antal hyat

Antal Hayat Episode 12 written by siddiqui

انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱۲

کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں
میری سنیں ____ تو دل کا کہا مان جائیے

حیات گاڑی میں واپس آ کر بیٹھی تو اُس کے ہاتھ میں کافی کے علاوہ جوس کا ایک گلاس اور کیک کا ایک چھوٹا سا ڈبہ تھا۔ حیات کے بیٹھتے ہی گاڑی ایک بار پھر چل پڑی تھی،

حیات نے کافی امن کی طرف آگے بڑھاتے ہوئے کہا
یہ لیجیے، آپ کی کافی۔
چہرے پر مسکراہٹ تھی

امن نے کافی لیتے ہوئے، حیرت سے کہا
اور یہ سب کچھ؟ میں نے تو صرف کافی کا کہا تھا…

حیات نے بالوں کی لٹ پیچھے کرتے ہوئے کہا
پتا ہے! یہ جوس ہے ڈرائیور انکل کے لیے…
وہ جوس آگے بڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہا
اور یہ چاکلیٹ لاوا کیک میرا ہے۔

امن نے اب قدرے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا
یہ کیک کھانے کا وقت ہے؟

حیات نے بے نیازی سے کہا
کیک کھانے کا بھی کوئی ٹائم ہوتا ہے کیا؟ جب دل کرے تو کھا لو، بس۔۔۔

امن نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا
اِسی لیے تُمہارا یہ حال ہے۔۔۔

حیات نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا
کیا مطلب ہے۔۔۔؟؟

ہر چیز ایک وقت پر اچھی لگتی ہے، اُس نے آہستہ کہا، دل چاہے کچھ بھی کہیے سنی دماغ کی چاہیے۔۔۔

حیات نے ناگواری سے کہا
ہاں اور دماغ کی سن سن کر آپ کی طرح پاگل ہوجاؤ۔۔۔

امن نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا،
کیا میں تمہیں پاگل لگتا ہوں ؟؟

حیات نے منہ اَیٹھ کر کہا
ہاں اور نہیں تو کیا۔۔۔

امن نے مصنوعی خفگی سے کہا،
سیریسلی ؟؟

حیات نے کندھے اُچکائے،
اپنی کافی پر دھیان دیں، وہ پیئیں… اور مجھے بھی سکون سے کیک کھانے دیں۔۔۔

پاگل ہو تم۔ امن نے مسکراتے ہوئے کہا

حیات نے مسکرا کر کہا
شکریہ۔۔۔
پھر امن کا کریڈٹ کارڈ آگے بڑھاتے ہوئے کہا
یہ لیجیے، اپنا کارڈ واپس۔

نہیں، ابھی اپنے پاس ہی رکھو، وہاں جا کے بل بھی تُم ہی دو گی۔ امن نے سنجیدگی سے کہا

حیات نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
اوکے…
پھر کیک کھانے لگی۔۔

امن نے کافی کا ایک گھونٹ لیا، پھر سنجیدہ لہجے میں بولا۔
اور ہاں سنو…

حیات نے کیک کا پہلا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا
اب کیا ہے…؟

وہاں جا کر کوئی فضول بات نہیں کرنی۔ اور ہاں، تھوڑی تھوڑی دیر بعد میرے کان میں کچھ نہ کچھ کہتی رہنا۔

حیات نے حیرت سے کہا
وہ کیوں؟

ایک تو اُسے ہر کام اچھے سے سسمجھنا پڑتا تھا امن کو۔۔۔ تب جا کے وہ کام ٹھیک کرتی تھی، ورنہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ کر دیتی تھی۔۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
کیونکہ ایک اسسٹنٹ کا کام ہوتا ہے اپنے باس کو مشورہ دینا کہ ڈیل صحیح ہے یا نہیں… حالانکہ تمہیں کچھ سمجھ تو آنی نہیں، لیکن بس کچھ بھی بولتی رہنا۔

ہاں جی! یہی سب کرنے کے لیے تو ساتھ لے کر جا رہے ہیں نہ مجھے، اس سے بہتر تھا خود ہی چلے جاتے۔

امن نے نظریں سڑک پر جمائے، بےپروا انداز میں کہا
جتنا کہا ہے، اتنا ہی کرنا۔۔۔

حیات نے سانس کھینچ کر، چڑ کر کہا
ہاں بھئییییییی… ٹھیک ہے! بس اب پلیز مجھے سکون سے کیک کھانے دیں۔

امن نے ایک نظر اُسے دیکھا، پھر چپ چاپ باہر دیکھنے لگا۔ لیکن دل میں کہیں کوئی خاموش مسکراہٹ دھیرے دھیرے جگہ بنا چکی تھی… جیسے حیات کا موجود ہونا، فضول باتیں کرنا اور چڑ چڑ کر کیک کھانا – سب کچھ بے حد قیمتی لگ رہا ہو…

++++++++++++++

گاڑی کی کھڑکیوں سے دھوپ چھن چھن کر اندر آ رہی تھی جب امن اور حیات کیفے کے باہر پہنچے۔ دروازے کے قریب ہی مسٹر حاکم عبداللہ کی اسسٹنٹ نے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا۔

حیات نے ہلکی سی سانس لی اور فائلز کو ٹھیک کرتے ہوئے آہستہ آہستہ امن کے ساتھ میز کی طرف بڑھ گئی۔

امن اور حاکم نے ہاتھ ملائے ، رسمی مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، اور پھر دونوں اپنی اپنی کرسی پر براجمان ہو گئے۔ جبکہ حیات اور حاکم کی اسسٹنٹ رسمی طور پر دونوں کے پیچھے کھڑی ہوگئی

حاکم عبداللہ نے براہِ راست امن سے کہا
تو کیا آپ ہماری کمپنی کے ساتھ کولیب کرنا چاہیں گے؟

حیات نے امن کے کان میں دبے لفظوں میں کہا
نہیں نہیں! ان لوگوں کے ساتھ کولیب کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔

امن نے حاکم کی طرف متوجہ ہو کر کہا
آپ کی کمپنی میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کولیب کریں؟ اور ہمیں اس میں فائدہ کیا ہوگا؟

حاکم اپنی اسسٹنٹ کو ہلکے سے اشارہ کیا جس نے فوراً لیپ ٹاپ کھول کر امن کے سامنے کردیا۔۔۔

لیکن حیات اس لیپ ٹاپ کو فوراً اپنی طرف گھما لیا، دو منٹ تک بغور دیکھتی رہی ، پھر امن کے کان میں بولی
یہ تو شکل سے ہی فراڈیہ لگ رہے ہیں۔ مانیں میری بات، ان سے ڈیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔

امن نے لیپ ٹاپ واپس اپنی طرف گھماتے ہوئے کہا
ہمم… مجھے خود دیکھنے دو۔

حاکم کی اسسٹنٹ آہستگی سے حاکم کے قریب جھک کر کہا
سر، لگتا ہے یہ لڑکی بہت تیز ہے۔

حاکم نے ہلکی آواز میں  کہا
ہاں، آخر امن جنید خان کی اسسٹنٹ ہے، تیز تو ہوگی ہی۔ ڈریسنگ سے نہیں لگ رہا تمہیں؟

حیات نے پھر سے امن کے کان میں سرگوشی کی
کیا کر رہے ہیں آپ؟ جلدی فیصلہ کریں۔ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، فضول لوگ ہیں، میں تو کہہ رہی ہوں، ڈیل چھوڑ دیں۔

امن نے غصے سے، آہستہ کہا
چپ چاپ کھڑی رہو۔۔۔

حیات نے بےچینی سے کہا
میں نہیں کھڑی رہ سکتی، میرے پاؤں میں درد ہو رہا ہے۔

تو بیٹھ جاؤ۔

اوکے
حیات فوراً پاس والی خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔ یہ منظر دیکھ حاکم اور اس کی اسسٹنٹ کے لیے حیرت کا جھٹکا تھا۔ کبھی کسی میٹنگ میں کسی اسسٹنٹ کو ایسے بیٹھتے نہیں دیکھا تھا۔

امن نے ناگواری سے حیات کو دیکھا، مگر لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی— جیسے کہہ رہا ہو، یہ کبھی نہیں سدھرے گی۔

حاکم کی اسسٹنٹ نے حاکم کے کان میں سرگوشی کی
لگتا ہے امن جنید خان اپنے اسٹاف کا بہت خیال رکھتے ہیں۔

امن نے خندہ پیشانی سے کہا
پہلے کچھ آرڈر کر لیتے ہیں؟

ہمم، ٹھیک ہے۔
حاکم کی اسسٹنٹ نے حاکم کے لیے کافی آرڈر کیا۔۔ حیات سے پوچھی تو اُس نے فوراََ کہہ دیا۔۔۔
بنانا شیک ۔

++++++++++

میٹنگ ختم ہوچکی تھی اور حاکم اور اس کی اسسٹنٹ کیفے سے جا چکے تھے ۔۔

حیات، جا کے بل ادا کر دو۔

حیات نے حیرت سے کہا
ہین؟ وہ لوگ بھی تو کافی پی کے گئے ہیں، ان سے آدھے پیسے لینے چاہیے تھے!

جو میٹنگ سیٹ کرواتا ہے، وہی بل ادا کرتا ہے۔ جاؤ، پیمنٹ کر آو۔

اچھا، جاتی ہوں…

حیات بل ادا کر کے واپس آئی کہ سامنے سے امن آتے نظر آیا۔۔۔
چلیں؟

ہاں، چلیں۔ ویسے میں آپ کو بتا رہی ہوں، ان لوگوں سے ڈیل کر کے آپ بہت نقصان اٹھائیں گے۔۔۔

امن نے بغیر حیرت کے کہا
کیوں؟

حیات نے صاف الفاظ میں کہا
کیونکہ ان کے چہرے دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ ایک نمبر کے دو نمبر لوگ ہیں۔

امن نے مسکرا کر کہا
ذرا اپنے الفاظ پر غور کرو۔

کیا مطلب؟

امن نے سنجیدگی سے کہا
پہلے تم فیصلہ تو کر لو، ایک نمبر کے لوگ ہیں یا دو نمبر کے؟

حیات نے تنگ آ کر کہا
اوہ خداااا! آپ بھی نا… ایک نمبر کے دماغ کے فارغ انسان ہیں۔ میں نے کہا تھا، ایک نمبر کے دو نمبر لوگ ہیں، مطلب دو نمبر کام کرتے ہیں وہ لوگ اور شَکل سے ہی لگ رہا تھا۔۔۔

امن نے آہستہ سے مسکرا کر کہا
اچھا، تو میری شکل دیکھ کر کیا لگ رہا ہے؟

حیات نے بغیر ہچکچائے، فوراً سے کہا
آپ کی شکل دیکھ کر لگتا ہے کہ اچھے، معصوم اور شریف قِسم کے انسان ہوں گے…آپ۔۔
وہ ایک لمحے کو رُکی۔ امن کے چہرے پر فخر سا
آ چکا تھا۔
لیکن حیات کے ہونٹوں پر اب ایک شرارتی مسکراہٹ ابھری
لیکن اگلے ہی پل آپ کی حرکتیں دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ سے بڑا کوئی میسنا انسان ہو ہی نہیں سکتا اس دنیا میں۔۔۔

امن نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا پھر وہ تھوڑا سا آگے جھکا، اُس کی آنکھوں میں جھکا
بس ٹھیک ہے… تمہارے ایکسپرينس فائل میں لکھ دونگا کہ محترمہ حیات نے اپنے باس کو میسنا کہتی ہے۔۔۔

حیات نے چونکتے ہوئے کہا
میں نے ایسا کب کہا؟

امن نے آنکھیں سکیڑ کر، جھوٹی حیرت سے کہا
ابھی…ابھی چند سیکنڈ پہلے۔۔۔

حیات نے چہرہ پھیر کر ہوئے کہا
کوئی نہیں آپکو زیادہ سنائی دے رہا ہے۔۔۔
وہ کہتی تیزی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔

امن کے چہرا پر ایک دم سے مسکراہٹ آگئیں۔۔۔۔وہ بھی مسکراتا ہُوا کار میں بیٹھ گیا۔۔۔

++++++++++++

اگلی صبح آفس میں ایک عجیب سی خاموشی تھی۔ باہر ہلکی ہلکی دھوپ چھن کر کھڑکیوں سے اندر آ رہی تھی۔ امن کمرے میں داخل ہوا تو چہرہ معمول سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ آنکھوں میں تھکن اور ماتھے پر فکر کی لکیریں نمایاں تھیں۔

امن نے تیزی سے حیات کے پاس آ کر کہا
حیات، مجھے ایک ضروری کام آ گیا ہے، مُجھے فوراً نکلنا پڑے گا۔

حیات نے بےنیازی سے کہا
تو؟
اُس کا لہجہ اتنا بازاری اور بے پرواہ تھا کہ جیسے یہ کسی گلی کی لڑائی ہو، نہ کہ آفس کی گفتگو

امن نے گہرا سانس لیا، جیسے خود کو تحمل پر مجبور کر رہا ہو۔
آفس میں آج زاویار بھی نہیں ہے… اور نتاشا بھی نہیں، دونوں ایک ساتھ میٹنگ پر گئے ہیں۔ اور میں اب اُنہیں بلا نہیں سکتا۔

حیات نے بھی لاتعلقی سے کہا
تو اس سب سے میرا کیا لینا دینا؟

میں آفیس میں نہیں ہوں گا، اور نہ ہی کوئی سینئر ہوگا، تو تم آفس کا خیال رکھنا۔۔۔

حیات نے ناگواری سے کہا
آپ کا آفس کوئی چھوٹا بچہ ہے جو میں خیال رکھوں…

امن نے حیات گھورتے کہا
حیات۔۔۔

اچھا اچھا، بولیے، سن رہی ہوں…

دیکھو، میں آفیس میں نہیں ہوں گا، اور نہ ہی زاویار۔ تو کوئی آئے تو کسی کو یہ مت کہنا کہ میں آفس میں نہیں ہوں۔ بس اتنا کہنا کہ ‘باس میٹنگ میں ہیں’ یا ‘بزی ہیں’، کچھ بہانہ کر دینا۔ اور ہاں… اندر جو ورکرز کام کر رہے ہیں، اُن کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ میں نہیں ہوں۔ بس اتنا سا کام ہے کرلو گی نہ۔۔۔

ہاں ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔۔

امن نے پھر تیزی سے اپنا کوٹ اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے پھر سے کہا
دیکھو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ دروازہ کھول کر غائب ہو گیا۔

جیسے ہی دروازہ بند ہوا، حیات کی آنکھوں میں شرارت کی چمک آ گئی۔ وہ ایک زوردار انگڑائی لے کر بولی
پتہ نہیں کون سا ‘ضروری کام’ ہے، ہنہ! خیر… مجھے کیا۔ اب پورا آفس میرا ہے، اور یہ کیبن… یہ کرسی…

وہ کسی فاتح سپاہی کی طرح آگے بڑھی اور امن کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ جیسے ہی اُس نے کرسی پر خود کو گرایا، اُس کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

آج کے دن کو میں کہوں گی… ‘یومِ بادشاہت’… کیونکہ آج سے اس آفس میں حکومت حیات سلیمان کی ہے۔۔۔۔

پھر وہ امن کی نقل اتارنے لگی –
حیااااات، کافی لاؤ …
حیااااات, فائل لاؤ …
حیااااات, یہ فائل دے اؤ …
پاگل لڑکی۔۔۔ کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہوتا تُم سے۔۔۔
حیاااات، سکون سے ایک جگہ بیٹھ جاؤ۔۔۔

اب میں تو چلی سونے۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ کرسی کو ہلکے ہلکے گھماتے ہوئے میز پر ٹانگیں رکھ کے بیٹھ گئی —
نہیں، لیٹ گئی۔

++++++++++++++

دوپہر کی دھیمی روشنی میں، جیسے ہی گھڑی نے بارہ بجائے، آفیس کے باہر اچانک ایک کار آکر روکی۔۔ سیاہ رنگ کی، چمکتی ہوئی، نفاست سے آراستہ وہ کار اپنے اندر نہ صرف دولت بلکہ وقار اور اختیار کا ایک مکمل مظہر لگ رہی تھی۔ مگر اصل حیرت تو تب ہوئی جب اس کے پیچھے دو اور گاڑیاں آ کر رکیں-وہ بھی ڈبل ڈور، اندھیرے شیشوں والی، جن میں سے دو محافظ نکلے۔

پہلی کار کا دروازہ کھلا، اور وہ نکلا۔

نہیں، وہ “چلا آیا” کہنا توہین ہوگی۔ وہ تو جیسے فضا میں موجود خلا کو چیرتا ہوا باہر آیا تھا۔ وہ مرد، جو اپنی ہی کار سے زیادہ دلکش، زیادہ جاذبِ نظر اور زیادہ پر اثر دکھائی دے رہا تھا۔لمبہ، قدآور، وجیہہ چہرہ، کالی عینک، اور سلیقے سے کٹا ہوا داڑھی کا اسٹائل۔ مہنگے تھری پیس سوٹ میں، ہاتھ میں سادہ مگر قیمتی گھڑی۔

وہ شخص اتنا پُروقار تھا کہ جیسے اُس کی گاڑی بھی اُس کے سامنے معمولی لگ رہی تھی۔ اس کی موجودگی ایسی تھی جیسے ہواؤں نے اپنا رخ بدل لیا ہو، جیسے فضاؤں پر اس کا اختیار ہو۔

محافظ بھی فوراً ساتھ اترے، مگر اُس نے ایک خفیف سا اشارہ کیا-اور وہیں رک گئے۔ شاید انہیں بھی معلوم تھا کہ اس شخص کو کسی محافظ کی ضرورت نہیں۔۔۔

وہ خود آگے بڑھا… لمبے قدم اور ایک ایسا رُعب جس نے ریسپشن ایریا کی فضا کو یخ بستہ کر دیا۔

کیسا رُعب تھا اُس کی چال میں! کیسی خاموش دھمکی تھی اُس کی موجودگی میں!

وہ تیزی سے اندر کی طرف بڑھ رہا تھا زارا یہ دیکھ جلدی سے اُس کے سامنے آکھڑی ہوئی
سر کس سے ملنا ہے آپ کو؟ اس نے خود کو بمشکل سنبھالتے ہوئے پوچھا۔

جس کا آفس ہے، اُس سے ملنا ہے مجھے۔
آواز… جیسے گرجتا بادل، جیسے رُکتی نبض۔
زارا کی زبان جیسے حلق میں اٹک گئی۔ وہ بولنا تو چاہتی تھی، لیکن الفاظ اُس کی آواز کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔

مگر پھر خود کو سنبھال کر وہ کہنے لگی
سر… سر وہ… باس ابھی میٹنگ میں ہیں… آپ پلیز تھوڑا ویٹ کر لیں۔

اُس نے سیاہ چشمہ اتارا، اور ہلکی سی گردن گھما کر ایسی نگاہ ڈالی کہ زارا کا جملہ بیچ میں ہی ختم ہو گیا۔

میں؟ ویٹ کروں؟ دماغ ٹھیک ہے تمھارا؟ ہٹو میرے راستے سے۔۔
یہ کہہ کر وہ سیدھا اندر بڑھا، جیسے ہر دیوار، ہر دروازہ اُس کے راستے سے خود ہٹ رہا ہو۔

مایا گھبرا کر فون لگایا اور تیزی سے حیات کو کال کیا۔

مایا نے جلدی سے کہا
مس حیات! فوراً باہر آئیں! کوئی بندہ آیا ہے، اتنا غصے میں ہے کہ کسی کی سن ہی نہیں رہا۔ نہ نام بتایا، نہ کچھ… مجھے تو کوئی گنڈا مافیا لگ رہا ہے! زارا بھی کچھ بول نہیں پا رہی…

حیات کیبن سے نکلتے ہوئے کہا
کون ہے؟ نام نہیں پوچھا؟

خود آ کر دیکھو، اتنا غصّے میں لگ رہا ہے… اوپر سے اتنا لمبا! دیکھ کر ہی ڈر لگ رہا ہے۔۔۔
مایا نے اتنا کہا اور فون رکھ دیا۔۔۔

اب حیات باہر آئی ، چہرے پر معمول کی شوخی کے بجائے غیرمعمولی سنجیدگی چھا ہوئی تھی پھر اُس کی نظر اُس شخص پر پڑی، اونچا قد ، نگاہیں سیدھی،اور ایک ایسا رُعب کہ لمحہ بھر کو وہ خود بھی ٹھٹھک گئی۔

ایک لمحے کو… حیات کا دل بھی جیسے ہلکا سا دہل گیا۔
مگر وہ… حیات تھی۔
تھی تو کچھ بھی نہیں، لیکن خود کو توپ سے کم نہیں سمجھتی تھی۔

حیات سیدھی اُس کے سامنے آ کر کہا
جی، کون ہیں آپ؟

وہ شخص – جو کسی شہزادے سے کم نہ لگتا تھا۔۔
پہلے زارا کی طرف دیکھا وہ اُس کے دو فٹ چھوٹی دُبلی پتلی سی تھی پھر مایا کو گھورا وہ بھی زارا کی جیسے ہی دُبلی پتلی سی ہی تھی پھر اُس کی نگاہ حیات پر آ کر ٹھہری حیات تو اُس سے اور چار فٹ چھوٹی تھی مشکل سے اُس کندھے تک بھی نہیں پہنچ رہی تھی۔۔۔
وہ تینوں کو بغور دیکھتا گھورتا بولا۔۔۔
تمہارے باس نے کیسے کیسے چوزے ہائر کیے ہوئے ہیں
ہٹو میرے راستے سے، دماغ کی دہی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

حیات کو جیسے جھٹکا لگا۔
چُوزے؟ وہ تقریباً چیخی، آنکھیں پھیلا کر اُس کی طرف دیکھتے ہوئے۔
او ہَیلو، مسٹر! امن جنید خان اس وقت بہت مصروف ہیں۔ تو آپ یہاں آ کر تماشا مت بنائیں، برائے مہربانی اپوائنٹمنٹ لے کر آئیں۔۔۔۔

اپوائنٹمنٹ…؟ اپوائنٹمنٹ؟ میں اپوائنٹمنٹ لوں؟ سیریئسلی میں؟
وہ غضب ناک ہو کر چلّایا۔
آواز اتنی بلند تھی کہ پورے آفیس کی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں۔

حیات لمحے بھر کو سہم سی گئی۔ لیکن پھر اُس نے ایک قدم آگے بڑھایا، آواز میں فولاد کا وزن ڈال کر کہا
جی، چلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب عزت سے باہر چلے جائیں… ورنہ گارڈز کو بلا کر اُٹھوا کے باہر پھینکو دونگی۔۔۔۔

تم… مجھے… باہر پِھیکواؤ گی؟ سیریئسلی؟ میں تمہیں نہ… باہر پِھیکوا دوں۔۔۔۔ وہ پھر چیخا

حیات نے ایک بھاری سانس کے ساتھ، ٹھہراؤ سے کہا
Excuse me…
زبان سنبھال کر بات کریں۔۔۔

میرے دماغ کا دہی مت کرو ، ورنہ چھوڑوں گا نہیں میں تمہیں۔۔۔۔

حیات نے تیور دکھاتے ہوئے، ایک قدم آگے بڑھ کر کہا
او ہَیلو، پہلے پکڑ تو لو۔۔۔
You IDIOT 😑

میری نظروں سے سو فٹ دور ہو جاؤ، نہیں تو بہت برا کر جاؤں گا میں۔۔۔۔
وہ اُسے وارن کر رہا تھا

حیات نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا
کیا عجیب مصیبت ہے۔۔۔۔

میں… میں تمہیں مصیبت دکھ رہا ہوں؟ وہ ٹیش میں اکے چلایا۔۔۔

ہاں تو، کب سے میرا دماغ کھا رہے ہو ! جب کہ میں بار بار کہہ رہی ہوں کہ باس ابھی بزی ہیں، وہ آپ سے نہیں ملنا چاہتے۔۔۔ حیات نے تیوری چڑھا کر بولا

میں تمہارا دماغ کھا رہا ہوں، یا تم میرا۔۔۔ وہ اب مزید بھڑک چُکا تھا

پھر وہ چلّانے لگا – نہیں، چیخنے لگا۔
بھائیییییییییییییییییییی۔۔۔

حیات نے تھک کر، لیکن طنز بھرا تحمل برقرار رکھتے ہوئے کہا
آپ کے بھائی یہاں نہیں ہیں، فضول چیخنے کی ضرورت نہیں ہے لگتا ہے اب آپ کو اٹھوا کر پھینکوانا ہی پڑے گا، کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔۔۔۔۔

اب وہ شخص، جس کی آنکھوں میں حد سے زیادہ آگ تھی، جیسے بس پھٹنے ہی والا تھا۔ ہاتھ سختی سے مٹھی میں بند، چہرہ انگارہ، اور لب لرزتے ہوئے – کچھ کرنے ہی والا تھا…

تب ہی…
آفیس کے دروازے سے ایک بھاری قدموں کی آواز آئی۔
اور … امن داخل ہُوا

امن نے ابرار کو دیکھ حیرانی سے پوچھا۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو، ابرار؟

سناٹا۔
چند لمحوں کے لیے، جیسے سب کی سانسیں بند ہوگئیں۔

ابرار نے چہرہ سرخ، دانت بھنچے ہوئے، غصے میں بولا
گلی ڈنڈا کھیلنے آیا ہوں۔۔۔

حیات نے چونک کر، امن کی طرف پلٹ کر، غصے اور حیرت کے امتزاج سے کہا
آپ جانتے ہیں اِسے؟ ہاں، جانتے ہی ہوں گے! یہ عجیب پاگل، سنکی، نفسیاتی انسان ہے! نہ سمجھنے کی صلاحیت ہے، نہ سننے کی! میں اتنی دیر سے سمجھا رہی ہوں کہ آپ مصروف ہیں، لیکن نہیں، جناب کو صرف شور مچانا ہے۔۔۔۔

وہ بولے جا رہی تھی…
اور امن… صرف آنکھوں کے اشارے سے اُسے چپ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
لیکن وہ تو حیات تھی امن کا اشارہ سمجھ ہی نہ جائے۔۔

ابرار پھر سے چلایا۔۔۔
بھائیییییی! دیکھو، اُس وقت سے میرا دماغ کھا رہی ہے یہ لڑکی! تم نے ایسی لڑکی رکھی کیسے یہاں؟ ابھی کے ابھی نکلو ایسے۔۔۔۔

حیات چنگھاڑتی ہوئی، ہر حد پھلانگتی ہوئی
او ہیلو، مسٹر! آپ کو نہ میں اٹھوا کر باہر پِھیکوا دوں۔۔۔

حیات! چپ کرو۔ یہ ابرار ہے… امن نے سخت لہجے میں کہا

حیات نے غصے سے کہا
تو…؟

میرا بھائی۔ ابرار جنید خان۔۔۔۔ امن کا لہجہ اب بھی سخت تھا

خاموشی…
اس کا چہرہ، جو لمحہ بھر پہلے لفظوں سے دہک رہا تھا، اب جیسے ہوائیاں اُڑنے لگا۔

حیات نے دھیرے سے، شاک میں کہا
یہ… یہ…؟
وہ ابرار کی طرف دیکھی – جو اب بھی غصے میں بھرا ہوا تھا، جیسے آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی ہوں۔

امن نے نرمی کہا
تم چھوڑو… چلو میرے ساتھ کیبن میں۔ تم یہاں کیوں آئے ہو؟

ابرار غصے سے تھر تھراتے ہونٹوں کے ساتھ کہا
بھاڑ میں گئے تم… اور بھاڑ میں گیا تمہارا آفس۔۔۔۔
اور اب غلطی سے بھی میرے آفس مت آنا، نہیں تو واقعی تمہیں گارڈز سے اٹھوا کر باہر پھینکوا دوں گا۔۔۔

کہہ کر وہ فوراً تیزی کے ساتھ باہر نکل گیا

ایک بات جو اس آفس میں سب کو معلوم تھی —
امن جنید خان، پورے شہر کا سب سے باوقار، متین اور نرم مزاج بزنس ٹائیکون تھا۔
مگر اُس کے بھائی…؟
وہ تو بالکل اُس کے مزاج کے الٹ تھے۔
غصّہ، ضد، اور ہر بات پر اپنی منوانے والے۔
جہاں امن ہر بات سوچ سمجھ کر کرتا تھا،
وہیں اُس کے بھائی سوچنے سے پہلے ہی حرکت میں آ جاتے تھے۔۔۔

اور یہ آج ثابت بھی ہو چکا تھا۔

امن اب مکمل خاموشی سے، سخت نظروں کے ساتھ حیات کی طرف متوجہ ہوا
امن نے حیات کے اوپر نظریں گاڑتے ہوئے کہا
حیات…؟

اب اس ایک لفظ میں سوال نہیں تھا – صرف غصہ تھا۔۔

حیات نے ناک سکیڑتے ہوئے کہا
عجیب! حیات نے پیار سے پوچھا تھا، تو بتانا چاہیے تھا نا…
نہیں، بس سیدھا اندر گھسے آرہا تھا… تو حیات کیا کرتی؟ اپنے جیسا کہا حیات نے ویسا ہی کیا۔۔۔۔۔

مایا نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا
پیار سے؟ یہ تمہارا پیار تھا، حیات؟

حیات نے جھنجھلا کر، مایا کو گھورتے ہوئے کہا
Shut up
بیچ میں مت بولو! شروع میں میں نے واقعی پیار سے ہی پوچھا تھا…
اب وہ اتنی شدت سے صفائی دے رہی تھی جیسے کوئی جرم کر بیٹھی ہو

زارا نے شرمندگی سے کہا
سر، وہ… وہ آپ کے بھائی تھے، ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا۔ اور وہ پہلے کبھی یہاں آئے بھی نہیں… تو ہم پہچان نہیں سکے… سوری…

It’s okay،
تمہاری غلطی نہیں۔ اور ویسے بھی… اُس کا اپنا آفس ہے، اسی لیے وہ یہاں نہیں آتا۔ آج بھی ضرور کوئی ضروری بات ہوگی، تبھی آیا ہوگا۔ ورنہ ایسے نہیں آتا وہ۔

زارا نے دھیرے سے کہا
اب؟

امن نے سنجیدگی سے، مگر ہلکے تھکے ہوئے انداز میں کہا
اب کچھ نہیں۔ تم لوگ اپنا کام کرو۔ میں گھر جا کر خود بات کر لوں گا اُس سے۔
پھر ایک نظر حیات کی طرف ڈالتے ہوئے کہا
حیات، تم اندر آؤ۔

یہ کہتے ہی وہ اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا

حیات نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا کر، خود سے کہا
ہنہ ! اِن کا بھائی بھی اِنہی کی طرح ہے… سیدھی سیدھی بات کرنی نہیں آتی۔۔۔

++++++++++++++

حیات! یہ کیا حرکت تھی تمہاری؟!

حیات نے آنکھوں میں حیرانی اور لہجے میں نرمی لیے کہا
کیا…؟ آپ نے جو کہا تھا، میں نے وہی کیا۔

امن نے غصے سے کہا
تو تمہیں ایک بار پوچھنا تو چاہیے تھا اُس سے؟ تمیز نام کی کوئی چیز ہے تم میں؟ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم کس کے آفس میں کام کرتی ہو؟ امن جنید خان کے آفس میں! تمہیں پتا ہے تم نے آج کیا کیا ہے؟!

پوری دنیا جانتی تھی کہ امن اپنے بھائیوں کو لے کر کتنا احساس ہے لیکن بات یہاں صرف بھائی کی نہیں تھی ۔ یہاں بات امن کے عزت کی بھی تھی۔۔۔وہ تو اُس کا بھائی تھا لیکن اگر کوئی اور آتا اور اس کے ساتھ حیات اتنی بے تمیزی کرتی تو اُس پر امن کا اور امن کے آفیس کا کیا اثر پڑتا۔۔۔

حیات نے اب ضبط کرتے ہوئے، تھوڑا جھنجھلا کر کہا
ہاں تو مجھے کیا پتا تھا کہ وہ آپ کے بھائی ہیں؟!

امن نے سختی سے کہا
تو کوئی بھی آ جائے گا اور تم اُسے اِس طرح سے باہر نکالو گی؟!

میں نے اُسے کچھ زیادہ نہیں کہا! پہلے تو میں نے پیار سے ہی پوچھا تھا! لیکن وہ… وہ بدتمیزی کر رہا تھا! مجھے لگا کوئی گنڈا مافیا ہے! تو…!!!

امن نے غصے میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا
حیات! بس کرو۔۔۔
تمہیں پتا ہے؟ تم میرے آفس میں کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہو…

ہاں تو مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے آپ کے اس فضول آفس میں کام کرنے کا۔۔۔
اور پھر وہ اپنے تیز قدموں کے ساتھ کیبن سے  باہر نکل گئی۔۔۔۔ شاید اُسے بُرا لگا گیا تھا۔۔۔

امن نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے، کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا
کہاں پھنس گیا ہوں میں…

++++++++++++++

آفیس کی چھٹی ہوچکی تھی اور حیات بنا امن کو اپنی شکل دیکھے سیدھا گھر نکل گئی۔۔۔
اور امن جنید خان …؟
وہ وہی امن تھا، جو دنیا پر حکم چلاتا تھا… مگر ایک لڑکی کی خاموشی نے اُس کے اندر کی سلطنت ہلا کر رکھ دی تھی۔

++++++++++++

اب وہ گھر آیا تو
لاؤنج کے ہر کونے میں کوئی نہ کوئی بھائی گرا پڑا نظر آیا۔۔۔
کوئی صوفے پر چت لیٹا تھا، تو کوئی قالین پر کسی شکست خوردہ ہیرو کی طرح پڑا تھا۔۔۔۔جیسے سب کے سب اُس کے آفیس آنے کا ہی انتظار کر رہے تھے۔۔۔
سب کے سب یہاں کیوں بیٹھے ہو؟!

یوسف نے آہستہ سے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی، چہرے پر معمول کی سنجیدگی لیے بولا۔
دھرنا دینے کے لیے۔

امن نے حیرت سے کہا
کیا مطلب؟

ارے بھائی… دھرنا… دھرنا…
STRIKE۔۔۔
یوسف بولا۔۔۔

دانیال اچانک جوش سے صوفے پہ کھڑا ہو کر نعرہ لگانے لگا۔۔۔
جینا ہوگا، مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا، دھرنا ہوگا۔۔۔۔
ایک تو اُس کی آواز ویسے ہی لاؤڈ اسپیکر تھی،
اوپر سے جب وہ چیختا تھا نا، تو آواز سیدھی دس محلوں تک جاتی تھی۔

یہ کیا تماشا ہے؟ دانیال، بیٹھ جاؤ فوراً…
امن نے تھوڑا سخت لہجے میں کہا

اوکے…
اور پھر وہ دوبارہ صوفے پر لیٹ گیا۔۔۔

امن نے اب رخ ابرار کی طرف گھماتے ہوئے کہا
اور تم؟ تم آفس کیوں آئے تھے؟

ناچنے آیا تھا۔ غصے سے کہا گیا

ابرار ۔۔۔۔ امن نے ابرار کو گھورتے کہا

ابرار نے سیدھے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
مت گھورو، اس بار غلطی تمہاری ہے۔۔۔
یہ جملہ عام نہیں تھا۔ باقی سب بھائی امن کے گھورنے سے ڈر جاتے تھے ، مگر ابرار … وہ صرف اس وقت جھکتا تھا جب واقعی قصور اس کا ہوتا۔ اور آج اُس کی غلطی نہیں تھی۔۔۔

اچھا میری غلطی…؟ امن نے غصے سے کہا

ازلان نے اپنے مخصوص ‘نرم مگر کھری’ ٹون میں کہا
ہاں، تمہاری ہی غلطی ہے۔۔۔

اور تم… تم بیچ میں کیوں بول رہے ہو؟ خاموش بیٹھو۔۔۔ اب امن اذلان کی طرف گھومتا اُسے گھورتا بولا

ابرار، جو اپنی خاندانی روایات کے برعکس، خود کو چاہنے والا نہیں بلکہ منوانے والا شخص مانتا تھا، اب واقعی غصے کی انتہا پر تھا۔
ہاں، تمہاری ہی غلطی تھی۔۔۔ ابرار نے غصے سے کہا

امن نے اپنے شرٹ کی آستینیں چڑھاتا ہوئے کہا
اور کیسے…؟

ابرار نے تلخی سے کہا
ایسی بدتمیز، گھمنڈی سی لڑکی رکھی ہوئی ہے آفس میں، جو ابرار جنید خان کو نہیں جانتی! سريسلی
ابرار جنید خان کو؟ 

امن نے چبھتی سنجیدگی سے کہا
تو تم کب گئے ہو میرے ساتھ آفس؟ جو تمہیں لوگ پہچانتے؟

پوری دنیا جانتی ہے میں تمہارا بھائی ہوں! بس تمہارے آفس والے نہیں جانتے؟ واہ بھائی واہ
ابرار نے طنز کیا

نہیں جانتے… اور اگر جانتے بھی ہوتے، تب بھی وہ لڑکی پاگل نہیں تھی جو جان بوجھ کر تم سے بدتمیزی کرتی۔ امن نے سنجیدگی سے کہا

ابرار نے زور سے کہا
واٹ ایور مُجھے نہیں پتہ۔۔۔۔

تو پھر کس کو پتا ہے…؟
امن نے ہاتھ باندھ کہا

ارسل نے شانے اچکاتے ہوئے کہا
مجھے… مجھے پتہ ہے۔۔۔

چُپ کرو… امن نے ارسل کو گھورتے کہا

ارسل نے مسکین سا منہ بنا کر کہا
یار بھائی، سُن تو لو…

کہا نا چُپ۔۔۔
امن نے ابرار کی طرف دیکھتے ہوئے، تھکن زدہ لہجے میں کہا
تو بولو… اب کیا کروں؟ مان لیا، غلطی ہو گئی۔ چھوڑ دوں؟ معاف کر دوں؟

ابرار نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا
ہُہ!!! بلکل نہیں۔۔۔

تو…؟

اس لڑکی کو آفس سے نکال دو… سیمپل۔۔۔۔
ارحم فوراََ بولا

ارسل نے منہ بناتے بولا۔۔۔
میں بھی یہی بول رہا تھا، مگر کوئی سنتا ہی نہیں۔۔۔۔

پتہ ہے مجھے… ارحم بولا

تم دونوں چُپ کر کے بیٹھو… یا اپنے کمرے میں جاؤ… امن نے غصے سے کہا

ارحم نے آرام سے کہا
میں تو نہیں جا رہا…
پھر ارسل کی طرف دیکھ کر کہا
تو جا رہا ہے؟

ارسل نے سر ہلایا۔۔۔
ناکو… بلکل نہیں۔۔۔۔

امن نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا
دونوں کو تھپڑ مار دوں گا میں اب۔۔۔۔

ابرار غصے سے پھر بولا۔۔
ہاں! ارحم صحیح کہہ رہا تھا… نکال دو اُس کو! بڑی آئی مجھے باہر پھینکوانے والی… اٹھا کر۔۔۔۔

دانیال نے آنکھیں پھیلا کر، ڈرامائی انداز میں کہا
ہاوو ایسا بول دیا بھائی تُم کو … سیریسلی تُم کو…
اب کے وہ جملے کے ساتھ ساتھ چہرے پہ ایسی حیرانی سجا رہا تھا جیسے ابھی ابھی بریکنگ نیوز ملی ہو
سیریسلی… تم کو۔۔۔۔
لگی آگ میں تیل ڈالنا تو کوئی دانیال سے سیکھیں۔۔

امن نے اب غصیلی نظروں سے دانیال کو گھورا۔۔
دانیال…

دانیال نے بے نیازی سے کہا
کیا؟ میں تو بس کنفرم کر رہا تھا…

چُپ سے رہو! اب اگر ایک لفظ بھی بولا تو اچھا نہیں ہوگا..

یوسف نے معصوم بنتے ہوئے کہا
ہاں ہاں! کروا لو کروا لو… چپ ہم مظلوموں کو… ہم مظلوموں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔

ہاں… بالکل… اور اگر ابھی اس مظلوم کی زبان بند نہ ہوئی – تو اِس مظلوم پر ظلم بھی ہو سکتا ہے۔۔۔
امن نے اب کے یوسف کو گھورتے ہوئے کہا

یہ سن کر سب کے چہروں پر بمشکل دبی ہنسی
آگئی… اور دانیال کی ہنسی تو اس کے گالوں سے باہر نکلنے کو بے قرار تھی – پر اپنی عزت بچانے کے لیے وہ صوفے کا کُشن منہ پر رکھ کر بیٹھ گیا۔

اوہ اوکے… یوسف اب چُپ ہوگیا۔۔۔ کیوں ظلم واقعی ہوسکتا تھا۔۔۔

ازلان نے جیسے ہی سکون ہوا، نئی مصیبت کا اعلان کیا
اوووو! ازلان کے پاس ایک آئیڈیا ہے… ایک حل…

ابرار نے دلچسپی سے کہا
بتا؟

ازلان نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا
اس لڑکی کو ہی ٹپکا دیتے ہیں۔۔۔۔

امن نے مکمل بے ساختگی سے کہا
تم اپنا منہ نا بند ہی رکھا کرو…
الفاظ، لہجہ اور غصہ – سب کچھ ایسا کہ اگر نگاہیں قتل کر سکتیں تو ازلان کب کا ٹپک چکا ہوتا…

ابرار نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا
بھائی تُو تھوڑا سا وہ ہے کیا…؟

ازلان نے گردن اکڑا کر، پورے غرور سے کہا
وہ کیا…؟ اسمارٹ، ہینڈسم، انٹیلیجنٹ؟ ہاں بھئی، وہ تو میں ہوں… تھینکیو تھینکیو۔۔۔۔

میں پاگل کہنے والا تھا… ابرار نے کہا

تُو زیادہ فری مت ہو ورنہ میں پارٹی بدل لوں گا۔۔۔ اذلان نے منہ موڑتے ہوئے کہا

ابرار جو اب بھی غصے کی دمک لیے بیٹھا تھا
اچھا نا، اب مسئلہ دیکھ لو…

ازلان نے سپاٹ لہجے میں کہا
دیکھا؟؟

امن نے سانس بھرتے ہوئے، جیسے صبر کی آخری حد پر پہنچ چکا ہو
تم لوگوں کو زیادہ پاگل گِری کرنے کی ضرورت نہیں… جاؤ جا کے سو جاؤ سب۔۔۔
اور خود اپنے کمرے کی طرف، فریش ہونے چلا گیا

دانیال نے جھنجھلا کر کہا
لے بھئی… دھرنا شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔۔۔

یوسف نے چمکتی آنکھوں سے، موبائل نکالتے ہوئے کہا
ہاں، بڑا ہی شارٹ دھرنا تھا… خیر میں چلا اپنی گرل فرینڈ سے بات کرنے… تم لوگ اپنا دیکھ لو۔۔۔۔

دانیال نے ایمان افروز لہجے میں کہا
بےشرم… بےحیا… بےلحاظ… بدتمیز ہو تم۔۔۔

یوسف نے کمرے کی طرف جاتے ہوئے، ہنستے ہوئے کہا
وہ سب تو تُو ہے…

دانیال نے زچ ہو کر کہا
عجیب! میری کوئی عزت ہے بھی یا نہیں…

نہیں۔۔۔۔ اذلان فوراََ بولا ۔۔
اور یہ کہہ کر وہ بھی اپنے کمرے میں گھس گیا –

دانیال نے اب بُرا سا منہ بنائے کہا۔۔۔
عجیب…! میں کیا کوئی مندر کا گھنٹہ ہوں؟ جس کا دل کرتا ہے، بجا کے چلا جاتا ہے…

ارسل نے بڑے ادا سے، جیسے فلمی ولن ہو
ابھی تک تو بجایا نہیں کسی نے… تُو بولتا ہے تو میں بجا دوں… دیکھ، تُو میرا بھائی ہے، تیری آرزو پوری کرنا میری ذمہ داری اور فرض ہے…

ارحم نے بے نیازی سے کہا
میں بھی یہ فرض نبھانا چاہتا ہوں…

دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔ سارے میرے جانی دشمن یہیں بس گئے ہیں… دانیال چلایا اور اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

1 Comment

  1. Ufff kiya story hai

Leave a Reply to Piyari larki Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *