ishq ibadat

Ishq ibadat Episode 2 written by siddiqui

عِشق عبادت ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۲

اسلام آباد، پاکستان کا دارالحکومت، اپنی قدرتی خوبصورتی، جدید انفراسٹرکچر اور پُرامن ماحول کے لیے مشہور ہے۔ یہ شہر مارگلہ ہلز کے دامن میں بسا ہوا ہے اور اپنے سرسبز مناظر، وسیع شاہراہوں اور خوبصورت پارکس کی وجہ سے سیاحوں کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔

مارگلہ کی سرسبز پہاڑیاں، کھلی فضائیں، پُرسکون سڑکیں، اور روشنیوں میں نہایا ہوا شہر—اسلام آباد ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی خوبصورتی اور سکون کو الفاظ میں قید کرنا مشکل ہے۔

سورج کی نرم کرنیں مارگلہ کی پہاڑیوں کو چھو رہی تھیں، صبح کی ہلکی ہوا درختوں کے پتوں کو سرسرا رہی تھی، اور پرندوں کی چہچہاہٹ ایک تازہ دن کی نوید دے رہی تھی۔ اسلام آباد کی خوبصورت، کھلی سڑکوں پر آٹھ دوستوں کا گروپ اپنی گاڑی میں بیٹھا ہنسی مذاق کرتا، میوزک سنتا اور آج کے ایڈونچر کی تیاری میں مصروف تھا۔

 فیصل مسجد  روحانی اور فنِ تعمیر کا شاہکار ،  سکون اور شرارت کا امتزاج

فیصل مسجد کا سفید سنگِ مرمر، نیلا آسمان، اور ارد گرد پھیلی سرسبز پہاڑیاں— یہ منظر ایسا تھا جیسے کسی خواب کا حصہ ہو۔ میناروں کی بلندی آسمان کو چھو رہی تھی اور مسجد کے اندرونی ہال کی خاموشی میں ایک عجیب سا سکون تھا۔

چمکتی ہوئی ٹائلز، دیواروں پر قرآنی آیات کی خطاطی، اور دُور سے آتی اذان کی آواز سب کو ایک لمحے کے لیے جیسے جادو میں جکڑ رہی تھی۔

یہ آٹھوں دوست صبح جلدی نکلے اور سب سے پہلے فیصل مسجد پہنچے۔ سفید مرمر کی یہ عظیم الشان عمارت دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔

واہ….یہ تو تصویروں میں بھی اتنی خوبصورت نہیں لگتی جتنی حقیقت میں ہے… سیونگ نے کہا اور اپنے کیمرے کو سیٹ کرنے لگا۔

چلو سب ایک اچھی سی گروپ فوٹو لیتے ہیں۔۔۔
جے کیونک نے پرجوش ہو کر کہا۔

لیکن عین اسی وقت، تیزی تائیجون نے موقع دیکھ کر سوہان کی ٹوپی اتار کر بھاگنا شروع کر دیا۔

ارے۔۔۔ واپس کر، بدتمیز۔۔ سوہان نے غصے سے پیچھا کیا، لیکن تائیجون ہنستے ہوئے پوری مسجد کے صحن میں بھاگتا رہا۔

یہ باز نہیں آئے گا۔۔۔ ہیوک  نے سر ہلاتے ہوئے کہا، اور چنگ نے ہنستے ہوئے دونوں کی ویڈیو بنانا شروع کر دی۔

ہان وو ،  جو ہمیشہ سب سے سنجیدہ تھا، ہاتھ باندھے کھڑا بولا،
عبادت کی جگہ پر تم لوگ سکون سے نہیں رہ سکتے؟

ارے، سکون تو تمہارے چہرے پر بھی نہیں نظر آ رہا۔۔ سیونگ نے شرارت سے کہا، اور سب ہنسنے لگے۔

 دامنِ کوہ – پہاڑوں سے نظر آتا جادوئی اسلام آباد

اسلام آباد کے دل میں واقع دامنِ کوہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے پورا شہر ایک دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔ بلند پہاڑوں کے دامن میں بیٹھا یہ مقام اپنے خوبصورت قدرتی مناظرات اور پرسکون فضاء کے لئے جانا جاتا تھا۔ یہاں پہنچتے ہی پورے گروپ کا جوش و جذبہ بڑھ چکا تھا۔

جب گاڑی پہاڑی کی طرف چڑھتی گئی، تو منظر تبدیل ہو کر ایک خواب جیسا محسوس ہونے لگا۔ سبزہ زار، درختوں کی قطاریں، اور بلند درختوں کے بیچ سے نظر آنے والا شہر کا پھیلا ہوا منظر— یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے تھا۔ پہاڑوں کی بلندی پر ہوا میں ٹھنڈک تھی، اور سب دوست ایک دوسرے کے ساتھ اس قدرتی خوبصورتی میں گم ہو گئے تھے۔

دامنِ کوہ پہنچتے ہی ایک نیا منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ بلند پہاڑیوں کے دامن میں ایک پورا شہر چمک رہا تھا، سڑکیں سانپ کی طرح بل کھاتی نیچے جا رہی تھیں، اور روشنیوں میں نہائی عمارتیں ایک تصویر کی مانند لگ رہی تھیں۔

یہاں کی ٹھنڈی ہوا نے سب کو تازگی کا احساس دلایا۔ سب نے چائے کے کپ لیے اور لکڑی کے بینچوں پر بیٹھ گئے۔ دور سے فیصل مسجد کے مینار دکھائی دے رہے تھے، اور سامنے نیلا آسمان اور شہر کا پُرسکون منظر تھا۔

یہ جگہ تو واقعی خُوبصورت ہے۔۔۔
جے كيونگ نے حیرانی سے کہا۔

اور یہاں کی چائے بھی۔۔۔۔
ہیوک نے خوشی سے چائے کا گھونٹ لیا۔

تبھی تائیجون نے چپکے سے ایک مرچ کا پیکٹ کھولا اور ہیوک کی چائے میں ڈال دیا۔

چند لمحوں بعد ہیوک  نے ایک گھونٹ لیا اور فوراً ہی اس کا چہرہ لال ہو گیا

یہ۔۔۔ یہ چائے ہے یا آگ؟ ہیوک نے کھانسنا شروع کیا، اور باقی سب ہنس ہنس کر دوہرے ہو گئے۔

<span;>تائیجون ، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
ہیوک نے غصے سے تائیجون  کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگائی، اور باقی سب ان کا تماشا دیکھتے رہے۔

. مونال – روشنیوں میں نہایا شہر اور مزیدار کھانا۔۔

اسلام آباد کا مونال ریسٹورنٹ ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے پورا شہر ایک مختلف نظر آتا تھا۔ پہاڑوں کی اونچائی پر واقع یہ ریسٹورنٹ اپنی خوبصورتی اور دلکش منظر کے لئے مشہور ہے۔ یہاں آ کر نہ صرف آپ بہترین کھانے کا مزہ لیتے ہیں بلکہ ساتھ ہی شہر کی چمکتی ہوئی روشنیاں، سبز پہاڑوں کا منظر، اور ٹھنڈی ہوا کا لطف بھی اٹھاتے ہیں۔
مونال پر پہنچتے ہی ہر طرف روشنیوں کی بہار تھی۔ اوپر پہاڑی پر بیٹھے، نیچے پورے شہر کی جھلملاتی روشنیاں، نرم موسیقی، اور ٹھنڈی ہوا— یہ سب ایک جادوئی ماحول بنا رہے تھے۔

ریسٹورنٹ کی لکڑی کی میزیں، سفید کپڑوں میں ملبوس ویٹرز، اور خوشبو بکھیرتے ہوئے کھانے سب کو مزید پرجوش کر رہے تھے۔

بھوک لگ چکی تھی، تو سب مونال پہنچے، جہاں کھلی فضا میں مزیدار کھانے ان کا انتظار کر رہے تھے۔

یہاں سے رات کے وقت شہر کی روشنیوں کا منظر بہت خوبصورت لگے گا۔
سوہان نے کیمرہ سیٹ کرتے ہوئے کہا۔

تب تک کھانے کا آرڈر دو، ورنہ مجھے کسی کا موبائل چرانا پڑے گا۔۔۔
مین سو نے مذاق کیا، اور سب نے اپنے موبائل فوراً پکڑ لیے۔

یہ کباب بہت مزیدار ہیں۔۔ جے کیونگ نے مزے سے کہا، لیکن اسی وقت تائیجون  نے اس کی پلیٹ سے کباب اٹھا لیا۔
تائیجون۔۔۔۔میرے کباب واپس دو۔۔۔

لے لو، اگر پکڑ سکتے ہو تو۔۔۔
تائیجون  نے شرارت سے کہا اور کباب ہاتھ میں لیے بھاگ گیا۔

ہان وو نے سر ہلاتے ہوئے کہا،
تم سب واقعی بچوں کی طرح ہو۔۔۔

رن یون نے مسکراتے ہوئے کہا،
اور یہی ہماری دوستی کو خاص بناتا ہے۔۔۔۔

لیک ویو پارک –  جھیل کا سکون اور چمکتی لہریں
راول جھیل کی نیلی سطح پر سورج کی کرنیں پڑ رہی تھیں، اور پانی پر ہلکی ہلکی لہریں چل رہی تھیں۔ کنارے پر سبز گھاس تھی، جہاں فیملیز اور دوست گروپس بیٹھے ہوئے تھے۔

درختوں کی چھاؤں میں بیٹھنا، کشتیوں کا جھیل میں تیرنا، اور دور نظر آتی پہاڑیوں کا عکس پانی میں جھلکنا— یہ منظر سب کو ایک الگ ہی دنیا میں لے جا رہا تھا۔

چلو، کشتی میں بیٹھتے ہیں۔۔۔۔ تائیجون نے کہا۔

نہیں، میں نہیں بیٹھوں گا۔۔۔ سوہان فوراً پیچھے ہٹ گیا۔

ڈرپوک۔۔۔ ہیوک نے چھیڑا۔

میں ڈرپوک نہیں، بس پانی میں گرنا نہیں چاہتا۔۔۔
لیکن اس سے پہلے کہ سوہان کچھ اور کہتا، مین سو نے ایک چھوٹا سا پانی کا چھینٹا اس پر مار دیا۔

مین سو۔۔۔۔ سوہان نے غصے سے کہا، اور سب ایک بار پھر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔

پاکستان مونومنٹ –روشنیوں میں چمکتی ایک تاریخی علامت رات کے آسمان پر چاند کی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور چاروں طرف گہرا سکوت چھایا ہوا تھا۔ پاکستان مونومنٹ کی عمارت، جو ایک منفرد فنِ تعمیر کا نمونہ ہے، اپنی چمک دمک کے ساتھ پورے اسلام آباد کی فضاؤں میں یکسر اجالا کر رہی تھی۔ اس کی عمارت کا ڈیزائن پاکستان کے مختلف صوبوں کی ثقافتوں اور تاریخ کو ظاہر کرتا ہے، جس میں ہر حصہ ایک الگ کہانی سناتا تھا۔۔

یہ اتنا خوبصورت ہے۔۔۔ ہیوک نے مونومنٹ کے قریب پہنچ کر کہا، وہ اور اس کے دوست اس جگہ پر کھڑے تھے، جہاں سے پورا اسلام آباد منظر کے مانند پھیلا ہوا تھا۔ اس عمارت کے کونے کونے پر روشنیوں کی ہلکی سی چمک تھی، جو دن کے وقت نہ دکھتی تھی۔

یہ کیا ہے؟ مین سو نے مونومنٹ کی شکل کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

یہ چار پتے والی شکل ہے، جو پاکستان کے چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتی ہے، سوہان نے بتایا۔
یہ پاکستان کی وحدت کو ظاہر کرتا ہے۔۔۔

تو یہ سب صوبے ہیں جو ایک ساتھ ہیں، جیسے ہم سب۔۔۔ سیونگ نے کہا، اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

چنگ جو ہمیشہ کسی نہ کسی طریقے سے مذاق کرتا رہتا تھا، بولا، تو پھر ہمیں بھی کچھ ایسی مضبوط بنیاد چاہیے، تاکہ ایک ساتھ رہ سکیں۔۔۔

یہ جگہ ہمارے لیے ایک سبق ہے، رن یون نے سنجیدگی سے کہا، یہ ایک ہی زمین پر رہنے کے باوجود، مختلف ہونے کے باوجود سب ایک ہی ہیں۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ، جیسے پاکستان کے مختلف صوبے اپنے جداگانہ رنگ اور ثقافتوں کے ساتھ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ویسے ہی یہ گروپ بھی اپنے مختلف پس منظر اور مواقعت کے باوجود، ایک ساتھ جڑتا ہے۔ مونومنٹ کی روشنیوں میں یہ سب کسی ایک جیوگرافی کی طرح محسوس ہو رہا تھا، جیسے ان کی دوستی کی مانند ایک مضبوط اور روشن بنیاد ہے۔

سب دوست چاندنی رات میں اس مقام کی خوبصورتی سے محظوظ ہو رہے تھے، اور ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے، ان کے دلوں میں ایک نیا احساس پیدا ہو رہا تھا — پاکستان کے اس تاریخی مقام سے محبت اور دوستی کا ایک مضبوط رشتہ۔
رات گہری ہو رہی تھی، لیکن ان آٹھ دوستوں کے قہقہے، شرارتیں، اور خوبصورت یادیں ہمیشہ کے لیے امر ہو چکی تھیں۔
یہ سفر صرف اسلام آباد گھومنے کا نہیں تھا، بلکہ دوستی، ہنسی مذاق، اور ان لمحوں کو قید کرنے کا تھا جو ہمیشہ کے لیے یاد رہیں گے۔

+++++++++++++

کمرے میں ہلکی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ باہر رات کی خاموشی چھائی تھی، بس کبھی کبھار ہوا کے جھونکے کھڑکی کے پردوں کو ہلکا سا سرسرا دیتے۔ جے کيونگ نے کروٹ بدلی، نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا۔ وہ تیزی سے تائیجون کی طرف مڑا، جو بستر پر نیم دراز تھا اور اپنے فون کی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔

جے کيونگ نے تائیجون کو آواز دی
اوئے۔۔۔۔

تائیجون نے سر اٹھایا
کیا ہوا؟

جے کيونگ کی آنکھوں میں شرارت جھلک رہی تھی
کل تو ہمارا شاپنگ مال جانے کا ارادہ ہے نا؟

تائیجون نے بے دھیانی میں سر ہلایا
ہاں، کل کچھ شاپنگ کرنی ہے۔

جے کیونگ نے گہری سانس لی اور سنجیدگی سے بولا
جب ہم فیصل مسجد سے واپس آ رہے تھے، تو میں نے راستے میں ایک اور مسجد دیکھی تھی۔ بہت خوبصورت تھی۔ میں نے منیجر سے پوچھا کہ ہم وہاں جا سکتے ہیں، لیکن اُس نے سختی سے منع کر دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ہم صرف فیصل مسجد دیکھ سکتے ہیں۔

تائیجون نے فون سے نظریں ہٹا کر جون کو دیکھا
تو؟

جے کيونگ نے پُرجوش لہجے میں کہا
تو ہم کل وہاں جائیں گے۔۔۔۔

تائیجون کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
لیکن کیسے؟

جے کيونگ بولا
چھپ کر! منیجر کو پتہ نہیں چلنے دیں گے۔۔۔۔

تائیجون نے گہری سانس لی
یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔

جے کيونگ نے کہا
ہوگا! جب سب شاپنگ میں مصروف ہوں گے، ہم آہستہ سے سائڈ سے نکل جائیں گے۔ بس تم میرے ساتھ رہنا، باقی میں سنبھال لوں گا۔۔۔۔۔

تائیجون نے بے یقینی سے سر جھٹکا
یہ خطرناک لگ رہا ہے۔ اگر پکڑے گئے تو؟

جے کيونگ نے سنجیدگی سے کہا
پکڑے تو گئے تو زیادہ سے زیادہ ڈانٹ پڑے گی۔ لیکن یار، وہ مسجد واقعی خوبصورت تھی، میں اسے قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔

تائیجون نے کچھ لمحے سوچا، پھر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا
ٹھیک ہے، لیکن اگر کچھ گڑبڑ ہوئی، تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا۔۔۔۔

جے کيونگ خوشی سے بولا
ڈیل۔۔۔۔

تائیجون نے جھجکتے ہوئے کہا
ڈیل۔۔۔۔

دونوں مسکرائے۔ ایک خفیہ مہم کی تیاری مکمل ہو چکی تھی۔

+++++++++++++

اگلی صبح، یہ سب شاپنگ مال پہنچ چکے تھے اور وہاں اتنی بھیڑ تھی کہ تائیجون اور جے کیونگ  کو آسانی سے نکلنے کا موقع مل گیا۔ اِدھر، اتنی بھیڑ میں رن یون کی ٹکر ایک لڑکی سے ہوئی اور اس کا چہرہ جو نقاب سے چھپایا ہوا تھا، وہ اچانک کھل گیا۔ بس ایک لمحے کی جھلک رن يون کو اس کی آنکھوں میں نظر آئی اور پھر لڑکی فوراً اپنا نقاب دوبارہ ٹھیک کرنے لگی، لیکن اس کا چہرہ لرز رہا تھا اور وہ رونے لگی۔

آہ ہ ہ ہ! یہ مجھ سے کیا ہوگیا؟ یا اللہ، مجھے معاف کر دے! میری غلطی نہیں، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا، پر مجھ سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہوگئی؟ وہ مسلسل روتے ہوئے خود کو ملامت کر رہی تھی۔

رن یون نے فوراً معذرت کی، سوری، سوری! آئی ایم سوری! آپ کو تو لگی تو نہیں ، یہ غلطی سے ہو گیا، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔ رن یون کو اردو زبان آتی تھی اسی لیے وہ اس بات کو با آسانی سمجھ سکتا تھا اور وہ آرام سے اردو بول بھی سکتا تھا

لیکن لڑکی نے کوئی جواب نہیں دیا، بس روتی جا رہی تھی۔ رن یون نے پھر کوشش کی،
ہیلو، سنے! رونے کی وجہ تو بتائیے! میں معافی مانگ رہا ہوں نہ، مُجھے سے غلطی سے لگ گیا۔

اتنے میں اُس کی دوست  اِسے ڈھونڈے یہاں تک آ پہنچی  اور آ کر اس سے ایسے زمین میں بیٹھے روتا دیکھا پریشان ہوتی پوچھنے لگی ،
یار، کیا تم ٹھیک ہو؟ کیا ہوا؟ یہاں نیچے بیٹھ کر کیوں رو رہی ہو؟

یار مُجھے سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے اللّٰہ تعالیٰ مُجھے معاف تو کر دیں گے نہ ؟ اس نے دل ہی دل میں خود کو تسلی دینے کی کوشش کی، مگر دل میں ایک عجیب سی بےچینی بھی تھی۔

سنے مُجھے سے غلطی سے ٹکڑا لگ گئی تھی تو یہ نیچے بیٹھ کر رونے لگی ویسے چوٹ لگانی تو نہیں چاہئے پر یہ اتنا رو رہی ہیں تو لگتا ہے کہ ان کو چوٹ لگ گئی ہے،میں معافی بھی مانگ رہا ہوں پر یہ میری بات سنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔۔۔
رن یون کے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے یہ لڑکی تو اُس کی بات کا جواب ہی نہیں دے رہی تھی اوپر سے اتنا روئی جا رہی تھی صِرف ہلکا سا تو ٹکر لگا تھا، اسی لیے اُس نے اس کی دوست کو مخاطب کر کے معافی مانا ہی اس وقت درس لگا

اوہ کوئی بات نہیں اٹس اوکے آپ جائے اور یہ لڑکوں سے بات نہیں کرتی ہی اسی لیے جواب نہیں دے رہی۔۔۔ وہ رن یون کو مطمئن کرتی اب اپنی دوست کی طرف متوجہ ہوگئی تھی

یار اُٹھو چلو گھر یہاں سب دیکھنے لگ جائے گا ہمیں تُم ایسے بیٹھ کر رو گی یہاں تو۔۔۔ اس نے اس کی حالت دیکھ کر کہا، اور پھر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے، اسے اٹھانے کی کوشش کی۔

یار یمنا مُجھے سے اتنی بڑی غلطی کیسے ہوسکتی ہے۔۔۔ اس کی آنکھوں میں پچھتاوا اور دل میں تذبذب تھا

رن یون تو صرف اُسے دیکھ جا رہا تھا اور اُس کے دماغ میں کہیں سوال جنم لے رہے تھے

یار غلطی سے ہُوا نہ اللّٰہ تعالیٰ معاف کر دیں گے، ہمارا اللّٰہ بہت مہربان ہے۔۔۔۔ اُس کی دوست کو سمجھ تو نہیں آیا تھا ، کہ وہ کس غلطی کے بارے میں بات کر رہی ہے لیکن اُس کی بتاؤ سے تھوڑا بہت انداز لگا کر اُس نے اُس کو تسلی دی  پھر وہ اُس کو اٹھتی سمجھتے سمجھتے اپنے ساتھ لے گئی

پردہ کے پیچھے اتنا حسین چہرا پر ؟ صِرف ایک جھلک دیکھی تھی رن یون نے اُس کی  اور اُسے اُس لڑکی  کا چہرہ بیحد دلکش اور تناسب میں تھا، نرم و گلابی گال، ۔ اس کی آنکھیں، جو گویا گہرے سمندر کی طرح پرکشش تھیں، ایک زبردست کشش رکھتی تھیں، اس کی پلکیں گھنی اور طویل، جیسے کوئی خوبصورت خواب کی تصویر ہو ۔
یہ اپنے چہرے کو چھپا کر کیوں رکھتی ہے ؟ 
اور یہ صرف اسی لیے رو رہی کہ اسے ٹکڑا لگ گئی؟
کیا عجیب لڑکی ہے سمجھ کے باہر ہے، پر ہے بہت پیاری۔
اور رو بھی رہی اتنے اچھے سے، پر رو کیوں رہی تھی ؟
اور لڑکوں سے بات کیوں نہیں کرتی ؟ بہت سے سوال تھے جو اِس وقت اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے
وہ اپنے انھیں سوچو میں گھوم تھا کہ سیونگ اُس کے پاس آیا
بھائی او بھی سنو

ہاں،کیا ہوا ؟ وہ اپنے سوچوں سے نکلتے فوراً کہا

وہ  جے کیونگ اور  تائیجون کہاں ہیں مل نہیں رہے۔۔۔ ؟

یہیں کہیں ہوگئیں ڈھونڈوں،
رن یون  زیادہ پریشان بھی ہُوا کیوں کہ وہ جانتا دونوں اپنی مستی میں مگن اِدھر اُدھر ہوجاتے تھے

+++++++++++++

تائیجون اور جے کیونگ مسجد کے دروازے پر رُکے۔ باہر کی دنیا کی ہلچل، شور اور ہنگامہ جیسے کہیں بہت دور رہ گیا تھا۔ مسجد کے احاطے میں قدم رکھتے ہی ایک نرم، ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا، جیسے کسی نادیدہ قوت نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔

چمکدار سفید سنگِ مرمر کی ٹائلیں ان کے قدموں تلے ٹھنڈی پڑ رہی تھیں، اور سامنے ایک دلکش حوض تھا جس کے گرد رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے۔ میناروں کی پرشکوہ بلندیوں کے نیچے درختوں کی ہریالی اور پھولوں کی خوشبو ایک الگ ہی روحانی فضا پیدا کر رہی تھی۔ جے کیونگ نے ایک گہری سانس لی اور ارد گرد کا جائزہ لینے لگا، جب کہ تائیجون کے چہرے پر ہلکی سی حیرانی تھی۔

جے کيونگ نے جھجکتے ہوئے کہا
ہم اندر جا سکتے ہیں؟
جے کیونگ کو منیجر کی بات یاد آئی تھی، کہ ہم صرف فیصل مسجد ہی دیکھ سکتے ہیں،اور کہیں جانے کی ہمیں اِجازت نہیں، اُس نے پاس کھڑے ایک بزرگ سے پوچھا جو وائٹ شلوار قمیض میں ملبوسِ مسجد کے داخل دروازے سے اندر داخل ہورہے تھے

بزرگ نے مسکرا کر جواب دیا
یہ اللہ کا گھر ہے، یہاں کسی کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
(بزرگ کو انگریزی آتی تھی، اس لیے وہ بات آسانی سے سمجھ گئے اور آرام سے جواب دیا۔)

جے کيونگ نے حیرت سے تائیجون کی طرف دیکھا
تو کیا ہم ایسے ہی اندر چلے جائیں؟

بزرگ نے نرمی سے سر ہلایا
بس جوتے اتارنے ہوں گے۔

تائیجون نے فوراً اپنے برانڈڈ جوتوں کی طرف دیکھا اور ابرو چڑھائے
جوتے؟ مگر کیوں؟ یہ میرے برانڈ شوز ہیں۔۔۔

بزرگ نے دھیرے سے جواب دیا
یہ پاک جگہ ہے۔ یہاں ننگے پاؤں داخل ہوتے ہیں، ادب اور پاکیزگی کے ساتھ۔

جے کيونگ فوراً جھک کر جوتے اتارنے لگا، تائیجون نے کچھ لمحے سوچ کر سر ہلا دیا۔

تائیجون نے پھر پوچھا
یہاں کون کون آ سکتا ہے؟ اگر ہم مسلم نہیں ہیں، تو کیا ہم اندر نہیں جا سکتے؟

بزرگ نے محبت بھری نظروں سے کہا
یہ اللہ کا گھر ہے، یہاں ہر کوئی آ سکتا ہے۔ چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، امیر ہو یا غریب، سب برابر ہیں۔ اللہ کسی کا رنگ، نسل یا مذہب نہیں دیکھتا، وہ صرف دلوں کو دیکھتا ہے۔

یہ الفاظ سن کر دونوں چند لمحے خاموش کھڑے رہے۔ مسجد کی پرنور فضا میں وہ پہلی بار ایک عمارت کو صرف عمارت نہیں بلکہ روح کی پناہ گاہ کے طور پر محسوس کر رہے تھے۔

جے کيونگ نے آہستگی سے کہا
یہاں تو سب نے روایتی لمبے کپڑے پہنے ہیں، ہمارے پاس تو ایسا کچھ نہیں… تو کیا ہم اندر جا سکتے ہیں؟

بزرگ مسکرا دیے
کیوں نہیں؟ اللہ یہ نہیں دیکھتا کہ تم نے کیسے کپڑے پہنے ہیں، بس تم پاک صاف ہو اور تمہاری نیت صاف ہو۔

دونوں اندر داخل ہوئے۔ ہلکی روشنی میں مسجد کی دیواروں پر کندہ نقش و نگار چمک رہے تھے۔ فضا میں ایک عجیب سکون تھا۔

تائیجون نے آگے دیکھا۔ کچھ لوگ ترتیب سے کھڑے ہو رہے تھے، جھک رہے تھے، بیٹھ رہے تھے۔ وہ حیران ہوا
یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کبھی کھڑے ہو رہے ہیں، کبھی جھک رہے ہیں… کیا یہ کوئی ایکسرسائز ہے؟

جے کيونگ نے کندھے اچکائے
پتہ نہیں… شاید۔

تائیجون نے قریب بیٹھے بزرگ کی طرف اشارہ کیا
چلو ان انکل سے پوچھتے ہیں۔

وہ دونوں آہستہ سے بزرگ کے قریب گئے، جے کيونگ نے ادب سے کہا
معاف کیجیے گا، یہ سب لوگ کیا کر رہے ہیں؟

بزرگ مسکرا دیے
یہ نماز پڑھ رہے ہیں، اللہ سے بات کر رہے ہیں۔

تائیجون نے حیرت سے دہرایا
اللہ سے بات؟

بزرگ بولے
ہاں، نماز دعا ہے۔ اللہ کے ساتھ ایک تعلق، ایک مکالمہ۔ یہ کوئی عام ورزش نہیں بلکہ روح کی مشق ہے۔

جے کيونگ کی آنکھیں جھک گئیں، دھیرے سے بولا
کیا ہم بھی اللہ سے بات کر سکتے ہیں؟

بزرگ نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا
ہاں، بالکل۔

اچانک تائیجون کا فون بجا۔ اس نے جلدی سے اسکرین دیکھی اور بولا
بھائی، ہمیں چلنا ہوگا۔ رن یون کی بہت میسجز آ رہی ہیں۔

جے کيونگ نے مسجد کے سکون کو آخری بار محسوس کیا اور آہستگی سے کہا
کیا ہم یہاں دوبارہ آ سکتے ہیں؟

بزرگ نے نرمی سے سر ہلایا
ہاں، جب چاہو آ سکتے ہو۔

جے کيونگ نے جھجکتے ہوئے پوچھا
رات کے تین بجے بھی؟

بزرگ کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ آئی
ہاں، بیٹا، رات کے تین بجے بھی۔ اللہ کا گھر ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ اگر دل گھبرائے یا بے سکونی ہو، تو تب بھی آ سکتے ہو۔

تائیجون نے جے کيونگ کی طرف دیکھا۔ جے کيونگ نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا، جیسے اس نے اپنے سوال کا جواب پا لیا ہو۔
ہمم… شکریہ۔

وہ دونوں مسجد سے نکلے۔ باہر ٹھنڈی ہوا نے ان کا استقبال کیا۔ شہر کی روشنیاں دور چمک رہی تھیں، لیکن جے کيونگ کے دل میں آج ایک نئی روشنی جاگ چکی تھی۔

وہ شاپنگ مال کی طرف بڑھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے رکا، پیچھے مڑ کر مسجد کو دیکھا، اور دل ہی دل میں سکون محسوس کیا… جیسے اب وہ کبھی تنہا نہیں ہوگا۔

++++++++++++

جاری ہے۔۔۔

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *