antal hyat

Antal Hayat Episode 7 written by siddiqui

انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی ) 

باب دوم: تُم میری محبت کی آخری وارث ہو 

قسط نمبر ۷

کچھ دیر بعد…
کمرے کا دروازہ دھیرے سے بجا —
ناک ناک…
آجاؤ اندر… زویار نے گردن موڑے بغیر کہا،
حیات اندر داخل ہوئی، ہاتھ میں فائل تھامی ہوئی۔

یہ لو، ری چیک کر کے باس کو انفارم کر دینا… اُس کی آواز میں وہی روایتی لاپرواہی تھی

ہاں، رکھ دو یہاں... زویار نے بنا دیکھے، اپنے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔

حیات نے فائل میز پر رکھی، ایک پل ٹھہری، پھر بولی: ہمم… ویسے سُنو…

زویار نے اب نظریں اٹھائیں، آنکھوں میں الجھن، بولو…

کچھ نہیں…

زویار نے بھنویں سکیڑیں،
What is this behaviour?

لہجے میں طنز کم اور تجسس زیادہ تھا۔
Nothing!

وہ کہتی تیزی سے یہاں سے نکل گئی۔۔

وہ تقریباً دوڑتی ہوئی باہر نکلی — اور سیدھا امن سے ٹکرا گئی، جو عین اِسی لمحے اپنے کیبن سے باہر نکل رہا تھا۔

حیات ابھی امن سے ٹکرا کر سنبھلی ہی تھی کہ 

اپنے قدم سنبھال کر بڑھایا کریں، ہر کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوتا… امن نے آہستگی سے کہا،

جی…؟ حیات نے چونک کر سوالیہ انداز میں دیکھا، اُسے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔۔

کچھ نہیں، بس… دیکھ کے چلا کریں۔ وہ اپنے کوٹ کی کالر درست کرتے ہوئے نظریں چرا گیا

آپ بھی…

جی؟ امن نے فوراً سوال اٹھایا، ہر بار وہ ٹکراتی تھی اور دیکھ کر چلنے کی تنقیب اُسے کرتی تھی۔۔

جی… معصومیت سے اُس ہی کے انداز میں کہا

جائیے، اپنا کام کیجیے… امن نے رسمی لہجے میں کہا

جا ہی رہی ہوں، آپ کی طرح فارغ تو نہیں ہوں میں…

کیا… سیریئسلی؟

جی سیریئسلی… وہ بے نیازی سے بولی اور کیبن کے دروازے کے پیچھے غائب ہو گئی

عجیب لڑکی ہے… امن نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے سوچا۔ چہرے پر ہلکی سی الجھن، اور اندر کہیں  مسکراہٹ۔

اتنے بڑے بزنس مین کو ‘فارغ’ کہہ رہی ہے… جیسے میں کوئی ٹائم پاس ہوں۔ جبکہ… اُسے تو مجھ سے فلرٹ کرنا چاہیے تھا۔ کم از کم تھوڑا سا امپریس تو ہونا چاہیے، اتنے توفوں کی کیا کمی ہے مجھ میں؟

وہ دل ہی دل میں خفا بھی تھا اور محظوظ بھی۔

عجیب ہی ہے… لیکن ہے تو میری! ایک لمحے کو رکا، جیسے اپنے ہی الفاظ سے چونکا ہو۔

اوہ ہو… یہ میں کیا بول رہا ہوں؟
چہرے پر شرمندہ مسکراہٹ اور دل میں ہلکی سی ہلچل۔۔۔

میری؟ واقعی؟ کیا بکواس ہے… میرا دماغ بھی نا… اُس کے ساتھ رہ رہ کے پاگل ہو گیا ہے!
وہ خود سے نظریں چرائے، جیسے دل کو بھی ڈانٹ رہا ہو۔

لیکن اندر کہیں… بہت گہرائی میں ایک آواز اب بھی گونج رہی تھی، “میری ہے…”

یہ کہہ کر، جیسے اپنے جذبات پر پردہ ڈالنے کے لیے،
وہ تیزی سے جیولری ڈیپارٹمنٹ کی طرف مڑا —
مگر اِس کے قدموں کے نیچے سے زمین ہلکی سی مسکرا رہی تھی،
جیسے جانتی ہو،
کہ دل کا انکار، اکثر سب سے بڑا اقرار ہوتا ہے۔

+++++++++++++

آفس کے اندر ہلچل تھی — گھڑیاں چُھٹی کا اعلان کر چکی تھیں، کمپیوٹر بند ہو رہے تھے، فائلیں سمیٹی جا رہی تھیں، اور چہرے تھکے تھکے مگر خوشگوار۔

حیات، پرس کندھے پر ڈالے، دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی جب اُس نے ایک بار پلٹ کر دیکھا۔
سنیں…

امن، جو اپنے فون میں مصروف تھا، چونک کر سر اٹھایا۔ جی؟ بولیے؟

وہ… میں کل آفس تھوڑا لیٹ آؤں گی…

کتنا لیٹ؟ اب کی بار لہجہ ذرا سخت تھا،

دو بجے تک…

کیوں؟؟

یونیورسٹی جانا ہے۔ اسائنمنٹ جمع کروانا ہے اور پیپر کی ڈیٹ شیٹ بھی لینی ہے… اسی لیے۔

ٹھیک ہے۔ فِکس دو بجے آجانا۔
بس اتنا کہہ کر وہ لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

لفٹ کے دروازے بند ہوتے ہی حیات نے ہلکی سی ناک چڑھائی،

آئے بڑے فِکس دو بجے… میں ویسے تو نہیں آؤں گی فِکس دو بجے! وہ خود کلامی میں بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گئی 

+++++++++++++++

ڈائننگ ٹیبل پر صرف ایک ہی وجود بیٹھا تھا — اذلان۔
آنکھوں میں خفگی، ماتھے پر تیور، اور لبوں پر اضطراب تھا
بھائی…  آ گئے تم؟ کب سے انتظار کر رہا ہوں میں…

ابھی فریش ہو کر آتا ہوں، پھر بات کرتے ہیں۔
امن نے سرسری سا جواب دیا اور سیڑھیاں چڑھنے لگا

نہیں، پہلے سنیں! اذلان نے ضد سے کہا، جیسے آج تو اپنی بات منوا کر ہی دم لینا ہے۔۔

میں نے کہا نا، ابھی آ رہا ہوں۔ امن کا لہجہ وہی مصروف اور معمول سا تھا، مگر اذلان کے دل میں کچھ اور ہی پک رہا تھا

تم ہمیشہ سے ایسا ہی کرتے ہو میرے ساتھ! اب کے الفاظ تلخ تھے، اور لہجہ کسی زخم کی چوٹ جیسا

اگر ابھی دانیال ہوتا، تو اُس کی بات سن لیتے… دفعہ ہوجاؤ یہاں سے! وہ اپنی جھنجھلاہٹ سمیت تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا

رُکو اذلان! امن کی آواز دروازے سے ٹکرا کر رہ گئی،

لیکن اذلان… اذلان تھا،

دل کی بات وہ تب تک نہ سناتا جب تک اندر کی دیواریں مکمل بند نہ کر لے۔

آہ… سارے پاگل میرے ہی نصیب میں کیوں آئے ہیں؟
پھر وہ بھی چُپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا،

++++++++++++++

کچھ دیر بعد…
خاموشی میں ہلکی سی دستک گونجی۔
ٹک ٹک… ٹک ٹک…

اذلان…
امن نے دروازے کے باہر سے پکارا۔

اندر سے آواز آئی، سو رہا ہوں۔

لیکن اُس کی آواز میں نیند نہیں، ناراضگی تھی

اگر میں ماسٹر کیز سے کھول کے اندر آیا نا، تو اچھا نہیں ہوگا۔

امن کی آواز میں غصہ کم اور پریشانی زیادہ تھی

واہ… غلطی بھی خود کرو، اور اکڑ بھی خود دکھاؤ۔۔۔۔ وہ غصے سے چلایا 

تم دروازہ کھول رہے ہو یا نہیں؟ اب کی بار امن کا لہجہ سخت تھا، 

چند لمحوں بعد، دروازہ کھلا۔

کیا ہے؟ اذلان نے سرد لہجے میں پوچھا،

بتاؤ، کیا کہہ رہے تھے تم؟

نہیں بولنا اب مجھے۔

اذلان…

کیا ہے؟ نہیں بولنا۔ جاؤ، جا کے فریش ہوتے رہو، وہی زیادہ ضروری ہے، ہے نا؟ وہ غصے میں بولا۔۔۔

امن نے چند لمحے اُسے دیکھا، پھر آہستہ سے جیب سے کچھ نکالا۔ اچھا… یہ لو…

اذلان نے حیرت سے دیکھا، یہ کیا ہے اب؟

دیکھو تو…
اذلان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی — وہ کریڈٹ کارڈ تھا۔

لاؤ دو!
اذلان نے فوراً لے لیا، جیسے اُس کی ضد کا مقصد بس یہی تھا

یہی مانگ رہے تھے نا؟ امن کے چہرے پر نرم سی مسکراہٹ تھی

اذلان نے ایک پل کو اُسے دیکھا،
بھائی… تُم کو ہر بار پہلے سے کیسے پتہ چل جاتا ہے؟ آواز میں حیرت کم، مان زیادہ تھا 

اور ہاں… اِس بار دے دیا ہے، اگلی بار خیال رکھنا۔ امن نے نرمی مگر تاکید سے کہا اور پلٹ گیا..

+++++++++++++++

وہ خاموشی سے اپنے روم میں بیٹھا اپنے کام میں مشغول تھا کہ اچانک دروازہ زور سے کھلا، اور دانیال تقریباً بھاگتا ہوا اندر آیا، چہرہ غصے سے سرخ، آنکھیں شعلہ بار۔

بھائی، بھائی دیکھو اِسے! میں بہت ماروں گا، ختم کر دوں گا اِسے میں۔۔۔! دانیال کے الفاظ آگ کی طرح دہک رہے تھے، جیسے اب کچھ بھی ہو جائے، اُس نے پیچھے نہیں ہٹنا۔

اب کیا ہوگیا تم دونوں کو؟ امن چیخا، اچانک شور سے چونک کر، اور تیزی سے درمیان میں آیا۔

آج نہیں چھوڑوں گا تجھے۔۔۔! دانیال جھپٹنے کو تھا، جیسے بس ایک لمحہ چاہیے ہو اسے یوسف تک پہنچنے کے لیے۔

دانیال! پیچھے ہٹو! میں بات کر رہا ہوں نا!
امن ایک بار پھر چیخا اور دانیال کو مضبوطی سے تھام کر پیچھے دھکیلا۔

تھینک یو بھائی۔۔۔ یوسف نے ایک گہری، پرسکون سانس لے کر بولا،

کِیّا۔۔۔۔؟ کیّا ہے اب تم نے؟
امن نے یوسف کی طرف دیکھ کر بولا،

بھائی، اِسے تو میں چھوڑوں گا نہیں۔۔۔!
دانیال ایک بار پھر جھپٹا، ہاتھ یوسف کی طرف اٹھا، جیسے اب کی بار بات مار پیٹ پر ختم ہونی ہے۔

دانیال! ابھی ایک تھپڑ لگاؤں گا، پیچھے ہو جاؤ! امن کی آواز میں سختی کے ساتھ باپ جیسا طنطنہ تھا، اور نگاہیں اتنی تیز کہ دانیال کے قدم تھم گئے۔

بھائی۔۔۔ آواز میں بے بسی تھی، جیسے دل میں آگ ہو مگر ہاتھ بندھے ہوں۔

بھائی یار، سمجھاؤ اِسے! یوسف ایک قدم پیچھے ہٹتا ہوا بولا، دل ہی دل میں شکر کہ امن درمیان میں تھا

مجھے سمجھاؤ؟ بھائی، اِسے گھر سے نکال دو فوراً! یہ رہنے کے قابل نہیں ہے یہاں! دانیال کا لہجہ تیز تھا، جیسے کوئی فیصلہ سنایا جا رہا ہو، عدالت کے جج کی طرح۔

ہوا کیا ہے؟ بتاؤ گے اب؟ وہ دونوں کی طرف باری باری دیکھا 

میں رہنے کے قابل نہیں یا تُو؟ یوسف کی آواز میں طنز تھا، 

تُو۔۔۔ دانیال لفظ چباتا بولا۔ 

وہ رہا جانے کا راستہ، جاؤ! امن کی اُنگلی دروازے کی طرف اشارہ کر رہی تھی اور چہرے پر جھنجھلاہٹ واضح تھی۔

ہنہ ؟؟؟ دانیال ٹھٹک کر بولا، 

بھائی! سَٹیّا گئے ہو؟ کیا بول رہے ہو؟ یوسف کی آواز میں حیرت تھی، 

ہاں، جب دونوں کو ہی لڑنا ہے تو باہر جا کر لڑو! دماغ مت خراب کرو میرا۔ جاؤ! امن نے غصے میں کہا 

دانیال اچانک لہجہ بدلتے ہوئے
اچھا نا بھائی… سُنو۔۔۔

ہاں ہاں، سُنو۔۔۔ یوسف مزے سے بولا 

بتاؤ… اب۔۔۔ کراس بازو، سخت لہجے میں۔

پوچھو اِس سے! یہ بے غیرت آستین کا سانپ کیا کِیّا ہے اِس نے؟ دانیال غصے سے آگ پگولا ہوئے بولا 

یوسف چونک کر، پھر مزاحیہ انداز میں کہا
Oh hello! Have you ever seen a handsome

 آستین کا سانپ…؟

مار دوں گا! زیادہ فری نہ ہو!
دانیال کہتا جھپٹنے ہی والا تھا کہ اَمن کی چیخ پھر سے گونجی۔

بتاؤ گے اب؟! امن پھر چیخا،

پوچھو نا بھائی اِس سے، کہ یہ کتنا ذلیل ترین حرکت کر آیا ہے! دانیال نے کہا 

ذلیل میں نہیں، تُو ہے
یوسف کی زبان بھی اب تیز ہو چکی تھی، 

یوسف! بتاؤ کیا ہوا ہے؟ امن نے ہاتھ اُٹھائے جیسے تھک چکا ہو ان دونوں کے بیچ صلح کراتے کراتے۔

یہ کیا بتائے گا بھائی؟ میں بتاتا ہوں! دانیال غصے میں بولا 

ہاں تو پہلے ہی بتا دیتا! اتنا وقت کیوں ضائع کر رہا ہے؟ یوسف نے کہا 

تُو چُپ کر! آستین کے سانپ! دانیال پھر دھاڑا 

بتاؤ گے؟ یا اب میں کچھ اور کروں؟ امن نے پھر کہا 

دانیال گہری سانس لے کر، آواز میں دکھ چھپاتے ہوئے کہا 

ہاں سُنو! دیکھو اِسے، پوچھو اِس سے میرا جورڈن کا 70 ہزار کا جوتا کسے دے آیا ہے؟

بھائی وہ 2 ہزار والا جمعہ بازار کا تھا!
یوسف نے بے نیازی سے کہا 

دانیال غصے سے دہاڑتے ہوئے کہا  زیادہ فری نہ ہو، 70 ہزار کا تھا! میری کلیکشن کا پرائیڈ!

یوسف! ڈرامہ نہ کرو۔ وہ دانیال ہے، اُس کے پاس تو 2 ہزار کا جمعہ بازار والا جوتا آ ہی نہیں سکتا! امن نے کہا وہ جانتا تھا دانیال کو دانیال صرف ایک عام نوجوان نہیں، بلکہ جوتوں کا دیوانہ ہے۔ جیسے کِسی کو برانڈڈ کپڑوں، سونے کی چینز یا مہنگی گھڑیوں کا شوق ہوتا ہے، ویسے ہی دانیال کو جوتے عزیز ہیں۔ وہ نہایت نفیس، مہنگے اور برانڈیڈ جوتے جمع کرتا ہے۔ )

اور اب، جب اُس کی کلیکشن کا نایاب جورڈن غائب ہو چکا ہے، تو اُس کا پاگل ہونا بنتا ہے…!

وہ بھائی… یوسف کی آواز میں ندامت تھی، لیکن بات مکمل کرنے سے پہلے ہی دانیال کا غصہ دوبارہ بھڑک اٹھا۔

بھائی! دیکھو دیکھو… اب ڈراما کر رہا ہے! مارو اِسے! دانیال غصے میں بولا 

یوسف! بولو؟؟؟ امن نے کہا 

یہ کیا بولے گا؟ میں بتاتا ہوں۔ یہ ہے نا میرا بھائی… آستین کا سانپ! مجھ سے جورڈن کا 70 ہزار کا جوتا مانگا، پہننے کے لیے۔ میں نے دے دیا۔ اب سُنو، یہ پہن کر گیا اور پھر وہ جوتا… کسی لڑکی کو دے آیا! دانیال کا پار ایک دم چڑھ چُکا تھا۔۔

بھائی! لڑکی کو نہیں دیا… ایک جوتا نالے میں گر گیا تھا، تو دوسرا میں نے خود پھینک دیا۔ اب ایک جوتے کا کیا کرتا؟ یوسف فوراََ بولا۔۔۔

دانیال آنکھیں نکالتے ہوئے کہا جھوٹا! میرا دوست اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہے، تجھے جوتا دیتے ہوئے۔

یوسف دل ہی دل میں دانت پیستے ہوئے بولا
ایک تو اِس کے دوست پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہے… ہر گلی، ہر نکڑ، ہر نالے میں۔

وہ دل ہی دل میں بڑبڑاتا، 

امن سخت نظروں سے گھورتے ہوئے کہا
یوسف! کیا دانیال سچ بول رہا ہے؟

دانیال جلدی سے امن کی طرف پلٹ کر کہا
ہاں بھائی! اب میں تم سے جھوٹ بولوں گا؟! صحیح ہے، سُنتے رہو اِس کی بکواس۔ میں جا رہا ہوں۔ مجھ سے بات کرنے کی کسی کو ضرورت نہیں اِس گھر میں! وہ چیختے ہوئے مڑا، اور زور سے دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں گُھس گیا 

امن گہری سانس لے کر، غصے کو دباتے ہوئے کہا 
جاؤ… صبح دیکھوں گا تم دونوں کو!

یوسف دل میں مسکراتے ہوئے، آہستہ سے خود سے کہا اچھا ہے… اب کوئی نیا بہانہ ڈھونڈ لوں گا تب تک۔

وہ آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا 

+++++++++++++

اگلے دن…
آفس کی وہی مصروف فضا، مگر کچھ خاموش سا اضطراب ہوا میں گھلا تھا۔

حیات نہیں آئی ابھی تک؟ امن نے کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی سے پوچھا۔ آواز میں معمول سے ہٹ کر ایک ہلکی سی بے چینی تھی، جو کسی اور کی نظر سے شاید چھپ جاتی، مگر زارا چونک گئی۔

نہیں سر، ابھی تک تو نہیں آئی…
زارا نے قدرے محتاط لہجے میں جواب دیا۔

(حقیقت یہ تھی کہ حیات نے ہاف ڈے کا کوئی باقاعدہ فارم تو جمع نہ کروایا تھا، بس کل جاتے ہوئے زبانی امن کو بتا دیا تھا۔۔)

اچھا، جب آئے تو اُسے میرے کیبن میں بھیج دینا… امن نے مختصر سا کہا اور پلٹ گیا۔

اِس کے جاتے ہی مایا کی نظریں زارا سے ملیں اور طنزیہ ہنسی لبوں پر بکھرتی چلی گئی۔

اِس کے تو مزے ہے، بھئی! جب دل چاہا آ گئی، جب دل نہ چاہا، ناپید۔۔۔ اور اوپر سے باس اُسے کچھ کہتے بھی نہیں!

ہاں، اتنا تو باس نے کبھی نتاشا کے لیے بھی نہیں کیا۔ وہ ذرا سی بھی غلطی کرتی تو باس فوراً غصے میں آ جاتے تھے…
زارا نے ماضی کی جھلک یاد کرتے ہوئے کہا۔

مایا نے گہری سانس لے کر کہا
پتا نہیں کون ہے یہ لڑکی۔۔۔

لیکن اُنہیں یہ علم نہ تھا کہ اُن کی یہ باتیں صرف ہوا میں تحلیل نہیں ہو رہیں… کسی کے دل میں کانٹے بن کر اُتر رہی تھیں۔

خاموش آنکھوں سے سب سن رہی تھی — نتاشا۔

وہی نتاشا، جو کل تک امن کی ترجیح تھی، جسے ہر فیصلہ میں سب پر فوقیت دی جاتی تھی۔

لیکن اب؟

نتاشا کے دل میں جیسے آگ دہک اٹھی تھی۔

آواز اندر ہی اندر گونجی
یہ لڑکی! میرے امن پر قبضہ جمانا چاہتی ہے؟

دل میں وہ فیصلہ ہو چکا تھا جو زبان نے ابھی ادا نہ کیا تھا۔
میں چھوڑوں گی نہیں اُسے…
نتاشا نے خود سے وعدہ کیا —

نہ آنسو ہوں گے، نہ درخواست… اب صرف ایک جنگ ہو گی — خاموش، شاطر، مگر خطرناک۔

کیوں کہ جب دل ٹوٹتا ہے، تو صرف درد نہیں پیدا ہوتا… ایک نیا چہرہ بھی جنم لیتا ہے۔

کچھ دیر بعد۔۔۔

آفس میں معمول کی مصروفیت جاری تھی مگر امن کی نظریں بار بار دروازے کی طرف اُٹھ رہی تھیں۔ گھڑی کی سوئیاں جیسے اُس کے صبر کو چبھو رہی تھیں۔ آخرکار اُس نے میز پر پڑے فائلز کو ایک طرف دھکیلا اور غصے سے بولا
یہ حیات ابھی تک آئی کیوں نہیں؟ دس بج گئے ہیں!

امن بھول چکا تھا کہ حیات نے اُسے کل آدھے دن کی چھٹی لینے کا بتایا تھا۔)

وہ مزید برداشت نہ کر سکا۔ موبائل اٹھایا اور نمبر ملایا۔۔۔

رنگ جا رہی تھی… مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔

پھر ایک دم سے کال کٹ گئی۔

یہ میری کال کیوں نہیں اٹھا رہی؟

امن کے چہرے پر حیرت سے زیادہ غصہ تھا۔ اب کی بار اُس نے دانت پیس کر دوبارہ کال کی۔

پھر وہی نتیجہ — کال کٹ۔

اب تو جیسے کِسی نے اُس کے صبر کا پیمانہ چھلکا دیا ہو۔ وہ بار بار کال کیے جا رہا تھا، ہر بار اُسی دُھتکارے جانے والے سکوت کا سامنا کر رہا تھا۔ اور دوسری طرف۔۔۔

حیات — بغیر کسی پشیمانی کے، دھیٹوں کی طرح — ہر بار کال کاٹ رہی تھی۔

کیا مسئلہ ہے حیات! کال تو اُٹھاؤ!

امن نے غصے سے میز پر مکے مارا۔

چہرے پر تلخی، آنکھوں میں بے چینی، اور دل میں وہ انجان سا سوال تھا جس کا جواب اُسے چاہیے تھا۔۔۔

لیکن شاید حیات اُسے آسانی سے وہ جواب دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔

آخرکار…

جب بار بار کی کالز، خالی سکرین اور کٹی ہوئی لائنوں نے امن کو مکمل بے چین کر دیا،

تو بالآخر — کال اُٹھا لی گئی۔

فون کان سے لگاتے ہی، دوسری طرف سے سرد، تلخ، اور بلکل بے نیاز آواز آئی۔

ہیلو، کیا مسئلہ ہے؟ بولیں… ابھی بھی سکون نہیں ہے آپ کو؟

امن جھٹ سے کہا کہاں ہو؟

حیات نے بلا کی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا
  پارک میں گلی ڈنڈا کھیل رہی ہوں۔

حیات، میں مذاق نہیں کر رہا ہوں!
امن کا لہجہ سخت ہوگیا 

ہاں تو میں کب مذاق کر رہی ہوں؟ یونیورسٹی میں ہوں۔

امن اچانک چونک گیا، جیسے یادوں کا دھواں چھٹا ہو یونی میں؟

حیات نے صاف اور تھوڑا تلخ لہجے میں کہا 
ہاں، یونیورسٹی میں۔۔۔

اب امن کو یاد آ چکا تھا — کل کہا تو  تھا حیات نے، کہ اُسے صبح یونیورسٹی جانا ہے۔

امن آواز دھیما پڑ گیا اچھا۔۔۔

حیات رک کر، بے ساختہ پھٹ پڑی 

کیا مطلب اچھا؟ آپ بار بار کال کیوں کر رہے تھے؟ جب کوئی بار بار کال کاٹ رہا ہو، تو اُس کا یہی مطلب ہوتا ہے نا کہ وہ مصروف ہے؟

امن اب دفاعی انداز میں، مگر طنز کے ساتھ کہا 
ایسا بھی کون سا اہم کام کر رہی ہو یونی میں، جو اپنے باس کی کال تک اٹینڈ نہیں کر سکتی؟

کیا مطلب ہے؟ میں نے آپ کو کل ہی بتایا تھا کہ مجھے یونی میں اسائنمنٹ جمع کروانا ہے، اور میں اکیلی نہیں آتی — میری دوستیں بھی ہوتی ہیں میرے ساتھ۔ میں نہیں چاہتی کہ اُنہیں پتہ چلے کہ میں آپ کے آفس میں جاب کرتی ہوں۔

اور اب پلیز، کال رکھیں۔ میں جا رہی ہوں۔ اللہ حافظ!

امن جھٹ سے کہا سنو تو—

لیکن حیات نے کال کاٹ دی تھی۔

فون کی سکرین پر خالی روشنی تھی اور دل میں کڑواہٹ۔ سے بڑبڑایا
ایک تو سمجھ نہیں آتا، میں باس ہوں یا یہ میری باس ہے۔۔۔

کچھ دیر بعد…

آفس میں سناٹا سا تھا، لیکن امن کے اندر ایک ہلچل جاری تھی۔

وہ بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا…

دو بجنے میں ابھی وقت تھا، لیکن اُس کے دل کو چین نہیں تھا۔

عجیب بات یہ تھی کہ اُسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ دو بجنے کا اتنا بے چینی سے انتظار کیوں کر رہا ہے۔

جیسے کسی کا انتظار ہو… لیکن لب خاموش اور دل انجان۔

ٹک… ٹک…

دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

امن نے نظریں اٹھائے بغیر کہا آ جاؤ۔

دروازہ کھلا، یہ لو، سائن کرو اس پہ۔

زویار ایک فائل امن کی طرف بڑھے
ایک تو تم اتنا اٹیٹیوڈ کیوں دکھاتے ہو مجھے؟ میں تمہارا باس ہوں یا تم میرے باس ہو؟”

زویار نے بے نیازی سے کہا واٹ ایور۔ سائن کرو اس پہ۔ میرے پاس وقت نہیں ہے۔

ہاں، ایک میں ہی فارغ ہوں، باقی تم لوگ ہی تو اتنا بڑا بزنس چلا رہے ہو نا…

زویار دروازے کی طرف پلٹتے ہوئے 
سائن کر کے بھجوا دینا میرے کیبن میں۔

اور وہ دروازہ بند کر کے بغیر ایک پل رُکے چلا گیا 

عجیب ہے… کیا سارے نمونے میرے ہی نصیب میں آئے ہیں؟

++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *