انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول: تُم میری محبت کی آخری وارث ہو
قسط نمبر ۲
ریسٹورنٹ میں ہلچل تھی۔ ہر طرف لوگ اپنی باتوں میں مصروف تھے، کوئی کھانے سے لطف اندوز ہو رہا تھا، تو کوئی ہنسی مذاق میں مگن تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح عین وقت پر پہنچ چکا تھا، مگر جس کا وہ انتظار کر رہا تھا، وہ ابھی تک نظر نہیں آئی تھی۔
یہ لڑکیاں ہمیشہ لیٹ کیوں آتی ہیں؟ امن نے خود سے بڑبڑایا اور اپنی گھڑی کی طرف دیکھا۔ ابھی کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ اس کا فون بج اٹھا۔
ہیلو! جی دادا، بولیں، کہاں ہے آپ کی لڑکی؟ آدھے گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں!
اےےےے! تُو ہوٹل پہنچ گیا ہے؟
ہاں، تو؟
تو پھر کہاں ہے تُو؟
میں ریسٹورنٹ میں بیٹھا ہوں، لیکن یہاں کوئی لڑکی نظر نہیں آ رہی! اکیلا بیٹھا ہوں۔
اےےےے! تُو فیملی ایریا میں جا، وہاں تیرا اور اس کا ٹیبل بُک ہے، ویٹر تجھے لے جائے گا!
اچھا! اُس نے گہری سانس لیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
پھر اٹھا اور فیملی ایریا کی طرف بڑھا۔
ایک ویٹر نے اسے آتے دیکھ کر اشارہ کیا، سر، آپ کا ٹیبل وہاں ہے!
امن نے سر ہلایا اور اس مخصوص ٹیبل کی طرف بڑھا جہاں ایک لڑکی پہلے سے موجود تھی۔ وہ نظریں جھکائے اپنے موبائل میں مصروف تھی، اور اس کے گھنے بال اس کے چہرے کو چھپا رہے تھے۔
امن خود سے: یہ ہے وہ لڑکی؟
اس نے گہری سانس لی اور آگے بڑھا۔
ایکسکیوز می؟
لڑکی نے آہستہ سے سر اٹھایا، اور جیسے ہی اس کی آنکھیں امن کی نظروں سے ٹکرائیں، امن کے چہرے پر حیرت اور شاک کے ملے جلے تاثرات چھا گئے۔
تم!!!!! (حیرت سے) تم ہو وہ لڑکی؟!
آپ؟؟؟ حیات نے حیرت سے اپنی گہری جھیل جیسی آنکھیں اٹھائیں، جیسے یقین نہ آ رہا ہو کہ اس کے سامنے کون کھڑا ہے۔ وہ سادہ مگر نفیس شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔
یہ ہیں حیات صدیقی، مسٹر ندیم صدیقی اور مسز ندیم صدیقی کی اکلوتی بیٹی۔ ایک ایسی لڑکی، جو کانچ کی طرح نازک اور سمندر کی طرح گہری آنکھوں والی ہے۔ اس کی گوری رنگت اور چمکدار معصومیت اسے ایک کھلتے ہوئے پھول جیسا بناتی ہے۔
حیات ایک چنچل، شرارتی، مگر بے حد معصوم طبیعت کی لڑکی ہے۔ وہ چاہے بچکانہ حرکتیں کرے یا ہنسی مذاق میں لوگوں کو چڑائے، اس کے دل کی نرمی اور خلوص ہمیشہ نمایاں رہتا ہے۔
اپنے بابا کی جان!
حیات اپنے بابا مسٹر ندیم صدیقی کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اس کے والد نے ہمیشہ اسے پیار اور نازوں سے رکھا۔ وہ اسے اپنی پلکوں پر بٹھاتے ہیں، اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ تھوڑی سی اٹینشن سیکر بھی ہے۔
ندیم صدیقی چاول کی ملوں اور بڑی کمپنیوں کے مالک ہیں، اور یہ سب کچھ حیات کے نام ہے۔ مگر وہ ان سب چیزوں کی حق دار بن کر اپنے والد کا نام روشن کرنا چاہتی ہے۔ اسی لیے وہ ابھی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہے، تاکہ بزنس میں اپنے والد کے نقش قدم پر چل سکے۔
حیات ان چند لوگوں میں سے ہے جن سے اگر کوئی ایک بار مل لے، تو زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ وہ اتنی معصوم، چنچل، اور زندہ دل ہے کہ اس کے ساتھ وقت گزارنے والا کبھی بور نہیں ہوتا۔ ہنستی، مسکراتی، اور زندگی سے بھرپور، وہ ایک ایسی لڑکی ہے جو ہر جگہ روشنی لے آتی ہے۔
کیا تم بار بار میرے سامنے آنا بند نہیں کر سکتی؟ امن نے خفگی سے کہا، چہرے پر صاف چڑچڑاہٹ جھلک رہی تھی۔
ابھی کل تمہاری حرکتوں کی وجہ سے پوری رات نیند نہیں آئی، اور آج پھر تم میرے سامنے؟
او ہیلو! میں نہیں آئی آپ کے پاس، بلکہ آپ میرے پاس آئے ہیں۔ دیکھیں، میں اپنی ہی ٹیبل پر بیٹھی ہوں، اور آپ…
امن نے غصے سے دانت پیسے، تم۔۔۔
مگر جیسے ہی وہ کچھ کہنے والا تھا، ایک غیر متوقع منظر نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیا۔
ریسٹورنٹ کے ایک کونے میں، ایک ویٹر ہاتھ میں کھانے کی پلیٹیں اٹھائے آگے بڑھ رہا تھا۔ دوسری طرف، ایک لڑکی بے خیالی میں ہاتھ میں ٹشو لیے واش روم سے باہر نکل رہی تھی۔ دونوں کی نظریں اپنی اپنی سمت میں تھیں، ایک دوسرے سے بے خبر۔
اور پھر… دھڑام!
ایک زوردار ٹکر ہوئی، اور اگلے ہی لمحے کھانے کی پلیٹیں ویٹر کے ہاتھ سے چھوٹ گئیں۔ کھانے کے کچھ ذرات خود ویٹر پر گرے، مگر زیادہ تر… اس لڑکی پر!
واٹ دا ہیل! وہ لڑکی چیخ پڑی، ایک ہاتھ سے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے تیزی سے کھڑی ہونے کی کوشش کرنے لگی۔
ریسٹورنٹ میں موجود سب لوگوں کی نظریں اب اسی طرف مرکوز تھیں۔
امن کو اپنے غصے کو ایک لمحے کے لیے بھولنا پڑا۔ وہ بھی فوراً ویٹر کی طرف بڑھا اور اسے سیدھے کھڑے ہونے میں اُس کی مدد کی۔ جیسے ہی لڑکی نے امن کی طرف دیکھا، وہ ایک دم سے سیدھی ہوگئی۔ اُس کے تو تیور ہی بدلا گئے ۔
میم، آئی ایم سو سوری! پلیز معاف کر دیجیے، یہ غلطی سے ہو گیا! ویٹر کی آواز میں پشیمانی نمایاں تھی۔
لڑکی نے گہرا سانس لیا، چہرے پر ایک لمحے کے لیے غصہ آیا، مگر پھر وہ مسکرا دی۔
ارے اٹس اوکے، تمہیں زیادہ لگی تو نہیں؟ اُس نے نرمی سے کہا۔
نہیں نہیں، میں بہت زیادہ شرمندہ ہوں۔ آئی ایم ریئلی سوری، آپ کی ڈریس خراب کر دی میں نے، مجھے معاف کر دیں!
ارے، کہا نا، اِٹز اوکے! بس ایک ڈریس ہی تو خراب ہوا ہے، میں نیا لے لوں گی۔ تم جاؤ! اس کی نرمی اور شفقت بھرے لہجے نے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
امن نے ناگواری سے سر جھٹکا، مگر دل ہی دل میں اس لڑکی کے اخلاق پر حیران بھی ہوا۔ عام طور پر لوگ ایسے موقع پر ویٹر کو جھاڑ دیتے، اسے برا بھلا کہتے، مگر یہ لڑکی۔۔۔
وہ بے اختیار آگے بڑھا اور نرمی سے پوچھا، آپ کو کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟ سب ٹھیک ہے نا؟
اس کے لہجے سے لگ رہا ہے یہ اچھا خاصا امپریس ہو چکا ہے مجھ سے، ہائے… آپ کے لیے تو میں ہزار بار ایسے گر کر ڈریس خراب کر سکتی ہوں! اُس نے دل ہی دل میں سوچا۔
لڑکی نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا، جی، میں بالکل ٹھیک ہوں۔
ہمم… امن نے مختصر جواب دیا اور واپس مڑ گیا۔
مگر جب اس کی نظر حیات کی ٹیبل پر گئی، وہ حیران رہ گیا۔
یہ… کہاں چلی گئی؟
وہ ابھی کچھ لمحے پہلے تک یہیں بیٹھی تھی، مگر اب غائب ہو چکی تھی۔
اچھا ہوا، خود ہی چلی گئی۔ امن نے سکون کا سانس لیا اور بے نیازی سے ریسٹورنٹ کے دروازے کی طرف بڑھا۔
ارے، مجھ سے ملنے آئے تھے نا؟ تو کم از کم مل کر ہی جاتے! وہ خود سے بڑبڑائی۔
+++++++++++++++
ابھی امن ریسٹورانٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ جنید صاحب کی کال آ گئی۔
امن فون اٹھاتے ہوئے بولا بولیے دادا؟
ہاں، مل لیا لڑکی سے؟
جی دادا، اسی لیے تو گیا تھا۔
کیسی لگی؟
جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں، ویسی ہی لگی
دادا ذرا جھنجھلا کر گویا ہوئے ارے مطلب تجھے پسند آئی کہ نہیں؟
آکر بتاتا ہوں دادا، ابھی گاڑی چلا رہا ہوں۔
یہ کہہ کر اُس نے کال کاٹ دی اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
سفر کے دوران اس کا دھیان بار بار حیات کی طرف جارہا تھا کیسی پاگل سی اور عجیب لڑکی تھی وہ، اور دادا نے بھی اسے مجھ سے ملنے بھیج دیا۔
++++++++++++
دوسری طرف حیات، ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی دوست کو کال کر چکی تھی اور اب وہ چلتے چلتے باتیں کر رہی تھی۔
ہاں یار، تجھے نہیں پتا پاپا نے مجھے اُس بدتمیز انسان سے ملنے بھیج دیا تھا، بڑی مشکل سے جان چھڑا کر آئی ہوں!
وہی پارٹی والا؟ وہی بدتمیز بندہ؟
ہاں، اور کون؟ تیرا منگیتر!
میرا تو کوئی منگیتر ہی نہیں، موئے موئے! دوسری طرف سے اُس کی دوست ہنس کر بولی۔
چپ کر جا!
چھوڑ! یہ بتا، وہ واقعی اتنا ہینڈسم ہے؟
حیات نے طنزیہ کہا ہاں، بہت حسین ہے! کیا تیرا رشتہ مانگ لوں؟
لیکن میں تو اپنے فیوچر ہسبنڈ کے ساتھ وفادار ہوں، اور ویسے بھی میں ایسے خطرناک انسان سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ کیا پتہ کوئی مافیا کا بندہ ہو۔
حیات نے جھنجھلا کر کہا جتنی فضول باتیں دنیا بھر کی ہیں نا، وہ صرف تیرے دماغ میں آتی ہیں!
اب حیات باتیں کرتے کرتے سڑک پر آ چکی تھی۔
ایسے نہ بول، میں نے کے-ڈرامے میں دیکھا ہے! بس تجھے محتاط کر رہی ہوں!
ویسے ہینڈسم تو ہے، مگر اس کا رویہ؟ توبہ توبہ! ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پرائم منسٹر ہو! دوسروں کو طعنہ دینے اور ذلیل کرنے میں تو جیسے پی ایچ ڈی کی ہو اُنہوں نے! اب وہ روڈ کراس کرنے لگی تھی۔
اسی لمحے ایک گاڑی پوری رفتار سے اُس کی طرف آئی۔
آاااہ۔۔۔! وہ چیخی، گاڑی اُس کے بالکل پاس آ کر رکی۔
اب تو پکا تم اندھی ہی ہو! وہ گاڑی سے نکلتے ہی فوراً بولا۔
حیات خوفزدہ ہو چکی تھی، کچھ بول نہ سکی۔
جب روڈ کراس کرنا نہیں آتا، تو نکلتی کیوں ہو سڑک پر؟
کوئی جواب نہ آیا۔ حیات خاموشی سے نیچے بیٹھی اور اپنا سامان سمیٹنے لگی۔ حیات نے جو مینی بیگ لے رکھا تھا وہ نیچے گر گیا اور اُس کے اندر کا سارا سامان باہر آ چکا تھا، امن نے بھی چیزیں اٹھانے میں اُس کی مدد کی۔
تھینک یو! وہ امن سے سامان لے کر واپس جانے لگی۔
چلو، میں چھوڑ دیتا ہوں تمہیں۔
نہیں شکریہ، میں چلی جاؤں گی۔ مجھے کچھ دیر میں ڈرائیور انکل لینے آ جائیں گے، میں نے ہوٹل سے نکلتے ہی کال کر دی تھی۔
تو روڈ کے اُس پار کیا لینے جا رہی تھی؟
حیات آہستہ سے کہا وہ… آئس کریم۔۔۔
حد ہے مطلب! امن نے بغور اُسے گھورتے کہا۔
حیات کچھ بھی نہ بولی، خاموش رہی۔
چلو میں چھوڑ دیتا ہوں، تم انکل کو میسج کر دو، پتہ چلا یہاں سے گھر جاتے جاتے جنت چلی جاؤ!
اتنے میں حیات کا ڈرائیور آگیا۔ وہ بغیر کچھ کہے، امن کی طرف دیکھے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئی اور وہاں سے روانہ ہو گئی۔
+++++++++++++
ہاں بھئی، اب تو بتا! کیسی لگی لڑکی؟ امن ابھی گھر میں داخل ہوتے صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ جنید صاحب نے فوراً سوال کیا۔
دادا، ابھی آیا ہوں، ذرا سانس تو لینے دیں۔ امن نے اپنی شرٹ کی آستینیں چڑھاتے ہوئے کہا۔
کیوں بھئی؟ اتنی دیر سے سانس روک کے رکھا تھا کیا، جو اب لینے کی ضرورت پڑ گئی؟ جنید صاحب نے اُسے گھورتے کہا۔
امن نے ناگواری سے کہا داداااا…!
پھر اس نے ملازمہ کو آواز دی
میرا کھانا لے آئے، پلیز!
ارے تُو ریسٹورنٹ گیا تھا نہ؟؟ کھانا وہاں سے کھا کر نہیں آیا؟؟ جنید صاحب نے حیرت سے امن کی طرف دیکھ کر کہا۔
ہاں دادا، گیا تو تھا، لیکن وہ لڑکی! عجیب تھی۔
ہیں؟ کیا؟ دادا حیران ہوئے۔
جی دادا، وہ بہت ہی بدتمیز لڑکی نکلی۔ ایک بندے سے ٹکرا گئی، اُس کے اوپر جوس گرا دیا، اور اُلٹا اُسی کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی! مطلب عجیب ہی منطق ہے اُس کا! اتنے صفائی سے جھوٹ بولنا کوئی امن سے سیکھے۔۔
امن سیدھا ہو کر جنید صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے بولا:
بتائیے دادا، کیا میں ایسی لڑکی سے شادی کر لوں؟
جنید صاحب نے فکر سے سر ہلاتے ہوئے کہا
اچھا، کوئی بات نہیں بیٹا۔ ہم کوئی اور لڑکی دیکھ لیں گے تمہارے لیے۔
امن سکون کی سانس لیتے ہوئے دل ہی دل میں بڑبڑایا۔
ہوں، شکر ہے، کم از کم اِس سے تو جان چھوٹی۔ اگلی والی سے بھی نمٹ ہی لوں گا، کوئی نہ کوئی انتظام کر ہی لوں گا!
اب جنید صاحب اپنے فون پر نمبر ملایا اور لڑکی والوں کو کال کر کے مؤدبانہ انداز میں انکار کر دیتے ہیں کہ امن کو یہ رشتہ پسند نہیں آیا۔
+++++++++++
ندیم صاحب نے توقع بھری نگاہوں سے کہا
ہاں بھئی، تو پھر کیسا لگا میری بیٹی کو لڑکا؟
حیات نے منہ بناتے ہوئے کہا
وحیات ۔ فضول نہیں، بلکہ انتہائی فضول ترین تھا۔ مجھے ہرگز پسند نہیں آیا۔ بس، کینسل کینسل۔ آپ منع کر دیں۔
زینب بیگم نے حیرانی سے کہا
ارے کیا برائی دیکھ گئی تمہیں اُس میں؟ اچھا خاصا ہینڈسم ہے، بزنس مین ہے، مشہور بھی ہے!
حیات نے تیور چڑھائے ہوئے کہا
لیکن تہذیب نام کی کوئی چیز تو ہے ہی نہیں اُس میں! اندازِ گفتگو نہ لڑکوں کے ساتھ درست ہے نہ لڑکیوں کے ساتھ۔ اور غلطی پر معذرت کرنا بھی نہیں آتا اُسے، ہونہہ!
ندیم صاحب نے نرمی سے کہا
اچھا چلو، کوئی بات نہیں۔ میں انکار کر دوں گا۔
ارے ایسے کیسے؟؟ جیسے آپکی بیٹی لڑکوں کو مانا کر رہی ہے نہ ایسے دنیا کے سارا لڑکا ختم ہوجائے گا، لیکن اسے کوئی پسند نہیں آئے گا زینب بیگم فوراً بولی
حیات نے آہستہ سے بڑبڑاتے ہوئے کہا
ان کو جب تک پوری بات نہ بتاؤں، جھوٹی ہی لگوں گی۔
پھر اونچی آواز میں کہا
پتا ہے اُس نے کیا کیا؟ ایک ویٹر کو صرف اس لیے تھپڑ مار دیا کہ اُس سے اُس کا سوٹ گندا ہوگیا تھا! اور وہ ویٹر بار بار معذرت کر رہا تھا، لیکن یہ جناب کہہ رہے تھے، ‘تم غریب لوگ ایسے ہی ہوتے ہو!’ – اور پھر اپنی مہنگی شرٹ کا رونا، بلا بلا بلا۔ حیات وہ سب بول کر اپنا منہ گندا نہیں کرنا چاہتی
ندیم صاحب سنجیدگی سے کہا
اچھا، چلو چھوڑو یہ سب۔ تمہیں تو اپنی کمپنی سنبھالنی ہے نا؟
ہاں ہاں یہ سنتے ہی حیات کے چہرے پر خوشی کی ایک چمک دوڑ گئی۔
ندیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
تو میں اپنی شہزادی بیٹی کو ایک موقع دیتا ہوں
زینب بیگم نے پریشانی سے کہا
اب یہ کیا بول رہے ہیں آپ؟ اِسے موقع دے رہے، یہ اور کمپنی سنبھال ہی نہ لے !
یہ تو مجھ سے جلتی ہیں، پاپا! آپ بتائیں، کیسا موقع دے رہے ہیں مجھے؟
میں تمہیں ایک بڑی کمپنی میں انٹرن شپ کے لیے بھیجوں گا۔ وہاں کام کرو گی، اپنی پرفارمنس دکھاؤ گی۔ اگر اچھی رہی، تو پھر تم میری کمپنی کی حقدار ہوگی۔ اور وہاں کام کر کے تمہیں بزنس کا تجربہ بھی ہو جائے گا۔
حیات نے جوش سے اچھلتے ہوئے کہا
ہاں ہاں! اوکے ڈَن! کر لیں ڈَن! کون سی کمپنی ہے؟ کس چیز کی ہے؟ کب سے جانا ہے؟ سب ڈیٹیلز دے دیں، حیات پوری تیاری سے جائے گی!
اور ہاں! اگر تمہاری پرفارمنس خراب رہی یا تم نے چھوڑ دیا تو پھر ندیم صاحب نے سنجیدگی سے حیات کی طرف دیکھ کر کہا
پھر تمہیں چپ چاپ میری ہی کمپنی میں آکر کام کرنا پڑے گا۔ اور میری موجودگی میں
زینب بیگم موقع ہاتھ آتے ہی کہا
اور جس لڑکے سے میں کہوں گی، اُسی سے شادی بھی کرنا پڑے گا! (کیونکہ وہ اپنی لاڈلی بیٹی کو اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ یہ سب کچھ نہیں کر پائے گی!)
حیات نے حیرت سے کہا
ہیں؟ آپ کیوں بیچ میں بول رہی ہیں! آپ تو پہلے ہی منع کر چکی تھیں!
ہاں، اب دے رہی ہوں نا میں بھی تمہیں ایک موقع !
حیات منہ چڑاتے ہوئے کہا
نہیں، یہ ایسے ویسے نہیں چلے گا! حیات شادی تو اپنی پسند کے لڑکے سے ہی کرے گی!
پتا نہیں کون سا لڑکا ہو گا جو تمہیں پسند آئے گا۔ مجھے تو لگتا ہے آسمان سے اُترے گا، مسٹر بین کی طرح اوپر سے سیدھا نیچے گرے گا! زینب بیگم نے چڑ کر کہا
حیات مُسکراتے ہوئے کہا
ہاں! اُتر بھی سکتا ہے!
یہ کہہ کر وہ اچھلتی، چہکتی اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی اور جاتے جاتے چیخ کر کہا
مجھے میرے فون پر کمپنی کی ساری ڈیٹیلز بھیج دیجئے گا ! حیات تیار ہے! کہتی روم میں بند ہوگئی۔
زینب بیگم نے فکرمند لہجے میں کہا
اب آپ اسے کہاں بھیج رہے ہیں؟ آپ کو اس کے مزاج کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ یہ کبھی کسی کمپنی میں ٹک نہیں سکتی ۔
ندیم صاحب نے پُر اعتماد انداز میں کہا
جانتا ہوں، اور تم فکر مت کرو۔ میں اسے ایسی ویسی کسی عام کمپنی میں نہیں بھیج رہا۔ میں نے اس کے لیے بہت خاص لڑکا چُنا ہے۔
زینب بیگم نے چونک کر کہا
لڑکا؟ مطلب؟
ندیم صاحب نے مسکرا کر کہا
ہاں۔ اگر میں بھی اسے عام لڑکوں کی طرح کسی سے ملواتا، تو یہ حسبِ معمول کوئی بہانہ بنا کر انکار کر دیتی۔ اور تم اچھی طرح جانتی ہو جب یہ کچھ کہتی ہے تو میں چاہ کر بھی اسے منع نہیں کر پاتا۔
زینب بیگم نے حیرت سے کہا
کیا مطلب؟
جس لڑکے کی یہ بُرائیاں کر رہی تھی نا، اُس سے تو یہ ملی ہی نہیں۔ ندیم صاحب نے سنجیدگی سے کہا
زینب بیگم نے حیرت اور غصے کے ملے جلے لہجے میں کہا
کیا؟!
ہاں، اُس لڑکے کا میسج آیا مجھے۔ کہہ رہا تھا، ‘سوری، مجھے آنے میں تھوڑی سی دیر ہوگئی، لیکن میں اب بھی وہیں ریسٹورنٹ پر ہوں اور لگتا ہے مس حیات جا چکی ہیں۔’
زینب بیگم آہ بھرتے ہوئے کہا
دیکھ لیا آپ نے اپنی لالڈ پیار کا نتیجہ؟!
ندیم صاحب سنجیدگی سے کہا
اسی لیے میں اسے پہلے لڑکے کو جاننے کا موقع دونگا اور وہ لڑکا ایسا ہے جیسے یہ جاننے کے بعد کبھی انکار نہیں کر پائے گی۔
زینب بیگم نے شک بھرے لہجے میں کہا
ایسا بھی کون سا لڑکا پیدا ہوگیا ہے؟ یہ حیات ہے، مجھے نہیں لگتا اُسے کوئی لڑکا پسند آنے والا ہے۔ اب تو شاید ہمیں زبردستی ہی کرنی پڑے گی۔
ندیم صاحب رازدارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا
ہے نا ایسا لڑکا۔۔
زینب بیگم نے تجسس سے کہا
کون؟
اَمان جُنید خان۔
یہ نام سن کر زینب بیگم کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے، اُن کی زبان گویا بند ہوگئی۔
زینب بیگم نے آہستگی سے کہا
اُس سے بہتر لڑکا واقعی کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
ندیم صاحب نے پُرعزم انداز میں کہا
میں اُسے اُسی کی کمپنی میں انٹرن شپ پر بھیج رہا ہوں۔ ایک بار یہ اُسے جان لے، تو انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور جہاں تک کمپنی کی بات ہے، ایک بار یہ اُس میں دلچسپی لینے لگے، تو کمپنی کو تو خود ہی بھول جائے گی۔
+++++++++++++
صبح کے دھندلکے میں، جب سورج کی کرنیں ابھی مکمل طور پر پردہ نہ اٹھا سکی تھیں، امن دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ لاؤنج میں نظر پڑی تو کچھ لمحوں کے لیے وہ رُک سا گیا۔ آج… آج کچھ مختلف تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر دادا دادی کے ساتھ اس کے والد، تیمور صاحب بھی موجود تھے۔ حیرت تھی کہ اتنی صبح، آج وہ جاگ کیسے گئے؟ عموماً وہ گیارہ بجے سے پہلے سو کر نہیں اُٹھتے تھے۔
خیریت ڈَیڈ؟ آج اتنی صبح آپ کی نیند کیسے پوری ہو گئی؟ اُس نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے قدرے چونک کر پوچھا۔
تیمور صاحب نے اخبار کو تہہ کر کے میز پر رکھا، اور ایک گہری نظر امن پر ڈالی۔
مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی، اسی لیے۔ ورنہ تم تو میرے اُٹھنے سے پہلے ہی نکل جاتے ہو۔
جی، کہیے؟ امن کی پیشانی پر شکن اُبھرے۔
میرے ایک پرانے دوست کی بیٹی، وہ تمہاری کمپنی میں انٹرن شپ کے لیے آ رہی ہے۔ اسی سلسلے میں تم سے بات کرنا تھی۔
امن نے گردن ہلائی، جیسے وہ پہلے ہی جانتا ہو کہ یہ گفتگو کس طرف جانے والی تھی۔
ڈَیڈ، آپ کو معلوم ہے نا، میں سفارش پر کسی کو بھی جاب نہیں دیتا۔
کیا میں سفارش کر رہا ہوں؟ تیمور صاحب کی آواز میں نرمی تھی، بس، انٹرویو لے لینا، اور اگر تمہیں مناسب لگے، تو رکھ لینا۔ کوئی احسان کرنے کا نہیں کہہ رہا تمہیں، اور نہ ہی کسی بڑے عہدے کی بات ہو رہی ہے۔
یہ بھی سفارش کی ہی ایک شکل ہے، ڈَیڈ۔ امن نے سنجیدگی سے کہا۔
اے، سیدھا سیدھا بات بتا اِسے! جنید صاحب نے چائے کا کپ رکھ کر ہاتھ جھٹکے۔
اے امنوا! سُن… یہ جو لڑکی آ رہی ہے، اُس سے تمہارا رشتہ بھی کرنا چاہتے ہیں ہم۔ تم اُسے آفس میں رکھو، جانچو، پرکھو… اور پھر فیصلہ کرو۔
امن کی آنکھوں میں بیزاری اُتر آئی۔ پھر سے لڑکی، دادا؟ میں تھک گیا ہوں۔
بس، اِسی کو فائنل کر لو اب! جنید صاحب نے ایسے کہا جیسے فائنل کا مطلب نکاح نامہ ہو۔
تیمور صاحب نے مسکرا کر کہا، امن، صرف تین مہینے۔ رکھ کے دیکھ لو۔ شاید تمہیں پسند آ جائے۔
دادی… امن نے سارا بیگم کی طرف معصومیت سا منہ بنائے فریاد کی۔
سارا بیگم کے چہرے پر وہی محبت بھری مسکراہٹ تھی۔ اے ہم ملے ہیں حیات سے۔ بہت پیاری بچی ہے۔۔
اُس کا نام سنتے ہی جیسے اندر کچھ چھلک گیا۔
حیات؟ وہی نام… جو کچھ دن پہلے اُس کے دل و دماغ پر بجلی بن کے گرا تھا۔
دادا؟ یہ کون حیات ہے؟ میں نے تو کل ہی اس کے رشتے سے انکار نہیں کیا؟
اے پاگل، کل تُو حلیمہ کے رشتے سے انکار کیا تھا۔ یہ حیات ہے، تیرے والد کے دوست کی بیٹی!
حلیمہ؟ مگر، وہ تو… امن نے الجھ کر کچھ کہنا چاہا، پھر خاموش ہو گیا۔
اے پاگل، تُو کس سے مل کے آ گیا کل؟ ہم تیرے کو حلیمہ سے ملنے بھیجے تھے! جنید صاحب نے کہا۔
دادا! مجھے پہلے فوٹو دکھا دیا کریں! امن نے بیزاری سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
اے! حیات کا فوٹو دکھا اِسے! جنید صاحب نے تیمور صاحب سے کہا۔
تیمور صاحب نے جیب سے موبائل نکالا، گیلری کھولی، اور ایک تصویر امن کی طرف بڑھا دی۔ جیسے ہی امن کی نظر اُس تصویر پر پڑی… ماتھے پر ایک دم سے بل پڑ گئے۔
یہ لڑکی…
لمحے میں اُس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
نہیں… نہیں نہیں… اِس لڑکی کو میں اپنے آفس میں… کبھی نہیں رکھوں گا!
یہ لڑکی؟ یہ تباہی ہے، تباہی!
توبہ… استغفراللہ!
یہ تو آفت کی پُڑیا ہے۔
نہیں نہیں۔۔۔ ناممکن! یہ لڑکی تو پاگل ہے، پاگل… پوری پاگل!
ڈَیڈ! آپ نے کہا تھا انٹرن شپ پہ آ رہی ہے، آپ نے یہ تو نہیں بتایا کہ آفت کا مکمل انسائیکلوپیڈیا آ رہا ہے!
جیسے جیسے وہ تصویر کو دیکھتا، اُس کے چہرے کے تاثرات بدلتے جاتے، اور وہ بولتا جاتا۔ پھر یکدم اُس نے تصویر سے نظریں ہٹائیں اور اردگرد بیٹھے سب کو دیکھا — سب کی نظریں اُسی پر جمی ہوئی تھیں۔
اے… تُجھے کیا ہوگیا ہے؟ جنید صاحب حیران امن کا چہرہ تک رہے تھے۔
یہ پہلا موقع تھا جب امن نے کسی کے بارے میں اتنا سخت جملہ کہا تھا۔ ورنہ وہ تو برے سے برے انسان کو بھی ایسے عزت سے یاد کرتا کہ اگر وہ سن لے تو خوشی سے پاگل ہو جائے۔
تیمور صاحب نے سنجیدگی سے کہا،
بیٹا، تم کب سے دوسروں کو جج کرنے لگے ہو؟
ارے میں ملا ہوں اُس سے، صرف تصویر دیکھ کر نہیں کہہ رہا۔ اور میں اُسے اچھی طرح جان چکا ہوں، اور اب مزید جاننے کی ضرورت نہیں۔
اے… چل پھر رشتہ ڈن! جنید صاحب نے فوراً کہا۔
دادا… امن نے بیزاری سے جنید صاحب کی طرف دیکھا۔
دیکھو، تم جو کچھ کہہ رہے ہو، وہ سب ٹھیک ہے، لیکن پھر بھی تمہیں اُسے انٹرن شپ کے لیے رکھنا پڑے گا۔ میں اپنے دوست سے وعدہ کر چکا ہوں۔ تیمور صاحب نے نرمی سے کہا۔
جنید صاحب مسکراتے ہوئے، سارا بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولے،
چل بھئی، ہم اور تیری دادی تیرے لیے دوسری لڑکی ڈھونڈتے ہیں۔
نہیں، مجھے تو لگتا ہے یہ لڑکی بہت اچھی ہے۔ امن، تمہیں اُسے ایک موقع ضرور دینا چاہیے، کیا پتا کوئی غلط فہمی ہو گئی ہو… تیمور صاحب نے کہا۔
دیکھتا ہوں. وہ یہ کہتا دل ہی دل میں سوچا:
وہ لڑکی میرے آفس آئے گی تب نا، وہ خود ہی اپنے ڈیڈ کو منع کر دے گی۔
(اُسے یقین تھا وہ نہیں آئے گی)
+++++++++++
جاری ہے۔۔۔

1 Comment
I am in love with this novel likhny waly ny kea khoob likha hy Great writer Siddiqui 👍🥰❤️