antal hyat

Antal hayat Episode 1 written by siddiqui

انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )

ضروری اطلاع ( Important note)

السلام وعلیکم ….!!
رائٹر صدیقی کے چند الفاظ، کہانی شروع کرنے سے پہلے:

سب سے پہلے ایک چھوٹی سی گزارش ہے کہ میری کہانی کو تنقیدی نگاہ سے نہ پڑھا جائے بلکہ صرف انجوائے کیا جائے۔ اس کہانی کا مقصد صرف اور صرف آپ کو تفریح فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو لکھنے کا کوئی اور ارادہ نہیں ہے۔

یہ ایک سادہ، سیدھی، لیکن بھرپور مزاح اور مستی سے لبریز کہانی ہے۔
یہ ناول ہر قسم کے بولڈ یا غیر اخلاقی مواد سے پاک ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے پڑھ کر آپ کو افسوس ہو کہ “میں نے یہ کیوں پڑھا۔”
یہ مکمل طور پر ایک افسانوی کہانی ہے، اس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس میں موجود تمام کردار بھی فرضی ہیں۔

یہ ایک سادہ سی محبت کی کہانی ہے ایک سمجھدار مرد اور ایک ننھی سی بچگانہ سی لڑکی کی۔ لیکن یقین کریں، جیسے جیسے آپ پڑھتے جائیں گے، آپ کو ہر صفحے پر مزہ ہی مزہ آئے گا۔۔۔

اگر آپ اس کہانی کو بغیر جج کیے، کھلے دل سے پڑھیں گے تو آپ کو اس کا اصل لطف آئے گا۔

اگر آپ کو پختہ رائیٹنگ سٹائل اور اُس طرح کے ناول پسند ہیں تو بہتر ہے آپ یہ نہ پڑھیں۔۔۔

آپ اگر اس کہانی میں منطق تلاش کریں گے یا  ہر کردار کے عمل کو فلسفے کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کریں گے تو شاید یہ کہانی آپ کو متاثر نہ کر پائے۔

میرا  اس کہانی کو لکھنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ جب آپ اس کہانی کو پڑھیں تو کچھ لمحوں کے لیے اپنی فکری اور جذباتی پریشانیاں بھول جائیں، اور کرداروں کے ساتھ ہنسیں، روئیں اور ان کی دنیا میں کھو جائیں۔

لہٰذا گزارش ہے کہ آپ اس کہانی کو دل کی گہرائیوں سے انجوائے کریں، اور اگر آپ کو ایک بھی مسکراہٹ مل گئی تو سمجھ لیں میرا مقصد پورا ہو گیا۔

شکریہ۔۔

باب اول: تم میری محبت کی آخری وارث ہو

قسط نمبر ۱

ملی تھی وہ حادثہ بن کے راہ میں،
چھوڑ گئی اثر دل کی چاہ میں۔

کوالالمپور، ملائیشیا کا سب سے بڑا اور گہما گہمی سے بھرا شہر، آج ایک نہایت اہم تقریب کا میزبان تھا۔ شہر کے سب سے بڑے اور شاندار بینکوئٹ ہال میں ملک کے نامور بزنس مین ہمایوں کی کامیابی کا جشن منایا جا رہا تھا۔ یہ ایک ایسی تقریب تھی جس میں صرف بڑے اور کامیاب کاروباری شخصیات ہی مدعو تھیں، وہ بھی اپنی فیملیز کے ہمراہ۔

ہال نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ ہر چیز نفاست اور ترتیب سے رکھی گئی تھی۔ مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے گول میزیں اور آرام دہ کرسیاں لگائی گئی تھیں، جب کہ جو لوگ نہایت بااثر اور قریبی کاروباری تعلقات رکھتے تھے، ان کے لیے صوفے مخصوص کیے گئے تھے۔

ماحول پرُوقار، خوشگوار اور پرتعیش تھا، ہر چیز بہترین انداز میں چل رہی تھی۔

ایسے میں ایک انتہائی حسین و دلکش لڑکی، جو سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھی، اپنی سیاہ گہری آنکھوں میں بے پناہ دلکشی لیے تیز قدموں سے دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے کان میں فون لگا تھا، اور وہ کسی سے بات کرتے ہوئے جلدی میں معلوم ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اسے کسی بہت ضروری کام کے لیے جانا ہو یا کوئی اہم گفتگو جاری ہو۔

مگر پھر اچانک-

اس کا پیر مڑا، اور وہ توازن کھو بیٹھی۔ اگلے ہی لمحے، وہ سیدھا ایک مضبوط، پرکشش اور وجیہہ مرد سے جا ٹکرائی، جو نہایت اعتماد سے کھڑا تھا۔ ٹکر اتنی اچانک تھی کہ اس کے ہاتھ میں پکڑا جوس کا گلاس لڑکی پر جا گرا۔

اوہ!
لڑکی نے ہونٹ بھینچ کر اپنی سفید شلوار قمیض کی طرف دیکھا، جو اب جوس کے دھبوں سے خراب ہو چکی تھی۔

ابھی وہ اپنے لباس پر پڑے داغوں کا جائزہ لے ہی رہی تھی کہ ایک سخت، مگر پُرسکون آواز نے اسے چونکا دیا

دیکھ کر چلو؟
مرد نے بھنویں چڑھا کر کہا۔

ہاں، میں اندھی ہوں! لیکن آپ تو اندھے نہیں ہو نا؟ آپ دیکھ کر نہیں چل سکتے تھے؟
لڑکی نے غصے سے آنکھیں گھمائیں اور بے ساختہ بولی۔

ایکسکیوز می؟ میں چل نہیں رہا تھا، میں تو بس یہاں کھڑا تھا!
وہ لڑکی کی طرف اپنی گہری نظریں گاڑے کھڑا تھا۔

ہاں تو!
لڑکی نے نخوت سے سر جھٹکا۔

یہ کوئی جگہ ہے جوس لے کر کھڑے ہونے کی؟
لڑکی نے مزید تپ کر کہا۔

ایکسکیوز می؟
مرد نے بے نیازی سے کندھے اُچکائے۔

سوری…
لڑکی نے بادل نخواستہ کہا،

It’s okay
اُس لڑکے نے فوراً اُس کی معافی قبول کرلی۔

اوہ ہیلو! آپ بھی واپس سے سوری بولیں! کیا… ‘اٹس اوکے’
مرد نے الجھن سے اسے دیکھا۔

دماغ سے پيڈل ہو کیا؟ میری کوئی غلطی نہیں تھی، تو میں سوری کیوں بولوں؟
مرد نے ناک چڑھا کر کہا۔

پہلے تو آپ دروازے کے پاس کھڑے ہو کر جوس پی رہے تھے، اوپر سے میرا سوٹ بھی خراب کر دیا، اور اب کہہ رہے ہو کہ میری کوئی غلطی نہیں؟ ابھی تو میں فنکشن میں صحیح سے داخل بھی نہیں ہوئی تھی کہ آپ نے میرا ڈریس خراب کر دیا!
لڑکی نے جھنجھلا کر کہا۔

محترمہ، غلطی آپ کی ہی ہے۔ آپ خود تیزی میں آ رہی تھیں، میں تو ایک طرف کھڑا تھا!
مرد نے بے نیازی سے سر جھٹکا۔ وہ عام طور پر بحث کرنے والا شخص نہیں تھا، مگر جانے کیوں، وہ اس لڑکی سے الجھ رہا تھا۔

ہاں ہاں، میں ہی اندھی ہوں نا!
لڑکی نے تپ کر کہا،
لیکن آپ تو دیکھ سکتے تھے، مجھے روک سکتے تھے

مجھے کیا معلوم تھا کہ تم چلتے چلتے اچانک مجھ سے آکر ٹکرا جاؤ گی؟
مرد نے ماتھے پر شکنیں ڈال کر کہا۔

یہ سب آپ کے ہاتھ میں موجود جوس کے گلاس کی وجہ سے ہوا ہے! اگر آپ کے ہاتھ میں یہ جوس نہ ہوتا، تو نہ آپ کا کپڑا خراب ہوتا، نہ میرا!
لڑکی نے جھنجھلا کر کہا۔

یہ لڑکی تو حد درجے ضدی ہے! اس سے بحث کرنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے!
مرد نے اندر ہی اندر سوچا۔ آخرکار، اس نے ہار مانتے ہوئے کہا

اوکے، اوکے! ساری غلطی میری تھی! سوری!

لڑکی نے ایک گہرا سانس لیا، پھر مسکراتے ہوئے بولی

ہاں پہلے ہے بول دیتیں اتنا وقت ضائع کروادیا حیات کا۔۔۔ it’s okay
کسی کی بھی غلطی ہو کوئی بات نہیں اور سوٹ ہی تو تھا۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ کندھے اُچکا کر مسکرا دی اور اندر کی طرف بڑھ گئی۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، جیسے چند لمحے پہلے کی بحث بے معنی تھی۔

مرد نے اسے جاتے ہوئے دیکھا اور سر جھٹک کر بڑبڑایا

کیا لڑکی ہے، بالکل پاگل!

وہ ابھی بھی حیران تھا کہ یہ بحث کس طرح اچانک ختم ہو گئی، جیسے وہ کوئی کھیل تھا جو وہ جیت چکی تھی۔
پھر اس کی نظر اپنے مہنگے برانڈڈ کوٹ پر پڑی، جو جوس کے داغوں سے خراب ہو چکا تھا۔ اس نے گہری سانس لی اور افسوس سے سر ہلایا

اوہ ہو، اسے بھی تو صاف کرنا ہے!

یہ سوچتے ہی وہ اپنا کوٹ سیدھا کرتا ہوا بینکوئٹ ہال کے اندرونی حصے میں واقع واش روم کی طرف چل پڑا، جبکہ اس کے دماغ میں ابھی بھی وہ سیاہ آنکھوں والی ضدی لڑکی گردش کر رہی تھی۔

++++++++++++++

حیات جیسے ہی بینکوئٹ ہال کے اندر داخل ہوئی، اس کی سب سے قریبی دوست فوراً اس کی طرف لپکی۔ جیسے ہی اس کی نظر حیات کے سفید لباس پر پڑی، جو جوس کے دھبوں سے خراب ہو چکا تھا، وہ حیرت سے بولی

یہ کیا ہوا، حیات؟

حیات نے ایک لمبی سانس لی اور قدرے افسردگی سے بولی

یار، کیا بتاؤں… بس اتنا سمجھ لو کہ میں سفید سوٹ میں اتنی حسین لگ رہی تھی کہ آتے ہی کسی کی نظر لگ گئی، اور یہ سب ہو گیا!

اس کی دوست نے ہلکا سا قہقہہ لگایا
افف! ایک تو آپ کو نظر بہت جلدی لگتی ہے!
اس نے شوخی سے کہا۔

حیات نے سر جھٹکا
ہاں بھئی، آخر حیات اتنی حسین جو ہے!
وہ مصنوعی غرور سے بولی، جس پر دونوں ہنس پڑیں۔

اس کی دوست نے مسکرا کر اسے شرارتی نظروں سے دیکھا
اچھا، مس بیوٹی! اب یہ تو بتاؤ کہ جا کر اپنا ڈریس صاف کرو گی یا پورے فنکشن میں ایسے ہی گھومنے کا ارادہ ہے؟

حیات کو جیسے یاد آیا کہ اسے فوراً واش روم جانا چاہیے
اوہ ہاں!
وہ جلدی سے بولی اور تیز قدموں سے واش روم کی طرف بھاگی۔

حیات جیسے ہی واش روم کے اندر داخل ہوئی تو سامنے ایک کھلا سا ہال نما حصہ تھا۔ قدم رکھتے ہی سب سے پہلے نظر بیسنز پر پڑی جو لمبی قطار میں لگے ہوئے تھے۔ دیوار کے ساتھ بھی بیسن لگے تھے اور درمیان میں بھی ایک لائن میں کئی بیسن موجود تھے۔

ہال کے دائیں طرف ایک دروازہ تھا جس پر جینٹس لکھا تھا اور بائیں طرف دوسرا دروازہ جس پر لیڈیز لکھا ہوا تھا۔ دونوں دروازوں کے بیچ یہ بڑا سا ایریا تھا جہاں سب لوگ آ کر ہاتھ منہ دھوتے تھے۔

وہ ابھی یہ منظر دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک مانوس سا وجود اس کی نظر کے سامنے آ گیا۔ وہی شخص… جو کچھ دیر پہلے اس کے لباس کو خراب کرنے کا باعث بنا تھا۔ وہ اپنے برانڈڈ کوٹ پر لگے دھبے صاف کرنے میں مصروف تھا۔

حیات چند لمحے اسے دیکھتی رہی، پھر نرمی سے بولی
میں مدد کروں؟

اُس نے ایک لمحے کو رک کر اسے دیکھا۔ ذہن میں بس ایک ہی جملہ گونجا
یہ پھر سے آ گئی؟

اس نے گہری سانس لی، چہرے پر ہلکی سی ناگواری آئی، اور وہ خشک لہجے میں بولا
نو، تھینک یو۔

حیات نے آنکھیں گھما کر ناک چڑھائی
واٹ ایور!
اس کا لہجہ اب پہلے سے سخت تھا۔ اسے اس کا یوں اکھڑے انداز میں بات کرنا بالکل پسند نہیں آیا۔

پھر وہ خود کو نظر انداز کرتے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اپنے لباس کو صاف کرنے میں مصروف ہو گئی۔

حیات آئینے کے سامنے کھڑی، اپنا سوٹ صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر پانی اتنا دھیرے دھیرے آرہا تھا کہ اسے کوفت ہونے لگی۔ وہ بےچینی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگی، پھر نیچے جھک کر کچھ تلاش کرنے لگی۔

اس کے ساتھ کھڑا وہ شخص، جو اپنے کوٹ کو صاف کرنے میں مصروف تھا، اچانک بولا
یہ کیا کر رہی ہو؟
اس کی نظریں حیرت اور الجھن کا امتزاج تھیں۔

وال ڈھونڈ رہی ہوں!
حیات نے اعتماد سے کہا
یہاں کہیں پانی کا پریشر تیز کرنے کا وال ہوگا!

اوہ محترمہ، یہ آپ کا گھر نہیں ہے!
حیات نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا
پتہ ہے، لیکن دیکھنا، میں ڈھونڈ لوں گی!
اور اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر فتح کی مسکراہٹ نمودار ہوئی
مل گیا! میں نے کہا تھا ناں!

چھوڑو اسے! تمہیں پتہ بھی ہے کہ یہ واقعی پانی کا

وال ہے بھی یا نہیں؟
اس شخص نے سنجیدگی سے کہا

ہاں، مجھے پتہ ہے! بیسن کے ساتھ ہے تو پانی کا ہی ہوگا، اور کس چیز کا ہوگا؟
وہ آنکھیں گھماتے ہوئے بولی
اب چپ چاپ اپنا کوٹ صاف کریں، حیات دیکھ رہی ہے!

مگر جیسے ہی اس نے وول گھمایا-
اگلے ہی لمحے ایک زور دار دھماکے کی طرح، پانی کے پریشر نے اس پر حملہ کر دیا۔ تیز دھار کی صورت میں پانی اتنے زور سے آیا کہ چند ہی لمحوں میں حیات مکمل طور پر بھیگ چکی تھی!

آہہہہ! یہ کیا کر دیا لڑکی؟ کہا بھی تھا نہ چھیڑو اسے!
وہ شخص غصے سے چلایا۔

حیات، جو مکمل طور پر پانی میں نہا چکی تھی، بے یقینی سے اپنی حالت دیکھنے لگی۔ مگر مسئلہ صرف اس کا بھیگنا نہیں تھا- پانی کا پریشر اتنا شدید تھا کہ اب اسے بند بھی نہیں کیا جا رہا تھا

یہ تو بند کریں! یہ بند کیوں نہیں ہو رہا؟
حیات پریشانی میں وول کو واپس گھمانے کی کوشش کر رہی تھی، مگر کچھ بھی کارآمد ثابت نہ ہوا۔

ہٹو! میں دیکھتا ہوں!
اس شخص نے خود بھی زور آزمانا شروع کر دیا، مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ بھی کچھ نہیں کر پایا
یہ تو بند ہی نہیں ہو رہا!
وہ دانت پیس کر بولا۔

اب کیا کریں؟
حیات نے بے بسی سے کہا، پانی ابھی تک دیواروں سے ٹکرا کر واپس آرہا تھا، اور دونوں شرابور کھڑے تھے۔

منیجر کو بلانا پڑے گا! کہا بھی تھا میں نے نہیں چھیڑو اُسے

+++++++++++

چند منٹ بعد، منیجر اور ایک پلمبر وہاں پہنچے۔ پلمبر نے آتے ہی کچھ اوزار نکالے اور فوراً پانی کا وول بند کر دیا۔

منیجر نے گہری سانس لی اور بے یقینی سے بولا
سوری سر، یہ جو نل تھا، یہ ہمارے ٹینک کے مین وال سے جڑا ہوا تھا۔ یہ خراب ہوگیا تھا، تو میں نے عارضی طور پر اسے بند کروا دیا تھا۔ لیکن آپ نیچے جھک کر کیا تلاش کر رہے تھے کہ یہ وال ہاتھ میں آ گیا؟

یہ سن کر وہ شخص شرمندگی سے گڑبڑا گیا۔ یہ اس کی زندگی کے سب سے زیادہ شرمندہ کر دینے والے لمحات میں سے ایک تھا! وہ ملائیشیا کے ایک مشہور بزنس مین تھا، جسے لوگ عزت سے جانتے تھے۔ اور اب، وہ بھیگا ہوا کھڑا تھا، جبکہ باہر پورا فنکشن جاری تھا! اگر وہ باہر جاتا، تو ہر کوئی یہی پوچھتا کہ اسے کیا ہوا؟

منیجر بھی کیا سوچ رہا ہوگا اس کے بارے میں، کہ بیسن اوپر تھا اور یہ نیچے کیا کر رہے تھے۔۔۔

اس نے غصے سے حیات کی طرف دیکھا، جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہا ہو
کہا تھا نا، مت چھیڑو!

حیات فوراً بولی
یہ میں نے کیا ہے، انہوں نے نہیں؟ پانی اتنا آہستہ آرہا تھا، آپ کے بیسن والے نل سے! ہاتھ دھوتے دھوتے صبح ہو جاتی!

منیجر نے نرمی سے کہا
میڈم، اگر مسئلہ تھا تو ہمیں بتا دیتیں!

حیات نے ناک چڑھا کر جواب دیا
ابھی بتا رہی ہوں ناں! پانی بہت آہستہ آ رہا ہے، اسے ٹھیک کروائیں!

وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی، حیات۔ اور شرمندہ ہوجائے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا!
منیجر بھی پریشانی سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا، کہ یہ آخر کس مٹی کی بنی ہے۔۔۔

اسی دوران، وہ شخص جھنجھلا کر بولا
ایسے چھوڑیں، آپ باہر سے میرے ڈرائیور کو بلا دیں۔ میں ایسے باہر نہیں جا سکتا۔۔۔

مگر جب مینیجر نے کہا کہ ان کے پاس اس کے لیے ایک اضافی شرٹ موجود ہے، تو اس نے فوراً قبول کر لی۔

جب مینیجر چلا گیا، تو وہ شخص حیات کی طرف دیکھ کر بولا
تم اسی طرح بھیگی ہوئی باہر جاؤ گی؟

حیات نے کندھے اچکا کر بے نیازی سے کہا
ہاں تو اور نہیں تو کیا، سب کو بتاؤں گی کہ ان کے ہال کا نل خراب ہے!

وہ شخص بے اختیار بڑبڑایا
پاگل لڑکی!

حیات نے فوراً پلٹ کر کہا
اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟

وہ مسکرا کر بولا
جیسا بھی ہوں، کم از کم تمہاری طرح پاگل نہیں ہوں، اللّٰہ کا شُکر ہے!

حیات نے منہ بنایا اور شان سے بولی
جو بولتا ہے، وہی ہوتا ہے!

یہ کہتی وہ وہاں سے شان سے نکل گئی۔

وہ شخص دانت پیستے ہوئے دل ہی دل میں بڑبڑایا
بے تمیز لڑکی۔۔۔

+++++++++++++

حیات نے جیسے ہی واش روم کا دروازہ کھولا، سامنے اس کی دوست کھڑی تھی۔ ہاتھ میں بڑی سی چادر تھامے، وہ حیات کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہی ہنس پڑی۔

اوئے حیات! یہ کیا حال بنا لیا ہے؟ فنکشن میں آئی ہو یا سوئمنگ پول میں؟
دوست نے چادر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے شرارت سے کہا۔

جب اُس شخص نے اپنے دوست کو کال کی تھی کہ منیجر کو بھیج دو۔۔۔ اُسی وقت حیات نے بھی اپنے دوست کو میسیج کردیا تھا اور وہ چادر لیے اُس کے سامنے کھڑی تھی۔

حیات نے ناک سکوڑ کر چادر لپیٹی اور فوراً بولی
ہاں ہاں، مذاق اڑا لو! ایک تو حیات کچھ بھی کرتی ہے اُس کا ہمیشہ الٹا ہی ہوجاتا ہے۔۔

دوست نے قہقہہ لگایا
تو تُم کچھ کرتی ہی کیوں ہو۔۔؟

حیات نے آنکھیں گھماتے ہوئے ہاتھ جھٹکا
بس کر یار، میری عزت بچا! ورنہ پورا ہال دیکھ رہا ہوگا کہ حیات حسین کس حال میں باہر نکل رہی ہے۔

دوست نے چادر اس کے گرد اچھی طرح لپیٹ دی اور دھیما سا کہا
تم فکر نہ کرو… اب سب کی نظریں تمہارے بھیگے کپڑوں پر نہیں بلکہ تمہارے کانفیڈنس پر ہوں گی۔

حیات پھر ہلکا سا مسکرا کر بولی
ہاں، حیات ہے نا! سب سے الگ اور یونیک انٹری کرتی ہے!

دونوں نے قہقہہ لگایا اور ساتھ ساتھ فنکشن ہال کی طرف بڑھ گئیں۔

+++++++++++++

ملائیشیا کا دل، کوالا لمپور-ایک ایسا شہر جو اپنی دلکش عمارتوں، جدید طرزِ زندگی اور قدرتی حسن کے لیے مشہور ہے۔ اس لمحے وہاں سورج کی کرنیں آسمان پر آہستہ آہستہ پھیل رہی تھیں، اور ہوا میں صبح کی تازگی تھی۔ اس وقت صبح کے آٹھ بج رہے تھے، اور شہر کی سڑکوں پر زندگی انگڑائی لے رہی تھی۔

مگر شہر کے ایک پرسکون علاقے میں، بلند و بالا درختوں سے گھری ایک وسیع و عریض حویلی خاموشی میں ڈوبی تھی۔ یہ حویلی کسی مغلیہ دور کی یاد دلاتی تھی- اونچے ستون، کشادہ برآمدے، اور نفیس لکڑی کے دروازے، جن پر نقش و نگار کیے گئے تھے۔ باغ میں غیر ملکی پھول کھلے ہوئے تھے، اور ایک بڑا فوارہ روشنی میں چمک رہا تھا۔

حویلی کے اندر، ایک بڑے کمرے میں الارم کی آواز گونج رہی تھی۔ نرم و ملائم بستر پر کمبل میں لپٹا ایک نوجوان نے ہاتھ باہر نکال کر الارم بند کیا۔ چند لمحے بعد وہ کمبل ہٹائے، بستر پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کا ہاتھ تھوڑی دیر کے لیے پیشانی پر گیا جیسے نیند کی آخری جھجھک کو دور کر رہا ہو۔

کمرہ انتہائی خوبصورت تھا- سفید اور سنہری رنگوں کی تھیم میں ڈوبا ہوا، جہاں چھت پر لٹکتے فانوس کی روشنی مدھم مگر دلکش تھی۔ ایک طرف قدِ آدم شیشے کی کھڑکیاں تھیں، جن سے باہر کا منظر صاف نظر آ رہا تھا۔ پرانی طرز کا مگر جدید سہولتوں سے آراستہ فرنیچر، مخملی پردے اور مہنگے قالین اس کمرے کو کسی شاہی محل کا حصہ بنا رہے تھے۔

نوجوان بستر سے اٹھا اور آہستگی سے اپنے بال سنوارتا ہوا واش روم کی جانب بڑھا۔ کچھ ہی دیر بعد، وہ باہر آیا تو ایک مکمل جینٹل مین لگ رہا تھا۔ اُس نے سیاہ رنگ کا نفیس کوٹ اور پینٹ زیب تن کر رکھا تھا، جس پر اس کی پرکشش شخصیت مزید نکھر کر آ رہی تھی۔ وہ شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی کلائی پر گھڑی باندھا، پھر بالوں کو ایک مرتبہ اور سنوارا اور آخر میں خوشبو لگا کر تسلی سے خود کو آئینے میں دیکھا۔۔۔ وہ مکمل تیار ہوچکا تھا۔

اب وہ اپنے کمرے سے باہر نکل کر نیچے موجود وسیع و عریض ڈائننگ ہال میں آ گیا، جہاں ناشتے کی میز پر عمدہ کھانے سجائے جا چکے تھے۔ ماربل کے ستونوں سے مزین اس ہال میں ہر چیز قیمتی اور شاہانہ تھی۔ لکڑی کی قدیم طرز کی کرسیاں، دیواروں پر لگے فن پارے، اور درمیانی حصے میں رکھی شفاف شیشے کی میز اس بات کی گواہ تھی کہ یہ گھر کسی عام شخص کا نہیں تھا- یہ ایک رئیس خاندان کا ٹھکانہ تھا، جہاں وقار اور روایات دونوں کی جھلک نمایاں تھی۔

السلام علیکم دادا، دادی۔
امن نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میز پر پہلے سے موجود مسٹر اور مسز جنید، جو اس کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، اسے دیکھ کر خوشی سے مسکرائے۔

یہ حویلی، جہاں وہ رہتا تھا، اُس کی دادی سارہ جنید کی ملکیت تھی، جو ہمیشہ سے امن کے قریب رہی تھیں۔ جبکہ سلمہ جنید، جو اس کی دوسری دادی تھیں، اپنے بچوں کے ساتھ ایک علیحدہ گھر میں رہتی تھیں۔

امن جنید خان… نام کی طرح مزاج میں بھی سکون اور ٹھہراؤ تھا۔ اس کا سراپا غیر معمولی نہیں تھا، مگر جب کوئی اسے ایک بار دیکھ لیتا، تو نگاہیں وہیں ٹھہر جاتیں۔ ایک کشش تھی اس میں، ایک خاص دلکشی، جو عام چہروں میں کم ہی ملتی ہے۔ اس کی رنگت سوالی تھی، گہرے سیاہ آنکھیں، جو بولتی محسوس ہوتیں، اور لبوں پر ہمیشہ ہلکی سی مسکراہٹ… ایسی مسکراہٹ جو دیکھنے والے کے دل میں جگہ بنا لیتی تھی۔

وہ روایتی معنوں میں “خوبصورت” نہیں تھا، مگر پھر بھی جو بھی اس سے ملتا، وہ اس کے سحر میں گرفتار ہو جاتا۔ امن کے بات کرنے کا انداز ایسا تھا جیسے پھول جھڑ رہے ہوں- نرمی، وقار، اور عزت کا حسین امتزاج۔ اس کی باتوں میں سچائی اور لہجے میں ایسا خلوص تھا جو کسی کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا۔

امن جنید خان صرف ایک کامیاب بزنس مین ہی نہیں، بلکہ ایک بہترین انسان بھی تھا۔ وہ اپنی ایمانداری اور اخلاص کے لیے جانا جاتا تھا۔ دوستوں کے لیے ایک مضبوط سہارا، بہنوں کے لیے ایک مہربان بھائی، اور والدین کے لیے ایسا بیٹا جس پر ہر ماں باپ فخر کرے۔ وہ اپنے ملازمین کے لیے ایک مثالی باس تھا، جو ماتحتوں کو محض کارکن نہیں، بلکہ اپنی فیملی سمجھتا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ صرف خواتین ہی نہیں، بلکہ مرد بھی اس کے دیوانے تھے۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ ایک بار امن جنید خان سے ملاقات ہو جائے، اس سے بات کرنے کا موقع ملے۔ کوئی اس کی عاجزی کا قائل تھا، تو کوئی اس کی معاملہ فہمی اور ذہانت سے متاثر۔

یہ آدمی آخر اتنا خاص کیوں ہے؟
یہ سوال ہر کوئی خود سے پوچھتا، مگر امن کے قریب آنے کے بعد جواب خود ہی مل جاتا۔ وہ وہی جیتا تھا جو دلوں کو جیتنا جانتا تھا۔ وہ چہرے کی خوبصورتی سے زیادہ کردار کی خوبصورتی پر یقین رکھتا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ جہاں بھی جاتا، اپنی ایک خاص پہچان چھوڑ جاتا۔

امن کی سب سے بڑی خوبی؟ اس کا اخلاق اور ایمانداری۔
یہی وہ دو چیزیں تھیں جنہوں نے اسے سب کی محبتوں کا مرکز بنا دیا تھا۔ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا بچہ، ہر کوئی اس کا دیوانہ نظر آتا تھا۔

آئے تو اٹھ گیا، ہم کب سے تیرا انتظار کر رہے ہیں۔
جنید صاحب نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔

دادا! آپ کو پتا تو ہے کہ میں ہمیشہ 8:30 پر ہی اٹھتا ہوں، نہ ایک منٹ پہلے، نہ بعد میں۔
امن نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔

وہ واقعی وقت کا بہت زیادہ پابند تھا۔ اس کی زندگی میں ہر چیز کا ایک وقت مقرر تھا، اور وہ کبھی اس میں ردو بدل نہیں کرتا تھا۔ کیوں کہ وہ وقت کی بہت قدر کرتا تھا۔

ہاں ہاں، تو اور تیرے فضول رولز کو کون نہیں جانتا! پتا نہیں کیا بنے گا تیرا۔
جنید صاحب نے مصنوعی غصے سے کہا۔

دادا! اگر کام کی بات ہے تو کریں، ورنہ میرا آفس کا وقت ہو جائے گا، اور پھر میں نہیں رکوں گا۔
امن نے سنجیدگی سے کہا۔

“ہاں ہاں، سن! آج تُو کب تک فارغ ہو جائے گا؟”

کیوں؟ کوئی خاص بات؟ امن نے مشکوک انداز میں پوچھا۔

ہاں بھئی، پہلے یہ تو بتا کب تک فارغ ہوگا؟

پتہ نہیں، آفس جا کر دیکھنا پڑے گا کہ آج کا شیڈول کیا ہے۔

جنید صاحب نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا
اچھا، تو کھانے پر تو آئے گا نا؟

ہاں، دادا! وہ میری روٹین میں شامل ہے، اور میں اپنی روٹین نہیں بدلتا۔ امن نے جیسے اعلان کیا۔

آہاہا! تو پھر مت آنا جنید صاحب نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

کیا مطلب؟ امن نے حیرانی سے جنید صاحب کی طرف دیکھا۔

بیٹا، ہم تیرے لیے ایک لڑکی پسند کر چکے ہیں، بہت ہی پیاری ہے، ایک دم چاند کی طرح۔
جنید صاحب نے بڑے مزے سے کہا،
تو آج کھانے پر اس سے ریسٹورنٹ میں مل لینا۔ تیرے کام کا حرج بھی نہیں ہوگا۔

یہ جملہ سنتے ہی امن کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ پچھلے ایک سال سے شادی کے موضوع سے بچ رہا تھا۔ جب بھی بات ہوتی، وہ کسی نہ کسی بہانے ٹال دیتا تھا۔ مگر آج… آج جنید صاحب نے چالاکی دکھا دی تھی!

امن نے گہرا سانس لیا، پھر خود پر قابو پاتے ہوئے کہا
اچھا، چلا جاؤں گا

ویسے بھی اس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ دادا سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ ہارنے والے نہیں۔

+++++++++++++

کوالالمپور، ملائیشیا
شہر کی بلند و بالا عمارتوں کے درمیان ایک جدید طرز کا آفس، جہاں ہر چیز نہایت منظم اور پروفیشنل انداز میں چل رہی تھی۔ خوبصورت اور کشادہ کیبن میں ایک نوجوان، نفیس لباس میں ملبوس، گہری سوچوں میں گم بیٹھا تھا۔ اس کی نظریں میز پر رکھی فائلوں پر تھیں، مگر ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔

یہ امن جنید خان تھا، ایک کامیاب بزنس مین، جو اصولوں کا سختی سے پابند تھا، مگر آج وہ اپنے ہی خیالات کی زنجیر میں جکڑا ہوا محسوس کر رہا تھا۔

جنید صاحب نے آج ایک نئی چال چلی تھی۔ پچھلے ایک سال سے وہ امن کے لیے لڑکیاں دیکھ رہے تھے، مگر ہر بار امن کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بات ٹال دیتا تھا۔ لیکن اس بار معاملہ مختلف تھا۔ جنید صاحب نے اس کی کمزوری پکڑ لی تھی- اس کا وقت! وہ جانتا تھا کہ کام کے دوران اسے کسی چیز سے روکا نہیں جا سکتا، اسی لیے انہوں نے دوپہر کے کھانے کے وقت اس کی ملاقات طے کروا دی تھی۔ اب امن کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔

اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک نوجوان اندر آیا۔ وہ سرمئی کوٹ اور پینٹ میں ملبوس، ایک باوقار مگر مغرور شخصیت کا مالک تھا۔ ہاتھ میں چند فائلیں تھامے وہ سیدھا امن کی میز کی طرف بڑھا اور بے تکلفی سے فائلیں سامنے رکھ دیں۔

یہ زاویار جنید خان تھا- امن جنید خان کا کزن، اس کا اسسٹنٹ، اس کا بھائی، اور اس کا سب سے اچھا دوست۔ اگرچہ وہ امن کا اسسٹنٹ تھا، مگر اس کے مزاج میں ایک روایتی باس جیسا طنطنہ اور رعب تھا۔ آفیس میں کسی کو اس کے سامنے بولنے کی ہمت نہ تھی۔ اگر کوئی گستاخی کر بیٹھتا تو زاویار اسے نوکری سے نکالنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتا۔ وہ سخت گیر، مغرور اور کبھی کبھار بدتمیز لگتا تھا، مگر حقیقت میں اس کا دل سونے جیسا تھا۔ وہ امن سے بے پناہ محبت کرتا تھا، اور اسی محبت کے سبب وہ اپنی الگ کمپنی بنانے کے بجائے امن کے ساتھ کام کر رہا تھا۔

یہ لو بھائی، فائلز چیک کر لو، میں نے دیکھ لی ہیں، لیکن ایک بار تم بھی دیکھ لو۔

امن اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔ اُس نے زاویار کی بات سنی ہی نہیں۔

اوہ ہیلو مسٹر! زاویار نے انگلیاں چٹخائیں، جس سے امن کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔

ہاں؟ کیا کہا تم نے؟ امن نے چونک کر پوچھا۔

کیا کہا؟ بہرے ہو گئے ہو کیا؟ میں کہہ رہا ہوں، یہ فائلز دیکھ لو۔ میں نے تو چیک کر لی ہیں، مگر ایک بار تم بھی دیکھ لو زاویار نے مصنوعی غصے سے کہا۔

اچھا، رکھ دو، دیکھ لوں گا۔
امن نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

زاویار نے آنکھیں گھمائیں۔
لگتا ہے دادا نے پھر کسی لڑکی کے چکر میں پھنسا دیا ہے

امن نے گہرا سانس لیا۔
ہاں یار، اس بار تو دادا نے واقعی زبردست چال چلی ہے۔

زاویار ہنس پڑا۔
تو بھائی، مل لو نا ایک دفعہ۔ کیا پتا تمہاری پسند کی ہو؟ اور ویسے بھی، شادی تو کرنی ہی ہے۔ ورنہ دادا تمہیں چین سے جینے نہیں دیں گے۔ اگر آج تم منع کر دو گے، تو کل کسی اور لڑکی کو لے آئیں گے۔

امن نے سر جھکا کر سوچا، پھر سر ہلاتے ہوئے بولا، ہاں، تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔

زاویار نے فوراً بات پکڑ لی۔
ہاں، میں ہمیشہ صحیح کہتا ہوں! مگر مجال ہے جو تم میری بات سن لو! پچھلے ایک سال سے میں تمہیں یہی سمجھا رہا ہوں، اور تم ہر بار ‘ہاں، ٹھیک کہہ رہے ہو’ کہہ کر میری بات کو ہوا میں اڑا دیتے ہو

امن مسکرا دیا۔
اچھا، اب میرا ابو بننے کی کوشش مت کرو۔

زاویار نے ہنکارا بھرا۔
جو بھی ہو! یہ فائل چیک کر لینا، باقی میری بلا سے، جہنم میں جاؤ
وہ غصے میں بڑبڑاتا ہوا کیبن سے نکل گیا۔

امن نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔
یہ بھی نا! ایسا لگتا ہے میں نہیں، یہ میرا باس ہے

دوپہر کا وقت
دن کے دو بج چکے تھے، اور آفس میں لنچ بریک کا وقت ہو چکا تھا۔ عام طور پر امن اور زاویار دونوں کھانے کے لیے گھر جاتے تھے، مگر آج کا دن مختلف تھا۔

جنید صاحب نے اسے کھانے کے وقت لڑکی سے ملنے کا کہا تھا، اور اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا۔ وہ گہرا سانس لیتے ہوئے کرسی سے اٹھا، جنید صاحب سے ریسٹورنٹ کا پتہ معلوم کیا، اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا۔

چلو دیکھتے ہیں، اس بار دادا نے کون سی مصیبت میرے گلے ڈالنے کی کوشش کی ہے
وہ خود سے بڑبڑایا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔

++++++++++

جاری ہے۔۔۔

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

3 Comments

  1. One of the best novel 🥰
    Great novel great line but Hayat is my fav what your wrote 👍

  2. Antal hayat novel always fvrt all novel are okay but antal hayat mind blowing or writer ne jesa kaha parh kar apke chehre par smile aye gi it’s true smile agayi chehre par 🥺😭

  3. Best novel

Leave a Reply to Zoha Lodhi Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *