taqdeer e azal

Taqdeer-e-azal “Trailer” written by siddiqui

 

تقدیر ازل
از قلم صدیقی

ٹریلر۔۔۔

کیا تم میرے چہرے پر خوشی لا سکتے ہو ؟
کیا تم میرے لیے فیصل آباد آسکتے ہو
آج وہ آ رہا تھا! سالوں بعد، اپنے گھر، اپنے شہر، فیصل آباد
پورے دو سال بعد، وہ دبئی سے فیصل آباد آیا تھا۔

++++++++

وہ غصے اور طیش کے عالم میں تیز قدموں سے
اپنے کمرے  کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اس کے دل و دماغ میں بس یہی خیال  تھا کہ
ابھی اسی لمحے وہ اُس لڑکی کی جان لے لے 
جو دلہن کا جوڑا پہنے اس کے انتظار میں کمرے کے
اندر بیٹھی تھی ہمت کیسے ہوئی اُس کی نکاح میں
قبول ہے قبول ہے بولنے کی…
دروازہ کھولتے ہی جو منظر اُس کی آنکھوں نے دیکھا
حیران ہی رہ گیا کیا ہے کائنات تھی ؟ کیا یہ واقعی
کائنات تھی ؟
+++++++++

ڈاکٹر ہادی نے ہلکی سی “ہمم…” کہہ کر لب بند کیے، جیسے کوئی گہری گتھی سلجھا رہا ہو۔ وہ ابھی اپنے کمرے کی طرف پلٹا ہی تھا کہ داخلی دروازہ ایک بار پھر کھلا…
اور اس بار، اندر آتا ہوا چہرہ دیکھ کر ہادی کے قدم وہیں جم گئے —
اسوان!
یہ یہاں کیسے؟
ہادی کی نظریں اسوان کا تعاقب کرنے لگیں، جو بغیر کسی توقف کے سیدھا کمرہ نمبر سات کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ہادی کی سانس جیسے کچھ لمحوں کے لیے رک گئی ہو۔
کیا؟؟ اسوان کا احمد رؤف سے کیا تعلق ہے؟
دل میں ہلچل، نگاہوں میں سوالات…

+++++++++

بابا…! ماما کو روک لیں، پلیز… وہ چلی جائے گی…
اُس کی آواز میں لرزش تھی۔ آنکھیں نمی سے بوجھل اور چہرہ خوف سے سفید۔
لیکن وہ… وہ تو بےفکری سے بیڈ پر لیپ ٹاپ لیے بیٹھا تھا۔ جیسے یہ سب کچھ اس کی دنیا کا حصہ ہی نہ ہو۔ جیسے دروازے پر کھڑی اپنی بیٹی کی کپکپاتی آواز اُس تک پہنچی ہی نہ ہو۔
اس نے ایک لمحے کو نظریں اٹھائیں۔ دروازے پر کھڑی وہ لڑکی، جس کے چہرے پر سوال، التجا اور بےبسی ایک ساتھ لکھی تھی، وہی تو اُس کی بیٹی تھی۔
لیکن اُس کے انداز میں کوئی ہلچل نہ تھی۔ جیسے جذبات اس کی لغت میں کبھی شامل ہی نہیں رہے۔
وہ خاموش رہا… اور وہ… وہ لڑکی، ایک پل کو اُسے دیکھتی رہی۔
پھر اُس نے نظریں جھکا لیں… جیسے شکست مان لی ہو… جیسے ماں کے جانے کی خبر سے پہلے ہی وہ یتیم ہو چکی ہو۔
کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ دیوار سے ٹیک لگائے، وہ لڑکی آہستہ آہستہ اپنا سامان بیگ میں رکھ رہی تھی۔
ہر جوڑا، ہر کتاب، ہر یاد… جیسے ہر چیز کے ساتھ وہ اپنے دل کا ایک ٹکڑا بھی باندھ رہی ہو۔
جیسے جیسے وہ چیزیں بیگ میں رکھتی جا رہی تھی، ویسے ویسے اُس کا دل سکڑتا جا رہا تھا۔ جیسے سانس لینا بھول رہی ہو، جیسے دل کی دھڑکنیں سامان کے وزن کے ساتھ مدھم پڑتی جا رہی ہوں۔
پھر ایک لمحے کو وہ رکی۔ اُس کے ہاتھ کانپے۔ آنکھوں میں نمی ابھری۔
مجھے لگتا تھا… آپ صرف اپنی بیٹی سے محبت کرتے ہیں… اُس کی آواز بھاری تھی۔
پھر لگا، صرف اپنے بھائی سے کرتے ہیں… پھر خیال آیا شاید بیوی سے۔۔۔۔
وہ تھوڑا سا مسکرائی، وہ کڑوی سی مسکراہٹ، جو اکثر آنکھوں کے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش ہوتی ہے۔
لیکن… اصل میں تو آپ صرف اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں۔
آنسو اُس کے گال پر چپکے سے گر پڑا۔
سامنے بیڈ کے اوپر وہ تصویر رکھی تھی… اُس شخص کی، جسے وہ گھور رہی تھی۔
نہ محبت سے، نہ نفرت سے… یا شاید دونوں سے؟
شاید حسرت سے، یا مایوسی سے… یا پھر اُن سب جذبات سے جو لفظوں میں قید نہیں کیے جا سکتے۔
وہ تصویر خاموش تھی، لیکن اُس کی خاموشی میں ایک عجب طنز تھا۔
وہ دل ہی دل میں ٹوٹ رہی تھی… اور باہر سے، بالکل خاموش۔
شاید یہی سب سے گہرا چیخ ہوتا ہے — وہ جو سنائی نہیں دیتا۔

++++++++++++

کمرے میں اذان کی آواز گونج رہی تھی۔
فضا میں ایک سکون، ایک بلاوا، ایک پکار تھی۔
اس نے آہستہ سے آنکھ کھولی۔ پلکیں ابھی بوجھل تھیں، نیند مکمل نہیں ہوئی تھی۔
کن اک نظر سے ساتھ لیٹی اُس لڑکی کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی سو رہی تھی۔
کچھ لمحے گزرے، اذان ختم ہو چکی تھی… لیکن وہ ابھی تک یونہی خاموش لیٹی رہی۔
ایک خیال بجلی کی طرح ذہن میں کوندا —
شاید اس کی آنکھ ہی نہ کھلی ہو؟
وہ تھوڑا سا جھکا، آواز میں نرمی سمیٹ کر کہا،
اُٹھو… نماز کا وقت ہے…
جواب فوراً آیا،
میں نے نہیں پڑھنی نماز۔
چہرے کا رُخ دوسری طرف تھا
اُسے ایک لمحے کو حیرت ہوئی۔
کیوں؟ اُس نے سوال کیا۔
میری مرضی… نہیں پڑھنی بس۔

وہ رکا، لیکن خاموش نہ رہ سکا
تمہاری نماز قضا تو نہیں ہوتی؟
ایک لمحے کی خاموش، پھر سرد لہجہ،
اب سے ہوگی۔
کیوں؟ سوال جیسے دل سے نکلا ہو، زبان سے نہیں۔
سو جائیں آپ۔ مجھ سے سوال نہ کریں۔
لیکن وہ چپ نہ رہ سکا۔ اُس کی آواز اب جیسے اندر سے آ رہی تھی:
میں حق رکھتا ہوں تم سے سوال کرنے کا…
یہ جملہ نہیں تھا —
یہ گویا کوئی چوٹ تھی، جو سیدھی دل پر لگی۔
کوئی جواب نہ آیا۔
بس کمرے میں خاموشی تھی۔
اور اُسے لگا…
وہ لڑکی رو رہی ہے۔
وہ چپ چاپ، بےآواز، اپنے تکیے میں منہ چھپائے… ٹوٹ رہی ہے۔
وہ رونا جو سنائی نہیں دیتا…
لیکن محسوس ہوتا ہے… جیسے خاموشی بھی چیخ اُٹھے۔

+++++++++

 

سب کی توجہ یکایک اوپر کو گئی۔
سیرھیوں کی ریلنگ پر زیدان کھڑا تھا،
اس کی نظریں ناشتہ کی میز پر تھیں،
اور نگاہیں… اُس لڑکے پر جمی ہوئی تھیں۔
اس کے ہاتھ میں وہی ناشتہ کی ٹرے تھی، جو وہ  لڑکی خاموشی سے اس کے کمرے میں رکھ کر آئی تھی۔
اور اگلے ہی لمحے —
چرخچرخچرخخخخ!!
وہ ٹرے پوری شدت سے نیچے پھینک دی گئی۔
برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز نے نہ صرف سکوت کو توڑا، بلکہ سب کے دلوں میں ایک عجیب سی لرزش بھر دی۔
پلیٹیں چکناچور ہوئیں، چائے کا کپ ٹکڑوں میں بٹ گیا،
اور نرمی سے رکھا گیا ناشتہ فرش پر بے رحمی سے بکھر گیا —
اس کی آنکھوں میں طوفان، غصہ، بے زاری اور شاید… کچھ اور بھی تھا جس کا نام نہ لیا جا سکے۔
وہ اُس لڑکی کو گھورتا  دھاڑا
Stay away from me!
وہ اتنا دور تھا، لیکن اُس لڑکی کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا ہو،
بہت قریب،
بہت بھیانک،
بہت اجنبی…
اُس کی سانسیں رکنے لگیں،
اور اس نے ایک لمحے میں وہ جگہ چھوڑ دی۔
تیزی سے بھاگتی، جیسے خود سے بھاگ رہی ہو،
زیدان کی آنکھوں سے، اُس کے غصے سے
زرتاشا نے حقارت سے کہا
لو، ہو گیا تماشا۔۔۔
زینب بیگم نے بےبسی سے کہا
آخر اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟
ناشتہ نہیں کرنا،
کچھ کھانا نہیں،
کوئی اس کے کمرے میں نہ جائے،
کوئی اس سے بات نہ کرے…؟
یہ لڑکا چاہتا کیا ہے…؟
مگر وہاں بیٹھے کسی بھی فرد کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

++++++++++

وہ سیڑھیوں کے کنارے کھڑا تھا،
ہستی ہوئی شاید کسی بات پر ٹوکا تھا اُس چھوٹی سی بچی کو،
بس یونہی… کھیل ہی کھیل میں، مذاق ہی مذاق میں —
مگر اُس پانچ سالہ بچی کی آنکھوں میں کچھ اور تھا۔
نہ معصومیت،
نہ ڈر،
نہ نرمی —
بلکہ… خون!
جی ہاں،
اُس پانچ سالہ بچی کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔
چہرہ سپاٹ،
جسم بالکل ساکت،
جیسے اُس ننھے وجود میں کوئی سایہ اُتر آیا ہو۔
اور پھر —
اُس نے اپنے ننھے ہاتھ آگے بڑھائے…
دھکا۔
بس ایک دھکا۔
چھوٹا سا۔
لیکن اُس دھکے نے ایک جسم کو نیچے گرا دیا،
سیڑھیوں سے نیچے…
ایک دردناک، ہولناک، ناقابلِ یقین منظر میں۔
نہیں۔۔۔
کسی کی چیخ فضا میں گونجی —
شاید ماں کی، شاید بہن کی، شاید خود اس تقدیر کی جو لمحہ بھر میں بدل گئی۔
اور وہ بچی…؟
وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی،
بِلکُل خاموش —
چہرے پر کوئی تاثر نہیں،
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
صرف آنکھیں بول رہی تھیں —
اور ان آنکھوں میں اب بھی خون تیر رہا تھا۔

+++++++++++

وہ خاموش کھڑی تھی،
دل ٹوٹنے کی آواز سنائی نہیں دیتی —
لیکن اندر کچھ ایسا تھا، جو بکھر چکا تھا۔
وہ پلٹا، آنکھوں میں ٹھہری ہوئی شکست لیے…
اور دھیرے سے بولا
یہ تمہاری تقدیر تھی…
لفظ جیسے برف کے گولے ہوں،
جو سیدھے دل پر لگتے ہیں —
نہ جلاتے ہیں، نہ کاٹتے ہیں…
بس منجمد کر دیتے ہیں۔
تمہیں اُس کے پاس ہی جانا تھا…
آواز میں نہ غصہ تھا، نہ شکوہ،
بس ایک بےبسی،
جو وقت سے، قسمت سے، اور شاید…
خود سے ہار چکی تھی۔
تمہیں اُسی کا ہی ہونا تھا…
جملہ ختم ہوا،
اور اس کے ساتھ وہ رشتہ بھی،
جس کے لیے برسوں کی دعائیں،
راتوں کی نیندیں،
اور دل کے سب خواب وقف کیے گئے تھے۔
مگر تقدیر…؟
تقدیر تو قلم نہیں دیتی۔
بس پڑھنے کا حق دیتی ہے،
وہ بھی آخری صفحے پر جا کے سمجھ آتا ہے۔

++++++++

وہ نیچے جا رہی تھی جب زیدان کی آواز پر سن کر روک گئی۔۔
یہاں بیٹھا جاؤ۔۔
زیدان نے اپنے سامنے صوفے کی طرف اشارہ  کیا۔۔
بیٹھ گئی ؟ اب کیا کروں ؟وہ صوفے پر بیٹھی بولی۔۔
مُجھے دیکھو۔۔۔
کیا۔۔۔؟؟؟
میں کیا کر رہا ہوں ؟؟
آپ ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔۔۔
تو تُم بھی وہیں دیکھو۔۔۔
تو تُم بھی وہی دیکھو۔۔
آپ جو ٹی وی پر دیکھا رہے وہ میں نہیں دیکھتی ہوں۔۔
ابھی زیدان کچھ کہتا اس سے پہلے دروازہ ناک ہوا  اور زارا  نمودار ہوئی
ایکسکیوز مے ۔ کائنات کیا تُم مصروف ہو؟
کائنات کے بولنے سے پہلے ہی وہ بولا ۔۔
ہاں بہت زیادہ مصروف ہے۔۔۔

مُجھے مصروف لگ تو نہیں رہی۔؟؟  فارغ بیٹھی ہے
کوئی کام بھی نہیں کر رہی۔۔۔

کس نے کہا وہ فارغ بیٹھی ہے ۔۔؟؟ وہ ابھی اپنے شوہر
کو دیکھنے میں مصروف ہے۔۔

ہین ؟؟ زارا کو کچھ سمجھ نہیں آیا  وہ حیرانی سے کائنات کی
شکل دیکھی اور پھر  زیدان کا۔۔

ان کو چھوڑو ۔۔ کیا کام ہے یہ بتاؤ چلو

بس بہت ہوگیا اب نکلو میرے روم سے۔۔
نہیں تو یہ گلدان اٹھا کر پھیک ماروں گا۔۔ زیدان نے غصے سے کہا

پتہ نہیں تُم کیسے رہتی ہو اس کے ساتھ۔۔ ( وہ کائنات کو بولتی یہاں سے فوراََ غائب ہوگئی۔۔اُس کا کوئی بھروسہ نہیں تھا وہ سچ میں دے مارتا۔۔)

کائنات اب اُسے گھورنے لگی پہلے تو ڈر کے مرے نظرے نہیں اُٹھتی تھی اُس شخص کے سامنے اور اب غصّہ سے  اُسے آنکھیں دیکھا رہی تھی

++++++++++++

وہ غصے اور طیش کے عالم میں تیز قدموں سے
اپنے کمرے  کی طرف بڑھ رہا تھا۔

اس کے دل و دماغ میں بس یہی خیال  تھا کہ
ابھی اسی لمحے وہ اُس لڑکی کی جان لے لے 
جو دلہن کا جوڑا پہنے اس کے انتظار میں کمرے کے
اندر بیٹھی تھی ہمت بھی کیسے ہوئی اُس کی نکاح میں، قبول ہے قبول ہے بولنے کی، وہ راضی بھی کیسے ہوئی اس رشتے کے لیے،

اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں،
چہرے پر غصّہ تھا۔۔ اج واقعی وہ اُس لڑکی کو ختم کر دینے والا تھا۔۔۔
دروازے کے قریب پہنچ کر وہ رُکا۔
اس کے ہاتھ نے دستک دینے کے بجائے مٹھی کی صورت دروازے پر دباؤ ڈالا۔

دروازہ کھولتے ہی جو منظر اُس کی آنکھوں نے دیکھا
حیران ہی رہ گیا کیا ہے کائنات تھی؟ کیا یہ واقعی
کائنات تھی؟

اُس کی آنکھوں کو یقین نہ آیا۔۔۔۔

++++++++

کچھ چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں ہوتیں…
وہ ہمارے نصیب میں لکھی ہوتی ہیں۔

جلد آ رہا ہے

“تقدیرِ ازل”

 

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

2 Comments

  1. I am waiting for this novel kb aye ga 🤧

  2. Taqdeer e azl novel bohut acha h. Iski episode jaldi post Kiya kre

Leave a Reply to Iqra Hashim Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *