آخری سِحر
قلم از: عمارہ عزیز
قسط نمبر 1
اِٹلی میں فلورنس کی پرانی گلی “ویا دی نیری” رات کے پہروں میں خواب جیسی لگتی۔ تنگ، پتھریلی، اور خاموش جیسے وقت یہاں تھم گیا ہو۔ دونوں جانب جھکی ہوئی عمارتیں، صدیوں کے راز اپنے اندر سمیٹے کھڑی تھیں۔ ہوا میں کافی، پرانی کتابوں اور نمی زدہ دیواروں کی ملی جلی خوشبو تیر رہی تھی۔ کہیں اک کونے میں ایک بوسیدہ کرسی پر بیٹھی بڑھیا، ہاتھ کی لکیروں میں تقدیریں تلاش کر رہی تھی۔ اس کی نظریں دھندلی ضرور تھیں، مگر اُس کی آنکھوں میں وقت سے پرے دیکھنے کی طاقت چھپی تھی۔ لیکن آج… آسمان پر کالی گھٹائیں چھا رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بادل نیچے اتر آئے ہوں۔ گلی کا سارا رش اچانک غائب ہو گیا تھا۔ لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے تھے، کھڑکیوں سے صرف ہلکی زرد روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی۔ گلی میں موجود دکانیں، کیفے اور پبز، جو عام طور پر رات بھر جاگتے تھے آج دھیرے دھیرے بند ہو رہے تھے۔ آوازیں معدوم ہونے لگیں، اور ہر طرف ایک عجیب سی حفرہ تفریح پھیل گئی۔ وہیں موجود ایک کیفے کی شیشے کے دروازے پر کلوزڈ کا ٹَیگ آویزاں تھا۔ مگر اندر کی روشنی اب بھی مدھم سی جل رہی تھی۔ اندر ایک لڑکی نظر آئی وہ میزیں سمیٹ رہی تھی۔کبھی کرسی سیدھی کرتی، کبھی کوئی کتاب یا پیالی اٹھا کر کچن کی جانب لے جاتی۔اس کی حرکات میں تھکان تھی لیکن ہاتھ تیزی سے کام کر رہےتھے شاید اسے گھر جانے کی جلدی تھی وہ بار بار نظر اٹھا کر گھڑی پر دال لیتی جو اب بارہ چالیس بجا رہی تھی۔اُس نے میز پر پڑا آخری کپ اُٹھایا اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔ کپ رکھ کر واپس آئی تو نظر کمرے کے کونے میں پڑی میز پر پڑی، جس پر کوئی اب موجود تھا۔ شاید اُس نے اُس لڑکی کی آمد کو محسوس کر لیا تھا
جو نظریں اُٹھا کر بولا: “وَن کافی پلیز”
وہ لڑکی اُسے جانچتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جس نے بلیک ہُڈ کی ٹوپی اس قدر کھینچ رکھی تھی کہ اُس کا آدھا مُنہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ وہ کوئی نوعمر سا لڑکا تھا جس کو دیکھتے ہوئے اُس نے اپنا بازوں لمبا
کیا اور دروازے کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے بولی: “کیا تم نے باہر لگی ‘کلوزڈ’ کی ٹَیگ نہیں دیکھی؟ کیفے بند ہو چکا ہے۔”
“میں بہت دُور سے آیا ہوں میم۔ مجھے کافی کی بہت طلب ہو رہی ہے اور شہر کے بہت سے کیفے بند ہو چکے ہیں۔ پلیز، کیا آپ مجھے ایک کپ کافی پلا سکتی ہیں؟”
اُس کے اصرار پر لڑکی نے گہری سانس لی اور سر اثبات میں ہلایا اور کچن کی طرف جانے لگی۔
لڑکی نے کافی تیار کی اور خاموشی سے اُس نوجوان کے ٹیبل پر رکھ دی۔کافی سے دھواں نکل رہا تھا اُس کی مہک نے پورے کیفے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لڑکی قریب پڑی میز سے کچھ برتن اُٹھانے لگی اور انہیں کچن میں لے گئی۔جب واپس آئی، تو کمرے کا منظر بدل چکا تھا۔ وہ نوجوان اب وہاں موجود نہیں تھا۔ صرف خالی کپ میز پر رکھا تھا… اور اُس کے ساتھ رکھی تھیں کافی کی
پوری قیمت۔لڑکی نے بےاختیار کیفے
کے شیشے سے باہر جھانکا “خیر… مجھے کیا؟”
اُس نے خود سے کہا، شانے اُچکائے اور میز پر پڑا کپ اور پیسے اُٹھا کر دوبارہ کچن کی طرف چلی گئی۔ واپس آ کر وہ ایک کپڑا لے کر اُسی میز کو صاف کرنے کے لیے جھکی لیکن پھر اُس کی نظر میز کے نیچے پڑی ایک کالی چیز پر جا ٹھہری۔ وہ ایک کالا پرس تھا۔لڑکی نے جھک کر اُسے اُٹھایا اور کھڑی ہو گئی۔جیسے ہی اُس نے پرس اُٹھایا، اُس کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایاں ہو گئے۔کچھ سوچ کر وہ تیزی سے کیفے کے باہر نکلی شاید اسے ابھی بھی اس لڑکے کا سایہ دور جاتا دیکھ رہا تھا وہ دوڑتی ہوئی اُس کے پیچھے چل پڑی، اُمید تھی کہ اُسے آواز دے کر روک سکے گی۔
“سنیے! یہ آپ کا پرس ہے، کیفے میں ہی رہ گیا تھا… سنیے! اپنا پرس لے جائیے!”
وہ بار بار پکارتے ہوئے دوڑتی رہی مگر اُس شخص نے ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔نہ ہی اُس کی رفتار کم ہوئی۔ دونوں گلی سے آگے نکل گئے۔ پھر اچانک، جیسے کوئی ٹھنڈی، تیز ہوا چلی مگر اُس ہوا میں کچھ عجیب تھا… جیسے وہ آنکھوں پر ایک دھند چھوڑ گئی ہو۔ لڑکی نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔جب دوبارہ آنکھیں کھولیں —تو وہ نوجوان وہاں موجود نہیں تھا۔ اُس نے اردگرد نظریں دوڑائیں سامنے ایک تنگ گلی نکلتی تھی، پھر دو مزید گلیاں، دائیں اور بائیں۔ وہ اُن خاموش اور سنسان گلیوں کو دیکھتی رہی۔آگے بڑھنے کی بجائے، اُس کے قدمپیچھے ہٹنے لگے۔ ایک انجانی گھبراہٹ نے اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔چہرے پر خوف نمایاں تھا۔ اچانک جیسے کوئی اُس کے بالکل پیچھے آ کھڑا ہوا ہو۔کسی نے گردن کے پچھلے حصے پر زور سے کچھ مارا۔ وہ نہ کچھ بول پائی، نہ ہی چیخ سکی۔ اُس کی آنکھیں بند ہو گئیں، اور وہ زمین پر گر گئی۔ پھر… کسی نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اُسے گھسیٹتا ہوا، اندھیرے کی طرف لے
گیا۔
صبح کی دھوپ دھیرے دھیرے درختوں کی پتوں سے چھن کر زمین پر سنہری دھاریاں بکھیر رہی تھی۔ یہ منظر اسلامآباد میں واقعہ ایک یونیورسٹی کا ہے جو آج جشن کا منظر پیش کر رہی تھی باغ میں رنگ برنگے غبارے، فیکلٹی کی سجی ہوئی میزیں، اور ہر جانب خوشی کا شور تھا۔گریجویشن کی تقریب اپنے اختتامی مراحل میں تھی — اور پھر وہ لمحہ آیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ اسٹیج سے آواز ابھری:
“Class of the Year, on my count three… two… one!”
ہزاروں کی تعداد میں جمع طالبعلموں نے ایک ساتھ اپنے کالے گاؤنز کے بٹن کھولے، کالی ٹوپیاں ہوا میں اچھالی گئیں۔ ہوا میں ٹوپیوں کا وہ رقص جیسے اُمیدوں کی پرواز ہو۔قہقہے، تالیاں، خوشیاں… ہر طرف ایک مثبت توانائی پھیلی ہوئی تھی**۔**
“لیکن یہ وقت بھی اللہ اللہ کر کے گزرا ہی گیا”
زرکا نے اِیلمارا کے
احساس کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں… اب تو وہ وقت گزر چکا ہے نا؟”
اِیلمارا نے ایک سکون بھری سانس لی اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی:”چھوڑو یہ باتیں، آؤ… ہم تصویر لیتے ہیں!”
افسان نے کہا “ہاں، ایسے موقع بار بار نہیں آتے!”
کیو التمش احان جو تھودا چڑ گیا تھا بولا”کتنی بار کہا ہے، میرا نام احان ہے!
ہر بار صرف التَمش کہہ کر بلانا ضروری ہے کیا؟
آریب نے ہنستے ہوئے شرارت کی”ہاں
بھئی، کیوں نہیں ‘التَمش صاحب۔
الیمارا نے کہا:”تمہیں پتہ ہے، احان، تمہیں یونہی چڑتے ہوئے دیکھ کر اریب کو بہت سکون ملتا ہے۔”
زرکا نے اِیلمار کو گھورتے ہوئے کہا حد ہے، بس کرو اب! ہر وقت اسے نہ
چھیڑا کرو!”zz
کیفےٹیریا کا ماحول آج معمول سے بھی زیادہ پررونق تھا۔ہر طرف طلبہ و طالبات کی چہل پہل، ہنسی مذاق، اور نوٹس کے تبادلے جاری تھے۔کہیں کوئی گروپ پریزنٹیشن پر بحث کر رہا تھا، تو کہیں ہنسی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ہوا میں چائے، سینڈوچ اور کریسپیز کی خوشبو تیر رہی تھی۔ ایسے میں، جیسے منظر تھما ہو کیفےٹیریا کا دروازہ کھلا، اور پانچ لوگوں کا گروپ اندر داخل ہوا۔ بیچ میں سب سے اونچا، خاموش اور پرُسکون احان التمش تھا جس کا انداز باقی سب سے الگ، ۔ اُس کے بائیں طرف زرکا ابیرو اور الیماراشیرازی تھیں، جو کسی تصویر بنانے کی بات کر رہی تھیں۔ دائیں جانب افسان علی اور آریب فزّان تھے دونوں آج کی کیفےٹیریا کی رونق پر تبصرہ کر رہے تھے۔ آریب نے بات کرتے کرتے اچانک الیمارا کو دیکھا،
الیمارا، تمہارے لیے تو یہ سب کچھ بہت مشکل رہا ہو گا نا؟”
اِیلمارا نے شانے اُچکاتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ دی، اور بولی:**”ہاں، سچ کہو تو… بہت۔ لیکن
لیمارا نے مسکراتے ہوئے کہا:”ٹھیک ہے، آج تم کچھ زیادہ ہی خاموش ہو، التمش!”
زرکا بولی:”ہاں، تبھی تو تم التمش کو چھیڑ رہی ہو، نا؟”
افسان نے دونوں کو ٹوکا بس کرو تم دونوں… یار، چلو کہیں چلتے ہیں مطلب سامنے والے پارک میں؟ تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں۔
آریب نے ہامی بھری:”ہاں چلو!”
زرکا نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو روکتے ہوئے کہا:”ایک منٹ! پہلے تصویر تو لے لیں ایسے موقع بار بار نہیں آتا
اِیلمارا نے موبائل نکالتے ہوئے کہا ٹھیک ہے، سب کھڑے ہو جاؤ۔ میں لیتی ہوں تصویر۔
التَمش نے کہا:”نہیں، میں لیتا ہوں تصویر۔ تم لوگ سب کھڑے ہو جاؤ۔
آریب نے کہا:تو خود بھی کھڑا ہو جا، نا
التَمش نے سنجیدگی سے کہا:”پتا ہے نا، مجھے یہ سب ‘چوچلے’ پسند نہیں۔ شرافت سے کھڑے ہو جاؤ سب، تاکہ اچھا فریم بنے
زرکا نے کہا سہی ہے بھائی، چلو، سب کھڑے ہوجاؤ!
پھر سب ترتیب سے کھڑے ہو گئے۔التَمش نے کیمرہ سیٹ کیا، پیچھے
ہٹا اور بولا:”One… Two… Three… Go!”کلک!
ایک خوبصورت تصویر کھنچ گئی وہ لمحہ، وہ مسکراہٹیں، وہ روشنی… جیسے سب کچھ ایک یاد میں قید ہو گیا ہو۔
احان التَمش نے کیمرہ دکھاتے ہوئے
کہا:”اب صحیح ہے! یہ لو، تصویر!”
سب نے تصویر دیکھی اور ایک وقت میں بولے:”واہ، کیا تصویر ہے!”
لیکن… ہر کسی نے تصویر میں اپنی اپنی تعریف کی
زرکا: میرا اینگل سب سے اچھا آیا
آریب:”یار میری لوک کتنی فٹ لگ رہی ہے!
” افسان:”میں ہمیشہ کی طرح اچھا لگ رہا ہوں۔
” اِیلمارا:”اور میرا smile pure
التَمش نے اس کی بات کاٹی اور سر پکڑتے ہوئے کہا:”حد ہے تم سب کی…!”
اور پھر وہ سب ہنسنے لگے۔
کیفے کے ایک سنسان کونے میں دو ادھیڑ عمر، باوقار اور رعب دار شخصیتیں آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔ اُن کی گفتگو آہستہ لیکن گہرائی بھری تھی۔ دونوں کی آنکھوں میں برسوں کی کہانیاں چھپی تھیں۔ ایک نے، جو شاید زیادہ بااثر اور تجربہ کار لگ رہا تھا،
دوسرے سے کہا: “ویسے، میں جانتا ہوں تم یہ کام کر سکتے ہو… لیکن پھر بھی، مجھے تم پر یقین نہیں آتا۔ میں
چاہتا ہوں تم میرے لیے یہ کام کرو۔”
دوسرے شخص نے، جو قدرے سرد لہجے میں بات کر رہا تھا، کہا:”اچھا؟ تمہیں مجھ پر یقین نہیں اور پھر بھی کام مجھ سے؟ چلو بتاؤ، کیا کرنا ہے؟”
پہلا شخص ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ آہستگی سے بولا: “یہاں… جس انسان سے تمہاری آنکھیں سب سے پہلے ٹکرائیں تمہیں اُسے وہاں پہنچانا ہے۔
” دوسرے نے حیرت سے
پوچھا:”بس؟ صرف یہی کرنا ہے؟”
پہلے شخص نے آنکھوں میں ایک گہری چمک کے ساتھ جواب دیا:”ہاں… یہی۔ تمہارے لیے کافی ہے۔”
دوسرے نے اثبات میں سر ہلایا اور نظریں کیفے میں دوڑائیں۔ اُس کی نگاہ اچانک ایک لڑکے پر جا ٹھہری وہ لڑکا اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ التَمش
تبھی پاس بیٹھا افسان بول اٹھا اوئے التَمش! کس کو دیکھ رہے ہو؟
التَمش چونکا، جیسے کسی خیال سے واپس لوٹا ہو،اسنے اپنا سر جھٹکا جیسے کسی خیال کو پرے دھکیلا ہو پھر آہستگی سے بولا:”کچھ نہیں، بس…” پھر اُس نے نظریں جھکائیں، اور کہنے لگا:”چلو… چلتے ہیں پارک کی طرف۔ یہاں کچھ گھٹن سی محسوس ہو رہی ہے۔”
یہ سن کر سب نے ہمی بھری اور یونیورسٹی سے باہر اگئے
اب منظر کچھ یوں تھا کہ پانچوں دوست گھاس پر بیٹھے تھے، اردگرد پھولوں کی مہک اور ہلکی سی ٹھنڈی ہوا ماحول کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔ افسان پارک کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر بولا،”ماشاءاللہ… کتنا خوبصورت ہے سب کچھ۔ تم لوگوں کو پتہ ہے، یونیورسٹی کے بعد میں روز اس پارک میں آتا رہا ہوں، لیکن آج کی کیفیت کچھ الگ ہے۔
اُس کی آنکھوں میں چمک تھی، جیسے قدرت سے ایک خاص لگاؤ ہو۔
زرکا نے ہنستے ہوئے کہا،”اچھا جی؟ یہ بات ہے! تو تمہیں قدرت سے بڑا پیار ہے؟
آریب نے شرارت سے لقمہ دیا،”اور خاص طور پر… لال پھولوں سے تو بہت محبت ہے نا؟”
یہ سنتے ہی التمش نے اپنی شرٹ کی طرف دیکھا، جو واقعی ہلکے سرخ رنگ کی تھی۔ اُس نے نظریں آریب کی طرف اُٹھائیں، ہلکا سا مسکرایا اور بولا،”رکو ذرا… تمہیں ابھی بتاتا ہوں۔”
ایلمارا نے ہنستے ہوئے مذاق میں کہا،”رکو رکو، آریب! لگتا ہے التمش تمہاری شادی کروانے کی تیاری میں ہے!”
سب زور زور سے ہنسنے لگے۔ افسان نے ہنستے ہنستے آریب کے کندھے پر ایک ہلکی سی چپت لگائی اور بولا،”حد ہے یار تیری بھی،
آریب! آخر تجھے لال پھول پسند کیوں نہیں؟ سچ سچ بتا!”آریب کو جیسے فرق ہی نہ پر وہ اپنی ہی ہانکے جا رہا تھا
زرکا نے کہا، “بس کرو! پیٹ میں درد ہونے لگا ہے ہنسی کے مارے۔
التمش اچانک سنجیدہ ہو گیا، اور بولا، “یار، کچھ محسوس کیا تم لوگوں نے؟
” ایلمارا نے چونک کر پوچھا، “کیا؟ کیا مطلب؟” “یار،
ایک دم سے موسم بدل گیا ہے… ٹھنڈی ہوا تیز چلنے لگی ہے۔
” افسان نے بھی اثبات میں سر ہلایا، “ہاں یار، سچ کہہ رہا ہے! دیکھو، آسمان بھی نیلا پڑ گیا ہے… جیسے شام ہو گئی ہو!” ہوا اتنی تیز ہو گئی تھی کہ سب کے کپڑے اور بال اڑنے لگے تھے۔ مگر یہ صرف ہوا نہیں تھی اس میں کوئی عجیب سی، خوفناک سی کیفیت تھی۔ زرکا اور الیمارا تھوڑا گھبرا گئیں۔ آریب نے ماحول کو ہلکا کرنے کی کوشش کی، “ارے یار، کچھ نہیں… نارمل سی ہوا ہے، ایسا ہوتا رہتا ہے۔
” ایلمارا نے ڈرتے ہوئے کہا، “نہیں یار، مجھے یہ نارمل نہیں لگ رہی… چلو یہاں سے؟”
آریب نے فوراً محسوس کیا کہ الیمارا واقعی ڈر گئی ہے۔ وہ ایلمارا کے پاس آ کر کھڑا ہوا اور نرم لہجے میں بولا، “کچھ نہیں ہوتا، ایلمارا۔ تم ایسے نہ ڈرو، سب ٹھیک ہے۔
” التمش، جو عام طور پر مضبوط دل کا مالک تھا، مگر کیفے میں بھی اور اب یہاں پارک میں کچھ تھا جو اُس کا حوصلہ توڑ رہا تھا۔
اُس نے سنجیدگی سے کہا، “چلو اگر تم لوگ واقعی گھبرا رہے ہو۔
” افسان نے مذاق میں کہا، “یار، مجھے تو یہ تیز ہوا بہت اچھی لگ رہی ہے!”
زرکا خاموش تھی۔ اُس نے ایک نظر آسمان کی طرف ڈالی اور تبھی، نیلے بادلوں سے ایک بارش کا پہلا قطرہ آ کر اُس کی آنکھ پر گرا۔ وہ چونکی، آنکھ بند کی
اور اسی لمحے ایک زور دار بجلی چمکی۔ ایلمارا نے خوفزدہ ہو کر ایک دم آریب کا ہاتھ تھام لیا۔
آریب نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا بس چند لمحے کے لیے اپنے اور ایلمارا کے جُڑے ہاتھوں کو دیکھا۔ وہ اُس کی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکا، جیسے خود بھی الجھ گیا ہو… اُسے یہ اچھا لگ رہا تھا؟ یا وہ خود نہیں سمجھ پایا؟
اب بادل اپنی شکلیں بدل رہے تھے سیاہ، موٹے، اور بے حد بھڑے کالے گھنے بادل، جنہوں نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، جیسے روشنی کو نگل گئے ہوں۔ افسان بے چین سا ہو گیا تھا۔ اُس کے چہرے پر واضح پریشانی جھلکنے لگی۔ … یہ رحمت کی بارش نہیں تھی، بلکہ جیسے کسی انہونی کی علامت ہو۔ اچانک بہت زیادہ بارش شروع ہو گئی۔ پانی کی بوچھاڑ نے ایک لمحے میں پورے پارک کو بھیگا دیا۔ پناہ کی تلاش میں سب لوگ اِدھر اُدھر دیکھنے لگے … لیکن کہیں کوئی چھت، درخت، یا سائبان نہیں تھا۔ التَمش نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا،”چلو… فوراً یہاں سے نکلتے ہیں۔ کچھ… کچھ عجیب ہونے والا ہے۔” زرکا، ایلمارا، افسان، اور آریب سب اُس کی بات کو بغیر کسی سوال کے مان گئے۔ جیسے وہ بھی جان چکے تھے کہ یہ محض موسم نہیں ہے، یہ کچھ اور ہے…۔ مگر جیسے ہی وہ جانے کا سوچنے ہی لگے، ایک عجیب سی طاقت اُن کے قدموں کو روکنے لگی۔ جیسے جانے کے لیے دل ہی نہ مان رہا ہو ۔ دل تیز دھڑک رہے تھے، اور ماحول اس قدر گھمبیر ہو چکا تھا کہ اگر کوئی اُنہیں اس لمحے کسی انجان، ان دیکھے مقام پر چلنے کو کہے تو وہ فوراً تیار ہو جاتے۔ ، سب کو یقین ہو چکا تھا کچھ بہت بڑا ہونے والا ہے
Next Episode on 12th September
INSHALLAH!
NOTE BY AUTHOR:
امید ہے کہ آپ کو میری لکھی ہوئی یہ پہلی قسط پسند آئی ہوگی۔ اگر اس میں کوئی کمی یا غلطی رہ گئی ہو تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ باقی اپنی رائے اور قیمتی تبصرے ضرور کمنٹس میں شیئر کیجیے گا.! خدا حافظ
آپ کی رائٹر
عمارہ عزیز
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

3 Comments
Yar coffee scene 🙌 wow wow wow 🫀lekin mje bhotttt se swàaal krne ha bheey 🙃ye sb kese q Kay
Elmara ka baarish mein ghabrana or arib ka care karna i really love it
Wow, your novel is absolutely incredible! I couldn’t put it down the characters are so well developed and relatable. You’re an amazing storyteller and I’m so proud of you for creating such a captivating book 🌸✨