے اپنا کان حذیفہ کے قریب کیا اور وہ اس میں کھسر پھسر کرنے لگا۔

’’کیا یہ پلان کام کرے گا؟‘‘ عرشیا نے شبہ سے پوچھا۔

’’ارے، سو فیصد کام کرے گا!‘‘ حذیفہ نے پُر اعتماد انداز میں کہا۔

میں جب رافعہ کے کمرے میں داخل ہوئی، تو وہ پوری طرح تیار کھڑی تھی۔

“تم تیار ہو؟” میں نے اُسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے پوچھا۔

“جی باجی، میں بالکل تیار ہوں، چلیں؟”

“ہاں، چلتے ہیں، میں سمر کو بھی بُلا لیتی ہوں۔”

“نہیں باجی، میری بات ہو گئی تھی سمر بھائی سے۔ لیکن اُنہیں ایک ضروری کام ہے، اس لیے وہ ہمارے ساتھ نہیں جا سکتے۔”

میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی رافعہ نے فوراً وضاحت دی، تو میں ٹھٹھک گئی۔

“اچھا، چلو ٹھیک ہے، ہم دونوں ہی چلتے ہیں۔ ویسے بھی میں گھر بیٹھے بیٹھے خاصی بور ہو چکی ہوں، اور آج تو موسم بھی کچھ ایسا ہے کہ دل بے اختیار باہر جانے کو مچل رہا ہے۔ بارش برسنے کا امکان ظاہر ہو رہا تھا، اسی لیے رافعہ نے کہا تھا کہ باہر گھوم آتے ہیں، ذہن ہلکا ہو جائے گا۔ تو میں بھی مان گئی، اس خیال کے تحت کہ شاید مجھے بھی کچھ سکون محسوس ہو۔”

“باجی، یہاں پبلک لائبریری ہے، وہیں چلیں؟”

“اچھا چلو، جہاں تم کہو گی، وہیں چلتے ہیں۔”

وہ لائبریری اندر سے خاصی خوبصورت اور پُرسکون تھی۔ مکمل خاموشی کا عالم تھا۔ میں کچھ دیر یونہی اردگرد کا جائزہ لیتی رہی، پھر جیسے ہی ایک کتاب اٹھائی، سامنے سے کچھ جانی پہچانی نگاہیں میری نگاہوں سے جا ٹکرائیں۔

صرف دو سے تین سیکنڈ لگے مجھے اُن شوخ و شریر نگاہوں کو پہچاننے میں۔

میں فوراً کتاب رکھ کر رافعہ کی طرف بڑھی۔

“چلو، چلتے ہیں” میں نے جلدی میں رافیہ سے کہا۔

“باجی، ابھی تو آئے ہیں، تھوڑی دیر بیٹھ جائیں۔ بس تھوڑی سی کہانی رہ گئی ہے، وہ ختم ہو جائے، پھر چلیں گے۔” رافعہ نے مجھے کچھ دیر مزید بیٹھنے کے لیے کہا۔

“نہیں، میں نے کہا نا، اُٹھو ابھی جانا ہے۔” میں وہاں سے جلد از جلد نکلنا چاہتی تھی۔

“ارے اتنی بھی کیا جلدی ہے، پہلے مجھ سے تو مِل لو!” ہم روانگی کے لیے مڑنے ہی لگے تھے کہ اچانک پیچھے سے حذیفہ کی آواز آئی۔

“تمہیں کس نے بتایا کہ میں تم سے ملنے آئی ہوں؟” میں نے جھلّا کر کہا۔

“وہ کہتے ہیں نا، دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، دیکھو قدرت بھی یہی چاہتی ہے کہ ہم ملیں!”

“تم نے ابھی تک مجھے معاف نہیں کیا…؟”

مجھے غصہ آ رہا تھا لیکن میں خاموش رہی۔

“دیکھو، ایسے نہیں چلے گا، تمہیں مجھے معاف کرنا ہی پڑے گا۔ چلو اب غصہ تھوک دو اور پھر سے میری دوست بن جاؤ۔”

“ہو سکتا ہے کل کو تمہیں میری ضرورت پڑ جائے، تو کیا کرو گی، ہاں چڑیل رانی؟”

میں اُس کی باتیں سن رہی تھی مگر کسی قسم کا ردِعمل ظاہر نہ کیا۔

“مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی، اور میرے پیچھے مت آنا۔ چلو رافیہ!”

میں رافیہ کو لے کر باہر نکل گئی، مگر یہ لازم نہیں تھا کہ وہ پیچھے نہ آئے۔

باہر نکلی تو ہلکی ہلکی بوندیں آسمان سے زمین پر گر کر جذب ہو رہی تھیں، اور گیلی مٹی کی مہک ہر سمت پھیل کر دل و دماغ کو عجب تازگی بخش رہی تھی۔

“یار رُکو، دیکھو اس بار میں بالکل سنجیدہ ہوں۔ میری شکل دیکھو، کتنی سنجیدہ ہے، اور مجھے اُس دن کے بعد سے بہت گِلٹی فیل ہو رہا ہے۔

I’m sorry… مجھے معاف کر دو۔”

وہ میرے پیچھے آ کر بولا، تو میں رک گئی۔

“میں نے کہا نا، میرے پیچھے مت آؤ۔”

“دیکھو، مجھے پتا ہے تم ناراض ہو۔ میں تو بس ایک چھوٹا سا مذاق کر رہا تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اتنا ڈر جاؤ گی۔” وہ شرمندگی سے بولا۔

” تم بچے نہیں ہو حذیفہ، کہ تمہیں یہ بھی نہ پتا ہو کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ تمہاری غلطی چاہے جتنی بھی چھوٹی ہو، لیکن جو ذلت تمہاری ماں نے مجھے دی ہے، وہ میں کبھی بھلا نہیں پاؤں گی۔ تم نے جو کیا سو کیا، لیکن آنٹی؟ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ مجھے ایسا سمجھے گی۔ حذیفہ، میں کوئی گری پڑی لڑکی نہیں ہوں!” میں غصے میں اُسے خوب سُنا رہی تھی۔

“ہاں، تو میں کب کہہ رہا ہوں کہ تم گری پڑی ہو؟ اور میں اپنی امی کی طرف سے بھی معذرت چاہتا ہوں۔ اُنہیں غصے میں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی تم سے۔

رشنا! پلیز میری امی کو بھی معاف کر دو… اور مجھے بھی۔”

میں نے اُس کی طرف ایک نگاہ ڈالی اور پھر آگے بڑھ گئی۔ وہ خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔

“تم خفا ہو، تو موسم بھی بے رنگ لگتا ہے

چاہتوں کا ہر منظر اب ایک جنگ لگتا ہے

لبوں پہ نام تمہارا، دل میں تیری کمی

خود سے بھی اب ہونے لگی ہے شرمندگی

ہم نے ہر بار تمہیں دل سے پکارا ہے

خاموشیوں میں بھی نام تیرا ہی لیا ہے

تمہارے بغیر یہ دنیا سونی سونی ہے

محبت کی راہوں میں فقط خاموشی چلی ہے

واپس آ جاؤ کہ یہ دل تمہیں آواز دیتا ہے

ناراض نہ ہو، یہ رشتہ بہت خاص لگتا ہے…”

میرے چلتے قدم اچانک ایک جگہ ٹھہر گئے…

اور دل زور زور سے دھڑکنے لگاجاری ہے

جاری ہے۔۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *