میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی)
قسط نمبر ۱
باب ۱ : قلم کا نشان، امن کا نشان
کراچی— روشنیوں کا شہر، مگر اندھیروں میں لپٹا ہوا۔
شہر کی ہر گلی، ہر نکڑ، اور ہر چائے کی دکان پر الیکشن کا شور برپا تھا۔ سیاست کے تپتے ہوئے موسم میں، ہر شخص کسی نہ کسی امیدوار کے حق میں یا مخالفت میں گفتگو کرتا نظر آتا۔
اورنگی ٹاؤن کی کچی بستی میں ایک چھوٹی سی چائے کی دکان تھی، جہاں گاہکوں کا جمِ غفیر لگا رہتا تھا۔ دیواروں پر رنگ برنگے سیاسی پوسٹر چسپاں تھے — کچھ تازہ، کچھ آدھے ادھورے اور پھٹے ہوئے؛ جیسے سیاست کے وہ پرانے وعدے، جو ہمیشہ ادھورے ہی رہ جاتے ہیں۔
دھوئیں کے مرغولے فضا میں تحلیل ہو رہے تھے، اور چائے کے چھوٹے چھوٹے کپ ہاتھوں میں تھامے، مرد، جوان اور بزرگ ایک ہی سوال پر بحث کر رہے تھے:
کس کو ووٹ دینا ہے؟
چالیس پینتالیس سال کے دو آدمی گفتگو میں مگن تھے۔
یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ ایک نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
میں تو الیکشن سے پہلے ہی فیصلہ کر چکا تھا کہ اس بار ووٹ کس کو دوں گا!
ان کے پیچھے بیٹھے لڑکوں کی ٹولی بھی اسی بارے میں باتوں میں مشغول تھی — کیونکہ ٹی وی پر بھی ابھی یہی سب چل رہا تھا۔
بتا بھائی، تُو کس کو ووٹ دے گا؟ اُس لڑکے نے دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
اور کس کو؟ ہم سب کا ایک ہی بھائی — امن بھائی، امن بھائی… وہ پُرجوش ہو کر بولا۔
قلم کا نشان…
امن کا نشان!
وہ لڑکا کھڑے ہو کر نعرہ لگانے لگا۔
چائے کی دکان کے برابر والی دیوار پر نظریں پڑیں تو وہاں ہر پارٹی کے امیدواروں کے پوسٹرز لگے تھے۔ ہر پارٹی اپنی پہچان، اپنا منشور لیے کھڑی تھی۔
ووٹ فار تیر
اس کے نیچے ایک 40-45 سالہ مرد کی تصویر تھی، اور ساتھ لکھا تھا:
تیر کا نشان، صلح کا نشان
یعنی اس پارٹی کا مرکزی مقصد لوگوں کے درمیان صلح اور ہم آہنگی قائم کرنا تھا۔
پھر دوسری پوسٹر پر نظر پڑی
ووٹ فار پی ایم ایل
اس کے ساتھ بلا کا نشان، اور ایک پچاس سالہ خاتون کی تصویر تھی۔ اوپر لکھا تھا:
نادیہ فیروز
اور نیچے درج تھا
بلا کا نشان، اعتدال کا نشان
اس جماعت کا مقصد انصاف اور اعتدال کو قائم کرنا تھا تاکہ ہر فرد کو برابری کا حق مل سکے۔
پھر ایک اور پوسٹر
ووٹ فار آئی ایل پی
نیچے ایک 30-35 سالہ ہینڈسم مرد کی تصویر تھی، جس کے نیچے درج تھا
سید امن حنان افتخار
اور نعرہ
قلم کا نشان، امن کا نشان
اس جماعت کا پیغام واضح تھا — سیاست میں تبدیلی، معاشرتی امن اور ترقی کے لیے قلم کا استعمال۔
یہ تمام تصاویر اپنی اپنی جماعتوں کے مقاصد کو مختلف انداز میں پیش کر رہی تھیں، جن میں صلح، انصاف اور امن کی اہمیت اجاگر کی جا رہی تھی۔
چائے کی چُسکیاں لیتے ہوئے نوجوانوں نے ایک بار پھر نعرہ بلند کیا،
مگر اگلے ہی لمحے چاچا رحمت — جو کئی انتخابات دیکھ چکے تھے — نعرے سنتے ہی جھنجھلا گئے۔
ارے بند کرو یہ نعرے! جس کے لیے چلا رہے ہو، پہلے اس کے بارے میں کچھ جان بھی لو!
کراچی میں امن لائے گا بھی یا نہیں؟
ایک نوجوان پُرجوش لہجے میں بولا،
چاچا، پتہ ہے کیوں کرنا ہے؟ کیونکہ وہ ‘امن’ ہے — اور وہی کراچی میں امن لائے گا!
چاچا نے سرد آہ بھری۔
آج کل کے بچے بھی نہ… بس اپنے جیسے کو سیاست میں دیکھ لیا، بس اب اسی کو ووٹ دینا ہے!
انہوں نے ساتھ والے سے کہا۔
اسی لمحے ایک لڑکا زور سے چلایا،
یہ انٹرویو نہیں، جلسہ ہے!
چلو اوئے، چلو!
سب موٹر سائیکلیں اسٹارٹ کر کے جلسے کی طرف نکل گئے۔
چاچا اُن لڑکوں کو جاتا دیکھ کر غصے سے بولے،
یہاں تو سن نہ سکے، وہاں جا کر کیا ہی کر لیں گے؟ بس نعرے لگانے ہیں امن بھائی، امن بھائی؟
چائے والا، جو ٹی وی دیکھ رہا تھا، دھیرے سے بولا:
پتا نہیں کیسا بندہ ہے یہ، ابھی تو صرف الیکشن کے لیے کھڑا ہوا ہے، اور ابھی سے لاکھوں دل جیت چکا ہے۔کچھ تو الگ بات ہے اس میں۔
++++++++++++
جلسہ گاہ— لاکھوں کا مجمع، ایک نیا جذبہ، ایک نیا ولولہ۔
روشنیوں کے ہالے میں کھڑے سید امن حنان افتخار نے سامنے موجود لوگوں پر نظر ڈالی۔ وہ کسی عام سیاستدان کی طرح بلند و بانگ وعدے نہیں کر رہا تھا۔ اس کی باتوں میں کچھ اور ہی وزن تھا، کچھ نیا، کچھ مختلف۔۔۔
میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ مجھے ووٹ دیں تو میں یہ یہ کام کروں گا۔۔۔اب بس میری باتوں سے اندازہ لگائیں کہ میں کیا کیا کر سکتا ہوں۔
اس کی آنکھوں میں ایک عزم تھا، ایک جذبہ تھا جو اس سے پہلے شاید کسی میں نہیں تھا۔ وہ لوگوں سے کوئی وعدے نہیں کرتا تھے، نہ ہی وہ یہ کہتا تھا کہ اگر آپ مجھے ووٹ دیں تو میں آپ کے علاقے میں پانی یا بجلی لاؤں گا۔ اس کا واحد اور واضح پیغام تھا
میں کراچی میں امن لاؤں گا۔
وہ لاکھوں عوام کے بیچ کھڑے ہو کر یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ وہ کراچی میں امن لا سکتا ہے ۔ سوال یہ تھا کہ کیا وہ واقعی ایسا کر سکتا تھا ؟ کیا وہ اس اتنی بڑی شہر میں امن قائم کر سکتا تھا، جہاں ہر گلی اور ہر چوراہے پر خوف اور بے چینی کا سایہ تھا؟
آپ لوگوں کو پتا ہے، میں نے اپنی پارٹی کا نشان قلم کیوں رکھا ہے؟ اُس نے سوال کیا۔۔۔!
کیونکہ انسان کی طاقت اس کا جسم یا زبان نہیں، بلکہ اس کا قلم ہوتا ہے۔ علم انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے، اور وہ علم جو انسان کو نہ صرف اپنی حدود سے آگاہ کرے بلکہ صحیح اور غلط کی پہچان بھی دے۔
اس کی آنکھوں میں جو شدت تھی وہ سننے والوں کو بے اختیار کر دیتی تھی۔ سید امن حنان افتخار صرف ایک سیاستدان نہیں، ایک مصلح بن کر سامنے آرہا تھا ۔
امن بھائی۔۔۔ امن بھائی۔۔۔ہر جگہ اس نام کے نعرے سننے کو مل رہے ہیں۔۔۔ میں اپنے تمام ووٹرز سے کہوں گا، اگر آپ مجھے ووٹ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو علم حاصل کرنا ہوگا!
اس دوران اسٹیج کے قریب کھڑے رپورٹر نے سوال کیا:
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ سب کہتے ہیں ‘مجھے ووٹ دیں’، آپ کہہ رہے ہیں ‘مجھے ووٹ دینا ہوگا تو علم حاصل کرنا ہوگا ۔۔’؟
امن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
مانگنے پر تو بھیک بھی مل جاتی ہے، تو یہ ووٹ کیا چیز ہے؟ مجھے بھیک نہیں، ووٹ چاہیے!
رپورٹر اور وہاں موجود دیگر لوگ حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
امن کی باتوں میں ایک خاص نوعیت کا فلسفہ تھا جو لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا تھا۔
ایک فقیر ہے جو بھیک مانگتا ہے، وہ آپ سے چند روپے لیتا ہے اور اپنی زندگی گزار لیتا ہے۔ اور ایک غریب ہے، وہ آپ سے نوکری مانگتا ہے، وہ آپ سے پیسے چاہتا ہے لیکن اس کے بدلے میں وہ آپ کا کام بھی کرتا ہے۔ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
امن نے اپنے نکتہ نظر کو واضح کرتے ہوئے کہا،
ایک کو صرف پیسے چاہیے، وہ اپنے پیٹ کو بھرے گا، لیکن دوسرے کو پیسے چاہیے لیکن بدلے میں وہ آپ کا کام بھی کرے گا۔ تو میں غریب ہوں لیکن فقیر نہیں ہوں۔۔۔ مجھے آپ ووٹ میری صلاحیت کو دیکھ کر دیں، اور میری صلاحیت کا فیصلہ آپ کا علم کرے گا۔ کہ میں آپکے ووٹ کے قابل ہوں بھی یا نہیں۔۔۔
پر آپ کس قسم کا علم حاصل کرنے کی بات کر رہے ہیں؟ کیا سیاست کا علم؟ رپورٹر نے پھر سوال کیا
امن نے گہری سانس لی، پھر پُراثر لہجے میں بولا
نہیں، آپ کو وہ علم حاصل کرنا ہے جس سے آپ کے اندر عقل و شعور آسکے، تاکہ آپ اپنے فیصلے خود لے سکیں، اور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط سمجھ سکیں۔ آپ کسی کے پیچھے چلیں، لیکن انگلی پکڑ کر نہیں، ساتھ چلیں۔
امن نے اپنے پیغام کو مزید وضاحت دی
انگلی پکڑ کر چلنا یعنی وہ جو کہتے آپ کہتے صحیح ہے ہاں یہی ٹھیک ہوگا ۔۔۔ اور ساتھ چلنے کا مطلب کہ یہ ٹھیک راستے پر چل رہا ہیں اس کا فیصلہ صحیح ہوگا۔۔۔۔لیکن جہاں آپکو لگے یہ غلط ہے تو آپ مُڑ کر اپنا راستہ بدل سکتے ہو یا مُڑ کر جو صحیح ہے اُس کے راستے پر چل سکتے ہو
یا آپ اُس کو روک کر غلط بھی کہہ سکتے ہو ۔۔۔ لیکن اُنگلی پکڑ کر چلنے کا مطلب آپکی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے کہ وہ کُوئیں میں گرے تو ہم بھی گریں۔۔۔۔
آپکے پاس علم ہوگا تو آپکو صحیح اور غلط کی پہچان آجائے گی ۔
اس کی ہر بات میں ایک خاص اثر تھا، جو دلوں کو چھو جاتا تھا۔ وہ لوگوں کو یقین دلا رہا تھا کہ تبدیلی کا آغاز صرف ایک شخص سے نہیں، بلکہ اجتماعی سوچ سے ہوتا ہے۔ اس کا لہجہ نہایت پُر اعتماد اور دلیر تھا، اور اس کے الفاظ میں وہ طاقت تھی کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔
جب وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے، تو ایسا لگتا جیسے پورے شہر کے اندر ایک نئی ہوا چل رہی ہو۔ ان کی باتوں میں بس ایک ہی مقصد تھا امن، علم، اور عدل۔ وہ جو کہتا، وہ نہ صرف لوگوں کے ذہنوں میں گھر کر جاتا، بلکہ ان کے دلوں میں بھی ایک نیا عزم جاگتا۔ اس کا پیغام یہ تھا کہ ہم سب کو اپنی تقدیر خود لکھنی ہوگی، ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی، اور اس کے لیے سب سے ضروری چیز ہے علم ۔۔۔
سید امن حنان افتخار کی شخصیت میں ایک خاص جاذبیت تھی، جو لوگوں کو خود سے جڑنے کی ترغیب دیتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ صرف باتوں سے کچھ نہیں بدل سکتا، لیکن اگر لوگوں کا شعور جاگے تو ایک نئی صبح کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اُس کا ایمان تھا کہ تعلیم اور شعور وہ دو چیزیں ہیں جو معاشرتی ترقی کی بنیاد ہیں، اور جب تک لوگ اپنے حقوق اور فرائض کو سمجھیں گے، اس وقت تک حقیقت میں تبدیلی ممکن نہیں۔
اس کی تقریر میں بس ایک بات تھی، وہ کبھی کسی سے وعدہ نہیں کرتا تھا ، مگر اس کا عزم تھا کہ وہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنائیں گا۔ اس کی نگاہ میں سیاست کا مطلب محض اقتدار حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسی طاقت تھی جس کے ذریعے وہ لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لا سکتا تھا۔ وہ جو کہتا، وہ عمل میں ڈھالنے کی پوری کوشش کرتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا پیغام سننے والے دلوں میں ایک نئی امید جگا رہا تھا، اور ان کا یقین تھا کہ وہ واقعی کراچی کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
سید امن حنان افتخار کا جو اثر تھا، وہ صرف اسٹیج تک محدود نہیں تھا، بلکہ ہر گلی، ہر محلے، اور ہر دل میں تھا، جہاں لوگ اس کی باتوں سے متاثر ہو کر نئے عزم کے ساتھ زندگی کی طرف قدم بڑھا رہے تھے۔
وہ صرف ایک رہنما نہیں تھا، وہ ایک سوچ تھا — ایک تحریک، جو وعدوں کی بنیاد پر نہیں، شعور کی بنیاد پر کھڑی تھی۔
کیونکہ وہ جانتا تھا، ووٹ مانگنے نہیں آیا، شعور جگانے آیا ہوں — کیونکہ جب علم آئے گا، تب ہی امن آئے گا!
++++++++++++
کہیں دور، کسی پوشیدہ مقام پر، ایک نیم تاریک کمرے میں سگریٹ کے دھوئیں کی لکیریں ہوا میں بکھر رہی تھیں۔
ٹی وی اسکرین پر امن تقریر کر رہا تھا، اور ایک آدمی گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں چمک تھی، جیسے وہ کسی دلچسپ کھیل کا نظارہ کر رہا ہو۔
بول تو بہت اچھا لیتے ہو، امن… مگر افسوس… میرے ہوتے ہوئے، تم کراچی میں کبھی امن نہیں لا سکتے!
++++++++++++
سر، آپ کا ریپر کے بارے میں کیا خیال ہے؟
رپورٹر کا سوال جیسے ایک سنسان گلی میں گرا پتھر تھا، جس نے فوراً پورے ہجوم کی توجہ کھینچ لی۔ سوال کی شدت اور راز سے بھری نوعیت نے عوام میں ایک سناٹا چھا دیا۔ ہر کوئی سید امن حنان افتخار کی طرف متوجہ تھا، جیسے ان کی زبان سے اس سوال کا جواب نکلنے کا انتظار ہو۔
امن کچھ دیر کے لیے خاموش رہا، اُس کی آنکھوں میں ایک گہری سوچ تھی۔ اُس نے رپورٹر کی طرف دیکھا، پھر ہجوم کی طرف، اور آخرکار ایک گہری سانس کے ساتھ اپنی بات شروع کی
کافی وقت ہو گیا ہے، مجھے لگتا ہے اب یہ جلسہ ختم کر دینا چاہیے۔ تین گھنٹے ہو چکے ہیں، اور اب سب تھک چکے ہیں۔ آپ سب کو اب گھر جانا چاہیے۔ باقی باتیں ہم اگلے جلسے میں کریں گے۔ تب تک کے لیے،اللّٰہ حافظ، مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
فِي أَمَانِ اللَّهِ
یہ کہتا مائیک کے پاس سے ہٹتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ کے ہمراہ باہر جانے کے لیے قدم بڑھا دیے۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی جلسے کے شرکاء میں ایک جتنی تیز سرسراہٹ مچ گئی کہ آخرکار سید امن حنان افتخار ہر دفعہ ریپر کے بارے میں خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیا وہ ریپر سے ڈرتے ہیں؟ کیا انہیں بھی موت کا خوف ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ کیوں اپنے دادا کی جگہ الیکشن میں کھڑے ہو گئے؟
اگر انہیں خوف نہیں ہے، تو کیوں وہ اس معاملے میں کھل کر بات نہیں کرتے؟ کیوں باقی سیاستدانوں کی طرح ریپر کو پکڑنے یا مروانے کا دعویٰ نہیں کرتے؟ سوالات کی گونج تھی، مگر سید امن حنان افتخار ہمیشہ کی طرح اس پر چپ رہتے تھے۔
اس کے بعد کی کچھ گھنٹوں تک، ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھا۔ امن کی خاموشی نے لوگوں کے دماغ میں کئی نئے سوالات اور شک پیدا کر دیے تھے۔ کیا وہ کسی خطرے سے گزرنے والے تھے؟ کیا اس خاموشی کے پیچھے کوئی گہرا راز تھا؟
+++++++++++++
تُم میرے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہتے ہو۔۔
وہ اپنی سرخ انگار آنکھیں ٹی وی پر جمائے کہا، اس بات کا جواب تو خود ریپر کے پاس بھی نہیں تھا۔۔
خیر تُمہارے اس چپ کا میں بہت فائدہ اٹھا سکتا ہوں۔۔۔
وہ مسکرایا ، ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی بند کردیا۔۔
+++++++++++++
دادو۔۔۔ دادو۔۔۔!
وہ خوشی سے چہکتے ہوئے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے اُتری اور اُڑتی ہوئی دادو کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
دادو اُس وقت کچن میں کھڑی دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔
کیا ہوا ہے، یسرٰی؟ انہوں نے چولہے پر رکھی دیگچی میں چمچ چلاتے ہوئے پوچھا۔
دادو! آپ کو پتہ ہے، آج میں نے خواب میں کیا دیکھا؟وہ کچن کاؤنٹر پر چڑھ کر بڑے انہماک سے دادو کو دیکھتے ہوئے بولی۔
دادو نے ایک نظر اس پر ڈالی، کچھ کہے بغیر سوال کیا، کیا دیکھا؟
گويا خوابوں میں انہیں خاص دلچسپی نہیں تھی، مگر وہ جانتی تھیں کہ یسرٰی جب تک اپنی بات پوری نہ کر لے، چین سے نہیں بیٹھتی۔
دادو… آج میں نے خواب میں اُسے دیکھا… وہ شخص جس کا ذکر ہر زبان پر ہے، جس کی باتیں پورے کراچی کے دلوں میں بستی ہیں۔ وہ جو سب کے دلوں پر راج کرتا ہے… اُس کی باتیں، اُس کا انداز، اُس کی مسکراہٹ، اُس کا لہجہ، اُس کا اخلاق… اُس کا وقار، اُس کے اصول، اُس کا بھرم… اُس کی عبادت، اُس کا اللہ پر توکل… ایک ایسے پرفیکٹ انسان کو میں نے اپنے خواب میں دیکھا ہے دادو۔
وہ ہر لفظ کے ساتھ جیسے کسی اور ہی دنیا میں کھو چکی تھی۔ اُس کے لبوں پر ایک ایسی چمک تھی جو عام نہ تھی، جیسے کسی مقدس لمس نے اُس کی روح کو چھو لیا ہو۔
دادو نے گہری سانس لی،کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا، یسرٰی…
لیکن وہ ہے، دادو… وہ واقعی ہے!
یسرٰی کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔
یسرٰی، بس کر دو۔ میری بات تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی؟
دادو کی آواز میں تھکن تھی… فکر تھی… وہ یسرٰی کی دنیا سے بےخبر نہیں تھیں۔ جانتی تھیں کہ یہ لڑکی دل کے پیچھے چلتی ہے، دماغ کے نہیں۔
مجھے تو بس اُس کی باتیں سمجھ آتی ہیں، دادو…
وہ خوابناک سی آنکھوں سے دادو کو دیکھتی، دونوں ہاتھوں سے اپنی گالوں کو تھامے کسی اور ہی جہان میں جا پہنچی۔
اُس کی باتیں؟ وہ کہتا ہے علم حاصل کرو… اور تم ہو کہ پڑھائی سے بھاگتی ہو! انٹر پاس کر لیا، بہت بڑی بات ہے؟ اب آگے کیا؟
دادو کی آواز میں اب سختی آ گئی۔
دادو، انٹر تو نکال لیا نا، اب اور کیا کروں؟
یونیورسٹی میں داخلہ لوں اور پھر فیل ہو جاؤں؟
مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا، دادو۔
اللّٰہ اللّٰہ کر کے آپ کے کہنے پر پاس ہوئی ہوں۔
دادو نے افسوس سے سر ہلایا،ان فضول چیزوں سے تمہیں وقت ملے تو پڑھائی پر دھیان جائے نہ۔۔۔
اوہ دادو… آپ تو بس میرا موڈ خراب کر دیتی ہیں۔
وہ منہ پھُلا کر بولی۔
سوری، ملکہ صاحبہ، ہم سے گستاخی ہو گئی… ہم شمع چاہتے ہیں آپ سے!
دادو نے طنزاً ہاتھ جوڑے، تو یسرٰی ہنس دی۔
جائیں دادو… ملکہ بہت مہربان ہے، آپ کو معاف کرتی ہے۔
وہ فخریہ انداز میں ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر گویا کوئی بادشاہی فیصلہ سنا رہی ہو۔
یسرٰی کی بچی!
دادو نے ہنستے ہوئے ڈپٹا، مگر دل ہی دل میں اس کی بے فکری پر افسوس بھی تھا۔
یہ لڑکی کسی کی سُنتی کب ہے؟
اچھا، دادو، اب تو سن لیں خواب میں کیا ہوا…
وہ دوبارہ سے اسی جوش و خروش سے شروع ہوئی۔
چاہے دادو کچھ بولیں یا نہ بولیں، یسرٰی نے سنانا تو تھا ہی!
وہ… وہ میرے خواب میں آیا تھا، دادو! میرے گھر!
اور اُس نے مجھے دیکھا، مسکرایا… اور کہا
‘یسرٰی تم وہ پہلی لڑکی ہو جس سے مجھے بے پناہ محبت ہے!
“اور اُس نے کہا…”
یسرٰی کی آواز جیسے خود اپنے ہی سحر میں گم ہو چکی تھی،
تم ملے تو لگا جیسے سب کچھ مکمل ہو گیا ہو۔۔۔
جیسے دل کو اس کی منزل مل گئی ہو۔۔۔
یسرٰی کا چہرہ اُس لمحے چمکتا ہوا آئینہ لگ رہا تھا،
جس میں صرف ایک عکس تھا۔۔۔ محبت کا، خواب کا، یقین کا۔
“اور دادو…”
یسرٰی نے اپنے نازک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں جکڑتے ہوئے کہا،
اُس نے میرے ہاتھوں کو تھام کر کہا
‘ان ہاتھوں میں وہ دعا ہے جس کا میں برسوں سے طلبگار تھا۔۔۔’
دادو نے پریشانی سے یسرٰی کا چہرہ دیکھا۔
کیا کرے وہ اس لڑکی کا؟ دن بہ دن یہ اور بگڑتی جا رہی تھی۔
ہر دو دن بعد اپنی محبت، اپنے خواب اور اُس ‘شخص’ کو لے کر دادو کے سامنے کھڑی ہو جاتی۔
نہ کوئی ثبوت، نہ کوئی حقیقت۔۔۔ صرف ایک خواب اور اُس پر اندھا یقین۔
دادو نے چولہا بند کیا، ہنڈیا کو دم پر رکھ کر بولیں
اچھا، بند کرو اپنے خوابوں کے قصے۔۔۔ یہ ہانڈی بنا دی ہے، یہ کھا لینا، میں ذرا آتی ہوں۔
اب کہاں جا رہی ہیں آپ؟
یسرٰی نے فوراً پوچھا۔
آتی ہوں نا، تمہارے کام پہ جانے سے پہلے آ جاؤں گی۔
دادو، اب آپ کو کہیں کام ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں کما رہی ہوں نا، کس کے لیے؟ آپ کے لیے!
بس آپ آرام سے گھر پر بیٹھیں، اور میرے اس عالی شان محل کا خیال رکھیں۔۔۔
لیکن۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں! اب جب یسرٰی کے گھر میں رہ رہی ہیں، تو اس گھر کی مالکن کی ہی سنی جائے گی۔
ایک تھپڑ پڑے گا ابھی۔۔۔
دادو نے ڈپٹ کر کہا۔
ہاں تو صحیح کہہ رہی ہوں،
اب جب یسرٰی کے گھر میں ہیں،تو مالکن کی ماننی پڑے گی نا!
++++++++++++++
کراچی کا ایک اور گرم دن …سورج اپنی پوری شدت کے ساتھ چمک رہا تھا، جیسے آسمان سے آگ برس رہی ہو۔ پولیس اسٹیشن میں معمول کے مطابق ہلچل تھی، جُرم و انصاف کی پرانی آنکھ مچولی جاری تھی۔ دفتر کی کھڑکی سے آتی تیز دھوپ نے کمرے کو جیسے گرم تنور بنا دیا تھا، مگر آفیسر مایرا کے چہرے پر پھیلی سنجیدگی اس موسم سے کہیں زیادہ بھاری محسوس ہو رہی تھی۔
مایرا اپنی کرسی پر سیدھی بیٹھی تھی، سامنے میز کے اُس پار اُن کے سینئر، ڈی ایس پی رشید صاحب، فائلوں کے ڈھیر میں الجھے ہوئے تھے۔ وہ کاغذات پر نظریں جمائے بیٹھے تھے، لیکن مایرا کی آواز نے اُن کے دھیان کو چیر ڈالا۔
سر، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، آپ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے؟
رشید صاحب نے سرد سانس لی، کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور قدرے جھنجھلا کر بولے، میں نہیں سمجھ رہا یا تم نہیں سمجھ رہی؟ مایرا، اس کیس میں ہمارا صرف وقت ضائع ہوگا۔ تمہیں معلوم ہے کراچی میں کتنے چور، کتنے شکاری پھرتے ہیں؟ روزانہ کتنے پکڑے جاتے ہیں، اور کتنے اندھیرے میں کھو جاتے ہیں؟
مایرا نے اپنے ہونٹ سختی سے بھینچے، مگر آواز میں لرزش نہ آنے دی، لیکن سر… اُس آدمی کا قتل ہوا ہے۔
رشید صاحب نے اب کی بار نظریں اُٹھا کر مایرا کی طرف دیکھا۔ ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی، پھر وہ جیسے تھک کر بولے،تو کیا ہم نے اُسے کہا تھا کہ چھینکَتیوں سے لڑے؟ جب وہ فون اور پیسے مانگ رہے تھے، دے دیتا۔ جان تو بچ جاتی۔ اب اس میں ہمارا کیا؟
سر…؟ مایرا کی آواز کانپ رہی تھی، مگر الفاظ میں عزم تھا، ہمارا کیا؟ ہم پولیس والے ہیں۔ ہمارا کام لوگوں کو تحفظ دینا ہے، ان کا ساتھ دینا ہے۔
رشید صاحب نے مایرا کو دیکھا، چہرے پر ایک تھکا ہوا سا طنز تھا۔ ہاں، مجھے پتا ہے۔ اور میں یہ کام اچھے سے کر رہا ہوں۔
مایرا نے کرسی سے تھوڑا سا جھک کر کہا،اچھے سے کر رہے؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم اُس کے قاتل کو ایسے ہی جانے دیں؟ کچھ نہ کرے بیٹھ کر تماشا دیکھیں
رشید نے کرسی پر پہلو بدلا، آنکھوں میں اب بیزاری صاف دکھائی دے رہی تھی۔تمہیں پتا ہے قاتل کون ہے؟
مایرا کے چہرے پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی،
نہیں… تو ہم کس لیے ہیں، سر؟ ہم ڈھونڈیں گے۔
رشید نے میز پر ہاتھ مارا، آواز گونجی،
اور یہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ہم اُسے نہیں ڈھونڈ سکتے۔ کراچی کے حالات تمہارے سامنے ہیں۔ روز کوئی نہ کوئی کرائم ہوتا ہے آئے دِن روز چوریاں اور ڈکیٹی ہو۔۔ کس کس کو پکڑیں یہاں تو سب جرم میں ملوث ہے۔۔۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ بس خاموش بیٹھو۔ دو تین دن میں سب بھول جائیں گے۔
مایرا کی مٹھیاں بند ہو چکی تھیں، مگر آواز میں ہمت باقی تھی، لیکن سر… اگر ہم چاہیں، تو ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
رشید نے سرد لہجے میں جواب دیا، ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے، مایرا۔ یہ سسٹم… ہمیں کچھ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بس خاموش رہو، جیسے سب رہتے ہیں۔
مایرا نے کرسی کی پشت سے ہٹ کر سیدھا بیٹھتے ہوئے کہا
سر، ہم یہاں صرف وردی پہننے نہیں آئے… ہم انصاف کے محافظ ہیں، خاموش گواہ نہیں!
رشید صاحب نے سرد نظروں سے اُسے دیکھا، جیسے اس حوصلے سے ڈر بھی رہے ہوں اور رشک بھی کر رہے ہوں۔
مایرا، دنیا اصولوں سے نہیں، مصلحتوں سے چلتی ہے۔ کبھی کبھی سچ بولنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔
مایرا کے چہرے پر درد کی لہر ابھری، مگر زبان پر لرزش نہیں تھی
تو کیا ہم بھی اُن لوگوں کی طرح ہو جائیں جو صرف فائلیں بند کرتے ہیں اور ضمیر سلا دیتے ہیں؟
رشید نے نظریں چرا لیں
ہم حقیقت کے سامنے کھڑے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے…
مایرا کی آواز میں بجلی سی دوڑ گئی
سر، ہم سب کچھ کر سکتے ہیں اگر نیت صاف ہو۔ بس دل میں خوف نہیں، حوصلہ ہو!
رشید نے کرسی سے اٹھ کر کھڑکی کے باہر دیکھا۔ نیچے ایک بچی اپنے والد کے ہاتھ تھامے اسکول جا رہی تھی۔
یہی حوصلہ ہی تو سب کچھ چھین لیتا ہے، مایرا۔ نظام تمہیں خواب دیکھنے نہیں دیتا، صرف آنکھیں بند رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
مایرا کی آنکھوں میں چمک تھی، جیسے برستی بارش کے بعد سورج جھانکنے کی پہلی کرن ہو۔
تو کیا ہم بھی نظام کی اندھی تقلید کریں؟ اگر سچ کے لیے کھڑا ہونا جرم ہے، تو میں یہ جرم ہر روز کرنا چاہوں گی!
رشید خاموش ہو گیا۔ فضا بوجھل تھی۔ وہ دھیرے سے بولا،یاد رکھو، سچ بولنے والے اکثر اکیلے رہ جاتے ہیں… اور کبھی کبھی… مار دیے جاتے ہیں۔
مایرا نے نگاہ جھکائی، پھر آہستگی سے اٹھ کر بولی
تو پھر سر، میں وہ اکیلی بننے کو تیار ہوں۔ کیونکہ خاموشی سے جینا… مرنے سے بدتر ہے۔
مایرا اپنی نشست سے اُٹھ چکی تھی۔ کمرے کی فضا میں ایک عجیب سا تناؤ چھا گیا تھا۔ اُس کے الفاظ ابھی بھی ہوا میں گونج رہے تھے — خاموشی سے جینا مرنے سے بدتر ہے۔
اچانک دروازہ کھلا۔ اندر ایک دبلا پتلا مگر بااثر شخص داخل ہوا۔ اس کے لباس کی نفاست، ہاتھ میں چمکتا ہوا موبائل، اور نگاہوں میں چھپی وارننگ… سب کچھ بتا رہا تھا کہ یہ شخص عام افسر نہیں۔
رشید صاحب تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے، جیسے کسی بڑے افسر کا احترام کر رہے ہوں۔
وہ شخص سیدھا مایرا کے قریب آیا، اُس کی آنکھوں میں جھانکا اور ٹھنڈی، مگر خنجر جیسی آواز میں بولا
تم کچھ نہیں کرو گی…
مایرا نے نظر ملانے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی۔
وہ تھوڑا جھک کر اُس کے قریب ہوا، آواز اور بھی دھیمی ہو گئی، مگر ہر لفظ میں زہر ٹپک رہا تھا
اگر تم نے کچھ کیا… تو تم جانتی ہو نا، تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟
مایرا کی سانس ایک لمحے کو رُکی، لیکن پھر اُس نے گردن اکڑا کر جواب دیا
ہاں، جانتی ہوں… مگر تم بھی سن لو — ڈرنے والے تم جیسے ہوتے ہیں، میں نہیں۔
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ وہ شخص ایک لمحے کو مایرا کی آنکھوں میں دیکھتا رہا، جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو کہ یہ لڑکی کتنی دیر تک کھڑی رہے گی۔
پھر وہ مُسکرا دیا — ایک زہریلی، چبھتی ہوئی مُسکراہٹ
بہادری کی قیمت چکانی پڑتی ہے، آفیسر… اور یہ شہر قیمتیں نقد لیتا ہے۔
مایرا نے ایک قدم آگے بڑھایا، آنکھوں میں جُرات تھی
تو بتا دو، کتنی قیمت ہے سچ کی؟ میں اپنی جان سے چکا دوں گی!
++++++++++++++
ہر پیر کی صبح وہ وقت کی پابند گھڑی کی مانند ہنوز اپنے کام پر موجود ہوتی۔ اس کی موجودگی ایسے محسوس ہوتی جیسے فضا میں تازگی گھل گئی ہو۔ چہرہ ایسا کہ جیسے چاندنی شب میں کسی روشن دیے کا عکس پڑ گیا ہو—نہ بہت گورا، نہ گندمی، مگر ایک نور کی سی جھلک جس پر دھوپ بھی پڑنے سے پہلے رک کر سوچتی۔
اس کی آنکھیں جیسے کسی سمندر کی تہہ سے نکلے ہوئے چمکتے ہوئے موتی—کبھی سبز، تو کبھی بھورے رنگ میں بدلتی ہوئیں، جیسے دل کی ہر کیفیت ان میں عکس بن کر ٹھہر گئی ہو۔
بال اس کے کندھوں کو چھوتے مگر لمبے نہ تھے۔ اسے بالوں کی الجھن پسند نہ تھی، اس لیے اکثر کٹوا لیتی۔ ناک نازک مگر مکمل، اور ہونٹ ایسے کہ جیسے ہر مسکراہٹ کے لیے بنائے گئے ہوں—وہ جب ہنستی تو لگتا جیسے ہوا بھی پل بھر کو رک جائے۔
چال میں نرمی، گفتگو میں وقار، اور ہر ادا میں تہذیب کا عکس تھا۔ وہ چلتی تو کسی خوبصورت غزل کے مصرع کی مانند لگتی، اور بولتی تو لگتا جیسے شہرِ خاموشی میں زندگی کی ہلکی سی دستک سنائی دے گئی ہو۔
اس دن بھی، ہمیشہ کی طرح، اس نے گھٹنوں تک آتی ہلکی گلابی فراک پہنی ہوئی تھی۔ سفید سادہ شلوار، اور اس پر سیاہ ایپرن—فراک کی آستینیں کہنیوں تک مڑی ہوئیں، اور دوپٹہ اکثر ایپرن کے نیچے دب جاتا، جیسے خود کو نظروں سے چھپانا چاہتی ہو، مگر پھر بھی ہر ادا میں ایک وقار نمایاں ہوتا۔
اس وقت وہ مالکِ حویلی کے کچن میں کھڑی دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی۔ چولہے پر دیگچیاں چڑھی تھیں اور مصالحوں کی خوشبو فضاؤں میں رچ بس گئی تھی۔ اس کے ساتھ سکینہ بھی کھڑی تھی—اکیس سالہ، سانولی مگر پرکشش لڑکی، جس کے انداز میں خلوص کی جھلک تھی۔
سکینہ نے چاقو سے سبزیاں کاٹتے ہوئے سوال کیا،
یسرٰی… تمہیں چھ ملکوں کی ڈیش بنانی کب اور کہاں سے آ گئیں؟ مجھے بھی بتاؤ نا، میں بھی سیکھوں گی!
یسرٰی نے مسکرا کر جواب دیا،
یوٹیوب سے سیکھی ہیں، تم بھی سیکھ سکتی ہو۔
سکینہ نے آنکھیں پھیلا کر حیرت سے کہا،
یوٹیوب سے؟ یار، وہاں سب کچھ کہاں ٹھیک ہوتا ہے؟
یسرٰی نے پلٹ کر دیکھا، آنکھوں میں ہنسی کی چمک،
سب کچھ ٹھیک ہوتا ہے، بس تھوڑا سا دماغ استعمال کرنا پڑتا ہے۔
سکینہ نے مصنوعی ناراضگی سے چاقو رکھا،
تو تم کہنا چاہتی ہو کہ میرے پاس دماغ نہیں ہے؟
یسرٰی ہنستے ہوئے بولی،
بالکل نہیں ہے۔ تبھی تو یہاں میرے ساتھ کھڑی ہو۔
سکینہ ہنس دی، پھر لمحہ بھر کو سنجیدہ ہو گئی،
یار تمہیں کیا ضرورت ہے اتنی محنت کی؟ خوبصورت بھی ہو، کچھ اور کر لو۔
یسرٰی نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرا کر بولی،
صرف خوبصورت ہوں، ذہین نہیں؟ تمہاری طرح؟
سکینہ ہنسی،
ہاں تو میں کون سا تمہیں پڑھائی کرنے کو کہہ رہی ہوں… کسی امیر لڑکے کو پھنساؤ، شادی کرو اور مزے کرو!
یسرٰی نے چولہے سے آنچ کم کرتے ہوئے دھیرے سے کہا،
مجھے مزے نہیں کرنے… میں ایسے ہی خوش ہوں۔
سکینہ نے آہ بھری،
یار اگر میں تمہارے جیسی حسین ہوتی تو کب کی شادی کر چکی ہوتی، آرام سے شوہر کے پیسوں پر عیش کر رہی ہوتی۔
یسرٰی نے کچھ لمحوں تک خاموشی اختیار کیے رکھی، پھر نرمی سے بولی،
میں تو ابھی بھی عیش کر رہی ہوں۔۔۔
سکینہ نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں،
ایسے؟ کسی اور کے گھر پر کام کر کے؟
یسرٰی نے نرم لہجے میں، مگر پورے یقین کے ساتھ جواب دیا،
نہیں، کھانا بنا کے۔۔۔ تم جانتی ہو یہ میرا شوق ہے۔
پھر اُس نے ایک گہری سانس لی، اور نگاہیں کسی دور خلا میں مرکوز ہو گئیں۔
اور رہی بات شادی کی…
اس کے لبوں پر ایک خاموش اعتماد ابھرا،
تو شادی تو میں اُن سے ہی کروں گی… ورنہ ایسے ہی خوش ہوں، ایسے ہی رہوں گی۔۔۔
اس سے پہلے کہ سکینہ کچھ اور کہہ پاتی، دروازے پر قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اگلے ہی لمحے مریم بیگم، سفید دوپٹے کو شانوں پر سنبھالتی، کچن میں داخل ہوئیں۔
یسرٰی، تمہیں چھوٹے صاحب بلا رہے ہیں…
چھوٹے صاحب کا نام سنتے ہی یسرٰی کے چہرے کی نرمی جیسے لمحہ بھر میں پگھل گئی۔ غصے اور بے زاری کی ایک لہر اس کے چہرے پر دوڑ گئی۔ وہ پل بھر کو ساکت رہی، پھر ایک جھٹکے سے ہاتھ میں پکڑی چمچ رکھی۔
میں تمہیں بتا رہی ہوں، اگر اس بار اُس نے کوئی بکواس کی نہ… تو اس گھر میں میرا آخری دن ہوگا۔
اُس نے کاٹ دھاڑ لہجے میں کہا۔
سکینہ نے کچھ کہنے کو لب کھولے ہی تھے، مگر یسرٰی اسے نظر انداز کرتے ہوئے تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
++++++++++++++
مایرا کی آواز ابھی فضا میں معلق تھی
تو بتا دو، کتنی قیمت ہے سچ کی؟ میں اپنی جان سے چکا دوں گی!
وہ شخص چند لمحے اُسے گھورتا رہا، پھر آہستہ سے اپنے بیج والے کوٹ کی جیب سے ایک شناختی کارڈ نکالا اور میز پر رکھ دیا۔ کمرے کی روشنی میں بیج چمکا — ایس پی ایس پی ظفر جاوید۔
مایرا کے چہرے پر ایک پل کو حیرت پھیلی، لیکن اس نے خود کو سنبھال لیا۔
ظفر نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے، پرسکون آواز میں کہا
تم حیران ہو؟ نہیں ہونا چاہیے، آفیسر۔ اس شہر میں سب کچھ بدل سکتا ہے، لیکن طاقت کی اصل شکل وہی رہتی ہے۔
آئی ایم سوری سر، میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا..
مایرا کی آواز میں جھجک، نرمی اور ایک عجیب سی بےبسی تھی۔ وہ نظریں جھکائے مؤدبانہ انداز میں کھڑی تھی، جیسے اُس کی گردن پر کوئی ان دیکھا بوجھ رکھ دیا گیا ہو۔
ظفر جاوید نے ایک ہلکی سی طنزیہ نگاہ اُس پر ڈالی، اور پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔
مایرا نے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ سجا کر کہا
اور آپ جیسے کہیں گے ویسا ہی ہوگا… رشید صاحب کی طرح میں بھی اب خاموش رہوں گی…
وہ بولی، تو آواز میں ہار کا رنگ تھا، مگر نگاہوں میں چھپا طوفان صرف وہی جانتی تھی۔ اگلے لمحے وہ بنا کسی توقف کے دروازے کی طرف بڑھی، اور تیزی سے کمرہ چھوڑ کر چلی گئی۔
اسے کیا ہوا؟
رشید صاحب نے ایک گہری سانس لی، میز پر پڑی فائلوں کو بے دلی سے چھوا، اور دھیرے سے بولے
آپ کو معلوم ہے نا… اسے معطل کر دیا گیا تھا۔ ابھی چند دن پہلے ہی ڈیوٹی پر واپس آئی ہے۔ پہچان نہیں آپ کو… اسی لیے شروع میں زیادہ بول گئی…
ظفر کی بھنویں سکڑ گئیں، جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ رشید صاحب کی بات جاری رہی۔
اب نہیں بولے گی… اب وہ جان چکی ہے، یہاں زبان سے زیادہ خاموشی کام آتی ہے۔
ظفر نے ایک لمحے کو دروازے کی طرف دیکھا، جہاں سے ابھی مایرا گزری تھی۔ اُس کے قدموں کی چاپ تو دور جا چکی تھی،
رشید صاحب نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
آپ بیٹھئے نا…
+++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
