تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۵
ذرا سی زندگی ہے مگر ارمان بہت ہے.۔۔
ہم دردنہیں کوئی مگر انسان بہت ہے۔۔۔
دل کے درد سنائیں تو سنائیں کس کو۔۔۔۔
جو دل کے ہے قریب وہ انجان بہت ہے۔۔۔
احمد رؤف صاحب کئی دن اسپتال میں رہنے کے بعد آخرکار گھر لوٹ آئے۔
چہرے پر کمزوری نمایاں تھی، لیکن پریشے کی آنکھوں میں اطمینان کی جھلک تھی کہ اب بابا اُن کے ساتھ ہیں۔ کمرہ جیسے سکون کی سانس لے رہا تھا۔
مگر سکون زیادہ دیر ٹک نہ سکا۔
دوپہر کے قریب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔
پریشے جلدی سے اٹھی اور دروازہ کھولا۔ سامنے دو اجنبی مگر رعب دار چہرے کھڑے تھے۔
سیاہ فائلیں ہاتھ میں، نظریں سیدھی۔
جی آپ لوگ؟ پریشے نے محتاط لہجے میں پوچھا۔
ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر کہا:
ہم مسٹر احمد رؤف کے آفس سے آئے ہیں۔
پریشے نے انہیں راستہ دے دیا۔
دونوں افراد ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔
احمد رؤف صاحب کو وہیل چیئر پر لایا گیا۔
پاؤں کے آپریشن کے بعد ڈاکٹر نے اُنہیں چھ مہینے آرام کا کہا تھا اس سے پہلے وہ اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔
اُن میں سے ایک نے خشک لہجے میں کہا:
یہ ہمارے ریکارڈز میں درج ہے۔ دستخط بھی موجود ہیں۔ بہتر ہے آپ فوراً دفتر آئے، ورنہ ہمیں قانونی کارروائی کرنا پڑے گی۔
انہوں نے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہا:
میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے قرض نہیں لیا۔ نہ دفتر سے، نہ باہر سے۔ آپ کے ریکارڈ میں جو بھی ہے، جعلی ہے۔
دوسرا آدمی فوراً بولا:
دیکھیں سر، یہ باتیں ہمیں نہ بتائیں۔ فائل میں دستخط آپ کے ہیں۔ یا تو آپ آفس چل کر وضاحت دیں، یا پھر فوراً ادائیگی کریں۔
پریشے نے بےچینی سے کہا:
آپ کو نظر نہیں آ رہا؟ میرے بابا ابھی آپریشن کے بعد گھر آئے ہیں، اُن کے پاؤں کا علاج ہوا ہے۔ وہ دفتر کیسے جا سکتے ہیں؟
آدمی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
یہ مسئلہ ہمیں نہیں، آپ کو سوچنا ہے۔ یا تو قرض واپس کریں، یا پھر عدالت کا سامنا کریں۔
کمرے میں پھیلی خاموشی کو احمد رؤف صاحب کی ٹوٹی ہوئی سانسوں نے توڑا۔
وہ دھیرے سے بولے:
یہ سب جھوٹ ہے، میرے دستخط جعلی ہیں۔
دونوں آدمی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے، جیسے اُنہیں یہی جملہ سننے کی توقع تھی۔
سر، عدالت میں جا کر بھی یہی کہنا۔
یہ کہہ کر وہ فائل میز پر رکھ گئے اور سخت لہجے میں بولے:
آپ کے پاس تین دن ہیں۔ یا تو دفتر آ کر وضاحت دیں، یا پھر پیسے واپس کریں۔
دروازہ کھلا، اور وہ دونوں ویسے ہی نکل گئے جیسے آئے تھے۔
سفیہ بیگم گھبراہٹ میں بول اُٹھیں:
یا اللہ! یہ کیسی نئی مصیبت ہے؟ جب آپ نے قرض لیا ہی نہیں تو یہ لوگ کس قرض کی بات کر رہے ہیں؟
رؤف صاحب نے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا لہجہ اختیار کیا:
میں بھی یہی سوچ رہا ہوں…
عشا تیزی سے بولی:
بابا! کیا دفتر میں کوئی آپ کا دشمن تھا؟ یا سبھی آپ کو ناپسند کرتے تھے؟
پریشے نے جھٹ سے اسے ٹوکا:
کیا کہہ رہی ہو، عشا؟ تمہیں نہیں پتا ہمارے بابا کتنے اچھے ہیں!
عشال نے سر ہلا کر کہا:
ہاں، بابا نے تو آج تک کسی کے ساتھ برا نہیں کیا۔
عشا ضدی لہجے میں بولی:
تو پھر آخر کس نے ہمارے بابا کو پھنسانے کی کوشش کی ہے؟
رؤف صاحب نے گہری سانس لے کر کہا:
شاید… کسی کو پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ اور اُس نے میرے نام پر دفتر سے قرض لے لیا ہو۔
پریشے دھیرے سے بولی:
بابا… اگر واقعی کسی نے آپ کے نام پر قرض لیا ہے تو کیا دفتر میں ایسا کوئی شخص ہے جو آپ کے دستخط نقل کر سکے؟
رؤف صاحب نے ایک لمحہ آنکھیں بند کیں، پھر مدھم آواز میں بولے:
نہیں مُجھے نہیں لگتا ایسا کوئی دفتر میں ہے۔
اسی لمحے دوبارہ ڈور بیل بجی۔
اب کون آ گیا…؟ صفیہ بیگم نے گھبرا کر کہا۔
میں دیکھتی ہوں۔ عشا نے تیزی سے دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔
دروازہ کھلتے ہی سامنے اسوان کھڑا تھا۔
السلام علیکم۔ اُس نے نرمی سے کہا۔
وعلیکم السلام، آئیے اسوان بھائی! عشا نے خوش دلی سے جواب دیا۔
اسوان نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ادب سے سر جھکایا۔
السلام علیکم انکل، طبیعت کیسی ہے آپ کی؟ مجھے پتا ہے کہ اس وقت میرا آنا مناسب نہیں تھا، مگر دل مطمئن نہ ہوا۔ آپ کی خیریت معلوم کرنا چاہتا تھا۔
رؤف صاحب نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:
الحمدللہ! میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا، تمہارے آنے کا شکریہ۔
اسوان نے بیٹھتے ہی خبر سنائی:
ڈاکٹر سے میری بات ہو گئی ہے۔ روزانہ ایک فزیوتھراپسٹ آپ کے گھر آیا کرے گا، ورزش کے بعد آپ بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے۔
لیکن بیٹا… رؤف صاحب کچھ کہنا چاہتے تھے کہ اسوان نے فوراً بات کاٹ دی۔
انکل، آپ بس منع نہیں کریں۔ ابھی آپ کا کام صرف آرام کرنا ہے۔
کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد اُس نے سب کی شکلیں غور سے دیکھیں۔
کیا بات ہے؟ آپ سب کے چہرے اتنے بجھے بجھے کیوں ہیں؟ ماشااللہ انکل بالکل گھر بھی آ گئے ہیں، صحت بھی بہتر ہے… پھر یہ سناٹا کیوں؟
صفیہ بیگم نے گھبرا کر بات ٹال دی:
ہاں ہاں بیٹا، سب ٹھیک ہے۔ تم آئے پوچھنے، یہ ہمارے لیے بہت بڑی بات ہے۔
اسوان نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں۔ میرے ساتھ اتنی رسمی باتیں نہ کریں۔ اور انکل! اب آپ نے آرام کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔ دفتر کی چھٹی تو لے لی ہے نا آپ نے؟ یا میں جا کر بات کروں؟
رؤف صاحب لمحہ بھر کے لیے الجھ گئے۔
ہاں ہاں بیٹا… لے لی ہے۔
مگر اسوان کی نظریں پریشے پر جا ٹھہریں۔
مجھے لگ رہا ہے آپ لوگ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں… خاص طور پر تم، پریشے۔ کیا بات ہے؟
پریشے خاموش رہی۔ نہ ہاں کہی نہ انکار۔ اور اسوان، جو اسے چند دن پہلے ہی سمجھا چکا تھا کہ اُس سے کچھ نہ چھپائے… لمحہ بھر کو خاموش ہو گیا۔
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر نکلتے ہی پریشے اُس کے پیچھے آ گئی۔
دروازہ بند ہوتے ہی اسوان نے رک کر تیزی سے پوچھا:
اب بتاؤ، بات کیا ہے؟
پریشے نے ہچکچاتے ہوئے سارا واقعہ سنا دیا۔
اسوان کا چہرہ سختی سے تن گیا۔
حد ہے! یہ کمپنی والے ہمیشہ غریب کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس میں نہ تمہارے بابا کا قصور ہے، نہ کسی ورکر کا۔ یہ سب کمپنی کا کھیل ہے۔
پریشے نے دھیرے سے کہا:
لیکن وہ کہہ رہے ہیں پچاس لاکھ…! ہم نے جب قرض لیا ہی نہیں تو اتنی بڑی رقم کیوں دیں؟
اسوان نے فیصلہ کن لہجے میں کہا:
فی الحال ہمیں وہ پیسے دینے پڑیں گے تاکہ وہ کوئی کیس نہ کریں۔ پھر میں کمپنی کے خلاف سخت ایکشن لوں گا۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ اگر انہوں نے کیس کر دیا تو معاملہ اور خراب ہو جائے گا۔ یہ لوگ بہت چالاک ہیں، پوری پلاننگ کر کے چلتے ہیں۔
پریشے نے ایک دم نظریں اٹھا کر اسے دیکھا:
آپ سوچ رہے ہیں کہ میں آپ سے پیسے لوں گی؟ نہیں! یہ بالکل بھی ممکن نہیں۔
تو پھر کس سے لوگی؟ اسوان نے براہِ راست سوال کیا۔
کسی سے بھی نہیں۔ میں آپ سے پیسے کیسے لے سکتی ہوں؟
اسوان کے لہجے میں بےقراری در آئی:
پریشے! میرے پیسے اور تمہارے پیسے الگ کیسے ہیں؟ میں نے تمہیں ہسپتال میں بھی سمجھایا تھا۔
پریشے نے نظریں جھکا لی۔
لیکن آپ میرے شوہر نہیں۔ اور اگر بن بھی جاتے، تب بھی میں آپ سے پیسے نہیں لیتی۔
پریشے! اسوان کے لہجے میں شکوہ اور دکھ اکٹھا تھا۔
وہ دھیرے مگر ضدی آواز میں بولی:
کہہ دیا تو کہہ دیا۔ میں آپ سے پیسے نہیں لے سکتی۔
چند لمحے وہ اُسے تکتا رہا۔ پھر جیسے فیصلہ دل میں پک گیا ہو، اُس نے گہری سانس لی اور دھیرے سے کہا:
اچھا پھر… نکاح کر لو مجھ سے۔
پریشے چونک اٹھی:
کیااا؟
ہاں، نکاح کر لو۔ اُس نے صاف لفظوں میں کہا۔
میں اس وقت اتنی بڑی ٹینشن میں ہوں اور آپ مجھے نکاح کی بات کر رہے ہیں؟ اُسے اس لمحہ اسوان پر شدید غصے آیا۔
اسوان کا لہجہ پُرعزم تھا:
ہاں، کیونکہ یہی ایک حل ہے۔
پریشے نے بےیقینی سے ہونٹ کاٹے:
میں نکاح کرنے کے بعد بھی آپ سے پیسے نہیں لوں گی۔
اسوان نے آہستگی سے کہا:
میں کب کہہ رہا ہوں لو؟ وہ تو پھر تمہارے اپنے پیسے ہوں گے۔
کونسے پیسے؟ پریشے الجھی۔
حق مہر کے پیسے۔ اسوان نے اطمینان سے کہا۔
حق مہر؟ وہ جیسے اس لفظ پر رک گئی۔
ہاں۔ میں حق مہر میں پچاس لاکھ لکھوا دوں گا۔ پھر وہ رقم صرف تمہارا حق ہو گی۔ تم جو چاہو اس سے کر سکتی ہو۔
پریشے نے بے اختیار سر نفی میں ہلایا۔
لیکن یہ تو دھوکہ ہوا…!
اسوان کا لہجہ مضبوط تھا:
کیسا دھوکہ؟ حق مہر تمہارا حق ہے۔ تم چاہو تو زیادہ لکھوا لو۔ اور اگر نہیں کرنا نکاح، تو پھر میں اپنے طور پر پیسے دے رہا ہوں۔ بس خاموشی سے رکھ لو۔
یہ کہہ کر وہ مڑ گیا، اور پریشے ساکت کھڑی اُسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔
+++++++++++
اسوان نے گھر میں داخل ہوتے ہی زور سے پکارا۔
کائنات!
کچن میں برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ تھمی۔ وہ ہاتھ پونچھتی لپکتی ہوئی باہر آئی۔
جی۔
زیدان کو کھانا دیا؟ اسوان کا لہجہ ہمیشہ کی طرح کائنات کے سامنے نرم ہو چُکا تھا۔
نہیں… اُس نے نظریں جھکا لیں۔
اور پری؟
جی، دے دیا۔ وہ ابھی کارٹون دیکھ رہی ہے۔
جاؤ، زیدان کو بھی کھانا دے آؤ۔
جی اچھا… کائنات نے آہستگی سے کہا، مگر دل ہی دل میں کڑھتے ہوئے بڑبڑائی: ہمیشہ مجھے ہی کیوں بھیجتے ہیں؟ اور بھی تو ہیں گھر میں، وہ بھی تو دے سکتے ہیں۔
اسوان نے لمحہ بھر کے لیے اُسے بغور دیکھا۔
کائنات کا چہرہ پھیکا تھا، جیسے ساری رونقیں خوف اور گھبراہٹ کی بھینٹ چڑھ گئی ہوں۔
ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُس نے ابھی مجھے خود میسج کیا ہے کھانے کا۔ مانگ رہا ہے۔ کچھ نہیں کہے گا۔
کائنات نے اثبات میں سر ہلایا اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔ کُچھ دیر بعد کھانے کی ٹرے تھامے باہر نکلی۔ قدم خودبخود سست پڑ گئے۔
چند لمحوں بعد وہ لرزتے ہاتھوں سے زیدان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی۔
آجاؤ! اندر سے وہی سرد، بے زار آواز آئی جو اُس کے دل کی دھڑکن تیز کرنے کے لیے کافی تھی۔
کائنات نے گہری سانس لی اور دھیرے سے اندر قدم رکھا۔
کمرے میں ہلکی مدھم روشنی تھی۔ سامنے ایل ای ڈی پر فلم چل رہی تھی۔ زیدان بیڈ پر بیٹھا تھا، ہاتھ میں ریموٹ تھا اور آنکھوں میں وہی کٹیلی سختی، جس نے ہمیشہ کائنات کو سہما دیا تھا۔
وہ دبے دبے قدموں سے آگے بڑھی، صوفے کے سامنے والی میز پر ٹرے رکھی اور بمشکل لب ہلائے۔
یہ… آپ کا کھانا۔ اُس کی آواز اتنی مدھم تھی کہ دیواروں نے شاید سن لی ہو، مگر زیدان کے کانوں تک مشکل سے پہنچی ہوگی۔
زیدان نے ریموٹ ایک طرف رکھا اور تیکھی نظر اُس پر ڈالی۔
کیا لائی ہو؟
کھانا… دھیرے سے کہا۔
ارے کھانے میں کیا لائی ہو؟؟ بیزاری سے کہا۔
کھانے میں کڑھی پکوڑے ہیں۔
کڑھی پکوڑے؟ وہ یکدم غصّے سے دھاڑا۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے!
کائنات کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ وہ کپکپاتی آواز میں بولی:
آپ چیخ کیوں رہے ہیں؟ مُجھے کیا پتہ تھا آپ کو یہ نہیں پسند۔
مگر اُس کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ زیدان ایک جھٹکے سے بیڈ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُس کے قدموں کی چاپ کمرے کے سکوت کو چیرتی چلی گئی۔
کائنات کی سانس بے ترتیب ہو گئی۔ خوف کی سرد لہر اُس کی ریڑھ کی ہڈی تک اُتر آئی۔
وہ جانتی تھی… اگلا لمحہ اُس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
+++++++++++++
صدیقی ہاؤس کی کشادہ ڈائننگ ٹیبل پر دوپہر کا کھانا لگا تھا۔ سالن کی خوشبو، پلیٹوں کی کھنک اور قہقہوں کے ساتھ باتیں بھی چل رہی تھیں۔
رضوان صاحب نے لقمہ لیتے ہوئے ہادی کی طرف دیکھا۔
اب تو کہیں جانے کا ارادہ نہیں ہے ناں، بیٹا؟
ہادی نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔
جی نہیں بابا۔
سائرہ بیگم نے فوراً بات آگے بڑھائی۔
تو پھر ایک کام کرو، اب اپنی شادی کا سوچو۔
ہادی نے چونک کر سائرہ بیگم کی طرف دیکھا۔
میں شادی کیسے کر سکتا ہوں، مما؟
کیوں نہیں کر سکتے؟ اُنہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
رضوان صاحب نے بھی حامی بھری۔
ہاں بیٹا، کیوں نہیں کر سکتے۔ اپنے لیے اچھی سی لڑکی دیکھ لو۔ ورنہ سائرہ ہے ناں، یہ خاندان کی سب سے اچھی لڑکی ڈھونڈ لے گی تمہارے لیے۔
اسی لمحے ارسم نے نوالہ منہ میں رکھتے رکھتے بات کاٹ دی۔
میں بھی تو ہوں یہاں! شادی کی عمر تو میری بھی ہو چکی ہے۔
چپ کر کے بیٹھو۔ ہادی بڑا ہے تم سے، اس کی پہلے ہوگی! رضوان صاحب نے کڑک لہجے میں کہا۔
اوہ ہیلو! ارسم نے فوراً سیدھا ہو کر احتجاج کیا۔ کس نے کہا وہ مجھ سے بڑا ہے؟ ہم دونوں کی عمر ایک ہی ہے۔
نہیں، ہادی بڑا ہے۔ سائرہ بیگم نے قطعیت سے کہا۔
ارسم نے ناک سکوڑی۔
عجیب زبردستی ہے۔ سیدھا کہہ دیں کہ میری ابھی شادی نہیں کرانی۔ یہ جھوٹا ‘بڑا’ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
ہاں، ابھی نہیں کرانی تمہاری۔ بس چپ کر کے بیٹھو۔ رضوان صاحب نے اسے ٹوکا اور پھر ہادی کی طرف متوجہ ہوئے۔
ہادی! تم بتاؤ، تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے؟
ہادی کے لب کھلنے سے پہلے ہی ارسم بول پڑا۔
اسے کوئی کہاں سے پسند ہوگی؟ مجھ سے پوچھیں، مجھے ایک لڑکی پسند ہے۔
سائرہ بیگم نے تیور بدل کر کہا۔
ارسم! ابھی ہم تم سے نہیں پوچھ رہے۔
پر میں تو ابھی بتا رہا ہوں ناں! ارسم ڈھیٹ پن سے بولا۔ شادی جب کروانی ہوگی کروا لیئےگا۔ ویسے بھی میری ہونے والی دلہن ابھی چھوٹی ہے۔
سائرہ بیگم کی آنکھیں پھیل گئیں۔
چھوٹی ہے؟ اچھا؟ نام بتاؤ۔ کیا میں اسے جانتی ہوں؟
ہاں ہاں، اچھی طرح جانتی ہیں۔ ارسم نے مسکرا کر کہا۔
تو پھر بتاؤ؟
کائنات۔ اور کون!
کائنات کا نام سنتے ہی ہادی نے چونک کر تیزی سے ارسم کی طرف رخ موڑا۔
رضوان صاحب نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔
مجھے معلوم تھا، جیسی اِس کی حرکتیں ہیں نہ، اِسے کوئی شریف لڑکی ہی پسند آنی تھی۔
ہاں، اور نہیں تو کیا! ارسم نے فخریہ انداز میں کہا۔ آج کل کی لڑکیوں کو دیکھا ہے؟ توبہ توبہ! ہر وقت غصہ ناک پر، اوپر سے اتنا اَٹیٹیوڈ! میں تو بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔
ہادی کا چہرہ سخت ہوا۔
تمہیں وہ لڑکیاں پسند نہیں، ٹھیک ہے۔ لیکن یوں کسی کی بے عزتی مت کرو۔
اچھا سوری، سرکار! ارسم نے طنزیہ لہجہ اختیار کیا۔ ہم سے غلطی ہوگئی۔ ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں۔ بھول گئے تھے کہ ہمارے ساتھ حافظِ قرآن ہادی صاحب بھی تشریف فرما ہیں!
سائرہ بیگم نے جھلا کر کہا۔
اچھا بس بھی کرو اب۔ تُم نے بتا دی اپنی پسند، ا منہ بند کر کے بیٹھو۔ ہادی، تم بتاؤ بیٹا، کوئی لڑکی پسند ہے؟
ہادی نے سکون سے ماں باپ کی طرف دیکھا اور آہستہ مگر واضح انداز میں کہا۔
نہیں… آپ ڈھونڈ لیں۔ جس سے آپ کہیں گی، میں کر لوں گا شادی۔
رضوان صاحب نے فخر سے بیٹے کو دیکھا۔
یہ ہوتا ہے اصل اخلاق!
ارسام فوراً تڑخ کر بولا۔
تو میں نے کون سی بدتمیزی کی تھی؟ کوئی لڑکی بھگا کر تو نہیں لایا ناں! بس اپنی پسند کا اظہار ہی کیا تھا۔
رضوان صاحب نے گہرا سانس لیا۔
وہ بھی زبردستی…
اور کمرے میں ایک بار پھر قہقہے اور مسکراہٹیں گونج اٹھیں، مگر ہادی کی آنکھوں میں ایک انجانی سنجیدگی اُتر آئی تھی۔
++++++++++++
کائنات نے بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹائے۔ اُس کی انگلیاں دوپٹے کے پلو کو مروڑنے لگیں۔
زیدان اُس کے بالکل قریب آ کر رکا۔ نگاہوں میں سردی اور غضب کی بجلی ایک ساتھ لپکی۔
میں نے کتنی بار کہا ہے مجھے یہ معمولی سا کھانا مت دیا کرو!
کائنات کی آواز لرز گئی۔
میں نے تو… وہی بنایا جو باقی سب نے کھایا۔ اگر پسند نہیں تو… میں ابھی اور بنا دیتی ہوں۔
زیدان کا لہجہ اور سخت ہوا۔
ابھی؟ ابھی بناؤ گی؟ کب تک سمجھو گی کہ مجھے دوسروں جیسا مت سمجھو۔۔۔۔
کائنات نے نظریں جھکا لیں۔ آنکھوں کے کناروں پر نمی تیرنے لگی۔
میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا…
زیدان کے لب اور سخت ہوگئے۔ وہ میز کی طرف لپکا، ٹرے اُٹھائی اور دروازے تک گیا۔ لمحے بھر کا بھی توقف کیے بغیر اُس نے پوری قوت سے ٹرے باہر پھینک دی۔ پلیٹیں اور چمچ فرش سے ٹکرا کر چیخ اُٹھے، سالن کے چھینٹے دیوار اور زمین پر بکھر گئے۔
کائنات کی سانس حلق میں اٹک گئی۔ وہ ہولے سے پیچھے ہٹی، مگر اگلے ہی لمحے زیدان دوبارہ اُس پر جھپٹا۔ اُس نے اُس کا بازو آہنی گرفت میں جکڑ کر بے رحمی سے کھینچ ڈالا۔
چھوڑیں…! اُس کے لبوں سے دبّی دبی چیخ نکلی، لیکن زیدان کے کانوں تک نہ پہنچی۔
وہ اُسے گھسیٹتا ہوا کمرے کے دہانے تک لے آیا۔ کائنات کی آنکھوں میں آنسو تھے، دل میں خوف اور قدموں میں لرزش۔ اور زیدان کے چہرے پر صرف پتھریلی سنگدلی۔
دروازے کے پاس رُک کر اُس نے سیدھا اُس کی آنکھوں میں جھانکا۔ آواز برف جیسی سرد اور خنجر جیسی کاٹ دار تھی۔
آئندہ میرے کمرے میں قدم رکھنے سے پہلے عقل ساتھ لانا۔ اور ہاں… یاد رکھنا، دوبارہ آئی تو انجام اس سے بھی بدتر ہوگا۔۔۔
Now Get lost۔۔۔۔
زیدان دھاڑا، اور پھر اتنے زور سے دروازہ اُس کے منہ پر بند کیا کہ آواز پورے کوریڈور میں گونج گئی۔
کائنات چند لمحے دروازے کے باہر کانپتی رہی۔ آنسو گالوں سے بہہ کر ٹھوڑی تک آ پہنچے۔ وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہوئی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹی۔
اچانک اُس کا پاؤں فرش پر پڑے ٹوٹے ہوئے پلیٹ کے کنارے سے ٹکرا گیا۔ ایک تیز، جلن بھرا درد اُس کے جسم میں سرایت کر گیا۔ لبوں سے بے اختیار ایک دبی چیخ نکلی، مگر اُسے سننے والا کوئی نہ تھا۔ نازک پاؤں سے خون کی باریک لکیر فرش پر پھیل گئی۔
کائنات نے دیوار کا سہارا لیا۔ دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی جیسے پورا جسم لرز رہا ہو۔ ہر قدم اُس کے لیے خوف اور درد کا امتزاج بن گیا۔
وہ خون کے نشانات چھوڑتی ہولے ہولے اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔
جیسے ہر سرخ نشان اُس کی بےبسی اور زیدان کی سفاکی کی گواہی دے رہا ہو۔
زیدان کے کمرے میں جانا… اور صحیح سلامت باہر نکل آنا؟ یہ تو ناممکن تھا۔
++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
