taqdeer e azal

Taqdeer e Azal Episode 2 written by siddiqui

تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۲

وہ نماز پڑھ کر اٹھی ہی تھی کے اپنے روم میں زرتشا کو دیکھ کر چونکی
کیا ہوا۔۔۔۔؟؟

اتنی لمبی دعا ؟ کس کو مان رہی تھی
زرتشا کی بات میں ہمیشہ کی طرح طنز تھا

آپکی ہدایت کی دعا مانگ رہی تھی
اس بات پر زرتشا خاموش ہوگئی

کچھ دیر کی دونوں کے بیچ خاموشی نے اپنی جگہ بنا لی تھی پھر زرتشا بولی

یہ لو میں تمہارے لیے سوٹ لے کر آئی ہوں۔۔
وہ ایک بلیو کے رنگ کی بہت پیاری سی فراک تھی

یہ آپ کی فورٹ نہیں تھی ؟
کائنات نے اُس سوٹ کو دیکھتے کہا

تھی ، اب یہ تُم رکھو آج ویسے بھی فنکشن ہے شام کو تُمہارے پاس کوئی ڈھنک کے کپڑے ہیں، ایسی ہی اٹھ کر آنے کا اِرادہ ہے کیا؟؟؟
زرتشا نے ہمیشہ کی طرح اُکڑے لہجے میں کہا

نہیں، وہ میرے پاس ہیں

چپ رہو اور یہ رکھو دیکھی ہے میں نے تُمہاری پسند پھیکی پھکی ، اور شرافت سے یہی پہن کر آنا
ذرتشا کے لہجے میں واضح دھمکی تھی کہ اگر کائنات نے یہ سوٹ نہ پہنا تو اچھا نہیں ہوگا۔۔

اچھا ٹھیک ہے۔۔۔
اُس نے ہاں می بھر لی تھی اور زرتشا کا مقصد پورا ہوگیا تھا

++++++++++++

کیا کبھی دیکھا ہے تم نے یہ منظر؟
سجدے میں جھکتا کوئی باوضو پیکر؟
لبوں پر جاری ہو ذکرِ خدا کا،
آنکھوں میں ساگر ہو خوف و وفا کا؟
کبھی ہاتھ اٹھتے دعا کے لیے،
کبھی جھک رہے ہوں رضا کے لیے؟
روشنی میں نہایا ہو چہرہ کسی کا،
کیا دیکھا ہے سجدہ کسی مرد کا؟

جتنا دل کش مرد نماز پڑھتے لگتا شاید ہی کبھی تمہیں وہ اتنا دل کش لگے۔

وہ مسجد کے ستون کے عین بیچو بیچ کھڑے نماز پڑھ رہا تھا، دو سالوں بعد لاہور سے آئے کراچی میں یہ اُس کی پہلی نماز تھی۔

اللّٰہ اکبر — اُس نے چار رکعت فرض نمازِ ظہر کی نیت کرتے اللّٰہ اکبر کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے۔ اسی دوران مسجد میں کوئی شخص داخل ہُوا تھا اور اُسے دیکھنے کے بعد اُس شخص کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

تو بھائی صاحب یہاں آکر نماز پڑھ رہے ہیں

تعوذ اور تسمیہ کے بعد اُس نے سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کیا، پیچھے کھڑا شخص اُسے دیکھتا اب اُس کے ساتھ والی جگہ پر آکھڑا ہوا تھا۔ پوری نماز پڑھنے کے بعد جیسے ہی اُس نے سلام کے لیے اپنا چہرا موڑا اپنے برابر میں اُس کو نماز پڑھتا دیکھ کر چونک گیا۔

اب اُس کی نماز ختم ہوگئی تو اُس نے بولنا شروع کیا
یہاں اس وقت کیا کر رہے تھے ؟
سوال کیا گیا۔

دیکھائی نہیں دیا نماز پڑھ رہا تھا ؟
جواب پر سوال ملا۔

کیوں؟
پھر سے سوال کیا گیا۔

کیوں تمہیں خوشی نہیں ہوئی مُجھے ایسے نماز پڑھتے دیکھ؟

وہ دونوں نماز کی پوزیشن میں بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھتے سوال کر رہے تھے۔

میری خوشی کے لیے نماز نہیں پڑھا کرو ارسم۔ اُس نے سنجیدگی سے کہا

کیوں؟ تمہیں اچھا نہیں لگتا؟

نہیں، جس دن تُم اُس رب کی خوشی کے لیے نماز پڑھو گے نہ اُس دِن مُجھے بھی دنیا کی سب سے بڑی خوشی ملے گی

میں تو بس اللّٰہ کا شُکر ادا کر رہا تھا تُم جو واپس آگئے معصومیت سے کہا گیا۔

اب کی بار وہ ہلکا سا مسکرائے
چلو اب گھر چلے۔۔۔

عام سا چہرہ، عام سا حلیہ، اور عام سا لہجہ،
سب کچھ عام سا ہونے کے باوجود وہ تھا بہت خاص۔
اس کی آنکھوں میں ایک الگ سی گہرائی تھی، باتوں میں ٹھہراؤ، اور چپ میں صدیوں کا وزن۔

جبکہ دوسری طرف ارسم، وہ تو بالکل مختلف تھا۔ وجیہہ خدوخال، گندمی رنگت، اور دل موہ لینے والا اعتماد۔ وہ جہاں جاتا ہر نگاہ اُس پر ٹھہر جاتی۔ ہر محفل کا مرکز، ہر دل کا چراغ، لوگ اُس کی موجودگی کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔

+++++++++++++

یہ کیا ہوا؟
زینب بیگم کا دل دہل گیا جب اُنہوں نے اپنی بیٹی کو بیڈ پر اس حالت میں دیکھا۔ بےساختہ قدموں میں تیزی آئی، اور وہ تڑپ کر اس کے پاس آ گئیں۔
کیسے ہوا یہ؟ کس نے کیا؟

زارا نے نظریں چرائیں، لب کپکپائے، اور پھر ہلکی آواز میں گویا ہوئی:
یار ماما، وہ زیدان…

تم کیوں گئی تھی اُس کے کمرے میں؟ ہاں؟ کیا کام تھا تمہارا وہاں؟
زینب بیگم کی پریشانی غصّے میں بدلنے لگی۔

کھانا لے کر گئی تھی میں، اور بس۔۔۔
زارا کی آنکھوں میں پشیمانی تھی۔ وہ ماں کو کیا بتاتی کہ اسوان کو متاثر کرنے کے چکر میں اُس نے خود کو ایسے حالات میں ڈال دیا۔

زینب بیگم کا دل بیٹھنے لگا۔
کیا ضرورت تھی اُس کے کمرے میں جانے کی؟ پتہ ہے نہ تمہیں وہ نشہ کرتا ہے، اور جب وہ نشے میں ہو تو، خدا کی قسم، اُس وقت وہ انسان نہیں رہتا، ہوش میں ہی نہیں ہوتا۔
وہ کچھ پل کو رکی، پھر بولیں:
اللہ جانے اماں جان نے اُسے اس گھر میں کیوں رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے زارا کے زخم پر نگاہ ڈالی۔
درد تو نہیں ہو رہا زیادہ؟

نہیں، ابھی پین کلر کھائی ہے، کافی بہتر ہوں۔
زارا کا لہجہ بجھا ہوا تھا، اور آنکھیں نمی سے بھری ہوئی۔

ماما، وہ ایسا کیوں ہے؟ زیدان کا بھائی، اسوان… وہ تو بالکل مختلف ہے۔ ذمہ دار، سب کا خیال رکھنے والا۔ لیکن زیدان؟ اُسے کسی چیز کی پرواہ نہیں۔ جیسے وہ ہی دنیا میں واحد شخص ہو، اور باقی سب فضول ہوں۔۔۔
زینب بیگم نے گہری سانس لی:
بس… سب نے مل کر اُسے بگاڑ دیا۔ جب اُس نے پہلی بار نشہ کیا تھا، کسی نے نہیں روکا۔ اب دیکھ لو، تم خود نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
زارا چپ رہی۔ وہ جانتی تھی ماں کی ہر بات سچ ہے۔

زینب بیگم اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی اٹھیں
تم آرام کرو۔ اور سنو، اگر درد زیادہ ہو تو پارٹی میں آنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے کمرے میں رہنا، آرام کرنا۔
یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئیں۔

+++++++++++

یہ ایک خوشبو بکھیرتی شام تھی، جب چاندنی نرم روشنی میں زمین پر اتر آئی تھی۔ باغ کے کشادہ حصے میں رنگ برنگی روشنیوں کی جھلملاہٹ تھی، اور ہر طرف خوشیوں کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ درختوں پر لٹکتے قمقمے کسی خوابیدہ کہانی کی روشنیوں جیسے لگ رہے تھے، اور فضا میں خوشبو دار پھولوں کی مہک گھلی ہوئی تھی۔

مہمان آہستہ آہستہ جمع ہو رہے تھے۔ خوش لباسی اور خوش گفتاری کا ایک دلکش امتزاج نظر آ رہا تھا۔ کہیں بچوں کی کلکاریاں تھیں، تو کہیں نوجوانوں کی چہچہاہٹ۔ ہر طرف ہنسی مذاق کا سماں تھا۔
مرکزی میز پر ایک شاندار کیک رکھا تھا، جس پر روشن موم بتیوں کی جھلکیاں دمک رہی تھیں۔ اور سب مہمان اس وقت برتھ ڈے گرل کا انتظار کر رہے تھے۔

کیونکہ وہ اس وقت پارٹی کی جان تھی۔ سب آتے اور اُس کے باپ کو بیٹی کی سالگرہ کی مبارک باد دیتے۔

بلیو رنگ کے فراک میں ملبوس، کونے میں کھڑی وہ لڑکی آنکھوں میں ستائش لیے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ ایک وقت اُس کا بھی تھا کہ اُس کا باپ اُس کی سالگرہ پر ایسے ہی پورا گھر سجا دیا کرتا تھا۔ پھر اُس کے پاس آ کر پیار سے کہتا:

Make a wish, princess۔۔۔

اور وہ خوشی کے مارے گلابی گالوں کے ساتھ بےتابی سے بولتی اور اپنی ساری خواہشیں پوری کرواتی تھی۔ وہ ہر سالگرہ کا بےچینی سے انتظار کرتی تھی کہ کب اُس کا دن آئے اور کب وہ اپنی فرمائشیں منوائے۔ کہتے ہیں سالگرہ والے دن انسان کو ایک تحفہ ملتا ہے، لیکن وہ اپنے باپ سے ایک دن میں کئی تحفے اور بےشمار فرمائشیں پوری کرواتی تھی۔

ہمم، کہاں کھوئی ہیں میڈم؟

وہ اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ اچانک کسی کی آواز پر چونکی۔ اُس نے پلٹ کر اپنے پاس کھڑے لڑکے کی طرف دیکھا—بلیو جینز، وائٹ ٹی شرٹ، بال سلیقے سے سیٹ کیے ہوئے۔ وہ واقعی ہینڈسم لگ رہا تھا۔ کوئی عام انسان نہیں، بلکہ یہاں موجود سبھی لڑکیوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ وہ تھا ہی اتنا پرکشش۔

مجھ سے تھوڑا دور رہ کر بات کیا کرو، اَرسَم۔۔۔
کائنات نے ہلکی سی ناراضی اور جھجک کے ساتھ قدم پیچھے کیے۔ وہ اس کے اتنے قریب آ گیا تھا کہ اگر ذرا سا بھی ہلتا تو ان کے بازو ایک دوسرے سے چھو جاتے۔

اُس کی آواز میں نرمی تھی، مگر لہجہ حد بندی کی درخواست کر رہا تھا۔

ارسم فوراً پیچھے ہٹ گیا، جیسے کسی نادان بچے کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہو۔
سوری بابا۔۔۔ اور بتاؤ، کیسی ہو؟ اُس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔

تم اکیلے آئے ہو؟
کائنات کو اپنی خیریت بتانے سے زیادہ یہ جاننا ضروری لگا کہ وہ اکیلا ہے یا نہیں۔

نہیں، امی ابو بھی ساتھ آئے ہیں۔ وہ دیکھو وہاں بیٹھے ہیں۔
اُس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔

کائنات نے ادھر دیکھا، لیکن جسے وہ ڈھونڈ رہی تھی وہ وہاں نہ تھا۔ دل چاہا کہ ارسم سے پوچھ لے، مگر بات بدل دی
اچھا یہ بتاؤ، کالج کا کیا سین ہے؟ کب سے ہو رہے ہیں پیپرز؟ اور آگے یونیورسٹی جانے کا ارادہ ہے یا نہیں۔۔۔؟
اب کے ارسم نے اُس کی پڑھائی کے حوالے سے سوال کیا۔

پیپرز کا تو پتہ نہیں کب سے ہیں، لیکن یہ ضرور جان لو کہ میں یونیورسٹی ضرور جاؤں گی۔ میری تیاری بھی بہت اچھی ہے، ان شاء اللہ میرے نمبر بھی اچھے آئیں گے اور میرا اچھی یونیورسٹی میں داخلہ بھی ہو گا۔ ان شاء اللہ، ان شاء اللہ!
وہ اپنے پلانز سوچ کر خوش ہو رہی تھی۔

ان شاء اللہ!
وہ دونوں ہلکی پھلکی باتوں میں مگن تھے، ماحول سے بیگانے۔ اور دُور کھڑی زرتشا اُنہیں دیکھ کر جل رہی تھی۔

دل تو کر رہا ہے جا کر اس کائنات کا گلا دبا دوں۔۔
وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی، کہ اچانک کسی نے اُسے مخاطب کیا
ایکسکیوز می؟ یہاں واش روم کس طرف ہے؟

زرتشا اُس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور بولی
ایک منٹ، ابھی آئی۔

وہ سیدھا کائنات کے پاس پہنچی
کیا کر رہی ہو یہاں؟ نظر نہیں آ رہا مہمانوں کو تمہاری ضرورت ہے اور تم کونے میں کھڑی ہو۔

کیا ہوا؟
کائنات نے حیرانی سے پوچھا۔

اُدھر دیکھو، ہادی کو ضرورت ہے تمہاری۔ اُس کے کُرتے پر جوس گر گیا ہے، جا کر اسے واش روم دکھاؤ۔
اُس نے ہادی کی طرف اشارہ کیا، جو وہیں کھڑا تھا۔

کائنات کا مرجھایا چہرہ اچانک کھل اٹھا۔ یہ عام سا چہرہ سید عبدالہادی کا تھا، مگر اُس کے لیے بہت خاص۔ اس چہرے سے تو وہ عشق کرتی تھی۔

کیا ہوا؟
وہ جلدی سے اُس کے پاس پہنچی۔

السلام علیکم، کسی بچے سے غلطی سے یہ جوس گر گیا۔ پلیز مجھے واش روم کا راستہ بتا دیں تاکہ یہ صاف کر لوں۔
اُس نے دھیمے لہجے میں کہا۔

جی، آئیے۔ میں دکھا دیتی ہوں۔
کائنات آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

وہ اُس کو اپنے پیچھے چلتا دیکھ خوش ہورہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ہادی اُس کا ہاتھ تھامے، ایسے ہی ساری زِندگی اُس کے پیچھے پیچھے چلتا رہے۔

++++++++++++++

آپ اُٹھ رہے ہیں یا نہیں؟
اُس کی آواز میں خفگی تو تھی، لیکن اُس خفگی میں محبت کی ٹھنڈک بھی تھی۔ وہ ننھی سی شہزادی، غصے میں اس کے بیڈ کے کنارے کھڑی تھی۔ ننھے سے ہاتھ کمر پر ٹکے، اور بھنویں تن کر جیسے کوئی سپہ سالار اپنے سپاہی سے نافرمانی پر بازپرس کر رہا ہو۔

لیکن بیڈ پر پڑا ہوا شخص، وہ جیسے ڈھیٹوں کا سردار ہو۔ نہ کوئی جنبش، نہ کوئی جواب۔ آنکھیں بند، چہرے پر سکون، جیسے خوابوں میں کھویا ہو، جیسے اُس ننھی سی لڑکی کی آواز اس کی سماعت تک پہنچ ہی نہ رہی ہو۔

آپ کو پتہ ہے سب اس برتھڈے گرل کا نیچے انتظار کر رہے ہیں اور وہ یہاں آپ کے سامنے بیٹھی ہے

نیلی رنگ کے فیئری فراک میں، بالوں میں کلپس اور چہرے پر ہلکی سی میک اپ، وہ واقعی ایک چھوٹی سی راجکماری لگ رہی تھی۔ وہ کوئی عام سی لڑکی نہ تھی، وہ تھی پری واش حسنیٰ — اس گھر کی آنکھوں کا تارا، بابا کی جان، چاچو کی دوست، اور اس وقت بےحد ناراض برتھڈے گرل۔

زیدان نے بمشکل گردن اٹھائی، ایک آنکھ آدھی کھولی، اور اُسے دیکھا۔
ایک تو تمہارا چہرہ غبارے جیسا ہے، اسے اور پھلانے کی کیا ضرورت ہے؟ اب تو تمہیں دیکھ کر ہنسی آ رہی ہے!

ہنس لیں اور پھر میرے ساتھ نیچے چلے
ایسا لگ رہا تھا وہ بچی نہیں، بستر پر لیتا شخص بچہ ہے۔ کیسے وہ اسے بالکل بڑوں کی طرح ٹریٹ کر رہی تھی۔

زیدان نے ایک آہ بھری، جیسے اپنی شکست مان لی ہو، اور آہستہ سے کمبل ہٹایا۔

نہیں جا رہا
وہ بڑبڑایا، جیسے آخری کوشش ہو جھوٹی مزاحمت کی۔

زیدان، چلو نا پلیز
پری واش نے نرمی سے کہا۔ اُس کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو صرف اپنوں کے لیے مخصوص تھی۔

زیدان، جو رشتے میں تو اس کا چاچو تھا، لیکن اُن کے بیچ کا بندھن کچھ اور ہی تھا۔ دوست، پارٹنر، ساتھی۔ وہ اُسے “چاچو” نہ کہہ کر صرف نام سے بلاتی تھی — جیسے زرتشا کو زرتشا، زارا کو زارا، کائنات کو کائنات۔ کیونکہ اُس کے دل میں رشتوں کے لیے اپنی الگ زبان تھی۔

میں آپ کو پلز بول رہی ہوں، اب تو آپ کا فرض بنتا ہے میرے ساتھ چلنا!
وہ بالکل پریوں کی طرح لگی، لیکن اُس کی باتوں میں ایسا اٹیٹیوڈ تھا جو شاید کسی بڑی شہزادی کے لب و لہجے میں ہوتا۔

زیدان نے ہار مان لی۔ وہ بستر سے اٹھا، چپل پہنے بغیر سیدھا واش روم کی طرف بڑھا۔

پری واش نے فاتحانہ انداز میں مسکرائی، جیسے کوئی بڑی جنگ جیت لی ہو۔

اور یہ جنگ واقعی بڑی تھی، کیونکہ اُس کی برتھڈے کیک کاٹنے کی رسم تب تک مکمل نہ ہوتی، جب تک اُس کا “زیدان” اُس کے برابر نہ کھڑا ہوتا۔

+++++++++++++

کائنات اب ہادی کو اسوان کے کمرے میں لے آئی تھی۔
بغیر کچھ کہے ہادی سیدھا واش روم کی طرف بڑھ گیا اور دروازہ بند ہونے کی ہلکی سی آواز کمرے میں گونجی۔ کائنات وہیں، کمرے کے بیچ کھڑی، بےچینی سے دروازے کو دیکھتی رہی۔ کچھ پل یونہی گزرے، تب اُس نے آواز دی
کیا داغ زیادہ تو نہیں لگ گیا ہے؟ صاف ہو جائے گا نا؟

اندر سے پانی کے بہنے کی ہلکی آواز آ رہی تھی۔ پھر ہادی کی آواز ابھری، تھوڑی بلند، تھوڑی مدھم سی
داغ تو اچھا خاصا ہے، پھر بھی، آئی منیج۔

کائنات نے پل بھر کو سوچا، پھر پھر سے بولی
نہیں تو میں آپ کے لیے دوسرا سوٹ نکال دیتی ہوں۔

نہیں، اس کی ضرورت نہیں، یہ صاف ہو جائے گا۔

کائنات جانتی تھی، جوس کا داغ اتنی آسانی سے سفید قمیض سے نہیں جاتا۔ وہ ہلکے غصے اور ہلکی فکر کے ساتھ پھر کہنے لگی:
دیکھیں، میں اسوان بھائی کا کوئی سا سوٹ نکال دیتی ہوں، نیچے بہت مہمان موجود ہیں، آپ ایسے جائیں گے تو اچھا نہیں لگے گا۔

اب کی بار اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔
چند لمحوں بعد ہادی دروازہ کھولتا باہر آیا، قمیض پر اب بھی داغ واضح تھا۔
نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔

کائنات نے ماتھے پر بل ڈالے، اب تھوڑا سا جھنجھلا کر بولی
کیا ضرورت نہیں ہے؟ دیکھیں، ابھی بھی نشان باقی ہے۔ یہ جب تک اچھے سے نہ دھلے صاف نہیں ہوگا۔ میں آپ کو اسوان بھائی کا کوئی سا سوٹ نکال دیتی ہوں، آپ وہ پہن لیں، یہ مجھے دے دیں، میں دھو کر آپ کو واپس دے دوں گی۔

ہادی کو یقین ہو چکا تھا کہ یہ لڑکی ایسے آسانی سے اُسے نیچے نہیں جانے دے گی۔ اوپر سے وہ مسلسل بولے جا رہی تھی، جیسے اس کی ضد نہیں بلکہ حکم ہو۔

اچھا، ٹھیک ہے، آپ سوٹ نکال دیں۔
ہادی نے ہار مانتے ہوئے کہا۔

اوکے۔
کائنات نے ہلکی سی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اسوان کی الماری کی طرف قدم بڑھائے، اور کچھ دیر بعد سفید شلوار قمیض نکال کر ہادی کی طرف بڑھا دی۔

ہادی وہ لباس لے کر دوبارہ واش روم میں چلا گیا۔
کائنات اب بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ وہ چونک کر اُٹھی، اور نظریں دروازے کی طرف دوڑیں۔

دروازے میں جو شخص کھڑا تھا، اُس کی آنکھیں سلگتی ہوئی انگاروں کی طرح کائنات پر جمی تھیں۔

یہاں کیا کر رہی ہو تم؟
سرد، کڑک دار آواز۔

کائنات کے ہاتھ لرزنے لگے۔ چہرے کا رنگ فق، اور زبان لڑکھڑا گئی۔

م۔۔۔میں۔۔۔ بس۔۔۔ کچھ۔۔۔ نہیں۔۔۔
الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے، اور آواز جیسے حلق میں اٹک گئی ہو۔

وہ آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ واش روم کا دروازہ کھلا، اور ہادی باہر نکلا۔

اوہ زیدان! تم کب آئے یہاں؟
ہادی نے خوش دلی سے کہا۔

زیدان نے کائنات کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف ہادی سے مخاطب ہو کر پوچھا
تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ اور کب آیا؟

بس آج ہی آیا ہوں، تُم سے مل کر اچھا لگا۔ نیچے نظر نہیں آئے، لگا تم گھر پر نہیں ہو۔ ٹرپ ختم ہو گیا تمہارا؟
ہادی جان بوجھ کر بات کو معمولی انداز میں لے جا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا زیدان کہاں کہاں گیا، اور کیوں ہر بار وہ واپس آ کر پھر چلا جاتا تھا۔

زیدان نے مختصر اور خشک لہجے میں کہا
ہاں، اب میرا کہیں جانے کا موڈ نہیں ہے۔

ہادی نے مسکرا کر کہا
چلو شکر ہے، اب تو تمہیں اپنا گھر اچھا لگنے لگا۔

ہاں۔
زیدان نے نظریں پھیر کر اسوان کی الماری کی طرف قدم بڑھائے۔ باوجود اس کے کہ اس کے اپنے پاس دنیا بھر کے برانڈڈ کپڑے تھے، مگر جب دل چاہتا، وہ اسوان کے کپڑے ہی پہنتا۔

کائنات نے لمحہ غنیمت جانا۔ وہ تیزی سے ہادی کے ہاتھ سے کپڑے لے کر وہاں سے نکل گئی۔ دل اب بھی زور زور سے دھڑک رہا تھا، جیسے دروازے میں کھڑے زیدان کی سرخ آنکھیں اُس کے تعاقب میں ہوں۔

ادھر ہادی زیدان کے قریب آیا اور اُس سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگا۔

++++++++++++++

کچھ دیر بعد، جب سب مہمان نیچے آ چکے تھے، ہادی اور زیدان بھی تیار ہو کر ہال میں موجود تھے۔ بچوں کی قہقہوں، بڑوں کی گہما گہمی اور نرم روشنیوں سے سجا وہ پورا ماحول کسی کہانی کے صفحے کی مانند لگ رہا تھا۔

تبھی سیڑھیوں پر قدموں کی ہلکی ہلکی چاپ سنائی دی۔ سب کی نظریں اُدھر کو مڑ گئیں۔
نیلے رنگ کے فیئری فراک میں سیڑھیاں اُترتی پری واش، بالکل ڈزنی کی کسی شہزادی جیسی لگ رہی تھی۔

اسوان نے اُسے دیکھتے ہی لپک کر گود میں اٹھا لیا۔

کتنی پیاری لگ رہی ہے میری پری۔
وہ پیار سے اُس کا گال چومتے ہوئے بولا۔

مگر شہزادی خوش نہ تھی۔

بابا۔۔۔ نیچے اُتاریں نا! میرا پیارا ڈریس ایسے خراب ہو رہا ہے۔
اُس نے بُرا سا منہ بنا کر شکایت کی۔

اگر نہیں اُتارا تو؟
اسوان نے شرارت سے کہا۔

بابااا۔۔۔!
پری واش کا لہجہ اب ضدی ہو چکا تھا۔

دیکھ لو، ابھی اُتار دوں گا، تو بعد میں پھر گود میں مت آنا۔ جب روؤ گی تو میں نہیں اُٹھاؤں گا!
وہ ہنستے ہوئے اُس کے نخرے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ یہی ناز تو تھے جو اُسے باپ ہونے کا احساس دلاتے تھے۔

اوکے، ٹھیک ہے! نیچے اُتاریں۔
پری واش نے جیسے ہتھیار ڈال دیے۔

سوچ لو۔

افف بابا! اُتار رہے ہیں یا نہیں؟
اب کے وہ واقعی غصے میں تھی۔

اچھا بھئی، میں ہار گیا!
اسوان ہنستے ہوئے اُسے زمین پر اُتار دیا۔

پری واش نے نیچے آتے ہی سب سے ملنا شروع کر دیا۔ کسی بڑے کی طرح، ترتیب سے، ادب سے۔ پہلے دادی، پھر دادا، پھر پردادا، پردادی۔ ہر ایک سے ہاتھ جوڑ کر یا گال چوم کر محبت سے ملی۔ باقی مہمانوں سے بھی وہ خود ملی رہی تھی، جیسے اسوان کو کسی سے ملوانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

اسوان اُسے فخر سے دیکھ رہا تھا۔ یہ ننھی سی جان، اُس کے کاندھے پر چڑھ کر ضد کرتی، اس وقت کتنی بڑی بڑی اور سمجھدار لگ رہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد، سب اسٹیج کے گرد جمع ہو گئے۔ پری واش بھی اب اپنے کیک کے پاس کھڑی تھی — سفید، سرخ اور گلابی پھولوں سے سجا تین منزلہ کیک، جیسے خود بھی شہزادی کے لیے ہی بنایا گیا ہو۔
پری واش نے چاقو تھام لیا، مگر اچانک اُس کے چہرے پر الجھن اُبھر آئی۔ وہ رک گئی۔

کیا ہوا پری؟ رک کیوں گئی؟ کٹ کرو کیک!
اسوان نے اُس کی پریشانی دیکھ کر پوچھا۔

بابا، کائنات کہاں ہے؟
وہ معصومیت سے ادھر اُدھر دیکھتی بولی۔ چاروں طرف نظریں گھومیں، مگر کائنات کہیں دکھائی نہ دی۔ سب چہرے موجود تھے — دادی، دادا، ہادی، ارسم، زیدان، زرتشا، زارا — سب، سوائے کائنات کے۔

چھوڑو نا، ہوگی کہیں، تم کیک کٹ کرو۔
عائشہ بیگم نے قدرے بیزار لہجے میں کہا۔

ہاں پری، چھوڑو اُسے۔
زرتشا نے بھی کہا۔

نہیں، میں دیکھ کر آتی ہوں۔
پری واش ضدی لہجے میں کہہ کر اسٹیج سے اُتر گئی۔

اسوان بھی اُسے پیچھے پیچھے گیا۔

پری واش نے پورے ہال میں نظریں دوڑائیں، لائن کی جانب بڑھی۔ تبھی اُسے کائنات نظر آئی، جو ایک چھوٹے سے بچے کے ساتھ کھیل رہی تھی۔

بتاؤ، اب ٹافی میرے کس ہاتھ میں ہے؟
کائنات نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مُٹھی بچے کے سامنے بند کر کے رکھی ہوئی تھیں۔
بچہ کبھی بائیں ہاتھ پر ہاتھ رکھتا، کبھی دائیں پر — مسکرا کر، الجھ کر۔

اگر صحیح نہیں بتایا نا تو ٹافی نہیں ملے گی۔
کائنات ہنستے ہوئے بولی۔ اس لمحے میں ساری دنیا اُس کے لیے بس وہ بچہ تھی۔

تبھی پری واش تیزی سے اُس کی طرف بڑھی، اور اُس کا ہاتھ تھام کر کھینچنے لگی۔

کیا کر رہی ہو پری۔۔۔؟
کائنات نے بچے کو ٹافی تھماتے ہوئے اُس کے ساتھ چلنا شروع کیا۔

پری واش اُسے لے کر اسٹیج پر لا کھڑا کیا، بکل زرتشا اور زارا کے بیچ میں۔

یہیں رہیں آپ۔
پری واش نے غصے سے کائنات کو کہا۔

سب کی نظریں اب کائنات پر تھیں۔ اُس نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔ وہاں موجود اکثر چہرے ایسے تھے جو اُس کے وجود کو کبھی قبول نہ کر سکے تھے۔
لیکن پری واش… وہ اُس کے بغیر اپنا کیک کٹ کرنے کو تیار ہی نہ تھی۔

اسوان نے یہ منظر دیکھا — اور سوچا۔
یہ وہی لڑکی تھی جس نے اُس کی ماں کے بعد اُس کی پری کا خیال رکھا تھا۔
اگر پری کو کائنات پسند ہے، تو اُس کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھی اُسے اپنائے۔

اب سب موجود تھے۔ روشنیوں کے درمیان، کیمرے تیار، گانے بج رہے تھے۔

پری واش نے کیک کٹ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
پھر رک گئی۔

اب کیا ہوا پری؟
اسوان نے چونک کر پوچھا۔

بابا، میں نے ابھی دُعا تو مانی ہی نہیں۔
وہ معصومیت سے بولی اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیے۔

یہ اُسے کائنات نے بتایا تھا کہ
اپنے سالگرہ کے دن اگر دل سے کوئی دُعا مانگو، تو اللّٰہ تعالیٰ اُسے ضرور قبول کرتے ہیں۔

معصوم سی آنکھیں بند کیے، اُس کی زبان سے محبت، معصومیت اور خواہشوں سے لبریز دُعا یوں نکلی:

ویسے تو میرے پاس سب کچھ ہے۔
لیکن میں اپنے اللّٰہ تعالیٰ سے دُعا کرتی ہوں کہ میرے بابا ہمیشہ میرے ساتھ رہیں۔
وہ کبھی مجھے ماما کی طرح چھوڑ کر نہ جائیں۔
زیدان بھی ہمیشہ میرے ساتھ رہے، اب وہ کبھی باہر نہ جائے۔ اُس کا دل ہی نہ کرے کہ کہیں اور جائے۔
اور کائنات بھی ہمیشہ میرے ساتھ اِسی گھر میں رہے، وہ کبھی مجھ سے دُور نہ جائے۔
اور زرتشا کی جلدی سے شادی ہو، تاکہ میں اُن کی شادی میں خوبصورت سا لہنگا پہنوں۔
اور ذرا ہمیشہ مجھ سے پیار کرتی رہے۔
دادو، دادی، ابّو دادا، امی دادی، چاچو دادا، چاچی دادی… سب ہمیشہ میرے ساتھ رہیں،
اور سب مجھے بہت سارا پیار کرتے رہیں۔
آمین۔

اُس کی معصوم آواز خاموش ہوتے ہی پورا ہال “آمین” کی آواز سے گونج اُٹھا۔

پھر وہ اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ پھیر کر مسکرائی، چاقو تھاما اور سالگرہ کا کیک کاٹنا شروع کیا۔

Happy Birthday to you, Pariwash…
سب نے مل کر خوشی سے نعرہ لگایا، اور تالیاں گونج اُٹھیں۔

پھر کیک سب کو کھلایا گیا، ایک ایک کرکے سب نے اُسے تحائف دیے، اور کیمرہ مین اُن سب لمحات کو محفوظ کرتا گیا۔ ہر سال کی طرح، یہ سالگرہ بھی ایک خوبصورت یاد میں بدل گئی۔

یہ تھی دلاور شاہ کی نسلوں میں پھیلی ایک کہانی۔ ایک خاندان، جو اپنی خوبصورتیوں، الجھنوں اور رشتوں کی پیچیدگیوں میں لپٹا ہوا تھا۔

دلاور شاہ – پُر وقار، نرم خو اور عزت دار شخص، جن کی رفاقت نے ایک حویلی نما گھر کو برسوں سے جوڑ کر رکھا تھا۔

ان کی اہلیہ، رضیہ شاہ، ایک روایتی مگر ذہین خاتون تھیں، جو اپنے بچوں، پوتوں اور نواسیوں کو بظاہر سختی، مگر دل سے محبت کرتی تھیں۔

دلاور شاہ کے چار بچے تھے – دو بیٹے، دو بیٹیاں۔
فیضان شاہ، دلاور شاہ کے بڑے بیٹے تھے۔ خوددار اور کاروباری ذہن رکھنے والے۔ اُن کی بیوی، عائشہ فیضان، ایک سخت مزاج، نفیس مزاج اور حد سے زیادہ اپنے بچوں کی فکر میں رہنے والی خاتون تھیں۔

ان کے دو بیٹے تھے
اسوان دیار شاہ – گھر کا قابل فخر بیٹا، جو ایک بین الاقوامی کمپنی کا مالک تھا، کم گو مگر شفیق باپ، اور اُس کی زندگی کا مرکز صرف ایک – اُس کی بیٹی پری واش حسنہ۔

زیدان دیارِ شاہ – خوبرو، بے پروا، اور بے حد بگڑا ہوا لڑکا۔ ہر وقت نشے میں دھت، زبان دراز، گھر کے سکون کا دشمن۔ مگر پھر بھی، یہ گھر اُسے اُس کے وجود سمیت قبول کیے ہوئے تھا۔

دلاور شاہ کے دوسرے بیٹے عدنان شاہ، نسبتاً سادہ اور شریف انسان تھے۔ اُن کی بیوی زینب عدنان، ظاہری شان و شوکت کی دلدادہ خاتون تھیں۔
ان کی دو بیٹیاں تھیں:
زرتاشا – مغرور، خود پسند، اور ہر وقت دوسروں کو نیچا دکھانے والی۔
زارا – اپنی بہن سے بھی ایک قدم آگے، خود کو سب سے بہتر سمجھنے والی، مگر دل کے کسی کونے میں نرم جذبات چھپائے بیٹھی۔

دلاور شاہ کی تیسری بیٹی مریم شاہ کی شادی رحیم صدیقی سے ہوئی تھی۔ زندگی ایک مختصر سا خواب بنی رہی، مگر وہ خواب جلد ٹوٹ گیا۔ جب کائنات صرف دس سال کی تھی، اُس کے والد رحیم صدیقی کا انتقال ہو گیا۔
مریم بیوہ ہوئی، اور پھر اپنی بیٹی کو لے کر باپ کے گھر آ گئی۔
یہاں سب کچھ تھا، سوائے سکون کے۔
سسرال والے بُرے نہیں تھے، مگر بیوہ کی حیثیت جہاں بھی ہو، سوال بن جاتی ہے۔
لہٰذا، مریم نے وہ راستہ چُنا جہاں کم از کم ماں باپ کا سایہ میسر تھا۔
اور ان کی ایک ہی اولاد تھی
کائنات –

دلاور شاہ کی چوتھی بیٹی حریم شاہ کی شادی سید سلیم احمد سے ہوئی۔ وہ زندگی کی دوڑ میں آگے نکل چکے تھے، اور اب امریکا میں مقیم تھے۔
ان کے دو بچے تھے – سید دائم احمد اور سید دعا احمد۔
سالوں بعد کبھی کبھار پاکستان کا چکر لگتا تو بس تصویروں میں موجود یادیں تازہ ہو جاتیں۔

یہ خاندان محض افراد کا مجموعہ نہ تھا، بلکہ جذبات، ناز، انا، محبت، ضد اور محرومیوں کی ایک مکمل داستان تھی۔
ہر چہرے کے پیچھے ایک کہانی تھی۔
ہر دعا کے پیچھے ایک محرومی۔
یہاں خوش تو سب تھے، لیکن کچھ محرومیاں۔
کچھ ایسی حسرتیں، جو نہ زبان پر آتی تھیں نہ آنکھوں میں واضح ہوتیں،
بس دل کے کسی کونے میں دبی، سانسوں کے ساتھ چلتی رہتی تھیں۔

عائشہ بیگم مسکرا رہی تھیں، مہمانوں کی آؤ بھگت میں مصروف تھیں،
مگر اندر ہی اندر اُنہیں یہ گمان تھا کہ گھر کی عزت اب ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے۔ زیدان کی بگڑی حالت، اور اسوان کی ہر بات میں بیٹی کو فوقیت دینا۔
یہ باتیں اُن کے ضبط کو چُپ چاپ چباتی جا رہی تھیں۔

زیدان شاہ سب کے درمیان تھا، مگر الگ تھا۔
وہ کیک کاٹنے کے بعد سب کے ساتھ کھڑا ضرور تھا،
مگر اُس کی نظریں کہیں اور تھیں، شاید کسی پرانی یاد میں، شاید اپنی ذات کی گمشدگی میں،
یا شاید اُس زندگی کی تلاش میں جو اُسے کبھی ملی ہی نہیں۔

زرتاشا، خوبصورت، بااعتماد، مگر اندر سے اتنی ہی کھوکھلی۔
پریوش کی معصوم دعا میں جب اُس کی شادی کی خواہش آئی،تو وہ لمحہ بھر کو چونک گئی۔
ایک بچی نے جس چیز کو “خواہش” کہا،
وہ اُس کے لیے برسوں کی “تڑپ” تھی۔
مگر قسمت کی لکیر اب تک سیدھی نہ ہوئی تھی۔

زارا خاموش تھی۔ لیکن دل ہی دل میں وہ، وہ چاہتی تھی جو کبھی ہو نہیں سکتا تھا، زیدان اُس کی طرف دیکھتا نہ تھا، پری بھی اُس سے اتنی کلوز نہ تھی ایسے میں وہ اسوان کا دل کیسے جیت سکتی تھی،

کائنات، جسے سب نے نظرانداز کیا،
آج پری واش  نے اُسے اسٹیج پر  سب کے ساتھ لا کھڑا کیا۔ لیکن لوگوں کی نظریں اب بھی ویسی ہی تھیں –
ٹٹولتی، تولتی، اور ٹھکرا دینے والی۔
مریم شاہ، جو دور کونے میں کھڑی تھی،
اپنی بیٹی کو یوں سب کے درمیان دیکھ کر چپ چاپ آنکھیں پونچھتی رہی۔
اُسے یاد آیا، کبھی وہ بھی اس گھر کی رونق ہوا کرتی تھی، پھر حالات نے اُسے محض ایک “بیوہ” بنا دیا۔

اسوان دیار شاہ –
ایک کامیاب انسان، ایک لاڈلی بیٹی کا باپ،
لیکن ایک شوہر نہیں، ایک بیٹے نہیں،
جس کا دل ہر مسکراہٹ کے پیچھے اپنی بیوی کی کمی سے خالی تھا۔
وہ ہنستا ضرور تھا، مگر اُس ہنسی میں خالی پن تھا۔
پری واش۔
اُس چھوٹی سی بچی نے سب کے دل پر دستک دی تھی،
“یہاں خوش تو سب تھے، لیکن کچھ محرومیاں”
یہ جملہ بس یوں ہی نہیں بولا گیا تھا،
یہ اُس گھر کی دیواروں پر لکھا ایک سچ تھا،
جو صرف وہی پڑھ سکتا تھا، جو دیکھنے کی ہمت رکھتا ہو۔

+++++++++++++++

رات کا وقت تھا…
چاند آسمان پر چپ چاپ پھیلا ہوا تھا جیسے کسی کی خاموشی کی گواہی دے رہا ہو۔
اسوان اپنی گہرے نیلے رنگ کی شرٹ کی آستینیں چڑھائے، چھت پر رکھی میز کے کنارے بیٹھا، ہاتھ میں چائے کا کپ لیے، خالی خلا میں دیکھ رہا تھا۔

سامنے اُس کا سب سے قریبی دوست ارمان بیٹھا تھا، وہی جس سے وہ دل کے سب بھاری لفظ بغیر سوچے کہہ دیا کرتا تھا۔

وہ مان کے نہیں دے رہی یار…
اسوان نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، نظریں سامنے پڑی کافی کے کپ پر جمائے۔
دو سال ہو گئے ہیں مجھے اُس کے پیچھے خوار ہوتے، لیکن وہ ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

ارمان نے خاموشی سے اُس کی بات سنی۔ کچھ لمحے گزرے۔ پھر اُس نے سوال کیا:
کیا بولتی ہے وہ؟

بس، وہی پڑھائی کی باتیں۔ ہر بار کہتی ہے ابھی وقت نہیں آیا، ابھی بہت کچھ باقی ہے۔

ارمان ہنسا، تو سیدھی طرح بولو، شادی کرو مجھ سے۔

اسوان نے نفی میں سر ہلایا، میں اُسے زبردستی نہیں کر سکتا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ خود سے ہاں کرے۔ اپنی مرضی سے، اپنی خوشی سے۔

ارمان نے کندھے اُچکائے، تو پھر تمہیں اُس کی مرضی بننی ہوگی۔

کیا مطلب؟ اسوان چونک کر اُس کی طرف دیکھنے لگا۔

ارمان نے سنجیدہ لہجے میں کہا،
مطلب یہ کہ اُسے اُس موڑ پر لا دو جہاں اُس کے پاس ‘ہاں’ کے سوا کوئی اور راستہ نہ بچے۔

میں اُسے مجبور کیسے کر سکتا ہوں؟ اسوان کی آواز میں الجھن تھی۔

ارمان تھوڑا آگے جھکا، تم نے ہی بتایا تھا نہ کہ وہ مڈل کلاس فیملی سے ہے؟ اُس کی کئی بہنیں ہیں؟

ہاں، تو؟

ارمان کی آواز میں اب سرد منصوبہ بندی کی چھبن تھی، تو سنو…
اُسے اُس کے کمزور پہلو سے پکڑو۔ اُس کی ذمہ داریاں، اُس کی فیملی کا دباؤ، اُس کی اپنی حدود۔

+++++++++++++

جاری ہے۔۔۔

.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *