dil ya dhrkan

Dil ya dharkan Episode 2 written by siddiqui

دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )


قسط نمبر ۲

ماہی پانچ کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ کے دروازے پر کھڑی تھی۔ اس نے دو بار بیل بجائی، اور دروازہ فوراً ہی کھل گیا۔ دروازے کے سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا- بلیک جینز، سفید ٹی شرٹ، اور اوپر سے ورسٹی جیکٹ پہنے ہوئے۔ وہی پرانا چہرہ، مگر پہلے سے زیادہ ہینڈسم۔ وقت کے ساتھ اس کی باڈی میں نمایاں تبدیلی آئی تھی، مگر آنکھوں کی چمک اور مسکراہٹ وہی تھی۔

ماہی نے ایک نظر اس پر ڈالی اور مسکراتے ہوئے پوچھا،
“تم کون ہو؟”

لڑکا بھی مسکرا دیا، جیسے جانتا ہو کہ وہ اُسے پہچان چکی ہے۔
“میں حارث۔ ولی کا بھائی!”
اس کے لہجے میں شرارت تھی، جیسے کہہ رہا ہو، میں اب بھی وہی ہوں!

ماہی نے گردن ہلائی، شرارتی نظروں سے دیکھا اور بولی،
“اس بار میں یہ نہیں پوچھوں گی کہ ولی کون ہے۔”

“کیوں؟”

“کیونکہ اس بار میں ولی کو جانتی ہوں!” وہ ہنستے ہوئے حارث کو سائڈ کرتی اندر چلی آئی۔

اندر داخل ہوتے ہی اس نے خوش اخلاقی سے کہا،
“السلام علیکم خالہ!” وہ سر پھری سی پاگل لڑکی تو تھی لیکن اُس کے ساتھ بہت اچھی تھی جو اس کے ساتھ اچھا تھا۔

نازیہ بیگم کے ساتھ مہر بھی بیٹھی تھی، جو فوراً خفا ہو کر بولی،
“خالہ کے ساتھ خالہ کی بیٹی بھی بیٹھی ہے، تمہیں وہ نظر نہیں آرہی؟”

ماہی نے شرارت سے آنکھیں سکیڑیں۔
“اوہ، سوری! وہ تو نظر ہی نہیں آرہی مجھے! کہاں ہے وہ؟”

نازیہ بیگم محبت سے مسکرائیں، “شکر ہے تم آگئیں، ماہی!”
وہ دبلی پتلی، نازک نقوش والی خاتون تھیں، جو رہتی تو لندن میں تھیں، مگر روایتی مشرقی لباس میں ملبوس تھیں۔

مہر نے خفا ہو کر کہا،
“ماما دیکھ رہی ہو؟ ماہی مجھے بھول گئی ہے! اس سے بات مت کرو۔” ہائے ایک ہماری مہر تھی، بہت ہی سوئیٹ نیچر کی، اور بہت فرینڈلی بھی۔ اس کا پاس چلے تو یہ پوری دنیا کو اپنا دوست بنا لے اور شکل صورت سے بھی یہ بالکل اپنی ماں پر گئی ہے، پیاری سی۔ وہ آدھی انگریز تھی آدھی پاکستانی۔ وہ اگر اپنے بلیک بال ڈرائی کروا لے تو پوری انگریز لڑکی لگے گی۔

“ایک تو تم دو سال کے بچے کی طرح ایکٹنگ مت کرو، ولید نہیں ہے یہاں پر، اچھا، اور مُجھے یہ بچپنا انتہائی زہر لگتا ہے۔” حارث کو سخت نہ پسند تھا مہر کا بچپنا۔

“آپ کو شہد کیا لگتا ہے بھائی؟ سب کچھ ہی تو زہر لگتا ہے۔” وہ خفگی نظروں سے اُس کو دیکھتی بولی۔

“اچھا بس کرو تم دونوں!” نازیہ بیگم نے سخت لہجے میں کہا، “ولی نہیں ہے گھر پر تو دیکھ لو، تم دونوں بس لڑتے ہی جا رہے ہو! مجھے تو ماہی سے ملنے بھی نہیں دے رہے۔”

ماہی نے مسکراتے ہوئے نازیہ بیگم کی طرف دیکھا۔ وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھیں، محبت کرنے والی، فکر مند اور ہر بات میں جذباتی۔ ماہی کو ان کا یہ انداز ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔

“مجھے نہیں لگتا کہ آپ کا بیٹا جلدی گھر آنے والا ہے۔” حارث نے شرارتی انداز میں کہا۔

نازیہ بیگم نے فوراً پوچھا، “کیوں؟ کہاں چلا گیا ہے وہ؟”

حارث نے بے نیازی سے کندھے اُچکائے، “خفیہ مشن پر!”

اب کے وہ حارث کو گھورنے لگی۔ حارث اور اس کی بےتکی باتیں، سیدھی طرح تو بات کرنا تو اسے آتا ہی نہیں جیسے۔

“چھوڑو اُسے!” نازیہ بیگم نے ماہی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “مجھے پتہ ہے ولی کہاں گیا ہوگا۔ تم بتاؤ، اپنی پھپھو کو اطلاع دے دی کہ تم میرے پاس آگئی ہو؟”

ماہی نے نرمی سے کہا، “ہاں، خالہ، پر آپ ان سے کیوں بات کرتی ہیں؟”

نازیہ بیگم کا چہرہ سخت ہو گیا، “تمہارے لیے! اور کس کے لیے؟ ورنہ مجھے وہ عورت بالکل بھی اچھی نہیں لگتی!”

“اسی لیے تو کہتی ہوں، خالہ، ان سے بات نہ کیا کریں!” ماہی نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور دل ہی دل میں سوچا، یہ فیملی کتنی اچھی ہے!

“ہاں، اگر تم لاپروائی نہ کیا کرو اور اپنی خیر خبر مجھے دیتی رہا کرو، تو مجھے ضرورت بھی نہیں پڑے گی اُس سے بات کرنے کی!” نازیہ بیگم نے محبت سے اس کی طرف دیکھا۔
“ہم دو بہنیں تھیں، کوئی بھائی نہیں تھا۔ اور وہ میری اکلوتی بہن تھی، تم اُس کی اکلوتی بیٹی ہو۔ مجھے تمہاری فکر ہوتی ہے، ماہی! تم کہاں رہتی ہو، کیسی ہو؟”

ماہی نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے نازیہ بیگم کو دیکھا۔

“اوہ! مجھے جیلسی ہو رہی ہے!” مہر نے شرارت سے کہا، آنکھیں سکیڑ کر ماہی کو گھورتے ہوئے۔

“مجھے بھی!” حارث نے فوراً مہر کا ساتھ دیا۔

نازیہ بیگم نے خفگی سے دونوں کو دیکھا، “ایک تو تم دونوں مجھے سکون سے بات بھی نہیں کرنے دیتے!”

حارث نے ہنستے ہوئے کہا، “ابھی جس سے آپ سکون سے بات کر رہی ہیں نہ، وہ بھی کچھ دن بعد آپ کو سکون سے نہیں رہنے دے گی! پھر میرے پاس روتی ہوئی نہیں آئے گی!”

نازیہ بیگم نے آبرو اُچکائے، “نہیں! میرا ولی ہے نا، میں اپنے ولی کے پاس چلی جاؤں گی!”

مہر نے فوراً موقع پکڑا، “نہیں ماما، مطلب آپ مانتی ہیں کہ کچھ دن بعد ماہی آپ کو سکون سے نہیں رہنے دینے والی؟”

نازیہ بیگم نے مزے لیتے ہوئے کہا، “ہیں بھئی! اس کے کارنامے کون نہیں جانتا؟” وہ ان کی ماما کی ہم دوست زیادہ تھی۔

“اب ماہی کو بلایا ہے تو برداشت بھی تو کرنا پڑے گا!” اُس نے ہنستے ہوئے کہا، اور پورے کمرے میں قہقہے بکھر گئے۔

“باہر کا دروازہ کیوں کھولا ہوا ہے؟”
ولی اندر آتے ہی، دروازے کو بند کرتے ہوئے، سب سے مخاطب ہوا۔
سیاہ آنکھیں، سانولی رنگت، ماتھے پر بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے بال جو ہمیشہ اُس کے ماتھے پر گرے رہتے، اور معمولی سے نقوش والے چہرے کے ساتھ وہ لڑکا، ولید تھا۔

“لو بھائی آ گئے!” مہر خوشی سے چہکی، جیسے وہ برسوں بعد آیا ہو۔ وہ ہمیشہ ایسی ہی تھی، ولی اگر گھر سے جانے کے بعد دو منٹ بعد بھی گھر میں واپس آیا تب بھی مہر ایسے ہی خوش ہو۔۔۔

حارث، جو صوفے پر بیٹھا تھا، فوراً چونکا، “اوہ! میں نے شاید دھیان نہیں دیا تھا، بھول گیا تھا بند کرنا۔”

“کس خوشی میں؟” ولی نے پوچھا۔

“یہ اس خوشی میں!” مہر نے ماہی کی طرف اشارہ کیا۔

ولی کی نظریں ماہی کی طرف مڑیں، رسمی سا لہجہ اپناتے ہوئے بولا، “السلام علیکم، کیسی ہو؟”
یہ صرف ایک رسمی سوال تھا، جو بس پوچھنا پڑتا ہے۔ ماہی کی نظریں ولی کا جائزہ لینے لگیں۔

یہ عام سا شکل و صورت کا لڑکا اس گھر کا حصہ کیسے تھا؟ جہاں حارث اتنا ہینڈسم تھا، مہر اتنی پیاری، ان کی ماں میں بھی ایک خاص دلکشی تھی۔ ولی… ولی بس ایک عام سا انسان تھا، جو ان سب میں کسی بھی طرح فٹ نہیں ہوتا تھا۔

ماہی کو اکثر شک ہوتا تھا کہ ولی اس گھر کا حصہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ بدصورت تھا، مگر وہ حارث جیسا نہیں تھا۔ وہ عام تھا، بالکل عام، جیسے سڑک پر چلنے والے دوسرے عام لوگ۔ جب کہ وہ دونوں ٹوئنز تھے، اُن کی شکل ایک جیسی یا پھر کچھ تو تھوڑی بہت ملتی جلتی ہونی چاہیے تھی۔

خیر، ماہی کو اس سے کیا فرق پڑتا تھا؟ وہ جیسا بھی تھا، مگر یہ شک اسے بار بار آ کر گھیر لیتا تھا — کیا ولی واقعی اس گھر کا حصہ ہے؟

“وعلیکم السلام… آپ سے بالکل اُلٹا۔” ماہی نے جواب دیا۔

“اچھی بات ہے۔ اچھا، میں فریش ہو کر آتا ہوں، اور تم تھک گئی ہوگی، اتنی دور سے آئی ہو، جا کر پہلے آرام کرلو۔” یہ کہہ کر وہ اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔

“اوئے! مشن کا کیا ہوا جو تو کرنے گیا تھا؟ اتنا جلدی ہوگیا؟” حارث نے پیچھے سے آواز دی، اس کے لہجے میں چھیڑ چھاڑ تھی۔

“انسان ہے نا، انسان بن کے رہ، جانور نہ بن!” ولی نے ایک تیز نظر حارث پر ڈالی اور آگے بڑھ گیا۔

“بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے، عزت راس نہیں آتی آج کے زمانے کے لوگوں کو۔” حارث نے شکوہ کیا، مگر ولی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

“ہاہاہا! جس کی سب کے سامنے بہت عزت ہے، اُس کی ولی بھائی کے سامنے کوئی عزت نہیں!” مہر نے مزے سے حارث کا مذاق بنایا۔

“چپ کر! نہیں تو میں بھول جاؤں گا کہ تم میری بہن ہو!” حارث اچانک تیش میں آ گیا، اس کے لہجے میں غصہ تھا۔

مہر فوراً چپ ہو کر اپنے روم کی طرف دوڑ گئی۔ وہ ہمیشہ حارث کے غصے سے ڈرتی تھی، جو کسی بھی وقت، کسی بھی بات پر آ جاتا تھا۔ خاص طور پر جب بات اس کی ذات یا اس کے بھائی کے خلاف ہوتی۔ وہ فوراً تپ جاتا، جیسے اس کے اندر لاوا دہک رہا ہو جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا۔

یہ سب گھر والوں کے لیے معمول کی بات تھی۔ حارث کی ماما بھی مہر کے پیچھے چلی گئی، جیسے ہمیشہ ہوتا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ مہر حساس ہے، اور حارث کے غصے سے اکثر ڈر جاتی ہے۔

حارث غصے والا اور جذباتی تھا، جب کہ ولی بالکل اس کے برعکس — ٹھنڈے مزاج کا، سنجیدہ اور صبر والا۔ مہر؟ وہ تو نازک سی، حساس طبیعت کی لڑکی تھی، جو ذرا سی سخت بات پر بھی دل پر لے بیٹھتی۔

“یار، چیل کر، بہن ہے تیری، مذاق کر رہی تھی۔” ماہی نے نرمی سے کہا۔

حارث نے تیوری چڑھائی، “مجھے میرا مذاق بالکل پسند نہیں!”

“اچھا، چھوڑو یہ سب، چلو آج رات کا کوئی سین بناتے ہیں۔” ماہی نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔

“اوکے۔” حارث یہ کہتا سیدھا ولی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

++++++++++++++

اوئے، سب ٹھیک ہے نا؟” حارث نے پوچھا۔

“ہاں…” ولی بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولا،

“بس پھر، ابھی سو جا، کیونکہ رات بھر تجھے جاگنا ہے!” حارث نے چمک کر کہا۔

“کیوں؟” ولی نے حیرانی سے پوچھا۔

“کیونکہ رات میں سین آن ہونے والا ہے!” حارث نے شرارت سے آنکھ دبائی۔

“نہیں، نہیں، بالکل نہیں! حارث، صبح یونی جانا ہے، نہیں!” ولی نے انکار کر دیا۔

“ہاں، ہاں، ہاں! میں نے بول دیا ہے، اسی لیے تو کہہ رہا ہوں، ابھی سو جا!” حارث نے زور دیتے ہوئے کہا۔

ولی نے لمبی سانس لی، پھر ہاتھ کے اشارے سے کہا، “جا دفع ہو اب!” یہ اس بات کا سگنل تھا کہ وہ مان گیا ہے، کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ حارث اس کے بغیر کوئی مووی نہیں دیکھے گا۔

حارث دروازے کی طرف بڑھا اور مسکراتے ہوئے گنگنایا، “تو ہی ہے، بس تو ہی ہے، میرے ہر غم خوشی میں تو ہی ہے!”

ولی کروٹ بدل کر لیٹ گیا، مگر نیند؟ شاید ہی آئے…

+++++++++++

“ہاں، آرہا ہوں، آرہا ہوں، اب کیا اُڑ کر آجاؤں؟ بکو مت!”

گاڑی فل اسپیڈ پر تھی، ہوا رفتار جیسے سے ہواؤں سے باتیں کررہی ہو۔ اسٹیئرنگ پر مضبوط گرفت، ماتھے پر شکنیں، اور بلوٹوتھ پر مسلسل بحث جاری تھی ۔۔

“اب تم نے اور کچھ بولا نہ، تو وہیں آکر خود تجھے زندہ جلا دوں گا!” اس کی آواز میں غصے کی چنگاریاں تھیں۔ “جب بھی بولنا، فضول ہی بولنا! کوئی نہیں آرہی پولیس…”

“مانوس!” اس نے دانت پیس کر کہا۔ “تجھے رکھا کس نے میرے ساتھ؟ کام کے قابل نہیں ہے تُو، ڈر پھوک کہیں کا۔۔!”

غصے میں اس نے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارا، رفتار مزید بڑھا دی۔

پھر اچانک، اس کی آنکھوں کے سامنے بلیو سٹرک کیفے آ گیا۔

بلیو اسٹریک کیفے

گاڑی کے ٹائروں نے سڑک پر ہلکی سی چیخ ماری، اور وہ بریک لگا چکا تھا۔ اس کی نظریں سامنے کیفے پر جمی تھیں۔

یہ ایک چھوٹا سا مگر بےحد دلکش کیفے تھا۔ پوری عمارت پر نیلا رنگ جیسے سکون برسارہا تھا۔ شیشے کا دروازہ، جس سے اندر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سائیڈ پر بڑی بڑی کھڑکیاں، جو کیفے کو مزید کھلا اور روشن بناتی تھیں۔ اندر کچھ میزیں اور کرسیاں ترتیب سے رکھی تھیں، جبکہ باہر، دروازے کے بائیں جانب، نیلے رنگ کی ہی کچھ کرسیاں اور میزیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہر چیز سادہ مگر دلکش تھی۔۔

وہ اس کیفے کو کچھ پل خاموشی سے دیکھتا رہا،

پھر اچانک، کل رات کا منظر اس کے ذہن میں تازہ ہو گیا-

اسی کیفے میں، اسی کرسی پر وہ بیٹھا تھا، اور پھر وہ آئی تھی۔

سانولی، مگر بےحد حسین۔ لونگ فراک میں ملبوس، کندھوں پر نیلے رنگ کا اسکارف، اور لبوں پر وہ نرمی جو سیدھا دل میں اترتی تھی۔

اس نے ایک پل کے لیے آنکھیں موند لیں۔ کچھ یادیں، کچھ لمحے انسان کے دل میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتے ہیں۔

گزشتہ شب – بلیو اسٹریک کیف

وہ کیفے کے کونے میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھا فون میں مصروف تھا، انگلیاں بے مقصد اسکرین پر چل رہی تھیں۔ باہر ہلکی ہلکی خنکی تھی، اور اندر مدھم روشنیوں نے ماحول کو اور بھی پُرسکون بنا رکھا تھا۔

تبھی، ایک نرم سی آواز نے اس کے خیالات کی دنیا میں دراڑ ڈال دی- “ایکسکیوز می۔۔۔”

آواز اتنی ملائم تھی کہ اس کے کانوں میں رس گھول گئی۔ اس نے چونک کر نظریں فون سے ہٹا کر سامنے دیکھا۔

وہ ایک سانولی سی لڑکی تھی۔ لونگ فراک میں ملبوس، اور کندھوں پر بلیو رنگ کا اسکارف تھا جو اس کے معصوم مگر باوقار انداز کو مزید نکھار رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک الگ سی چمک تھی، اور چہرے پر وہ دلکشی جو نظر ہٹانے نہ دے۔

“Are you alone?”

” آپ اکیلے ہیں؟ ” لڑکی نے نرمی سے پوچھا۔

وہ الجھ گیا۔ یہ سوال کیوں؟ اگر کہتا “نہیں” تو شاید وہ چلی جاتی، اگر کہتا “ہاں” تو بات آگے بڑھتی۔ لمحہ بھر کے توقف کے بعد اس نے ہلکی سی سر ہلا دی-

Yes…

لڑکی کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری،

“تو پھر آپ آگے والی سیٹ پر جا کر بیٹھ جائیے نہ، پلیز؟”

وہ مزید حیران ہوا۔

Why ?

کیوں؟

“دراصل، ہم تین دوستیں ہیں، اور وہاں صرف دو سیٹیں ہیں۔ یہاں جہاں آپ بیٹھے ہیں، وہاں تین سیٹیں ہیں۔ آپ آگے چلے جائیں تو ہم آرام سے یہاں بیٹھ سکتے ہیں۔ اور آپ تو اکیلے آئے ہیں، تو آپ آگے جا کر بیٹھ سکتے ہیں۔۔۔”

وہ کچھ پل خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے اس سے اس طرح بات کی تھی- نہ جھجھک، نہ مصنوعی لہجہ، بس سادگی اور معصومیت۔

اس نے ایک گہری سانس لی، پھر سر جھٹکا۔

“Sure…”

یہ کہہ کر وہ سیٹ چھوڑ کر آگے جا بیٹھا۔

وہ بے وجہ تو نہیں بیٹھا تھا وہاں، کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ مگر، اس لڑکی کو منع کرنا شاید اس کے بس میں نہیں تھا۔

وہ جتنا بھی منہ پھٹ اور بے تمیز تھا، مگر یہ حقیقت تھی کہ وہ اس لڑکی سے متاثر ہو چکا تھا۔ سیٹ بدلنے کے بعد بھی اس کا دھیان بار بار اسی کی طرف جا رہا تھا۔ ہر تھوڑی دیر بعد وہ گردن موڑ کر اسے دیکھ لیتا، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ لڑکی ایک بار بھی اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی!

بھلا ایسا کیسے ہو سکتا تھا ؟

وہ خود کو جانتا تھا- ہینڈسم، اسمارٹ، اور پرکشش۔ عام طور پر اگر کوئی لڑکی نظریں چرانا بھی چاہتی، تو بھی ایک بار نظر ضرور ڈالتی۔ مگر یہ لڑکی؟ جیسے اسے اس کی موجودگی کا احساس ہی نہ ہو۔

اس کی ساتھ بیٹھی دوسری لڑکی نے دو بار نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا، مگر وہ۔۔۔ ایک بار بھی نہیں!

“کیا اسے میں ہینڈسم نہیں لگا ؟”

یہ سوچ کر ایک پل کو اسے اپنا ہی مذاق سا لگا۔ پھر ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ گئی۔

اب کے اس نے دل میں فیصلہ کر لیا- نہ وہ اسے دوبارہ دیکھے گا، نہ اس کا پیچھا کرے گا، اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ وہ ہے کون۔

کیونکہ وہ ایسی لڑکیوں کو پسند کرتا تھا۔ اور وہ ایسی لڑکیوں کی عزت کرنا جانتا تھا۔۔۔۔

+++++++++++

ماہی اپنے روم میں تھی، مگر اب کے اسے بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔ صبح سے آئی ہوئی تھی، اور اب شام ہو چکی تھی۔ پیٹ میں ہلچل مچ رہی تھی، تو اس نے خالہ کو بلانے کے لیے آواز دی۔

“خالہ؟” مگر کوئی جواب نہ آیا۔

وہ خالہ کو ڈھونڈنے کے لیے روم سے نکلی، مگر وہ وہاں نہیں تھیں۔ تبھی اسے خیال آیا کہ شاید وہ کچن میں ہوں۔ وہ سیدھی کچن کی طرف بڑھ گئی۔

جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچی، اس کی نظریں اندر موجود شخص پر پڑیں—

ولید۔

وہ کچن میں موجود تھا، کسی کام میں مصروف۔ اس کی پشت ماہی کی طرف تھی، اور وہ شاید کچھ کاٹ رہا تھا یا پھر کسی چیز میں مصروف تھا۔

ماہی چند لمحے وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی، پھر کچھ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

“میں ولید سے پہلی بار کب ملی تھی؟”

دماغ پر زور دیا، کچھ پل سوچتی رہی، مگر جتنا بھی یاد کرنے کی کوشش کی، کوئی خاص لمحہ ذہن میں نہ آیا۔ جیسے سب دھند میں لپٹا ہو، جیسے کوئی یاد تھی ہی نہیں، یا پھر کوئی ایسی ملاقات تھی جو یاد رکھنے کے قابل نہیں تھی۔

“کیا کر رہے ہو؟” ماہی نے دروازے پر رک کر پوچھا۔

ولی، جو اوون کا ٹائمر سیٹ کر رہا تھا، بغیر اس کی طرف دیکھے بولا، “تمہیں کچھ چاہیے؟”

ماہی نے ہلکی سی الجھن سے کہا، “ہاں… نہیں… پہلے تم بتاؤ؟”

ولی نے اوون کی طرف دیکھتے ہوئے مختصر جواب دیا، “گرین ٹی بنا رہا ہوں۔”

ماہی نے ذرا حیرت سے کہا، “اچھا؟ گرین ٹی پیتے ہو تم؟”

ولی نے کندھے اچکائے، “ہاں، جب جب مجھے نیند نہیں آتی، تب پیتا ہوں۔ یہ پینے کے بعد نیند آجاتی ہے۔” اب وہ اس کی طرف مڑا۔

چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ولی نے اسے غور سے دیکھا، پھر بولا، “ایک بات پوچھوں؟ سچ سچ بتاؤ گی؟”

“کیا؟”

ولی کی نظریں گہری ہو گئیں، “تمہارا یونی سے ٹرانسفر کیوں ہوا تھا؟”

ماہی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا، “ایک لڑکے کا سر پھاڑ دیا تھا میں نے۔”

ولی نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا، “اچھا تم یہ بتاؤ کیا چاہیے، کچن میں کیا لینے آئی ہو؟”

ماہی نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے، “وہ تم پوچھو گے نہیں کیوں… کیوں میں نے لڑکے کا سر پھاڑ—”

“جب سچ بولتی، تب پوچھتا میں۔” ولی نے سنجیدگی سے کہا۔

“ماہی کبھی جھوٹ نہیں کہتی!” ماہی نے ذرا تیوری چڑھائی۔

“غلط! ماہی کبھی سچ نہیں کہتی!”

ماہی نے سر جھٹک لیا، جیسے بحث کا کوئی فائدہ نہیں، اور مدعا بیان کیا، “جو سمجھنا ہے، سمجھو۔ اور ہاں، مجھے بھوک لگی تھی، کچھ کھانے کو ہے تو دے دو۔ خالہ کو ڈھونڈ رہی تھی، پر وہ ملی نہیں، تو خود کچن میں آگئی۔”

“ماما گھر پر ہوتیں تو ملتیں نہ؟ اس وقت وہ کٹی پارٹی پر گئی ہیں۔ وہیں جاتی ہیں ہمیشہ۔”

یہ سن کر ماہی نے سر ہلایا۔ ولی نے فریج کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، “کھانا بنا ہوا ہے، میں ابھی گرم کر دیتا ہوں۔”

“تم رہنے دو، ماہی خود کر لے گی۔” ماہی کو عادت تھی اپنا نام لینے کی، وہ ‘میں’ کی جگہ زیادہ تر اپنا نام لیتی تھی۔

ولی نے آنکھیں گھمائیں، “میں کر رہا ہوں نہ!”

“تم مجھے کچھ کرنے کیوں نہیں دیتے؟ تمہیں کیا لگتا ہے، میں جو کام کروں گی، وہ خراب کر دوں گی؟” ماہی کو اس وقت یاد آیا تھا۔۔۔ وہ پہلے بھی ایسا ہی کرتا تھا۔

(ہاں، بالکل ایسا ہی لگتا ہے۔ پر یہ بات وہ زبان پر نہ لایا۔)

“نہیں، ابھی میں کچن میں ہوں اور اپنی گرین ٹی بھی بنا رہا ہوں، تو یہ بھی کر لوں گا۔”

ماہی نے ہلکا سا سر ہلایا، “اچھا…”

ولی نے اوون سے کھانا نکالتے ہوئے ایک نظر اس پر ڈالی، پھر بولا، “ویسے تم اس ڈریس میں اچھی لگ رہی ہو۔”

ماہی نے چونک کر اسے دیکھا، جیسے یقین نہ آیا ہو کہ ولی نے یہ بات کہی ہے۔

اس نے جھجکتے ہوئے اپنے لباس کی طرف دیکھا— وائٹ شارٹ فراک، جس پر جگہ جگہ بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے۔ ماہی عام طور پر ٹوم بائے اسٹائل کے کپڑوں میں رہتی تھی، جینز، شرٹس، ہوڈیز۔ مگر جب بھی فراک یا شلوار قمیض پہنتی، تو بے حد پیاری لگتی تھی۔

“اوہ، یہ؟” اس نے فراک کے کنارے کو ہلکا سا پکڑ کر کہا، “یہ تو منی کا گفٹ ہے۔ جب میں یہاں آ رہی تھی، تو منی نے مجھے دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ڈریس لازمی پہننا۔ تو بس، اتنا برا بھی نہیں تھا، تو میں نے پہن لیا۔”

“ہاں، برا تو تمہیں شلوار قمیض لگتا ہے، نہ؟” ولی نے گرم کھانے کی ٹرے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، “خیر، یہ لو، کھانا گرم ہوگیا ہے۔ لے کر اپنے روم میں چلی جاؤ، وہاں کھا لینا۔ اور میں چلتا ہوں اپنی گرین ٹی لے کر۔”

یہ کہہ کر وہ بنا رکے کچن سے نکل گیا، اور ماہی وہیں کھڑی رہ گئی، کچھ سوچتی ہوئی۔

“کبھی کبھی تو لگتا ہے، ماہی سے زیادہ ولید ماہی کو جانتا ہے۔”

پھر جب اس کی نظر کھانے کی ٹرے پر پڑی، تو اس میں سب کچھ سلیقے سے سجا ہوا تھا۔

ماہی نے ایک لمحے کو ولی کی سوچ کو ذہن سے جھٹکا، اور خود سے بولی، “چل ماہی، چھوڑ ولید کو۔۔۔ بھوک بہت لگی ہے!”

یہ کہتے ہی اس نے ٹرے اٹھائی اور اپنے روم کی طرف چل دی۔

+++++++++++

وہ ابھی تک وہیں کھڑا تھا، کار روکے، بس اُس کیفے کو دیکھ رہا تھا۔ وقت جیسے تھم سا گیا تھا، اور وہ خود اس لمحے میں قید ہو چکا تھا۔

بلوٹوتھ سے مسلسل کوئی بول رہا تھا، مگر وہ جیسے کسی اور ہی دنیا میں تھا۔ ایک آواز جو مسلسل اس کے کانوں میں پڑ رہی تھی، مگر دماغ تک نہیں جا رہی تھی۔

پھر اچانک، بلوٹوتھ سے آنے والی آواز بند ہو گئی۔ شاید کال ڈسکنیکٹ ہو چکی تھی۔

وہ جو 10 منٹ میں پہنچنے والا تھا، اب 15 منٹ سے وہیں کھڑا تھا۔ جب تک آواز آ رہی تھی، تب تک وہ ہوش میں نہیں آیا، مگر جیسے ہی خاموشی چھائی، وہ جیسے ایک جھٹکے سے حقیقت میں واپس آ گیا۔

“اوہ نو!”

اس نے چونک کر فون کی طرف دیکھا۔ کال کٹ چکی تھی، اور وقت، وہ کافی آگے نکل چکا تھا!

ایک پل بھی ضائع کیے بغیر، اس نے تیزی سے گاڑی آگے بڑھا دی۔ زن سے کار آگے نکلی، جیسے وقت کا ضیاع پورا کرنا چاہتی ہو۔

 +++++++++++++

وہ بالآخر اپنی جگہ پر پہنچ چکا تھا، مگر دل میں خوف کی لہر دوڑ رہی تھی۔ اس کا گینگ ایک بار پھر شکست کے قریب تھا، اور اس کی نظریں اس خون آلود منظر پر ٹک چکی تھیں۔ ایک بندہ بے جان پڑا تھا، اس کی خون سے رنگی ہوئی کمر، اور وہ جس سے بات کر رہا تھا، وہ ابھی تک موت کے شکنجے میں تھا، بیداری کی آخری حالت میں۔

“میرے باقی لونڈے کہاں ہیں؟ اور یہ حامد… اسے تو لڑنا ہی نہیں آتا!” اس نے غصے سے کہا، جیسے اس کا غصہ اس کے جسم کے ہر حصے میں سرایت کر رہا ہو۔

“اوہ نو شیٹ…” اُس کے منہ سے نکلتے ہوئے الفاظ نے ماحول کو اور بھی غمگین کر دیا۔ حامد، جس پر ایک شخص اپنے گھسے برسا رہا تھا۔۔۔اور اُس کا ایک ساتھی موت کی حالت میں تھا، اور باقی سب حامد کے ارد گرد گھیرا بنائے کھڑے تھے،
اور وہ ، وہ اُن کے اُوپر فیکٹری کے درمیان والے دیوار پر لٹکا ہُوا تھا اس نے اپنی گن نکالی اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دشمنوں پر نشانہ لگانا شروع کر دیا۔ اس کے ہاتھ کی ہر حرکت تیز، مہارت سے بھرپور، اور بالکل مکمل تھی۔ جیسے ہی اُس نے گن والے ہاتھوں کو نشانہ بنایا، ایک کے بعد ایک، ہر گولی کا ایک ہی مقصد تھا-ان کے ہاتھ سے گن چھیننا۔
“پہلا…” اُس نے گولی چلا کر ایک کے ہاتھ سے گن گرائی۔
“دوسرا…” ایک اور گولی اور ایک اور ہاتھ سے گن چھوٹ گئی۔
اس کی رفتار اور مہارت اتنی تیز تھی کہ دشمن کو کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ وہ تیزی سے چھلانگ مارتا، ایک گن سے دوسری گن تک پہنچتا، جیسے ایک طوفان کی طرح۔ ہر بار جب وہ ایک گن اٹھاتا، اُس کا دل تیز دھڑک رہا تھا، اور آنکھوں میں صرف جیت کی لَو تھی۔

اب وہ میدان میں واحد کھلاڑی بن چکا تھا، باقی سب صرف ملبے کی طرح تھے، بنا دفاع کے، ہار چکے، اور محض اس کی فتح کے گواہ۔ وہ جیت کے قریب تھا، مگر اس کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔

“Now save your life and run!”

“اب اپنی جان بچاؤ اور بھاگو!”

وہ  یہ کہتا ہوا ایک لاٹ مرا اُس شخص کو جو حامد کو مار رہا تھا۔ اُس کا لہجہ غصے سے بھرا ہوا تھا،

“اب کوئی میرے یا اس کے قریب بھی آیا نہ تو بتا رہا ہوں، اوپر پہنچا دوں گا!”

وہ غصے میں گن تان کر باقی سب کو دھمکا رہا تھا، گن کی آواز نے ساری فضا میں وحشت پھیلا دی تھی۔

“باقی سب کہاں ہیں حامد؟”

اِس نے زخمی پڑے۔۔۔ حامد سے پوچھا۔۔

“بھائی، وہ سب اندر بند ہے…”

حامد نے خود کو کھڑا کرتے ہوئے کہا، لیکن اس کی آواز میں بھی ہمت کا فقدان تھا۔

“Who? Who are you?”

“کون؟ کون ہو تم؟”

وہ زمین پر پڑا، بے حس، بس ایک لاٹ ماری تھی اُس نے اور اُس کے جسم میں ایک شدید درد کی لہر دوڑ رہی تھی، جیسے کسی نے لوہے کی چھڑی سے مارا ہو،

“میں…”

اس نے کچھ کہا، اور پھر آواز میں ایک سرد سی گونج آئی،

“میں نہ تو اینجل ہوں، نہ تو ڈیول ہوں۔۔۔”

“میں نہ تو انسان ہوں، نہ تو جانور ہوں۔۔”

“میں نہ تو موت ہوں، نہ موت کا فرشتہ ہوں۔۔۔”

“Then who are you?”

” تو کون ہو تم؟”

اُس کی آواز میں گہرا خوف تھا۔

“I am pain… just pain…”

“میں درد ہوں، بس درد”

“میں نہ تو لوگوں کی جان لیتا ہوں، نہ لوگوں کی جان بچاتا ہوں”

“میں صرف لوگوں کو درد دیتا ہوں،درد، تکلیف،
بس یہی میرا کام ہے”

“مجھ سے کوئی ملتا ہے، اُسے بس درد ملتا ہے۔۔۔ اور اب تم لوگ مجھ سے ملے ہو، تو تم لوگوں کو بھی درد ملے گا۔۔۔”

وہ ایک لمحے کے لیے خاموش ہوا، اور پھر اپنی گن کا رخ باقی سب کی طرف کر لیا۔

“اور ہاں، کوئی چھوٹا موٹا درد نہیں دیتا میں۔۔۔”

“میں لوگوں کو ساری زندگی کا درد دیتا ہوں۔۔۔”

“لوگ مجھے تو بھول جاتے ہیں، لیکن میرے درد کو
نہیں بھول پاتے۔۔۔”

“اور یہ اب تم لوگوں کے ساتھ ہونے والا ہے…”

پھر اُس نے ایک ایک گولی سب کے پاؤں میں ماری، اور ہر گولی کے ساتھ ایک نئی تکلیف کی داستان رقم ہو رہی تھی۔

ایک اور گولی اُس کے پاؤں میں گئی، اور پھر ہاتھ میں۔

“اہاں، نشانہ پکا ہے میرا۔۔۔”

“ابھی فوج میں ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا نہ…”
اس نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا، جیسے یہ سب اس کے لیے ایک معمول ہو۔

“بہت بڑی غلطی کر رہے ہو، میں چھوڑوں گا نہیں تمہیں…”
ان کا بوس، غصے اور تکلیف کی شدت سے بولا،

“اوکے…”
اس نے اتنے آرام سے جواب دیا جیسے یہ سب کچھ وہ روز ہی سنتا ہو،

وہ اُن سب کو ویسے ہی چھوڑ کر اندر چلا گیا، اور ویسے بھی اُن لوگوں میں اب ہمت نہیں تھی لڑنے کی۔ سب خون میں لت پت، اپنے ہاتھ پاؤں کو تکلیف کے مارے دیکھ رہے تھے، اور درد اتنا شدید تھا کہ بیان کرنا مشکل تھا۔ حامد بھی پیچھے پیچھے اس کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا، 

وہ سب فیکٹری کے اندر والے کمرے میں بند تھے، جہاں بوریاں، سمینٹ، اور اُن کے خاص سامان کے علاوہ کچھ نہیں تھا-یعنی وہ سب کچھ جو ان کا ‘خاص سامان’ تھا، جس میں ڈرگز شامل تھے۔ یہ فیکٹری ایک پرانی فیکٹری تھی جو بناتے بناتے رک گئی تھی، اور آدھا کام مکمل ہونے کے بعد پچھلے تین مہینوں سے خالی پڑی تھی۔ پھر ان لوگوں نے اس جگہ کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ وہ یہاں اپنا سامان نکالنے آئے تھے کیونکہ پولیس کو ان کے اس مقام کا علم ہو چکا تھا۔ انہیں اپنے سامان نکلنے کی جلدی تھی، لیکن پولیس تو ابھی تک یہاں پہنچی نہیں، لیکن دشمن مافیا کے لوگ پہنچ چکے گئے تھے۔۔۔

وہ سیاہ جینز، سیاہ ہُوڈی، سیاہ کیپ، اور سیاہ ماسک میں تھا، اُس کا جسم کسی بھی زاویے سے نظر نہیں آ رہا تھا، صرف اُس کی بھوری آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں، جو کہ دروازے کے باہر سے آتی ہلکی سی روشنی میں چمک رہی تھیں۔ روشنی کے اس کونے میں اس کی آنکھوں کی چمک اور بھی زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔

وہ اپنے آپ کو کور کرنے میں ماہر تھا، اس نے ہمیشہ خود کو ایسا پوشیدہ رکھا کہ سامنے والے کو اُس کا شناخت کرنا مشکل ہو جاتا۔ وہ بغیر کسی کا پتہ چلائے لڑ سکتا تھا، اور جب تک وہ حملہ کرتا، اُس کے قریب آنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔

کمرے میں پانچ لڑکے تھے، طاقتور جسموں والے، جو دیکھنے سے ہی پتہ چلتا تھا کہ یہ لڑکے کسی سے کم نہیں۔ وہ نہ صرف فٹ اور مضبوط تھے بلکہ میدان جنگ کے تجربہ کار بھی۔ ان کے جسموں پر کسی بھی قسم کا نشان نہیں تھا، اور اس وقت وہ بالکل ٹھیک تھے، جیسے کسی کو ایک بھی چوٹ نہ آئی ہو۔

لڑائی سے پہلے ہی ان کو بند کردیا گیا تھا ۔۔۔

لیکن بدنصیبی سے حامد اور ان کے گینگ کا سب سے بہترین لڑکا باہر رہ گیا تھا۔ وہ لڑکا جو ابھی باہر پڑا تھا،۔ اور اگر ایم ڈی وہاں نہ پہنچتا، تو حامد کی حالت اور بھی بتر ہو جاتی۔

“بہت ہی نالائق ہو تم لوگ۔۔۔ اب چلو۔۔۔ اور کہاں ہے۔۔ پولیس؟ اب تک پولیس یہاں پہنچی نہیں ہے۔۔۔ اور تم نے کہا تھا مُجھے کال پر کہ پولیس آگئی ہے۔۔۔” وہ غصے میں حامد پر چلا رہا تھا۔ اس کی آواز میں ایک گہرا غصہ اور مایوسی تھی۔

“بوس، وہ یہ سب ان کی چال تھی۔ مجھے لگا پولیس ہے، لیکن وہ یہ سب تھے…” حامد نے اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔

وہ غصے سے حامد کو ایک نظر ڈالتا، پھر باہر نکل آیا۔ جیسے ہی وہ باہر آیا، وہ سب کہیں جا چکے تھے۔ چلے گئے تھے یا کہیں چھپ گئے تھے تاکہ ایم ڈی انہیں مزید نقصان نہ پہنچا سکے۔ کچھ بھی کہنا مشکل تھا۔ پھر ایم ڈی کے بندے لوگ اپنے زخمی  پڑے بندے کو اٹھا کر یہاں سے نکل گئے۔

جب ہر طرف خاموشی تھی ، اور وہ سب جا چکے تھے، تب ایک لڑکی اُسی کمرے سے باہر آئی جہاں ایم ڈی کے بندے بند تھے۔ وہ بڑی سی سیاہ چادر میں خود کو چھپائے ہوئے تھی، اور نرمی سے باہر نکلی، اور اپنے راستے چلی گئی۔۔۔

++++++++++++++
 

جاری ہے۔۔


Next Episode on 12 september
Insha Allah

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *