ishq ibadat

Ishq Ibadat Episode 5 written by siddiqui

عشق عبادت ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۵

گاڑی میں بیٹھے وہ آٹھوں دوست، اپنے نئے سفر کی طرف رواں دواں تھے۔ اسلام آباد کی سڑکیں، نیلا آسمان، ہلکی ہوا، سب کچھ ان کے لیے بہت خوبصورت تھا ابھی وہ ایک دوسرے کی باتوں اور قہقہوں میں گم تھے کہ اچانک…

سامنے سڑک پر دو بائیکیں آپس میں ٹکرائیں۔ بہت بری طرح سے ایک زور دار دھماکے کے ساتھ ہر طرف شور پھیل گیا۔ چیختے ٹائروں کی آواز، بریکوں کی رگڑ، اور پھر… سکوت۔

سڑک پر چلنے والی سب گاڑیاں یکدم رک گئیں۔ رین یون نے گھبراہٹ میں چیخ کر کہا
گاڑی روکو۔۔۔۔۔

ان کی گاڑی بھی جھٹکے سے رک گئی۔ سب دوست جلدی سے اترے اور بھاگتے ہوئے حادثے کی جگہ پہنچے۔

منظر ناقابلِ بیان تھا۔ دونوں موٹر سائیکل سوار زمین پر گرے تھے۔ ایک کا سر بری طرح زخمی تھا، پیچھے دماغ کے حصے سے خون بہہ رہا تھا۔ سر پھٹا ہوا، جسم لہولہان۔ اتنی شدید چوٹ کہ انہیں ہاتھ لگانے کی بھی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا انہیں ہلاؤ مت۔۔۔۔ کوئی بولا ہسپتال لے چلو۔۔۔ مگر سب جانتے تھے… وہ زندہ سلامت وہاں سے نہیں جا سکتے تھے۔

ایمبولینس کو فون کیا جا چکا تھا۔ لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ شور، ہجوم، بے بسی—ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔

اور تب، جے کیونگ کی نظر پڑی۔
زمین پر پڑا وہ زخمی نوجوان ہلکے ہلکے لب ہلا رہا تھا۔ آواز نہیں تھی، بس لبوں کی حرکت تھی۔ جیسے کچھ پڑھ رہا ہو۔ جیسے اپنی آخری سانسوں میں کسی کو پکار رہا ہو۔

وہ سننے لگا۔ لیکن الفاظ اتنے دھیمے تھے کہ اُس کی سمجھ میں نہ آئے۔ اور اگر سن بھی لیتا تب بھی اُسے سمجھ نہیں آنی تھی
لمحہ لمحہ، وہ لب ساکت ہوگئے۔ آنکھیں بجھ گئیں۔ اور زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی۔

جے کیونگ نے گھبرا کر سانس اندر کھینچا۔ اُسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اُس لمحے اُس پر ایک ایسی عجیب کیفیت طاری ہوگئی تھی جسے وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا تھا، اور جسے وہ خود بھی پوری طرح سمجھ نہیں پا رہا تھا۔

اُسی لمحے ایمبولینس کی تیز سائرن بجاتی ہوئی وہاں آ پہنچی۔ لوگوں نے جلدی سے دونوں زخمیوں کو احتیاط سے اٹھایا اور ایمبولینس کے اندر منتقل کر دیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ سب دوبارہ اپنی گاڑی میں آبیٹھے، مگر حادثے کا منظر اُن کی آنکھوں کے سامنے جیسے جم سا گیا تھا۔ کسی کے لب پر ہنسی نہ تھی، کسی کے پاس بات کرنے کے لیے الفاظ نہ تھے۔ سب کا مان، سب کا جوش، سب کا سفر کا ذوق… اس ایک منظر نے بُری طرح گہنا دیا تھا۔

جے کیونگ نے اچانک خاموشی توڑی۔ اُس کے لہجے میں بےچینی تھی۔
اچھا سنو… مجھے یاد آیا، بھائی کو اردو آتی ہے نا… بھائی، تم نے سنا تھا؟ وہ زخمی آدمی… وہ کیا بول رہا تھا؟

رین یون نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔ کون آدمی؟

وہی… جس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ آخری لمحات میں اُس کے لب ہل رہے تھے۔ مجھے لگا وہ ہم سے مدد مانگ رہا تھا۔ جے کیونگ کی آواز فکرِ تھی ۔

ہان وو نے دھیرے سے کہا
نہیں… وہ مدد نہیں مانگ رہا تھا۔ وہ دعا کر رہا تھا۔

جے کیونگ نے فوراً پلٹ کر پوچھا
تجھے کیسے پتا؟

ہان وو نے گہری سانس لی۔
کیونکہ اگر میں اُس کی جگہ ہوتا… تو میں بھی یہی کرتا۔

ہین؟ کیوں؟
جے کیونگ کی آنکھوں میں حیرت تھی۔

کیونکہ… اُن کا مذہب ایسا ہے۔ وہ ایک خُدا کو مانتے ہیں۔ مرنے کے لمحوں میں وہ اُسی سے فریاد کرتے ہیں، اُسی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہان وو کی آواز عجیب سی سنجیدگی لیے ہوئے تھی۔

رین یون نے اثبات میں سر ہلایا۔
ہاں، بالکل۔ یہ سب لوگ مسلمان ہیں نا… تو وہ اپنے خدا سے مدد مان رہا ہوگا

جے کیونگ بے چین سا ہو گیا۔ لیکن وہ بول کیا رہا تھا؟ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آیا۔ بتاؤ نا، وہ کیسے دعا مانگ رہا تھا؟

سوہان نے بھی تجسس سے پوچھا
ہاں بھائی، ہمیں بھی بتاؤ۔ دعا کیسے مانگتے ہیں؟ میں نے تو آج تک کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ دعا مانگو۔

ہان وو نے کچھ لمحے خاموشی اختیار کی، پھر آہستہ سا بولا
ہم تو چرچ جاتے ہیں… اور جیزس سے دعا مانگتے ہیں۔ مگر وہ… وہ اپنے خدا سے مانگ رہا ہوگا۔ ایک الگ یقین کے ساتھ، ایک الگ زبان میں۔

ہاں ہاں میری بہن بھی چرچ جاتی ہے۔۔۔ اچانک ہیوک کو یاد آیا کہ جب وہ گھر جاتا تھا تو اُس کی بہن چرچ جاتی تھی لیکن ہیوک کو اس سب کا وقت کبھی نہیں ملا پھر وہ دوبارہ بولا جب میں بینڈ سے ڈسبنڈ ہوجاؤں گا پھر اپنی بہن کے ساتھ جاؤں گا ابھی میرے پاس اس سب کے لیے وقت نہیں ہے۔۔۔۔

ہان وو نے سنجیدگی سے کہا
تمہارے پاس اپنے خدا کے لیے وقت نہیں ہے ؟؟

ہان وو کی بات سن کر گاڑی کے اندر لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئی۔ سب دوستوں کی نظریں ہیوک کی طرف اُٹھ گئیں۔

ہیوک نے گردن جھکا لی اور مدھم آواز میں کہا
میں نے ایسا نہیں کہا… بس ابھی زندگی میں بہت کچھ چل رہا ہے۔ کانسرٹس، پریکٹس، فینز… وقت ہی نہیں ملتا۔

ہان وو نے اُس کی بات کاٹ دی، اُس کی آواز میں ایک عجیب سا کرب تھا
وقت نہیں ملتا؟ یا تم نے وقت نکالنا ہی نہیں چاہا؟

ہیوک چونک کر اُس کی طرف دیکھنے لگا۔

ہان وو کے چہرے پر سختی اور درد دونوں جھلک رہے تھے۔ ہم سب اپنی مرضی کے کاموں کے لیے وقت نکال لیتے ہیں۔ گھنٹوں ریہرسل کر سکتے ہیں، پوری رات جاگ کر گانے لکھ سکتے ہیں… لیکن خدا کے لیے پانچ منٹ نہیں نکال سکتے؟

جے کیونگ نے بے ساختہ کہا
لیکن کیا خدا اتنا ناراض ہو جاتا ہے اگر ہم اُس کے لیے وقت نہ نکالیں؟

ہان وو نے آہستہ سا سانس لیا اور باہر دیکھنے لگا۔ میں نہیں جانتا تمہارے خدا کا کیا اصول ہے…

رین یون نے اچانک جھنجلا کر کہا
لتم سب یہ کیسی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو؟
Just forget it۔۔۔۔

جے کیونگ نے پلٹ کر اُس کی طرف دیکھا، آنکھوں میں سوال بھرے ہوئے
لیکن… ہان وو کس خدا کی بات کر رہا ہے؟ اور وہ شخص… جس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، وہ کس خدا کو پکار رہا تھا؟ کیا دونوں کا خدا ایک ہی ہے؟

میں ان سب چیزوں پر یقین نہیں رکھتا۔ رین یون نے نرمی سے کہا

ہان وو نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا، جیسے یقین ہی نہ آیا ہو۔

رین یون نے کندھے اچکائے۔ میری فیملی شروع سے ہی ایسی ہے۔ ایک مُلحد خاندان… کسی خدا پر یقین نہیں رکھتا۔ نہ چرچ، نہ دعا، نہ کوئی عبادت۔ یہ سب میرے لیے بیکار باتیں ہیں۔

گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔ ہان وو کے چہرے پر دکھ اور سنجیدگی کی ملی جلی لکیریں ابھر آئیں۔ اُس نے گہرا سانس لیا اور دھیمے لہجے میں کہا
میں تو خدا کو مانتا ہوں۔ میری فیملی بھی… ہم سب کے لیے وہ سب کچھ ہے۔۔۔

سیونگ کافی دیر سے ان کے باتیں سن اب تنگ اکر بولا
کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو؟ یہ کیسی باتیں کرنے لگے ہو؟ پہلے تو کبھی تم میں سے کسی نے اس طرح کی بات شروع نہیں کی۔ چھوڑ دو بس، جانے دو — اس سب کے بارے میں بحث مت کرو۔ ہمارا مذہب الگ ہے، سب کا ایمان الگ ہے۔ اگر ہم اس پر بحث کریں گے تو ہماری بحث ختم ہی نہیں ہوگی۔

جے کیونگ نے آہستگی سے سر ہلایا، جیسے ردعمل میں کوئی طاقت نہیں بچی ہو۔ ٹھیک ہے… چھوڑ دیتے ہیں، اُس نے کہا، لیکن اندر ہی اندر وہ سب کچھ جاننا چاہتا تھا

ہان وو خاموش رہا۔ اُس کی آنکھوں میں وہ منظر پل رہا تھا — زخمی کا ہلتا ہوا لب، سائرن کی روشنی، اور وہ مختصر دعا جو شاید کسی مانگ نے جنم دی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ بحث فضا بدل دے گی، مگر وہ جانتا تھا یہ لمحے دل کے اندر دیر تک رہ جائیں گے۔ اُس نے صرف ایک جملہ کہا، نرم مگر واضح  ہم سب ایک ہی سڑک پر نہیں چل رہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔

گاڑی  چل رہی تھی ۔ باہر کی سڑک پر روشنی ایک دوسرے میں گھل رہی تھی، شہر کی ٹھنڈی ہوا اندر آ کر سب کے چہروں پر گزر گئی۔ ہر کوئی اپنے اندر کہی ہوئی باتوں کو چبا رہا تھا —

گاڑی کی گھمبیر خاموشی کو اچانک منیجر کی آواز نے توڑا۔ وہ آگے والی سیٹ سے پیچھے مُڑ کر بولا
کہاں جانا ہے اب؟

اس سوال نے جیسے دوبارہ بحث کو جنم دے دیا۔ سب کے اندر دبے ہوئے خیالات یکدم باہر آنے لگے۔ کوئی کہہ رہا تھا، چلو ہوتل چلتے ہیں… کوئی بولا، نہیں، سیدھا اسلام آباد  کے پہاڑ پر نکلتے ہیں… کوئی کسی اور جگہ کا نام لے رہا تھا۔

ان سب کی سوچوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ایک ہی گاڑی میں بیٹھے آٹھ دوست، مگر اُن کی شخصیات ایک دوسرے سے اتنی مختلف کہ خود وہ حیران رہ جاتے تھے کہ آخر اتنے فرق کے باوجود وہ سب ساتھ کیسے رہتے تھے

بحث بڑھ رہی تھی۔ آوازیں اونچی ہو رہی تھیں۔ ہر کوئی اپنی ضد پر قائم تھا۔

پھر رین یون نے یکدم بلند آواز میں کہا
بس۔۔۔

سب چونک کر خاموش ہو گئے۔ گاڑی کے اندر دوبارہ سنّاٹا اتر آیا۔ رین یون نے سکون سے سانس بھرا اور دھیمے لہجے میں کہا
ایسا کرتے ہیں… ہم دو دو کر کے الگ نکل جاتے ہیں۔ جس کا جہاں دل چاہ رہا ہے، وہ وہیں چلا جائے۔ زبردستی ساتھ رہنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔

رین یون کی بات پر سب ہی چپ ہو گئے۔ کچھ لمحوں بعد ایک ایک کر کے سب نے سر ہلایا، جیسے اس فیصلے پر رضا مندی ظاہر کر رہے ہوں۔

ٹھیک ہے، جے کیونگ نے آہستہ کہا، پہلے ایک کی جگہ چلتے ہیں، پھر اگلے کی۔

یوں ایک نیا اصول طے ہوگیا۔ اب سب اپنی اپنی مرضی کی جگہ بتانے لگے۔ کوئی کہہ رہا تھا، میں تو کافی شاپ چلنا چاہتا ہوں۔۔۔
دوسرے نے کہا، نہیں، پہلے دریا کے کنارے چلتے ہیں۔
کسی کا دل پارک میں جانے کو چاہ رہا تھا، کسی کا کسی مشہور ریسٹورنٹ میں۔

منظر دلچسپ تھا۔ ایک ہی گاڑی میں بیٹھے آٹھ لوگ، مگر ہر ایک کے خواب اور خواہشیں الگ الگ۔

+++++++++++

شاپنگ مال کی چمکتی روشنیوں میں لوگوں کا شور،  اور دوڑتی بھاگتی زندگی کا شور، سب کچھ اپنی جگہ تھا۔ لیکن رین یون کے دل میں جو شور مچا ہوا تھا، وہ سب سے بڑھ کر تھا۔ وہ اس اجنبی چہرے کو ڈھونڈنے آیا تھا جسے وہ پہلی ہی ملاقات کے بعد بھول گیا تھا۔ عجیب تھا نا؟ چہرہ بھلا بیٹھا مگر دل کے کسی کونے میں وہ موجود تھی وہ بار بار سیڑھیاں اترتے، کبھی دکانوں کے سامنے رکتے، کبھی راہداریوں میں بے مقصد گھومتے۔ دل کہتا تھا، وہ ملے گی… ضرور ملے گی۔

سیونگ بے زاری سے اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
بھائی! یہ مال ہے، کسی کا گھر نہیں کہ تمہیں وہ لڑکی مل جائے گی۔ اتفاق تھا، بس اتفاق۔ اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔

رین یون کے ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ آئی،
جانتا ہوں… مگر میرا دل کہتا ہے کہ وہ ضرور ملے گی۔ اور پتا نہیں کیوں، میں اپنے دل کی آواز کو جھٹلا نہیں سکتا۔۔۔۔

سیونگ نے ہار مان کر گھڑی دیکھی۔
کتنے چکر لگا لیے ہیں ہم نے اس مال کے۔ اگر وہ ملنی ہوتی تو کب کی مل چکی ہوتی۔ اب چلو، بھوک سے برا حال ہے۔۔۔

رین یون نے گردن جھکائی۔
ٹھیک ہے، کچھ کھا لیتے ہیں۔

وہ دونوں اب شاپنگ مال کے پاس ہی کیفے چلے گئے
کیفے کی کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب سیونگ چیزیں لینے گیا تو رین یون تنہا رہ گیا۔ اور پھر وہ لمحہ آیا— وہ لمحہ جس پر شاید تقدیر کی مہر لگی تھی۔

وہ لڑکی—بالکل ویسی ہی—بھورے حجاب میں، چہرہ مکمل ڈھانپے، اس کے سامنے کھڑی تھی۔ رین یون کی نظریں حیرت میں جم گئیں۔
دل زور سے دھڑکا۔ کیا یہ خواب ہے؟ یا حقیقت؟

لڑکی نے دھیمی، لیکن پر یقین آواز میں کہا
میرا چہرہ یاد نہیں رہا نا آپ کو؟ دیکھ لیجیے، یہ میرے اللہ کا کرم ہے۔۔۔۔

رین یون کی حیرانی دوچند ہو گئی۔
تمہیں کیسے پتا کہ میں تمہارا چہرہ بھول چکا ہوں؟

اس کے لبوں پر خاموش مسکراہٹ تھی۔
کیوں کہ مجھے اپنے اللہ پر یقین تھا۔ یہ میری تہجد کی دعاؤں کا اثر ہے۔ اور پھر میری کی گئی تہجّد کی دعا کیسے رد ہو سکتی ہے؟

رین یون نے بے یقینی سے سر جھٹکا۔
ایسا… ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔

ہوا ہے۔ آپ ہی کے ساتھ ہوا ہے۔ یقین نہیں آتا تو نہ سہی۔۔ وہ سرد لہجے میں بولی اور پلٹنے لگی۔
اُس کی بات مکمل ہوچکی تھی۔۔

اسی لمحے سیونگ ہاتھ میں فرائز اور جوس لیے لوٹا۔ رین یون نے بے اختیار آواز دی
ایک بات تو سنو…

وہ رک گئی، اور سرد لہجے میں پلٹ کر دیکھنے لگی۔
حد میں رہیے۔ ایسا نہ ہو کہ میں آپ کو کچھ ایسا کہہ دوں جو آپ برداشت نہ کر سکیں۔ آئندہ مُجھے پیچھے سے آواز دینے یا روکنے کی کوشش ہرگز نہیں کیجئے گا۔۔

رین یون کے لب سی گئے، لیکن سیونگ کا خون کھول اٹھا۔
او لڑکی! تمیز سے بات کرو۔۔۔۔

سیونگ کو اُس نے نظر انداز کیا وہ اب بھی رین یون کی طرف ہی دیکھ رہی اور اُس سے ہی مخاطب تھی
اگر دوبارہ مجھے کہیں دیکھیں تو اپنی نظریں پھیر لیجئے گا… ورنہ اس سے بھی زیادہ برا ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے وہاں سے نکل گئی۔

سیونگ بھڑک اٹھا۔
یہ تو حد ہی ہو گئی۔ کتنا بدتمیز لہجہ تھا اس کا! مطلب کیا تھا اس کی باتوں کا؟

رین یون نے فرائز اس کے ہاتھ سے لے کر سامنے رکھے اور آہستگی سے بولا
تمہیں بھوک لگی تھی نا… اب خاموشی سے بیٹھو اور کھاؤ۔

سیونگ حیران تھا۔
کتنی بے تمیز لڑکی ہے ، تمہیں کیا سمجھ ہُوا، اسی کو تُم ڈھونڈ رہے تھے نہ پاگلوں کی طرح۔۔۔۔

کہا نہ چُپ کر کے کھاؤ۔۔۔۔
رین یون نے غصے سے سیونگ سے کہا جس پر سیونگ کا منہ بند ہوگیا

ہاں صِرف مُجھے ہی چُپ کروا سکتے ہو تُم اُس لڑکی کے سامنے تو کچھ بولا نہیں گیا سیونگ غصے سے بولا ٹیبل پر بیٹھا چپس کھانے لگا۔۔

رین یون نے نظریں جھکا لیں۔ سیونگ کی بات دل کو لگی تھی، مگر وہ ماننے کو تیار نہ تھا۔ اندر کہیں نہ کہیں وہ جانتا تھا کہ اُس لڑکی کے سامنے بول نہ پانے کی وجہ کمزوری نہیں تھی… کچھ اور تھا، کوئی ایسا کھچاؤ جو الفاظ کو لبوں تک آنے ہی نہیں دیتا تھا۔

سیونگ نے خالی جوس کا گلاس ٹیبل پر زور سے رکھا اور رین یون کو گھورتے ہوئے بولا
پاگل ہو گئے ہو بھائی! اتنی بدتمیز لڑکی کے پیچھے دماغ کیوں خراب کر رہے ہو؟ دنیا میں اور لڑکیاں نہیں ہیں کیا؟

رین یون نے آہستہ سر اُٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں ایک انجانی روشنی تھی۔
نہیں سیونگ… وہ مختلف ہے۔ باقیوں جیسی نہیں۔

سیونگ طنزیہ ہنسا
ہاں بالکل! باقی سب معصوم پریاں ہیں اور یہ خاص لڑکی آندھی۔۔۔۔ لیکن تمہارے دل کو بس یہی پسند آئی۔ واہ بھئی واہ۔۔۔۔

رین یون کرسی سے ٹیک لگا کر خاموش ہو گیا۔ سیونگ کو لگا شاید اس نے ہار مان لی، مگر حقیقت میں وہ اپنے دل کی دھڑکن سن رہا تھا۔ جیسے وہ لڑکی اُس کے دل پر دستک دے کر چلی گئی ہو۔

چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ پھر رین یون کے لبوں پر دھیرے سے مسکراہٹ آئی۔
سیونگ… کبھی کبھی دل کے فیصلے عقل سے بڑے ہوتے ہیں۔۔

سیونگ نے غصے سے کہا
اور کبھی دل کے فیصلے بربادی بھی لے آتے ہیں۔

رین یون نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس چپ چاپ فریز اُٹھا کر کھانے لگا، مگر اُس کی آنکھوں میں وہی سرد لہجہ گونج رہا تھا
آئندہ اگر مجھے کہیں دیکھیں تو اپنی نظریں پھیر لیجئے گا … ورنہ اس سے بھی زیادہ بُرا ہو سکتا ہے۔

وہ الفاظ تیر کی طرح دل میں اتر گئے تھے، اور یہی الفاظ اب اُس کے سفر کی شروعات بننے والے تھے۔

+++++++++++++

دینو ویلی کی وادی میں سبز پہاڑوں کے سائے، ٹھنڈی ہوا کی سرسراہٹ اور ندی کی نرم لہریں دونوں دوستوں کے درمیان خاموشی کا ایک خوبصورت پردہ بنائے ہوئے تھیں۔ دور کہیں پرندوں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور قریب ہی ڈھابے پر ابلتی چائے کی خوشبو فضا میں گھل کر منظر کو اور بھی دلکش بنا رہی تھی۔

مین سو پتھروں پر بیٹھا ندی کی لہروں کو گھورتے ہوئے بولا
تم نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ تم کرسچن ہو؟

ہان وو نے ندی میں ایک چھوٹا سا کنکر پھینکا اور ہلکے سے مسکرایا
کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی… ورنہ میں تو ہر چھٹی پر دادی اور امّاں کے ساتھ چرچ جاتا ہوں میں۔

مین سو نے گردن موڑی، پہاڑوں کی سبز ڈھلوان پر نظر ڈالی اور کہا
ہاں، میری فیملی بھی جاتی ہے۔

ہان وو نے چونک کر پوچھا
تو پھر تم کیوں نہیں جاتے؟

مین سو نے ہاتھ کی انگلیوں سے زمین پر لکیریں کھینچتے ہوئے سر جھکا لیا۔
I am not interested…

ہان وو کی آنکھوں میں حیرت اتر آئی، وہ سیدھا بیٹھ گیا۔
کیا کہہ رہے ہو؟

مین سو نے ندی پر نگاہ جمائی، لہروں میں جیسے اپنے خیالات ڈھونڈ رہا ہو
میرا مطلب ہے… میں وہاں کیوں جاؤں؟ میرا کیا مقصد ہے وہاں جانے کا؟

ہان وو کی آواز بھاری ہوگئی
وہ خدا ہے ہمارا۔۔۔۔

مین سو نے بے نیازی سے کندھے اچکائے، چہرے پر ہلکی سی بیزاری کے ساتھ کہا
ہے… تو جب مجھے اس کی ضرورت پڑے گی، میں چلا جاؤں گا۔

چلو جب ضرورت پڑے تب چلے جانا۔۔۔
ہان وو نے بس اتنا کہا اور اب وہ دونوں اُٹھ کر باہر کی طرف جانے لگے

++++++++++++++++

گھوم پھر کر وہ سب ہوٹل واپس آچکے تھے۔
ہوٹل کی تیسری منزل پر کمرے کی کھڑکیاں بند تھیں، مگر باہر رات کی ٹھنڈی ہوا آ کر پردوں کو ہلکی سی جنبش دے رہی تھی۔ کمرے کی ہلکی مدھم روشنی میں ہر کوئی اپنے بستر پر جا چکا تھا، لیکن نیند… وہ دو دلوں سے روٹھ چکی تھی…

دو دل بے چین تھے۔
ایک رین یوں کا۔
اور دوسرا۔۔۔ جے کیونگ کا۔

جے کیونگ نے آنکھیں بند تو کر لی تھیں، مگر دماغ اب بھی اسی منظر میں اٹکا ہوا تھا سڑک پر بکھرا ہوا خون، ٹوٹی ہوئی گاڑی، اور وہ زخمی شخص جس کے ہلتے لب کچھ کہنے کی کوشش کر رہے تھے۔

وہ کیا کہہ رہا تھا؟
جے کیونگ نے اپنے دل میں سوال کیا۔
اسے یوں لگا جیسے وہ شخص اردگرد کے لوگوں سے مدد مانگ رہا تھا۔ مگر پھر ہان وو کی بات یاد آئی—
وہ خدا سے دعا مانگ رہا تھا…

جے کیونگ نے کروٹ بدلا۔ دل میں ایک کسک سی اٹھی۔
لیکن اگر وہ دعا مانگ رہا تھا… دعا میں زندگی مانگ تھا تھا ؟ تو اسے زندگی ملی کیوں نہیں؟

بےچینی بڑھتی گئی۔ آخر اس نے جھنجھلا کر آواز دی
تائیجون… اوئے تائیجون… اٹھ، میری بات سن۔

تائیجون نے بیزاری سے کروٹ بدلی، نیند بھری آواز میں بولا
کیا ہے؟

سویا نہیں تو؟ جے کیونگ نے حیرانی سے پوچھا گویا وہ یہ کیسا غضب ہُوا تھا وہ اُس کی ایک ہی آواز میں اٹھا گیا تھا

سو رہا تھا، آپ کی مہربانی سے اب جاگ چکا ہوں۔ بولیے سرکار، کس جرم کی پاداش میں اس ناچیز کو نیند سے جگایا ہے؟ تائیجون نے طنزیہ لہجہ میں کہا

مجھے نیند نہیں آرہی۔ جے کیونگ نے بےچینی سے کہا

یہ سنتے ہی تائیجون یکدم اٹھا اور غصے سے اس کا گریبان پکڑ لیا۔
ابے سالے! تُو نے مجھے نیند سے صرف اس لیے جگایا کہ تُجھے نیند نہیں آرہی؟

جے کیونگ نے اس کی مٹھی پکڑ کر دھیرے سے کہا
ابے میں پریشان ہوں…

تائیجون کے غصے کی جگہ اب سنجیدگی نے لے لی۔ اس نے دھیرے سے پوچھا
کیا ہوا؟ کس محبوبہ کی یاد آرہی ہے تجھے؟

جے کیونگ نے تیزی سے سر نفی میں ہلایا۔
وہ لڑکا… وہ جو ایکسیڈنٹ میں تڑپ رہا تھا… وہ کیا بول رہا تھا؟ مجھے جاننا ہے۔ جب تک یہ پتہ نہیں چلے گا، میں بےچین رہوں گا۔

تائیجون نے شانے اچکائے،
ہان وو نے بتایا تھا نہ… وہ دعا مانگ رہا تھا۔

جے کیونگ کی نظریں خلا میں جا ٹھہریں۔ نہیں… مجھے لگتا ہے وہ ہم سے مدد مانگ رہا تھا۔ لیکن اگر وہ دعا مانگ رہا تھا، تو کیا مانگ رہا تھا؟ کیسے مانگ رہا تھا؟ اور اگر وہ دعا میں زندگی مانگ تھا تو زندگی اُسے ملی کیوں نہیں ؟

تائیجون نے بیزاری سے کہا
مجھ سے کیوں پوچھ رہا ہے؟ مجھے اردو تھوڑی آتی ہے! اور تو بھی کیا ایک ہی بات کو لے کر بیٹھ گیا ہے، چھوڑ دے دفعہ کر جو بھی بول رہا تھا وہ۔۔۔۔

جے کیونگ نے بےبسی سے کہا
نہیں کر پارہا ہوں نہ دفعہ۔۔۔۔۔

تائیجون نے کمر پر ہاتھ مارا اور تکیے پر گر گیا۔
پاگل ہے بالکل… ابھی جا کے سو جا۔ صبح نکلنا ہے ہمیں۔

جے کیونگ نے آہ بھری اور چھت کو گھورتے ہوئے کہا
کاش تُو سمجھ پاتا تائیجون… یہ بس ایک حادثہ نہیں تھا۔ وہ لڑکا… اُس کی آنکھوں میں کچھ تھا۔ جیسے آخری پل میں اُس نے مجھ سے کچھ کہنا چاہا ہو۔

تائیجون نے کروٹ بدلا، آنکھیں موندتے ہوئے طنز کیا
ہاں، اور تُو دنیا کا سب سے بڑا مترجم ہے نا، جو خون میں لتھڑے ہونٹوں سے پوری تقریر سن آیا۔

نہیں… یہ بات مذاق کی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں جاننا کہ وہ کیا مانگ رہا تھا، کس سے مانگ رہا تھا۔ اگر خدا سے مانگ رہا تھا تو پھر کیوں نہیں ملا اُسے؟

تائیجون نے چڑ کر لحاف منہ تک کھینچا اور بیزاری سے بولا
ابے جا… دفعہ ہو! بھائی سے جا کے پوچھ لے، اُنہیں آتی ہے اردو۔ مجھے تنگ مت کر۔

جے کیونگ نے بے بسی سے کہا
بھائی سے پوچھا تو تھا گاڑی میں… بتایا ہی نہیں۔

تائیجون نے آنکھیں موندے ہوئے کہا
ابھی جا کے دوبارہ پوچھ۔ بتا دیں گے۔

جے کیونگ نے سر جھٹکا۔
ابھی تو سو رہے ہوں گے…

ہاں تو کیا ہوا؟ جیسے مجھے اُٹھا لیا ویسے ہی بھائی کو بھی اٹھا دے۔

جے کیونگ نے مایوسی سے آہ بھری۔
بھائی نے نہیں بتایا تو؟

تائیجون نے آنکھ کھولی، اُس کی طرف دیکھا اور شوخی سے مسکرا دیا۔
جیسی معصوم شکل ابھی بنا کے بیٹھا ہے نا… ویسی ہی بھائی کے سامنے بنا لینا۔ یقین کر، فوراً بتا دیں گے۔

اچھا۔۔۔۔
جے کیونگ اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا

تائیجون اٹھا حیرت سے اُس کا منہ کھولا
سچ میں چلا گیا کیا پاگل آدمی ہے۔۔۔۔

زخمی آدمی کو لے کر پاگل ہوا جارہا ہے۔۔۔۔ وہ پھر بڑبڑایا
اُسے پھر یاد آیا وہ تو وہی مرچکا تھا۔۔۔
زخمی آدمی سوری مرا ہُوا آدمی۔۔۔ وہ خود کو ٹھیک کرتا نیند کی وادی میں اُتر گیا ۔۔۔

++++++++++-

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *